میرا سوہنا شہر" قصور"

یہ قدیمی شہر دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے درمیان واقع ہے ۔
یہ شہرحضرت بابا بلھے شاہ کے نام سے منسوب ہے جنہیں پنجاب کے سب سے بڑے صوفی شاعر کا مرتبہ بھی حاصل ہے
اس شہربیمثال کے رہنے والوں میں ملکہ ترنم نورجہاں کا نام بھی لیاجاتا ہے۔
یہ شہر میری (محمد اسلم لودھی) کی جنم بھومی بھی ہے۔
کابل سے آنے والے لودھی پٹھا ن اور یوسف زئی قبیلوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو پختونوں نے یہاں اپنی رہائش کے لیے قلعے تعمیرکیے
قصور شہر، لاہور سے دہلی کی گزر گاہ پرواقع ہے ،اس لیے افغانستان سے ہندوستان پر قبضے کا خیال لے کر جو بھی حملہ آور آیا اسے دہلی تک پہنچنے کے لیے سرزمین قصور سے ہی گزرنا پڑا

 قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ یہ آرٹیکل دس سال پہلے یعنی 2011ء میں اس وقت لکھا گیا تھا جب میری اکلوتی پھوپھو قصور شہر میں بیمار تھیں ۔ہم ان کی مزاج پرسی کے لیے بذریعہ ٹرین قصور شہر گئے اور ان کی مزاج پرسی کی اور قصور شہر کی تاریخ اور ثقافت کو ایک نظر دیکھااور شام ڈھلے ہم لاہور آگئے۔قصور سے واپسی کے چند ماہ بعد ہی میری پھوھو سکینہ بی بی موت کی واد ی میں جا سوئی ۔بیشک ہم اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔اﷲ سے دعا ہے کہ میری پھوپھو کے درجات بلند فرمائے۔آمین
.............
مقدس رشتوں کی کشش اور محبت خالق کائنات نے کچھ اس طرح انسانوں کے دلوں میں موجزن کررکھی ہے کہ کوشش کے باوجود بھی انسان نہ تو انہیں فراموش کرسکتا ہے اور نہ ہی انکو دل سے نکلا جا سکتا ہے۔قصور شہر( کوٹ مراد خان ) میری جائے پیدائش بھی ہے، جہاں 25 دسمبر 1954ء کو میں پیدا ہوا ۔ اس شہر کی فضاؤں میں مجھے پہلا سانس لینے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس شہر سے وابستہ اور بھی بہت سی یادیں ہیں لیکن فی الحال ہم پھوپھو کی بیماری اورانتقال پر ہی فوکس کرتے ہیں۔ میرے والد محمد دلشاد خاں لودھی کی اکلوتی بہن سکینہ بی بی کوٹ مراد خان سے ملحق باغیچی فتح دین میں رہائش پذیر تھیں ۔اس کے باوجود کہ قصور شہر ،لاہور سے صرف 55 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے لیکن سرزمین لاہور نے میرے قدموں کو کچھ اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ یہاں سے نکلنا محال دکھائی دیتا ہے۔ 19 اپریل 2011 ء ( بروز منگل )کی دوپہر جب میں بنک آف پنجاب میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہاتھا تو اطلاع ملی کہ میری پھوپھو کی طبیعت سخت خراب ہے ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ پھوپھو ( سکینہ بیگم ) اپنے آٹھ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں۔ تمام بھائی یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن میرے والد کی یہ اکلوتی بہن 67 سال کی عمر میں ہمارے درمیان موجود تھیں۔اس کے باوجود کہ ان کے شوہر مرزا محمد بیگ جو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کانسٹیبل کی حیثیت سے ملازم تھے، وہ بھی چند سال پہلے اﷲ کو پیارے ہوگئے ، جبکہ ان کااکلوتا بیٹا مرزا امانت بیگ بھی اپنی ماں سے روٹھ کر ایک ایسی دنیا میں جا بسا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
اس کے باوجود کہ گھٹنوں میں درد اور قوت سماعت میں شدیدکمی کی وجہ سے میں لاہور سے بہت کم باہر نکلنا ہوتا ہوں لیکن پھوپھو کی بیماری کا سن کر آنکھوں میں بے ساختہ آنسو تیرنے لگے ۔ چہرے پر آویزاں غم اور پریشانی کے تاثرات دیکھ کر ساتھی بھی پریشان ہوگئے۔ان کے استفسارپر مجھے بتانا پڑا کہ میں اپنی پھوپھو کی بیماری کی وجہ سے پریشان ہوں اور رشتوں کی یہ محبت مجھے اپنی کشش کا بخوبی احساس کروا رہی ہے ۔بھائی اشرف کااصرار تھا کہ 3 بجے لاہورکینٹ اسٹیشن سے قصور کے لیے ایک ریل گاڑی روانہ ہوتی ہے، اس پر چلتے ہیں، وہ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہمیں قصور پہنچا دے گی ۔لیکن میری رائے یہ تھی کہ ریل گاڑی کا آجکل نہ تو کوئی بھروسہ ہے اور نہ ہی ٹائم ٹیبل ۔ ریلوے کا پورا نظا م ہی تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے، اس لیے پلیٹ فارم پر گھنٹوں انتظار اور ریل گاڑی کا تکلیف دہ سفر اختیار کرنے کی بجائے کوچ یا ویگن کے ذریعے ہم ایک گھنٹے میں باآسانی قصور پہنچ سکتے ہیں۔ بہرحال بھائی اشرف کے اصرار پر سفر کے لیے ریل گاڑی کاہی انتخاب کرلیا گیا۔
حسب پروگرام میں ،اپنی اہلیہ ( عابدہ بیگم ) سمیت لاہور کینٹ اسٹیشن 3 بجے سہ پہر پہنچ گیا ۔ ٹکٹیں لینے سے پہلے میں نے بھائی کو نصیحت کی کہ پہلے گاڑی کے بارے میں اطمینان کرلیا جائے کہ وہ آبھی رہی ہے یا نہیں ۔ بھائی اشرف نے مخالف سمت اشارہ کرکے بتایا کہ یہ جو ٹرین پلیٹ فارم کی طرف آ رہی ہے اسی نے لاہور پہنچ کر واپس قصور کے لیے روانہ ہونا ہے۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بھائی چیونٹی سے بھی کم رفتار میں رینگنے والی یہ ٹرین کب لاہور پہنچے گی اور کب واپس قصور جانے کے لیے روانہ ہو گی۔ اب بھی وقت ہے ہمیں وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کلمہ چوک سے قصور جانے والی کسی بھی ویگن یا کوچ کا انتخاب کرلینا چاہیے۔ میرے اصرار کے باوجود بھائی اشرف اور بھابھی رقیہ کی توجہ کا مرکز ریلوے ٹرین ہی رہی ۔چنانچہ ہم لاہور کینٹ اسٹیشن کے پلیٹ فارم کے بینچ پر بیٹھ گئے ۔ ایک گھنٹہ انتظار کیا ٹرین کی آمد کا دور دور تک کوئی آثار نہ مل

(2)
سکا۔انتظار کی کیفیت بطور خاص ہسپتالوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر کیا ہوتی ہے ،اس کا اندازہ صرف وہی جانتا ہے جن کو ان سے واسطہ پڑتا ہے ،پھر کینٹ اسٹیشن پر چند پریشان حال مسافروں کے علاوہ زندگی کی کوئی علامت دکھائی نہ دی جو کبھی ریلوے اسٹیشن کی رونق کا ایک حصہ ہوا کرتی تھی ۔اسی دوران اپر کلاس ویٹنگ روم کے باتھ روم میں جانے کا اتفاق ہوا لوٹا تو وہاں موجود تھا لیکن نلکے سے پانی کی بجائے ہوا نکل رہی تھی۔ پانی کی جستجو میں ٹھنڈے پانی کے کولر سمیت تما م نلکوں کو چیک کیا، کہیں بھی پانی موجودنہیں تھا۔ اس لمحے میں نے بھائی اشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب لاہور کینٹ اسٹیشن کا نام تبدیل کرکے کربلا اسٹیشن رکھ دیناچاہیے ۔ ٹرین کے سفر میں ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ بعد کی بات ہے ۔
