قُرآن اور مقامِ مریم و ابنِ مریم !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالمؤمنون ، اٰیت 42 تا 50 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ثم
انشانا من
بعدھم قرونا
اٰخرین 42 ماتسبق
من امة اجلھا ومایستا
خرون 43 ثم ارسلنا رسلنا
تترٰی کلما جاءامة الرسولھا کذبوه
فاتبعنا بعضھم بعضا وجعلنٰھم احادیث
فبعدالقوم لایؤمنون 44 ثم ارسلنا موسٰی و
اخاه ھٰرون باٰیٰتنا وسلطٰن مبین 45 الٰی فرعون و
ملائه فاستکبروا وکانوا قوما عالین 46 فقالواانؤمن
لبشرین مثلنا وقومھمالناعٰبدون 47 فکذبوھما فکانوامن
المھلکین 48 ولقد اٰتیناموسی الکتٰب لعلھم یھتدون 49 و
جعلنا ابن مریم وامهٗ اٰیة واٰتینٰھما الٰی ربوة ذات قرار ومعین 50
قومِ نُوح و قومِ عاد و ثمُود کے بعد بھی ھم نے ایسی بہت سی اُمتیں پیدا کیں ہیں تاہَم زمین پر کسی اُمت کی مُقررہ مُدتِ بقا کم یا زیادہ نہیں ہوئی ھے ، ازاں بعد بھی ھم لگاتار اِن اُمتوں کی طرف اپنے رسول بہیجتے رھے لیکن جب جب بھی جس جس اُمت کے پاس ھمارا جو جو رسُول پُہنچا اُس اُمت نے ھمارے اُس رسُول کو جُھٹلا دیا اور پھر ھم نے بھی ایک اُمت کے بعد ہر دُوسری اُمت کو زمین سے اِس طرح ہٹا اور مٹا دیا کہ وہ صفحہِ عالَم پر ایک بُھولا بِسرا ہوا افسانہ بن کر رہ گئی ، پھر ھم نے مُوسٰی اور اُس کے بھائی ھارون کو بھی اپنی روشن نشانیوں کے ساتھ اہلِ زمین میں مامُور کرکے اِن دونوں کو فرعون اور اُس جنگی لَشکر کی سرکوبی کے لیۓ روانہ کیا لیکن اُس مُتکبر قوم کے مُتکبر لوگوں نے بھی اُن کی دعوت کو رَد کر دیا ، وہ ایسے ہی حَد سے گزرے ہوۓ سرکش لوگ تھے کہ جب مُوسٰی و ھارون اُن کے پاس پُہنچے تو اُنہوں نے یہ کہہ کر اُن دونوں کی دعوتِ حق رد کردی کہ آخر ھم اُن دو آدمیوں پر کس طرح ایمان لے آئیں کہ جو ھماری طرح کے انسان ہیں اور جن کی قوم کے اَفراد بھی ھمارے قومی کارگزار ہیں ، جب اُن لوگوں نے ھمارے اِن دو پیغمبروں کو بھی جُھٹلا دیا تو ھم نے بھی اِن لوگوں کو اسی طرح مار کر مِٹی میں ملا دیا جس طرح کہ اِس سے پہلے نافرمان لوگوں کو ھم نے مار کر مِٹی میں ملا دیا تھا ، ھم نے مُوسٰی کو ایک کتابِ ھدایت بھی دی تھی تاکہ وہ اُن لوگوں کو اُس کتاب کے ذریعے راہِ راست پر لے آئے لیکن سب سے آخر میں یہ ہوا کہ ھم نے ابنِ مریم اور اُن کی والدہ کو آنے والے زمانوں میں آنے والے انسانوں کے لیۓ اپنی حفاظت کا ایک جیتا جاگتا نشان بنا دیا اور اُن دونوں کو ایک بلند و شفاف اور آب شاروں والی زمین پر پُہنچا کر ٹھہرا دیا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ رَفتہ و اٰیاتِ رَواں میں بیان ہونے والا مضمون وہی مُسلسل مضمون ھے جس مُسلسل مضمون کو سابقہ اٰیات میں