ایک چھوٹی سی خبر ہے کہ ورلڈ بینک نے پنجاب گرین ڈویلپمنٹ
پروگرام 2سال تک شروع نہ ہونے پر ایک لاکھ 90ہزار ڈالر (3کروڑ روپے سے
زائد)جرمانہ کر دیا لیکن حکومتی اقدامات پر جرمانہ واپس لے لیااس خبر کا پس
منظر یہ ہے کہ پنجاب میں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے ورلڈ بینک نے پنجاب
گرین ڈویلپمنٹ پروگرام کے نام سے ایک منصوبے کی منظوری دی تھی، 45ارب کے اس
منصوبے کو 2018میں شروع کیا جانا تھا اور تکمیل6سال میں ہونا تھی مگر اس
منصوبے کے پیچھے بھی ہماری روایتی سستی کام آئی بیوروکریسی نے اس منصوبے
میں بھی روڈے اٹکائے اور 2020تک اس منصوبے پر کوئی کام نہ کیا جس پر ورلڈ
بینک نے اسے منفی کیٹیگری میں ڈال کر حکومت کو ایک لاکھ 90ہزار ڈالر جرمانہ
کردیاتھا مگر سیکرٹری ماحولیات زاہد حسین نے چارج سنبھالتے ہی اس منصوبے کو
پھر سے زندہ کیا اورڈائریکٹر جنرل وسیم مہتاب نے اس منصوبہ پر پنجاب بھر
میں عملدرآمد کروایا اور ایسے اقدامات کیے جس پر ورلڈ بینک نے جرمانہ ختم
کر دیا اور منصوبے کو منفی کیٹیگری سے بھی نکال دیا گیا ہے یہ صرف سیکریٹری
ماحولیات کی سمجھداری سے ہی ممکن ہوا کہ ہم جرمانے سے بھی بچ گئے اور وہ
پیسے بھی بحال ہوگئے میں سمجھتا ہوں کہ عثمان بزدار ایسے افسران کودوسرے
محکموں میں بھی تعینات کریں جن سے عمران خان کے وژن کو تقویت ملے اور عوام
کو ریلیف ۔زاہد حسین کے اس کارنامے کی وجہ سے اب ایک ہزار سے زائدنئی
آسامیاں پیدا ہونگیاور اس منصوبے کے زریعے مختلف پراجیکٹ پر کام بھی شروع
کیا جائیگا جبکہوزیراعلی پنجاب نے ماحولیاتی پالیسی، مانیٹرنگ سینٹر،
ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور گرین بلڈنگز کی تعمیر کی منظوری بھی دیدی ہے جسکے
بعد پنجاب میں الیکٹرانک گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور
پرانی ٹرانسپورٹ جو آلودگی کا باعث بن رہی ہیں انہیں مرحلہ وار ختم کر دیا
جائیگا حکومت نے پانچ ارب روپے سے انوائرمنٹ انڈومینٹ فنڈبھی قائم کیا ہے،
جس کے تحت درخت لگائے جائیں گے درخت چونکہ فضائی ماحولیاتی آلودگی کو روکنے
کا سبب بنتے ہیں ماحولیاتی آلودگی کے حوالہ سے ہم اس وقت عروج پر ہیں ہم اس
انتہا کو کیوں پہنچے اسکی وجہ شائد ہر کسی کو معلوم بھی نہ ہو کیونکہ ہم
اور ہمارے نفیس ساستدان ہر وقت تو تنقید کرنے کے بارے میں ہی سوچتے رہتے
ہیں ہمارے ارد گرد ہونے والے اچھے کام ہمیں دوربین تو کیا خوردبین سے بھی
نظر نہیں آتے کیونکہ ہم نے تعصب کی عینک لگا رکھی ہے مخالفین پر تنقید کرنا
ہم اپنا پہلا حق سمجھتے ہیں اور خود ہم کیا کررہے ہیں یہ ہمیں بھی معلم
نہیں لاشعوری میں ہم جنگلات کے جنگلات کھا گئے لکڑی سمگلنگ میں بھی ہم
یقینا سب سے آگے ہونگے مگر ہر غلط کام کو فرض منصبی سمجھ کرکرتے ہیں اچھا