پانی کی عدم دستیابی نے ہمیں یہاں ہی پریشان کردیا ہے ۔ یہ بات سن کر میرا بھتیجا ( ثاقب لودھی) بھاگتا بھاگتا گھر گیا جو اسٹیشن سے ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر تھا اور گھر سے پانی کی دو بوتلیں اٹھا لایا تاکہ ضرورت کے مطابق ان کو استعمال کیاجاسکے ۔ اس لمحے مجھے اپنی ماں کی حکمت اور دانش کا احساس ہوا کہ وہ اپنا گھر ریلوے اسٹیشن سے اس قدر قریب کیوں بنانا چاہتی تھیں ،انہیں شاید پہلے سے ہی صورت حال کا علم تھا۔ پلیٹ فارم پر ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھنے کے بعد بھی جب ٹرین نہ آئی تو میں نے قصور میں اپنے چھوٹے بھائی ارشد کو موبائل پر کال کرکے صورت حال بتائی تو اس نے کہا پھوپھو اب پہلے سے بہتر ہیں ،آپ پریشان نہ ہوں۔میں نے کہا پھر کل صبح فرید ایکسپریس کے ذریعے ہم آجائیں گے۔ سنا ہے لاہور سے بذریعہ پاکپتن جانے والی وہ ایکسپریس بہت تیز اور سبک رفتار ہوتی ہے ۔ یہ فیصلہ کرکے ہم پلیٹ فارم سے اٹھ کر بھائی اشرف کے گھر ( آبادی قربان لائن ) آ گئے ۔ ذہنی اور جسمانی طور پر ہم اس قدر تھک چکے تھے، جیسے قصور سے لاہورکا سفر کرکے واپس پہنچے ہوں۔ دراصل یہ کیفیت گاڑی کے انتظار کی شدت نے ہم پر طاری کی تھی ۔نہ جانے لاکھوں لوگ ہر روز اس کیفیت سے گزرتے ہیں لیکن ریلوے میں سفر کرنے کا جنون اور شوق پھر بھی کم نہیں ہوتا ۔
اگلی صبح ٹھیک ساڑھے سات بجے ہم لاہور کینٹ اسٹیشن پر پہنچ گئے جبکہ گاڑی کی آمد کا وقت پونے آٹھ بجے تھا ۔7.40 پر لاوڈسپیکر پر اعلان ہوا کہ فرید ایکسپریس آرہی ہے ۔ یہ اعلان ہمارے لیے خوشی کا باعث تھا کیونکہ ریلوے کی تاریخ میں جب بھی ہمیں سفر کرنے کا موقع ملا، ٹرین کبھی وقت پر نہیں آئی اور نہ ہی منزل مقصو د پر اس نے کبھی وقت پر ہمیں پہنچایا۔ابھی میں ان تصورات میں کھویا ہوا تھا کہ فرید ایکسپریس دور سے آتی ہوئی دکھائی دی ۔ اے اﷲ یہ معجزہ کیسے ہو گیا، دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا ۔ پندرہ بیس مسافر ڈبوں کو کھینچتا ہوا ایک پرانا سا انجن پلیٹ فارم پر آ کر رک گیا۔ مسافر ڈبوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ دروازے ابھی اکھڑ کر الگ ہو جائیں گے۔ہم ایک ڈبے میں سوار ہوگئے۔ٹرین میں مسافر نہ ہونے کے برابر تھے بلکہ کئی ڈبے تو بالکل خالی دکھائی دیئے۔چند ہی منٹ بعد گاڑی اپنے سفر پر روانہ ہوگئی ۔
بظاہر یہ ٹرین شہر کی جانی پہچانی نواحی بستیوں سے گزر رہی تھی لیکن ایک انجان مسافر کی طرح گاڑی کے ساتھ ساتھ رقص کرتی ہوئی ہر چیز مجھے اچھی لگ رہی تھی ۔ ابتدا میں والٹن ٹریننگ سکول ٗ کوٹ لکھپت ٗ کاہنا کاچھا ٗ جیا بگا کے اسٹیشن آئے لیکن سوائے کوٹ لکھپت کے کہیں بھی مسافروں کی بھاگ دوڑ کا وہ ماحول نظر نہیں آیا جو کبھی ماضی کا لازمی حصہ ہوا کرتا تھا اور نہ ہی خوانچہ فروشوں کی آوازیں سنائی دیں جو کئی دنوں کی باسی چیزیں اور پکوڑے راگ لگالگاکر فروخت کیا کرتے تھے۔ بطور خاص یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جتنی مرتبہ بھی مجھے ماں کے ساتھ اپنی نانی کے گھر عارف والا جانے کااتفاق ہوا کبھی بھی ہمیں آرام دہ سیٹ پر سفر کرنے کا موقع نہ ملا۔ ٹرین کے اندر مسافروں کا اس قدر رش ہوا کرتا تھا کہ فرش پر ہی ہمیں جگہ ملتی یا ڈبے کے دروازے پر کھڑے ہوکر سفر کرتے۔ لیکن ا س مرتبہ جہاں ہم سیٹ ملنے پر خود کوخوش نصیب سمجھ رہے تھے، وہاں ریلوے نظام کی تباہی ٗ اسٹیشنوں کی خستہ حالی ٗ ریلوے کوارٹروں کی بربادی، ہمیں خون کے آنسو رلا رہی تھی۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے صدیوں سے ریلوے اسٹیشنوں پر تعمیر و مرمت کا کام نہیں ہوا بلکہ ریلوے انتظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے لوگ کوارٹروں اور ریلوے کی دیگراملاک کی اینٹوں تک کو اٹھا کر لے گئے ہیں ۔تقریبا ہر اسٹیشن کے نزدیک کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اور گندے پانی کے بڑے بڑے جوہڑ بھی دکھائی دیتے ہیں، جو ریلوے ملازمین اور گردو نواح کی آبادیوں کے لیے بیماریوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
ایک گھنٹے بعد فرید ایکسپریس بیماروں کی طرح رینگتی ہوئی رائے ونڈ اسٹیشن پہنچی ۔ٹرین سے اتر کر میں نے فرید ایکسپریس کا جائزہ لیا اور ڈیوٹی گارڈ سے پوچھا کہ بورڈ پر لکھا ہے کہ یہ ٹرین براستہ پاکپتن کراچی تک جا ئے گی۔ کیا واقعی یہ ٹرین کراچی پہنچ جاتی ہے۔ مجھے تو یقین نہیں آرہا ۔ اس پر سفید وردی میں ملبوس گارڈصاحب نے کہا جناب یہ ٹرین واقعی کراچی پہنچ جاتی ہے لیکن ہمارا کام تو اسے پاکپتن تک پہنچانا ہے آگے اﷲ حافظ ۔لاہور کینٹ سے رائے ونڈ تک چلتی ہوئی ٹرین کے ہر ہر پرزے سے عجیب و غریب آوازیں آرہی تھیں ،یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ابھی اس ٹرین کا ہرپرزہ الگ الگ ہوجائے گا۔
رائے ونڈ سے فرید ایکسپر یس مین لائن سے ہٹ کر برانچ لائن پر چلنے لگی جو پہلے قصورٗ پاکپتن ٗ لودھراں سے ہوتی ہوئی بہاولپور تک جاتی ہے۔ کم ازکم عارفوالا تک اس روٹ پر آنے والے تمام اسٹیشنوں کے نام توہمیں اس لیے ازبر تھے کہ جب ماں عارف والا اپنے میکے جاتیں تو لاہور سے براستہ قصور کاروٹ ہی اختیار کرتی۔ لیکن اس مرتبہ یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ فرید ایکسپریس ٹریک کی کمزوری اور خرابی کی وجہ سے پوری رفتار سے چل نہیں پارہی تھی بلکہ یوں محسوس ہورہا تھا کہ کسی بھی وقت ٹرین پٹڑی سے اتر جائے

(3)