حرفِ عطف واؤ کے ذریعے مربُوط بالکلام کیا گیا تھا اور موجُودہ اٰیات میں اُس مُسلسل مضمون کو حرفِ ربط "ثم" کے ساتھ مربُوط مع الکلام کیا گیا ھے ، موجُودہ مضمون سے پہلے مضمون میں عھدِ نُوح کے بعد جن اَنبیاۓ کرام پر اور جن اَنبیاۓ کرام کی جن اُمتوں پر آنے اور گزرجا نے والے ھدایت و ضلالت کے جن جنگی اَدوار کا ذکر کیا گیا تھا موجُودہ مضمون میں بھی اُن اَنبیاۓ کرام پر اور اُن اَنبیاۓ کرام کی اُن اُمتوں پر آنے اور گزر جانے والے ھدایت و ضلالت کے اُنہی جنگی اَدوار کا ذکر کیا گیا ھے ، انسانی تاریخ کے اِس تاریخی نوشتے کا مَطلعِ نوشت نُوح علیہ السلام کا اَحوال تھا اور مَقطعِ نوشت وہ ذکرِ مریم و ابنِ مریم ھے جس میں کہا گیا ھے کہ بالآخر ھم نے ابنِ مریم اور اُن کی والدہ کو آنے والے زمانوں میں آنے والے انسانوں کے لیۓ اپنی حفاظت کا ایک جیتا جاگتا نشان بنا دیا اور ھم نے اُن دونوں کو ایک بلند و شفاف اور آبشاروں والی زمین پر پُہنچا کر ٹھہرا دیا اور اِس مضمون کی اِس اٰیت کے ساتھ وہ مضمون اپنے مَنطقی اَنجام تک پُہنچ گیا ھے جس مضمون کا اِس سُورت کے آغاز سے آغاز ہوا تھا اور اِس مقام پر اِس مضمون کی اِس آخری اٰیت کے حوالے سے ھم جو چند گزارشات کرنا چاہتے ہیں اُن گزارشات میں پہلی گزارش یہ ھے کہ عُلماۓ سائنس کے نزدیک ھماری اِس دُنیا کے اِس ڈھانچے پر 4 بلین برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ھے اور خُدا کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا کہ جَب سے اَب تک ھماری اِس دُنیا میں کتنے بلین انسان پیدا ہوکر مر چکے ہیں لیکن جس طرح ھم پُورے یقین کے ساتھ یہ بات جانتے ہیں کہ ھماری زمین پر ہر روز انسان پیدا ہو کر مرتے ہیں ، جس طرح ھم پُورے یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ سُورج ہر روز ھماری زمین پر طلوع و غروب ہوتا ھے اور جس طرح ھم یہ بات بھی پُورے یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ ھماری زمین پر ہر تاریک شب کے بعد ایک روشن دن آتا اور جاتا ھے اسی طرح ھم یہ بات بھی پُورے یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ ھماری اِس زمین پر آج تک جتنے بھی انسان پیدا ہوۓ ہیں وہ سارے ہی زمین میں پیدا ہونے اور زمین میں ایک مُدت تک جیتے رہنے کے بعد مر چکے ہیں اور اُن میں سے کوئی ایک بھی زمین پر زندہ نہیں ھے اور خود اللہ تعالٰی نے سُورَةُالاَنبیاء کی 34 میں اپنے آخری نبی سے کہا ھے کہ { وما جعلنا لبشر من قبلک الخد افائن مت فھم الخٰلدون } یعنی اللہ تعالٰی نے آپ سے پہلے زمین پر کسی بھی انسان کو دائمی زندگی نہیں دی ھے اور اگر اُن سب انسانوں کے بعد آپ بھی زمین پر زندہ نہیں رہیں گے تو