کام کر نا تو دور کی بات کام کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے اور
اگر کوئی اچھا کام کرنے کی کوشش کرے تو ہم سب کو بھی مصروفیت مل جاتی ہے
خاص کر ہمارے سیاستدانوں کے ہاتھ میں تو واقعی کام آجاتا ہے وہ بیٹھے بیٹھے
جلے سڑے اور کٹے پھٹے ہوئے بیانات کے نشتر چلانا شروع کردیتے ہیں اس وقت
محولیاتی آلودگی ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اس کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ
درخت لگانے کی ضرورت ہے مگر یہ کام کرے گا کون کیونکہ ہم تو درخت اکھاڑنے
والوں میں شامل ہوتے ہیں ہماری آج کی نوجوان نسل ایک لمحہ کیلیے سوچیں کہ
انہوں نے آج تک کتنے درخت لگائے جو ہمارے بعد لوگوں کے کام آئے ہم آج جو
پھل اور فروٹ استعمال کررہے ہیں وہ درخت ہمارے بزرگوں نے لگائے اور ہم آج
مزے مزے کے فروٹ کھا رہے ہیں ہم آبادی کے لحاظ سے جس قدر آگے جارہے ہیں اسی
لحاظ سے ہم اگر درخت بھی لگاتے رہتے تو آج ہمارا ملک سرسبز ہوتا اور ہم بھی
خوشحال ہوتے اگر دنیا کے ممالک سے ہم اپنا مقابلہ کریں تو اس وقت کینیڈا
میں فی فرد 10 ہزار 163 درخت، گرین لینڈ میں 4 ہزار 964، آسٹریلیا میں 3
ہزار 266، امریکا میں فی فرد 699، فرانس میں203 ،اتھوپیا میں143، چین میں
فی فرد130،برطانیہ میں 47 اور بھارت میں 28درخت ہیں جب کہ پاکستان میں فی
فرد صرف 5 درخت ہیں یہ شرع تناسب بہت ہی کم ہے ہمیں نرسریوں کا رخ کرنا
چاہیے وہاں سے پودے لا کر اپنے گھروں میں گلیوں میں اور پارکوں میں لگائیں
تاکہ یہ پودے جب بڑے ہونگے تو ہماری آنے والی نسل کے لیے ٹھنڈک کا باعث
بنیں گے محکمہ جنگلات اور پی ایچ اے کی نرسریوں سے بہت ہی سستے اور میعاری
پودے مل رہے ہیں ہر پاکستانی کو چاہیے کہ وہ اپنے حصے کے پودے ضرور لگائے
اگر گھروں میں جگہ نہیں تو کسی پارک میں کسی گلی میں یا کسی سڑک کنارے کوئی
نہ کوئی پودا ضرور لگائے یہ صدقہ جاریہ بھی ہے جب تک اسکی چھاؤں میں لوگ
بیٹھیں گے اسکے پھل کھائیں گے تو اسکا ثواب اس درخت کے لگانے والے کو
پہنچتا رہے گا زندگی میں انسان کو جہاں موقعہ ملے کوئی نہ کوئی ایساکام
ضرورکرگذرنا چاہیے جس سے کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچے اور درخت لگانا تو بہت
بڑے فائدے کی بات ہے اس سے نہ صرف ہمیں جینے کے لیے تازہ ہوا ملتی ہے بلکہ
زندہ رہنے کے لیے خوراک بھی ملتی ہے انسان تو ان درختوں سے بے شمار فائدے
حاصل کرتا ہی ہے جانور بھی انسانوں کے لگائے ہوئے درختوں سے خوشی اور راحت
محسوس کرتے ہیں سجر کاری موسم میں جب محکمہ جنگلات بینر لگاتا ہے تو اس میں
بڑے خوبصور ت کلمات درج ہوتے ہیں جیسے درخت ہیں ماں کا دوجا روپ ،بانٹیں
چھاؤں اور جھیلیں دھوپ ۔امید ہے زاہد حسین اور وسیم مہتاب کی طرح ہمارے
دوسرے افسران بھی کام کریں تو ہم اپنی کھوئی ہوئی جنت دوبارہ حاصل کرسکتے
ہیں۔
|