گی۔ جونہی فرید ایکسپریس راجہ جنگ پہنچی تو آدھا گھنٹہ وہیں رکی رہی ۔ میں ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیتا رہا۔آدھے سے زیادہ پلیٹ فارم صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا، ریلوے کوارٹر زمین دوز ہوچکے تھے جبکہ بڑی تعداد میں بھینسوں اور ان کا دور دور تک پھیلا ہواگوبر اسٹیشن کے اردگرد نظر آرہا تھا۔ چند خواتین بھینسوں کو چارہ ڈالنے اور گوبر کے اوپلے تھاپنے میں مصروف نظر آئیں ۔جبکہ گندگی اورکوڑا کرکٹ کے انبار ہر جگہ دکھائی دیئے۔ ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ ٹیلی مواصلات کے وہ کھمبے جنہیں ہم عارف والا جاتے ہوئے گنتی کیاکرتے تھے ،وہ بھی ناپید ہوچکے تھے، کہیں کوئی کھمبا نظر بھی آجاتا تو تاروں کے بغیر نظر آتا۔ اب اس بات کا علم مجھے نہیں ہے کہ مواصلاتی پولوں کون اکھاڑ کر لے گیا ہے اور ان پر لگی ہو ئی تاریں کس نے چرا لی ہیں ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ پیپلز پارٹی کا دور تھا جب منصب صدارت پر جناب آصف علی زرداری مسٹر تین پرسنٹ سے ترقی کرکے مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بن چکے تھے اور وزیراعظم کے عہد ے پر سید یوسف رضا گیلانی براجمان تھے ،جنہوں نے وزارت عظمی سے استعفی دینا منظور کرلیا لیکن اپنے قائد زرداری کی بیرون ملک رکھی ہوئی دولت کو پاکستان لانے کے لیے غیرملکی بنکوں کو خط لکھنا گوارا نہیں کیا ۔ریلوے کے وزیر تو مخدوم شہاب الدین تھے جنہوں نے پریس کانفرنس میں فرمایا تھا جس نے ریلوے ٹرین پر سفر کرنا ہے وہ اپنی ذمہ داری پر سفرکرے ،یا ٹرین پر سفرکرنے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ کر سوار ہو ۔یقین سے یہ بات نہیں کہہ جا سکتی کہ ٹرین ان کو منزل مقصود تک پہنچا بھی دے گی یا نہیں ۔یہ بتاتا چلوں کہ 1965سے 1970 کے درمیان لاہور سے خانیوال تک مین لائن چِلنے والی ٹرینوں کو بجلی پر چلانے کا مکمل سسٹم تیار کیا گیا جس کے تحت لاہور سے خانیوال تک لاکھوں بجلی کے پول ریلوے ٹریک کے اردگرد لگائے گئے جن پر اتنی مضبوط اور موٹی تاروں کو تنصیب کی گئی جن پر 25ہزار وولٹ بجلی ہر وقت موجود رہتی تھی ، ٹرینوں کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے شاید جرمنی سے الیکٹرک انجن درآمد کیے گئے جو پہلے ایکسپریس بعد میں پسینجر ٹرینوں کے ساتھ بھی لگا دیئے گئے ۔ لیکن پیپلز پارٹی کے سنہرے دور میں لاہور سے خانیوال تک دو تین سو میل لمبی بجلی کی تاروں کو چوری کرلیا گیا جس سے الیکٹرک انجن بھی بیٹھے بٹھائے فالتو ہوگئے ۔
بہرکیف جب پاکستان میں باقی سرکاری محکموں میں چور بازاری عروج پر تھی تو ٹیلی مواصلات والے کونسے فرشتے ہوں گے ،انہوں نے بھی جہاں ہاتھ پہنچا وہیں سے چیز چرا لی۔ آدھ گھنٹے بعد فرید ایکسپریس راجہ جنگ سے اس وقت روانہ ہوئی جب قصور سے لاہور جانے والی پسنجر ٹرین نے راجہ جنگ کو مخالف سمت عبور کیا ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ڈویژن کی سطح پر ٹرینوں کی آمد ورفت کو لاہور میں بیٹھا ہوا کنٹرولر نامی افسر کنٹرول کرتا ہے ۔میں حیران تھا کہ فریدایکسپریس جس نے کراچی تک جانا تھا، اسے آدھا گھنٹہ روک کر ایک پسنجر گاڑی کو گزارنے کا کیا جواز تھا، اس میں کیا حکمت پنہاں تھی ،اس کا علم تو کنٹرولر کو ہی ہوگا ۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ انہی ایام میں ، میں نے ریلوے کے بارے میں ایک کالم نوائے وقت میں لکھا تھا ، جونہی وہ کالم اخبار میں چھپا تو ریلوے حکام نے بھی اسے غلطی سے پڑھ لیا ۔ حسن اتفاق سے ان دنوں ڈی ایس لاہور کے عہدے پر ایک ادب پسند افسر جس کا نام حمید رازی ہے، وہ تعینات تھا۔ جب انہوں نے میرا کالم پڑھا تو اس نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو مجھ سے رابطہ کرنے اور مجھے چائے پر بلانے کا حکم دیا۔ جب مجھے ڈی ایس ریلوے کے برائیویٹ سیکرٹری کی کال موبائل پر موصول ہوئی تو انہوں نے مجھے رازی صاحب کا سلام پہنچایا اور کہا رازی صاحب نے آپ کا کالم پڑھا ہے وہ آ پ کے ساتھ چائے پینے کے متمنی ہیں ۔ریلوے میں ڈی ایس کا عہدہ بہت بڑا تصور کیا جاتا ہے ، یہ وہ محکمہ ہے جہاں اے ٹی او ( اسسٹنٹ ٹریفک آفیسر ) جب اپنے ماتحت ڈویژن کے دورے پر نکلتا ہے تو درمیان میں آنے والے ریلوے اسٹیشنوں کا تمام ہائی الرٹ ہوجاتا ہے کہ صاحب بہادر کسی بھی وقت ،کسی بھی اسٹیشن پر اتر سکتے ہیں ۔میرے والد جو پہلے کانٹے والا تھے پھر ترقی کرکے کیبن مین ہوگئے ۔ان کا یہ معمول تھا کہ وہ گرمیوں کے موسم میں پورا لباس نہیں پہنتے تھے بلکہ وردی کی نیلی شرٹ کے نیچے نیکر نما کچھا پہنتے تھے ۔ریلوے کی وردی کا کپڑا بہت وزنی ہوا کرتا تھا اس لیے اسے گرمیوں میں پہننے سے جسم پر سرخ دانے نکل آتے تھے ۔اس لیے والد صاحب گرمیوں میں کچھا اور بنیان ہی ڈیوٹی کے دوران پہنتے جب ٹرین گزرنے کا وقت ہوتا تو وردی کی نیلی شرٹ بھی پہن لیتے تو ہاتھوں میں پکڑی ہوئی سبزجھنڈی کو ہی گاڑی کے ڈرائیور اور گارڈ دیکھیں ،یہ بھی بتاتا چلوں کہ کیبن مین کی ڈیوٹی میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ ہر ٹرین کے آخری بوگی کے پیچھے سرخ بتی / سرخ جھنڈی بندھی ہوئی ضرور دیکھیں ۔اس سے یہ بات یقینی ہوجاتی تھی کہ گاڑی مکمل ہے اس کا کوئی حصہ ٹوٹ کے پیچھے نہیں رہ گیا ۔یہ احتیاطی تدابیر انگریز دور سے چلی آرہی ہیں اور حادثات سے بچنے کا بہترین طریقہ بھی ہیں ۔
بہرکیف میں اور قاری محمد اقبال صاحب( جو ہمارے دوست بھی ہیں اور امام مسجد بھی ہیں )انہیں ساتھ لے کر ایک صبح ڈی ایس لاہور آفس جا پہنچا ۔پرائیویٹ سیکرٹری نے ہمیں خوش آمدید کہا اور سٹینو سیٹ کے ذریعے ڈی ایس جناب حمید رازی صاحب کو میری آمد کی اطلاع دی ۔حالانکہ ان کے پاس ڈویژنل پرسانل آفیسر میٹنگ کررہے تھے ، انہوں نے میٹنگ کو روک کر مجھے اپنے آفس میں بلالیا۔وہ مجھ سے ایک کالم رائٹر کی حیثیت سے مل کر بہت خوش تھے اور میں اس لیے خوش تھا کہ پاکستان ریلوے کا اعلی ترین آفیسر میرے روبرو بیٹھا ہے ،جس نے ہمارے لیے اہتمام سے چائے کا اہتمام بھی کررکھا ہے ۔دوران گفتگو ریلوے کی محکمانہ خامیوں اور رشوت خوریوں کا تذکرہ بھی آیا ،مجھے ریلوے کی رشوت ستانیوں کا اس لیے علم تھا میں اپنے والد کے ساتھ سائے کی طرح رہتا تھا ،جب انہیں ٹرین پر سوار ہوکر آنے والا کیشئر دس روپے کم تنخواہ دیتا تووالد صاحب خاموشی سے لے لیتے ۔میں نے انہیں کئی بار یاد دلایا کہ ابا جان آپ کو تنخواہ کی جو سلیپ دی جا رہی ہے اس پر آپ کی تنخواہ 80روپے لکھی ہے جبکہ کیشئرآپ

(4)
کو 70روپے دے رہا ۔آپ دس روپے کم کیوں لے رہے ہیں ۔ والد صاحب مجھے راز دارانہ انداز میں بتایا بیٹا اگر میں کیشئر سے پوری تنخواہ کا مطالبہ کروں گا تو مجھے موجود ہونے کے باوجود غیر حاضر قرار دے کر میری تنخواہ واپس لے جائے گا ۔پھر اس رکی ہوئی تنخواہ کو ڈی ایس آفس سے نکلوانے کے لیے ایک پوری تنخواہ بطور رشوت دینی پڑے گی ۔اس لیے کیشئر جتنی رقم دیتا ہے وہ سب ریلوے ملازمین خاموشی سے لے لیتے ہیں۔جب میں نے یہ بات ڈی ایس لاہور کو بتائی تو وہ حیران ہوئے کہ ان کے ماتحت لوگ ،ملازمین کو اس طرح پریشان کرتے ہیں ۔