پھر آپ کے وہ دُشمن بھی زمین پر کہاں زندہ رہیں گے جو یہ آس لگاۓ بیٹھے ہیں کہ جب آپ دُنیا میں نہیں رہیں گے تو وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے ، عُلماۓ روایت جو ایک طویل زمانے سے اپنے ایک خیالی مردِ بزرگ خضر کو اپنے خیالوں میں زندہ رکھے ہوۓ ہیں وہ اٰیتِ بالا کو تو خیر خاطر میں نہیں لاتے لیکن اپنی روایت کی بنا پر وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر خضر زندہ ہوتے تو سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے میں سیدنا محمد علیہ السلام کے پاس آتے اور آپ کے پاس آکر آپ پر ایمان بھی لاتے لیکن یہ عُلماۓ روایت یہ بات کبھی بھی نہیں کہہ سکتے کہ اگر ابنِ مریم زندہ ہوتے تو وہ بھی ضرور سیدنا محمد علیہ السلام کے پاس آتے اور آپ کے پاس آکر آپ پر ایمان لاتے حالانکہ یہی علماۓ روایت کبھی کبھی یہ حدیث شریف بھی سُناتے ہیں کہ اگر مُوسُی و عیسٰی زندہ ہوتے تو اُن کے پاس بھی اِس کے سوا کوئی بھی چارہِ کار نہ ہوتا کہ وہ مُجھ پر ایمان لائیں ، عُلماۓ روایت نے قُرآنِ کریم کی اصطلاحِ "رفع" سے رفعِ مسیح کا جو عقیدہ قائم کیا ھے اُس پر ھم سُورةُالنساء کی اٰیت 157 اور اٰیت 158 کے تحت بقدرِ ضرورت گفتگو کر چکے ہیں اِس لیۓ اِس مقام پر شاید اتنا ہی عرض کردینا کافی ہو گا کہ اُسلوبِ کلام کے حوالے سے"رفع" کا لفظ ایک عام لفظ ھے اور یہ عام لفظ جب صلیب کے ساتھ استعمال ہوتا ھے تو اُس کا معنٰی اُس لکڑی کی صلیب پر مصلُوب کیۓ ہوۓ شخص کو اُس لکڑی کی صلیب سے اُوپر اُٹھانے کے سوا کُچھ اور ہو ہی نہیں سکتا اور اِس سے بھی کہیں زیادہ اھم بات جس پر عُلماۓ روایت نے کبھی غور نہیں کیا ھے وہ یہ ھے کہ اگر "رفع" سے مُراد عُلماۓ روایت کا رفع آسمانی ہی مان لیا جاۓ تو سوال یہ ھے کہ اِس رفع کا مقصد کیا تھا ? اگر تو اِس رفع کا مقصد یہودیوں سے عیسٰی ابنِ مریم کی جان بچانا تھا تو اِس مقصد کے لیۓ اُن کو آسمان پر اُٹھانے کی کیا ضرورت تھی? کیا اُس وقت زمین پر عیسٰی مسیح کے دُشمن یہُودی اتنے زیادہ ہو چکے تھے کہ زمین پر عیسٰی مسیح کے لیۓ کوئی چھوٹی سی جاۓ پناہ بھی موجُود نہیں رہی تھی اور ایک مزید سوال یہ ھے کہ اگر عیسٰی مسیح کو آسمان پر اُٹھانا ہی لازم ہو چکا تھا تو آپ کو چوتھے آسمان پر پُہنچانا ہی کیوں لازم تھا ، کیا زمین کے علاوہ تین آسمانوں پر بھی یہُودی قابض ہو چکے تھے جس کی وجہ سے عیسٰی مسیح کو چوتھے آسمان پر پُہنچانا لازم ہو گیا تھا ، بہر کیف اِس معاملے کی اَصل حقیقت وہی ھے جو اللہ تعالٰی نے اِس اٰیات میں بیان کردی ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558604 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More