حمید رازی صاحب کو ایک اور واقعہ اپنی والدہ کی پنشن کا سنایا ۔وہ واقعہ کچھ یوں تھا۔ ایک شام جب میں والدین کے گھر پہنچا تو والدہ نے مجھے سو روپے کا نوٹ دیتے ہوئے کہا بیٹا یہ سو روپے ڈی ایس آفس کے کسی کلرک کو دے دینا اور حکومت نے بیواؤں کی پنشن میں جو سو روپے کا اضافہ کیا ہے وہ میری پنشن کے ساتھ بھی لِگوا دینا۔میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا امی جان آپ کیسی بات کررہی ہیں ۔ حکومت کی جانب سے بیواؤں کی پنشن میں جو اضافہ کیا جاتا ہے ،یکم جولائی کو ملنے والی پنشن کے ساتھ وہ اضافہ بھی شامل ہوجاتا ہے اس کے لیے کسی کو رشوت دینے یا سفارش کرانے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔جب میں یہ بات کہہ رہا تھا تو والدہ میرے چہرہ دیکھ رہی تھی اور کہنے لگی بیٹا تم کس دنیا میں رہتے ہو،ریلوے کے محکمے کی تو دیواریں بھی رشوت مانگتی ہیں ۔ جن بیواؤں نے کلرک کو سو سو روپے رشوت دے دی تھی ان کی پنشن کے ساتھ حکومتی اضافہ لگ چکا ہے ۔ مجھے پچھلے مہینے والی ہی پنشن ملی ہے ۔میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے والدہ سے کہا امی جان میں کل ڈی ایس آفس جاؤں گا اگر متعلقہ کلرک نے پنشن کی اضافی رقم لگانے کے لیے رشوت مانگی تو وہ میں اپنی جیب سے ادا کروں گا آپ سے پیسے میں نہیں لوں گا۔والدہ نے کہا بیٹا تم جس دنیا میں رہتے ہو وہ دنیا اور ہے لیکن ریلوے کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔بہرحال میں اگلے دن ڈی ایس آفس جا پہنچا اور اپنا صحافیانہ تعارف کراتے ہوئے اکاؤنٹس آفیسر سے درخواست کی کہ وہ میری والدہ کی پنشن کی رقم میں وہ اضافہ بھی شامل کردے جو حکومت کی جانب سے اضافہ ہوا ہے۔اکاؤنٹس آفیسر نے میری بات توجہ سے سنی اور گھنٹی بجائی ،چند لمحوں بعد چپڑاسی آیا تو اکاؤنٹس آفیسر نے اسے کہا ان کے ساتھ چلے جاؤ اور پنشن برانچ کے متعلقہ کلرک سے جا کہیں کہ ان کی والدہ کی پنشن حکومتی اضافہ بھی لگا دیں ۔ میں خوشی خوشی اس چپڑاسی کے چلتا ہوا اس کمرے تک جا پہنچا جہاں متعلقہ کلرک بیٹھتا تھا ، کمرے کا ماحول دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ تین چار افراد ٹانگیں میزوں پر رکھ کر کرسیوں پر بیٹھے اونگھ رہے تھے ، چپڑاسی نے انہیں جگایا اور انہیں کہا کہ صاحب کا حکم ہے کہ ان کی والدہ کی پنشن میں حکومتی اضافے کا لیٹر بنا کر انہیں دے دیں ۔ کمرے میں موجود تینوں افراد میرے چہرے کو دیکھ رہے تھے ،کچھ دیر ماحول پر خاموشی طاری رہی ،پھر ان میں سے ایک بولا جناب جس کلرک نے لیٹر بنانا ہے وہ آج چھٹی پر ہے ، میں درخواست کی ، آپ بھی تو لیٹر بناسکتے ہیں ،اس شخص نے بتایا کہ لیٹر پر جو مہرلگتی ہے وہ میز کے دراز میں بند ہے اور دراز کو تالا لگا ہوا جس کے چابی متعلقہ کلرک کے پاس ہے ۔ اس طرح کریں آپ کل آجائیں ۔ میں منہ لٹکائے واپس آگیا ،اگلے دن پھر جا حاضر ہوا ، متعلقہ کلرک موجود تھا اس نے بغیر پیسے لیے امپوز والی مہر لگا کر لیٹر میرے حوالے کردیا ۔میں خوشی خوشی والدہ کے پاس پہنچا اور انہیں لیٹر دیتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا امی جان دیکھا میں بغیر رشوت دیئے آپ کا لیٹر نکلوا لایا ہوں ۔ماں جی بہت خوش ہوئی اور مجھے شاباش دی۔تشکرانہ نگاہوں سے مجھے دیکھا اور ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں ۔اگلے دن جب والدہ کینٹ اسٹیشن پر پنشن لینے گئیں تو اسٹیشن ماسٹر نے یہ کہتے ہوئے لیٹرماں جی کو واپس کردیا کہ اس لیٹر پر تو امپوز مہر نظر ہی نہیں آتی ۔ڈی ایس آفس سے واضح اور کلیئر مہر لگوا کرلائیں ۔شام ڈھلے میں جب گھر پہنچا تو والدہ نے اسٹیشن ماسٹر کی بات بتائی اور کہا کلرک نے اس قدر ہلکی مہر لگائی ہے کہ دیکھنے والے کو بھی نظر نہیں آتی ۔ مجھے بہت غصہ آیا میں وہ لیٹر لے کر ایک بار پھر ڈی ایس آفس پہنچا اور اکاؤنٹس آفیسر سے ملا اور جو کچھ میرے دل میں تھا وہ اسے سنا دیا ۔میں نے کہا میری والدہ ٹھیک ہی کہتی تھیں کہ بغیر رشوت کے ڈی ایس آفس کے کلرک پنشن کا اضافہ نہیں لگاتے ، سو روپے کا نوٹ میں اکاؤنٹس آفیسر کے دیتے ہوئے کہا آپ یہ رکھ لیں اس لیٹر پر نمایاں اور نظر آنیوالی مہرلگا دیں ۔اکاؤنٹس آفیسر نے چپڑاسی کو بھیج کر متعلقہ کلرک کو مہر سمیت بلوایا اور اپنے سامنے امپوز مہرلگوائی ۔ پھر وہ لیٹر مجھے دیتے ہوئے کہا اب آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔خدا خدا کرکے اضافہ شدہ پنشن کی رقم جو 100 روپے ہی بنتی تھی میری والدہ کی پنشن کی ماہانہ رقم میں شامل ہوگئی ۔
حمید رازی صاحب میری جلی کٹی باتیں بہت توجہ سے سن رہے تھے ،ساتھ ساتھ چائے بھی پی رہے تھے ۔میں ان سے درخواست کی کہ مجھے آپ اے ٹی او صاحب ملوا دیں میں انہیں اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ وہ خوفناک افسر ہے جب وہ ڈویژن کے دورے پر کسی ٹرین کے ساتھ نکلتا ہے تو ان کے لیے ایک الگ وی آئی پی بوگی لگتی ہے جس میں دنیا جہاں کی تمام سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور پورے ڈویژن کے ریلوے ملازمین ہائی الرٹ ہوتے ہیں ۔آج میں اتفاق سے ڈی ایس آفس آیا ہوں تو انہیں بھی دیکھتا چلوں ۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اے ٹی او صاحب ڈرتے ڈرتے تشریف لے آئے ۔ ڈر وہ اس لیے رہے تھے کہ میں جس آفس میں بیٹھا تھا وہاں ان سے تین چار گنا بڑا افسر موجود تھا۔ اے ٹی او اور ڈی ایس صاحب کے ساتھ چند یادگاری تصویریں بنالی گئیں تو میں نے رازی صاحب سے درخواست کی ،کہ اگر ممکن ہوسکے تو مجھے کنٹرولرآفس دکھا دیا جائے ۔ حمید رازی صاحب نے اے ٹی او صاحب سے کہا کہ لودھی کو کنٹرولر آفس دکھائیں ۔میں جب کنڑولر آفس پہنچا تو حیران رہ گیا کہ کنٹرولر آفس کے بارے میں جو میرے تصورات تھے وہ یکسر مختلف تھے ۔وہاں چھوٹے چھوٹے کیبن میں ایک کلرک ٹائپ ملازم بیٹھا ہوا تھا جس کے پاس ایک گراف نما بڑا سا کاغذ تھا جس پر

(5)
وہ لائنیں لگا کر اپنے ڈویژن کے مختلف سیکشنوں میں چلنے والی ٹرینوں کی آمد و رفت کو کنٹرول کررہا تھا جبکہ اسی کمرے میں ایک بڑی سی میز ایک موٹا سا شخص بیٹھا تھا جسے ریلوے کی زبان میں کنٹرولر کہا جاتا ہے ۔یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے لیکن ہماری ریلوے ابھی تک اپنے ابتداء والی جگہ پر ہی کھڑی ہے ۔
.............
بہرکیف ٹرین راؤ خاں والا اور اٹھیل پور سے ہوتی ہوئی دس بجے قصور شہر پہنچ گئی لیکن روہی نالے کی شکل میں جہاں پہلے دریائے بیاس بہتا تھا وہ مقام بھی نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا ۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت پر جلی حروف میں قصور جنکشن لکھا ہوا تھا ۔قیام پاکستان سے پہلے یہاں سے بھارت کے شہر فیروز پور ٗ فرید کوٹ ٗ دہلی ٗ پاکپتن اور لاہور کے لیے ٹرینیں روانہ ہو ا کرتی تھیں لیکن تقسیم ہند کے بعد قصور سے آگے گنڈا سنگھ کی جانب ٹرین نہیں جاتی بلکہ انجن کا رخ تبدیل کرکے ٹرین پاکپتن کے لیے روانہ ہو جاتی ہے ۔قصور شہر کو تاریخی اعتبار سے بھی بہت اہمیت حاصل ہے ۔ یہ شہر دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے درمیان صدیوں پہلے آباد ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے دیوتا رام چندرکے دو بیٹے تھے ،ان میں سے ایک کانام " لو " اور دوسرے کا نام " کاسو " تھا ۔ رام چندر جی کے ان دونوں بیٹوں کے نام پر شہر لاہور اور قصور شہر آباد ہوئے ۔اس شہر میں( رنجیت سنگھ ) کے دور میں سکھوں نے بھی بہت عرصہ حکمرانی کی لیکن مغل شہنشاہ بابر کے پوتے شہنشاہ اکبر نے دو عظیم دریاؤں کے سنگم میں آباد اس شہر کو خوشگوار آب و ہوا اور انتہائی اہمیت کے حامل محل وقوع کی بنا پر اپنے قبیلے کے لیے منتخب کرلیا ۔ چنانچہ کابل سے آنے والے لودھی پٹھا ن اور یوسف زئی قبیلوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو پختونوں نے رہائش کے لیے اس شہر میں الگ الگ چودہ قلعے تعمیر کیے ۔جن کو عرف عام میں کوٹ کہا جاتا ہے ۔ ان قلعوں میں کوٹ پکا قلعہ ٗ کوٹ نواز خان ٗ کوٹ اعظم خان ٗ کوٹ غلام محمد خان ٗ کوٹ مراد خان ٗ کوٹ حلیم خان ٗ کوٹ پیران ٗ لودھی نگر ٗ کوٹ فتح دین خان ٗ کوٹ عثمان خان ٗ کوٹ بدر دین خان ٗکوٹ رکن دین خان ٗ کوٹ نواب حسین خان اور کوٹ شیرباز خان شامل ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلعوں کی تعمیرات تو ناپید ہوتی چلی گئیں لیکن اب بھی کہیں کہیں چھوٹی اینٹ کے بنے ہوئے مکانات اور قلعوں کی دیواروں کو دیکھاجاسکتا ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ صدیوں پرانے اس شہر کو سکھوں ٗ ہندؤوں اور دہلی کے حکمرانوں کے ہاتھوں کئی مرتبہ بدترین قتل عام کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس جنگی معرکہ آرائی میں بہت بڑی تعداد میں لودھی پٹھا ن اور یوسف زئی قبیلے کے لوگ شہید ہوئے ۔ اس شہر کی نئی آبادیوں میں طارق بن زیاد کالونی ٗ کھارا روڈ ٗ پاکیزہ کالونی ٗ بھٹہ گھوریاں والا ٗ منیر شہید کالونی ٗ کوٹ غلام محمد خان ٗ کوٹ میر باز خان ٗ کوٹ شیر باز خان ٗ کوٹ عبدالقادر ٗ روڈ کوٹ ٗ دھر کوٹ ٗ جناح کالونی ٗ بغدادیہ کالونی ٗ بلھے شاہ کالونی ٗ مشتاق کالونی ٗ غوثیہ کالونی ٗگلبرگ کالونی ٗ گورا نگر ٗ فاضل کالونی ٗ روشن کالونی ٗ شکور کالونی ٗ باسر پورہ ٗ شیخ بھاگو ٗ رکن پورہ ٗ محلہ پیر بلندا ٗ سلامت پورہ ٗ دین گڑھ ٗ علی گڑھ ٗ نیاز نگر ٗ ولی پور ٗ جماعت پورہ ٗ کرشنا نگر ٗ سید چراغ شاہ ٹاؤن ٗ بستی ویناکان ولی ٗ بستی صابر ولی ٗ بستی بارات شاہ ٗ بستی قادر آباد ٗ بستی بابیاں والی ٗ بستی نور شاہ ولی ٗ گارڈن ویو ہاؤسنگ سکیم سٹیل باغ شامل ہیں ۔
اس شہر کی مشہور مصنوعات میں فالودے اور اندرسوں کے علاوہ قصوری میتھی بھی شامل ہیں۔جہاں تک میتھی کی غذائی اہمیت اور انسانی زندگی میں اس کی افادیت کا تعلق ہے برصغیرپاک و ہند کے تقریبا سبھی علاقوں میں یہ کاشت کی جاتی ہے لیکن بطور خاص قصور شہر کی میتھی خوشبو کے اعتبار سے سب سے زیادہ مشہورہے۔ اس کے پودے کی اونچائی ایک سے ڈیڑھ فٹ ہے ۔ میتھی کے پتے اور بیج بطورخاص دواؤں بھی استعمال کئے جاتے ہیں ۔ یہ مختلف کھانوں کو خوشبو دار اور ذائقے دار بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔اچار کے مصالحے میں بھی میتھی کے بیج ڈالے جاتے ہیں ۔ یونانی اور آیوویدک دواؤں میں اس کااستعمال عام ہے ۔ میتھی موسم سرما کے امراض ٗ کمر درد ٗ تلی کے ورم اور گنٹھیا وغیرہ میں فائدے مند ہے ۔بادی امراض کے ساتھ ساتھ چہرے کے داغ دھبوں کو دور کرنے کے لیے ابٹن میں بھی اکثر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ حکما کے نزدیک میتھی کے بیجوں کو پانی میں پیس کر ہفتے میں کم ازکم دو مرتبہ ایک گھنٹہ تک لگانے سے بال لمبے اور مضبوط ہوجاتے ہیں ۔آنتوں کی کمزوری سے اگر دائمی قبض ہو تو میتھی کا سفوف گڑ میں ملا کر صبح و شام پانی کے ساتھ استعمال کرنے سے دائمی قبض کا مرض جڑ سے ختم ہوجاتا ہے اور جگر کو بھی طاقت ملتی ہے ۔شوگر جیسی موذی بیماری کی شدت میں کمی بلکہ خاتمے کے لیے بھی میتھی دانوں کو نہایت موثر اور مفید تصور کیاگیا ہے ۔بھارت کے شہر حیدر آباد میں ڈاکٹر آر ڈی شرماورگھورام کی سربراہی میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم عرصہ دراز سے ذیابیطس کے حوالے سے میتھی کے موثر استعمال پر تحقیق کررہی تھی دل اور شوگر کے بیشمار مریضوں کو میتھی کااستعمال کروایا گیا۔ نتائج نے ثابت کیا کہ میتھی دانے شوگر اور دل دونوں موذی امراض کے لیے نہایت فائدے مند ہیں ۔میتھی کے 20 گرام بیج روزانہ پیس کرکھانے سے صرف دس دن کے اندرہی پیشاب اور خون میں شکر کی مقدار کم ہوجاتی ہے بلکہ مریض کو بیماری کی شدت میں کمی کا احساس خود بھی ہوجاتا ہے ۔شوگر کی مقدار کے تناسب سے میتھی دانوں کی مقدار کو 100 گرام روزانہ تک بھی بڑھایا جاسکتا ہے ۔اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی میتھی کی تاثیر اور افادیت انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے لیکن قصور ی میتھی کی بات ہی کچھ اور ہے کیونکہ جس گھر میں قصور ی میتھی کا استعمال ہوتا ہے بہت فاصلے سے ہی اس کی خوشبو اپنا احساس کروا دیتی ہے ۔اگر کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ قصور شہر کی سوغات میں میتھی کو بہت اہم مقام حاصل ہے ۔
انڈیا کی ممتاز پنجابی گلوکارہ پرکاش کور کا گیت تو ہر شخص کی زبان پر اب بھی موجود ہے جس کے بول تھے" جتی قصوری پیریں نہ پوری ہائے ربا وے سانوں ٹرنا پیا ہائے ربا وے سانوں ٹرنا پیا"گویا کھیس ٗدریوں اور چمڑے کے ساتھ ساتھ جوتا سازی میں بھی قصور شہر اپنی الگ شہرت رکھتا ہے ۔اس شہر کی ممتاز شخصیات میں شہنشاہ موسیقی استاد بڑے غلام

(6)
علی خان ٗ استاد برکت علی خان ٗ استاد امانت علی خان اور ملکہ ترنم نور جہاں شامل ہیں ۔ جہاں تہذیبی ٗ معاشرتی اور اقتصادی اعتبار سے برصغیر پاک و ہندمیں قصور کا ذکر ملتا ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اﷲ کے ان برگزیدہ ولیوں (جن میں حضرت بابا بلھے شاہ ؒ ٗ حضرت کمال چشتی ؒ ٗ حضرت امام شاہ بخاری ؒ شامل ہیں) نے اس شہر کو اپنی عبادت ٗ ولایت ٗ ہدایت اور تصوف کی بدولت وہ پہچان دی کہ آج شہر قصور کی دھوم دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ لیکن اس شہر کی شناخت حضرت بابا بلھے شاہ ؒکے نام سے ہی ہوتی چلی آ رہی ہے۔
میدان ولایت کی یہ عظیم ہستی بہاولپور کے نواحی گاؤں " اچ گیلانیاں" میں 1016 ھجری کو پیدا ہوئی ۔ آپ کا اصل نام " سیدعبداﷲ شاہ " تھا ۔ آپ کے والد ( سیدسخی شاہ محمد) جید عالم دین اور روحانی طاقت سے مالا مال تھے ۔انتہائی کمسنی میں ایک واقعہ آپ کی قوت ولایت سے منسوب ہے ایک مرتبہ آپ ( حضرت بابا بلھے شاہ ؒ ) مویشیوں کو چرانے کے لیے گاؤں سے نکلے۔ گرمیوں کی دوپہر ایک درخت کے سائے میں آپ کی آنکھ لگ گئی تو مویشی موقع غنیمت جان کرکھیت کاصفایا کرگئے- زمیندار کو جب خبر ہوئی کہ اس کا کھیت برباد ہوچکا ہے تو وہ ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس درخت کے پاس آ پہنچا جس کے نیچے آپؒ سو رہے تھے ۔ زمیندار مارنے کے لیے آگے بڑھا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک بہت بڑا سانپ آپ کے بالکل قریب پھن پھیلائے کھڑا ہے ۔ آپ کو بے حس و حرکت دیکھ کر زمیندار اپنا نقصان بھول گیا اور آپؒ کے والدین کو اطلاع دی کہ سانپ کے ڈسنے سے آپ کا بیٹا ہلاک ہوگیا ہے۔ پریشانی کے عالم میں جب آپ کے والد وہاں پہنچے تو انہوں نے بیٹے کو آواز دے کر پکارا۔ آپؒ کلمہ پڑھتے ہو ئے نیند سے بیدار ہو گئے آپؒ کو ٹھیک دیکھ کر زمیندار نے اپنے کھیتوں کی بربادی کا شور مچانا شروع کر دیاکہ اس بچے کی لاپرواہی سے میرا ہرا بھرا کھیت برباد ہوگیا ہے ۔ اس لمحے آپؒ نے نہایت معصومیت سے کہا کھیت تو بالکل ٹھیک ٹھاک نظر آرہا ہے ٗ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ میرے مویشیوں نے اسے برباد کردیا ہے ۔جب زمیند ار آپ اور آپ کے والد کو لے کر موقع پر پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کھیت بالکل پہلے کی طرح صحیح حالت میں تھا ۔ میدان ولایت میں یہ آپ کی پہلی پرواز تھی ۔
کچھ عرصہ بعد آپ کا خاندان " اچ گیلانیاں " کو خیر باد کہہ کر ملکوال کے قریب ہی "پانڈو کے بھٹیاں "گاؤں میں جاکر آباد ہوگیا اورآپ کے والد سید سخی شاہ محمد نے وہاں امامت اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اردگرد کے ہزاروں لوگ مستفیدہوتے رہے۔ لیکن جب آپ سن بلوغت کو پہنچے تو آپ کو حصول تعلیم کے لیے قصور شہر میں ایک ممتاز عالم دین حضرت حافظ غلام مرتضی کے مدرسے میں بھیجا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دورمیں قصور شہربطور خاص دینی علوم کا گہوارہ تصور کیاجاتا تھا اور ایک لاکھ چالیس ہزار حافظ قرآن وہاں موجود تھے، سرزمین قصور کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی دور میں جب حضرت فرید الدین گنج شکر ؒ قصور تشریف لائے تو انہوں نے عزت اور احترام کی خاطر ننگے پاؤں قصور شہر میں داخل ہونا ضروری سمجھا ۔یہاں آپ( سید عبداﷲ شاہ) نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ عربی ٗ فارسی اور سنسکرت کی زبانوں پر مہارت حاصل کی ۔ پھر ایک دن استاذ مکرم حضرت حافظ غلام مرتضی نے فرمایا عبداﷲ تم تمام علوم میں مہارت حاصل کرچکے ہو میری طرف سے اجازت ہے تم واپس پانڈو اپنے والدین کے پاس چلے جاؤ اور ان کی ہدایت کے مطابق باقی زندگی گزارو ۔ چنانچہ آپ قصور سے واپس پانڈو کے بھٹیاں تشریف لے آئے ۔ والد کے استفسار پر آپ ؒنے بتایا کہ تعلیمی منازل تو میں نے طے کر لی ہیں لیکن دل پر ہر لمحے اضطراب ٗ بے قرار ی کی کیفیت طاری رہتی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آپؒ کی بات سن کر والد گرامی نے فرمایا بیٹا ان تما م کیفیات کا ازالہ کسی مرشد کامل سے ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔ ایک رات آپؒ وظائف پڑھ کرباوضو سوئے تو خواب میں دیکھاکہ آپ سخت گرمی کے عالم میں سفر کرتے ہوئے ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سستانے لگے ،اسی لمحے ایک تخت آسمان کی وسعتوں سے تیرتا ہوا زمین کی طرف آتا دکھائی دیا بلکہ وہ تخت اسی درخت کے پاس آکر ٹھہر جاتا ہے ۔ تخت پر ایک نورانی صورت والے بزرگ تشریف فرما ہیں۔آپ ؒنے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا ۔تخت پر بیٹھے ہوئے بزرگ نے فرمایا عبداﷲ کیا تم مجھے جانتے ہو کہ میں کون ہوں۔ آپؒ نے کہا کہ نہیں میں آپ کو نہیں پہچانتا۔ نورانی صورت والے بزرگ نے فرمایا میں پانچویں پشت میں تمہارا جد امجد ہوں اور میرا نام سید عبدالحکیم ہے ۔اب تم ایسا کرو مجھے پانی پلاؤ شدت کی پیاس محسوس ہورہی ہے ۔آپؒ نے قریب ہی رکھا ہوا دودھ سے بھرا پیالہ ان بزرگوں کو پیش کردیا ۔ بزرگ نے کچھ دودھ پینے کے بعد باقی دودھ آپؒ کو پینے کے لیے کہا جسے ایک سعادت خیال کرتے ہوئے آپ نے پی لیا۔پھر بزرگ نے فرمایا تم کو چاہیے کہ تم کسی مرشد کامل کی اطاعت اختیار کرلو اس طرح تمہاری بے قراری کو قرار اور تمہارے دل کو سکون حاصل ہوگا اﷲ تبارک و تعالی کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ دنیا بھی تم سے فیض یاب ہوگی ۔آپ نے کہا آپ خود ہی رہنمائی فرما دیجیے کہ مجھے کس مرشد کامل سے فیض حاصل ہوگا ان کانام کیا ہے اور وہ کہاں رہتے ہیں۔ بزرگ نے فرمایا عبداﷲ تم لاہور چلے جاؤ ۔ وہاں تم حضرت شاہ عنایت قادری ؒ کے ہاتھ پر بیعت کرلو اور یاد رکھنا کہ خود کو مٹاکر ان کے در اقدس پر حاضری ایک سائل کی طرح دینااور جو بھی مرشد عطا کریں اس پر فخر اور صبر کرنا ۔
نیند سے بیداری کے بعد آپ نے اپنے والد گرامی کو خواب کا احوال کہہ سنایا تو انہوں نے فرمایا بیٹا اس موقع کو ضائع نہ کرو اور لاہور جانے کی تیاری کرو ٗ وہاں مرشد پاک آپ کے منتظر ہوں گے۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ حضرت شاہ عنایت قادری ؒ تصوف کی دنیا میں فقر کے ایک درخشاں ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اپنے دور کے صاحب نظر ٗ صاحب کشف ٗ صاحب کرامت ٗ صاحب تصوف ٗ صاحب تصرف ٗ صاحب مراقبہ ٗ صاحب توحیدٗصاحب مشاہدہ و وصال حق بزرگ ہیں۔ روحانیت کی دنیامیں جب مرید اپنے پیر کی جانب بڑھتا ہے تو پیر بھی اسی کی جانب متوجہ ہوتا ہے، ذہن و دل کے یہ رابطے ٹیلی مواصلات کے جدید نظام سے بھی کہیں زیادہ موثر اور فعال تصور کیے جاتے ہیں ۔بہرکیف

(7)
جنگلوں ویرانوں کا رخ کرتے ہوئے اور بستیوں کی خاک چھانتے ہوئے سید عبداﷲ شاہ ؒ لاہور پہنچ گئے ۔سفر کی تھکان سے نڈھال ہوکر ایک درخت کے نیچے سو گئے ۔وہاں ایک بار پھر آسمان سے تخت پر نورانی صورت والے بزرگ سید عبدالحکیم ؒ اتر ے اور فرمایا عبداﷲ تمہارا مرشد اسی شہر میں ہے، ان کانام حضرت شاہ عنایت قادری ؒ ہے۔ ان سے مل کر فیض حاصل کرواور مزید تاخیر نہ کرو ۔چنانچہ آپ اسی وقت ننگے پاؤں حضرت شاہ عنایت قادری ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اس لمحے حضرت شاہ عنایت قادری ؒ نے فرمایا کہ میری بیعت کی شرط یہ ہے کہ تم پانچ سو روپے نقد ٗ پانچ طلائی کنگن ٗ پانچ زری پوشاک اور پانچ سو قیمت کاگھوڑا بطور نذرانہ پیش کرو پھر تمہیں مرید کرلیا جائے گا۔ یہ سب اہتمام آج شام سے پہلے پہلے ہونا چاہیے۔اگر تم ایسا نہ کرسکے تو کسی اور جگہ مرشد تلاش کرو ۔
حضرت شاہ عنایت قادری ؒ کی یہ شرط سن کرآپ بہت پریشان ہوئے کیونکہ اس وقت آپ کے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی دربدر پھرنے والا درویش اس قدر قیمتی اشیاء کہاں سے لاتا ۔ سخت پریشان ہوئے اور اسی عالم میں دریائے راوی کے کنارے بیٹھ کر بہتے ہوئے پانی کی لہروں کو گننے لگے۔ عین اس وقت ایک درویش آپ کے پاس آیا اور کہا میاں میں اس دریا میں غسل کرنا چاہتا ہوں ٗ میرا گھوڑا اوریہ سامان تم اپنے پاس رکھو ۔ابھی آپ نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ وہ شخص خوبصورت گھوڑے سمیت سب کچھ چھوڑ کر دریا میں کود گیا اور پھر پانی کی سطح پر نہ ابھر سکا۔ بہت دیر انتظار کے بعد ادھر ادھر تلاش کیا جب دریا میں کودنے والے کا کوئی سراغ نہ ملا تو آپ نے گٹھڑی کو کھول کر دیکھا تو اس میں وہ سارا سامان موجود تھا جس کا تقاضا حضرت شاہ عنایت قادری ؒ نے آپ سے کیا تھا ۔آپ کو پتہ چل گیا کہ یہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ حضرت شاہ عنایت ؒ ہی تھے جنہوں نے بطور آزمائش یہ سب کچھ کیا ہے ۔گھوڑا اور سامان کی گٹھڑی لے کر آپؒ ، حضرت شاہ عنایت قادری ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام واقعہ بیان فرمایا ۔ آپ کی بات سن کر حضرت شاہ عنایت قادری ؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ۔اے سید زادے یہ ہم ہی تھے جو تمہاری مشکل کو آسان کرنے گئے تھے ۔ اب آؤ تمہیں مرید کیے لیتے ہیں ۔یہ سن کر آپؒ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مرشد کامل نے ایک ہی نظر میں طالب صادق مرید کو ولایت عطا کردی ۔ سینہ روشن ہوگیا اور نور توحید کا سورج آپ کے سینے میں چمکنے لگا ۔بعد ازاں آپؒ کو بلھے شاہ کالقب دے کرنصیحت فرمائی۔ سنو عبداﷲ اپنے نفس کی قوت کو آزمانا ٗ کبھی بھوک اور کبھی پیاس سے ٗ کبھی تیز دھوپ اور کبھی سخت سردی سے ٗ یاد رکھنا کہ ایثار ٗصبر و قناعت اور توکل تصوف کی عمدہ ترین عمارت کے چار ستون ہیں ۔ اگر ایک ستون بھی کمزور رہ جائے تو عمارت میں نقص رہ جاتا ہے اور عمارت کمزور رہ جاتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ منہدم ہی ہوجائے ۔پھر منزل شوق میں آسانی کی دعا کرتے ہوئے آپؒ( سید عبداﷲ شاہ المعروف بابا بلھے شاہ ؒ ) کو قصور شہر جانے کا حکم دیاآپؒ نے اپنی باقی زندگی کو مرشد کے بتائے راستوں پر گامزن رہتے ہوئے ہی گزار دیا ۔آپ ؒ سے وابستہ روحانیت کے بے شمار واقعات زبان زد عام ہیں اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں لیکن یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھا گیا ۔
حضرت بابا بلھے شاہ ؒ نہ صرف ایک عظیم صوفی شاعر ٗ ولی کامل اور عالم تصوف کے شہنشاہ تھے بلکہ آپ ؒ کو پنجاب کے سب سے بڑے صوفی شاعر کا مرتبہ بھی حاصل ہے ،آپ کا اکثر کلام کافیوں کی صورت میں ہے۔آپؒ کی شاعری کو الہامی بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ بطور مثال یہاں آپ ؒکی صرف ایک کافی تحریر کی جارہی ہے ۔
بلھیا کیہ جاناں میں کون
نہ میں مومن وچ مسیتاں
5نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
3نہ میں پاکاں وچ ٗ پلیتاں
3نہ میں موسے نہ فرعون
/بلھیا کیہ جاناں میں کون
نہ میں وچ پلیتی پاکی
1نہ وچ شادی ٗ نہ غمناکی
1نہ میں آبی ٗ نہ میں خاکی
1نہ میں آتش ٗ نہ میں پون
/بلھیاکیہ جاناں میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایا
;نہ میں آدم حوا دا جایا
7نہ کجھ اپنا نام دھرایا
7نہ وچ بیٹھن ٗ نہ وچ بھون
1بلھیا کیہ جاناں میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
3نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
5میتھوں ود ھ نہ کوئی سیاناں
-بلھا اوھ کھڑا ہے کون
1بلھیا کیہ جاناں میں کون

(8)
آپ نے آیات قرآنی کا پنجابی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ یہ اعزاز کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔1147ہجری میں حضرت شاہ عنایت ؒ کا انتقال ہوا تو مرشدپاک کی جدائی میں آپ ؒ بھی بے قرار اور مضطرب رہنے لگے۔ چنانچہ 24 سال بعد 1171 ہجری کو آپؒ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور قصور شہر میں ہی آسودہ خاک ہوئے ۔ رحلت کے وقت آپ کی عمر ایک سو دس سال تھی ۔( استفادہ کتاب حضرت بابا بلھے شاہ ؒ از سید ارتضی علی کرمانی )
...................
قصور شہر کی ایک اورمعروف شخصیت ملکہ ترنم نور جہاں بھی ہے ۔جو 21 ستمبر 1926 ء کوٹ مرادخان قصور میں پیدا ہوئیں ۔ والدین نے ان کا نام " اﷲ وسائی " رکھا ۔آپ کے بھائیوں میں نواب دین ٗ گل محمد ٗ محمد حسین ٗ محمد شفیع ٗ اور عنایت حسین شامل ہیں جبکہ عیدن بی بی ٗ گلزار بیگم ٗ مینا بیگم ٗ بھارو ٗ عمدہ بیگم بہنیں ہیں لیکن آپ سب بہن بھائیوں سے چھوٹی تھیں۔ابھی ہوش سنبھالا ہی تھا کہ موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انہیں قصور شہر میں ہی موجود استاد غلام محمد کے سپرد کردیاگیا ۔نور جہاں نے سات سال کی عمر میں ہی فنی زندگی کا آغاز کردیا تھا ۔ وہ میلوں میں کام کرنے والے تھیڑوں کے سٹیج پر آتی اور دو تین گیت گا کر خوب داد وصول کرتی ۔اسی دوران آپ کے والد(مدد علی ) آپ کو موسیقی کی دنیا کے ایک اور شاہکار جی اے چشتی کے پاس لے گئے اور اپنی بیٹی کی سرپرستی کی درخواست کی ۔بے شک اس وقت جی اے چشتی باقاعدہ موسیقار تو نہیں تھے لیکن ان کی تیار کی گئی دھنیں گانوں کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھیں۔یہیں سے نور جہاں کی کامیابی کا چرچا قصور سے نکل کر فلمی دنیا ( ممبئی ) کے دروازے پر دستک دینے لگا ۔
1942میں ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے جب فلم خاندان کا آغا ز کیا تو نور جہاں کو پہلی مرتبہ بطور ہیروئن فلم میں کاسٹ کیاگیا۔یہ فلم نور جہاں اور شوکت رضوی کو اس قدر قریب لے آئی کہ آپ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ۔قیام پاکستان سے پہلے نور جہاں نے بھارتی اداکار پران اور دلیپ کمار کی فلم میں بھی بطور ہیروئن کام کیا اور نہایت مختصر مدت میں شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچیں ۔ آپ نے چن وے ٗ دوپٹہ ٗ گلنار ٗ انارکلی ٗ پردیسن ٗ نیند ٗ کوئل ٗ پاٹے خان ٗ نوراںٗ لخت جگر ٗ چھومنتر اور مرزا غالب میں بطور اداکارہ اور گلوکارہ کام کیا۔بطور اداکارہ مرزا غالب ان کی آخری فلم تھی ۔بعد ازاں نور جہاں اور شوکت رضوی کے مابین اختلاف کی خلیج حائل ہوگئی ،جو علیحدگی کا روپ دھار گئی ۔شوکت رضوی سے دو بیٹے اکبر حسین رضوی ٗ اصغر حسین رضوی جبکہ بیٹی ظل ہما پیدا ہوئی ۔1960 ء میں نور جہاں نے اداکار اعجاز درانی سے شادی کرلی جن سے تین بیٹیاں حنا ٗ شازیہ اور نازیہ پیدا ہوئیں۔1965 ء میں اعجاز درانی سے طلاق لینے کے بعد نور جہاں نے پھر اپنی زندگی کو صرف اور صرف گائیکی کے لیے وقف کردیا۔1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران نور جہاں کے جنگی ترانوں نے فوجی جوانوں اور پوری قوم میں نیا جوش و و لولہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نئی روح بھی پھونک دی ۔ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیا رکھاں ٗ اے وطن کے سجیلے جوانو ٗ کرنیل نی جرنیل نی ٗ ایہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے جیسے جنگی ترانوں نے نور جہاں کو ملکہ ترنم نور جہاں کے بلند مرتبے پر فائز کردیا ۔ملکہ ترنم نور جہاں کو پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے کا اعزاز حاصل ہے یہ گیت اردو ٗ پنجابی ٗپشتو ٗ فارسی اور انگریزی زبانوں میں بھی تھے ۔ان کا مقبول ترین گیت فیض احمد فیض کی غزل " مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ " تھا جبکہ آخری گانا "کیہہ دم دا بھروسہ یار دم آوے نہ آوے " تھا۔یہاں فیض احمد فیض کی معروف ترین غزل کو درج کیا جارہا ہے جو آج بھی ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں ہی عوام کے ذہن و دل میں محفوظ ہے ۔
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا کہ یوں ہوجائے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دل کش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجیے
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
(9)

فلمی دنیا اور گائیگی کے میدان میں بے مثال کارکردگی کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو " پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ " اور " ستارہ امتیاز "دیا گیا۔ پہلے پتے کی بیماری لاحق ہوئی، پھر دل کی بیماری نے آگھیرا ۔علاج کی غرض سے لندن ٗ امریکہ بھی گئیں لیکن وطن عزیز کی محبت نے واپس آنے پر مجبور کردیا ۔بیماری کا غلبہ دن بدن بڑھتا چلا گیا حتی کہ 27 رمضان المبارک 23 دسمبر 2000 ء کی سہ پہر آپ کراچی شہر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔اس کے باوجود کہ قیام پاکستان کے بعد ان کی زندگی کا زیادہ عرصہ لاہور اور آخری سال کراچی میں گزرے ،لیکن کوٹ مراد خان قصور کی فضاؤں میں آج بھی ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز کی گونج سنی جاسکتی ہے ۔جہاں وہ پکار پکار کے مجھ جیسے آنے والوں کو یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ " مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ "۔بہرکیف جہاں قصور شہر کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے وہاں دنیائے موسیقی بھی ملکہ ترنم نور جہاں کے ذکر کے بغیر مکمل قرار نہیں دی جاسکتی ۔وہ صدیوں کی فنکارہ اور گلوکارہ تھیں ان کی آواز میں اﷲ تعالی نے ایک خاص سوز ٗ وصف اور جادو پیداکر رکھا تھا جو سننے والوں کے دل میں اتر کر ان کے دماغ کو قبضے میں کرلیتا تھا اور مدتوں اس کے حصار سے نکل نہ پاتا ۔ ان کی گائی ہوئی ایک نظم " ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان " ان کو ہمیشہ سامعین کے دلوں میں زندہ رکھے گی ۔
...................
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ تاریخی اعتبار سے قصور شہر کو لاہور شہر کے برابر قرار دیاجاتا ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں حافظ قرآن موجود رہے ,وہاں گنج شکر حضرت بابا فرید الدین ؒ سمیت کئی ولی کامل کی قدم بوسی کااعزاز بھی سرزمین قصور کو حاصل ہوا ۔چونکہ یہ شہر لاہور سے دہلی کی گزر گاہ پرواقع ہے ،اس لیے افغانستان سے ہندوستان پر قبضے کا خیال لے کر جو بھی حملہ آور آیا اسے دہلی تک پہنچنے کے لیے سرزمین قصور سے ہی گزرنا پڑا ۔تباہی اور بربادی کے علاوہ یہاں کئی جنگی معرکے بھی لڑے گئے ٗ ان کا ذکر تو کسی نہ کسی طرح تاریخ ہندوستان میں موجود ہوگا لیکن قصور شہر میں واقع عجائب گھر دور حاضر میں بھی ان بیتے ہوئے ادوار کی یادگار کی حیثیت سے ہمارے درمیان آج بھی موجود ہے ۔جو ضلعی کمپلیکس کے بالکل سامنے واقع ہے ۔ آئیے اس عجائب گھر کے اندر جھانک کر دیکھیں وہاں کیا کیا اور کون کونسے تاریخی نوادرات اپنے ماضی کی یاد دلا رہے ہیں۔یہ عجائب گھر پانچ گیلریوں پر مشتمل ہے ۔
پہلی گیلری آثار قدیمہ کے حوالے سے ہے ،اس گیلری میں چکوال سے دریافت شدہ پرانے درختوں اور ہڈیوں کے نمونے رکھے گئے ہیں۔جن کی عمر کا اندازہ 88 لاکھ سے ایک کروڑ سال تک لگایا گیا ہے اس کے علاوہ ہڑپہ اور چکوال کے دیگر تاریخی مقامات کی کھدائیوں سے ملنے والی پکی مٹی کے برتن ٗ ٹھیکریاں ٗ انسانی اور حیوانی مورتیاں ٗ اوزان کے پیمانے اور باٹ بھی موجود ہیں۔ گیلری میں گندھارا عہد کے متعلق بدھا اور ہندو دیوتاؤں کے مجسمے بھی رکھے گئے ہیں۔دوسری گیلری میں یونانی ٗ پارتھی ٗ کشان ٗ ہندوستان ٗ قدیم اسلامی ٗ مغل ٗ سکھ اور برطانوی عہد کے سکے بھی موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ گیلری میں 1948 ء سے لے کر اب تک کے جاری ہونے والے سکے اور کرنسی نوٹ بھی ہیں ۔تیسری گیلری اسلامی کیلی گرافی کے نمونوں اور قدیم اسلحے پر مشتمل ہے۔ اس گیلری کے تین ضمنی حصے ہیں۔ پہلے حصے میں صنائع دستی ٗ لکڑی کی کھدائی والا کام ٗ پچی کاری ٗ زیورات اور گھریلو استعمال کی دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں ۔ دوسرا حصہ مخطوطات اور خطاطی پر مشتمل ہے جس میں مشہور خطاط حافظ مرتضی افغان قصوری کے ہاتھ کا 1179 ء میں لکھا ہوا قرآن پاک اور خط نسخ میں عزیز خان کشمیری کے ہاتھ کا لکھا ہوا 1220 ء کا مخطوطہ " دلائل الخیرات " خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔ خط نستعلیق اور دیگرنمایاں رسوم الخطوط کے نمونے بھی یہاں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔تیسرا حصہ مسلم عہد اور اس کے بعد کے اسلحہ پرمشتمل ہے ۔ اس حصے میں قدیم تلواریں ٗ خنجر ٗ چاقو ٗ زرہ بکتر ٗ پستول ٗ اور بندوقیں رکھی گئی ہیں۔
چوتھی گیلری میں تحریک پاکستان سے منسوب اہم کرداروں اور تحریک آزادی کو قدم بقدم اجاگر کرنے کے لیے داستان کو تصویروں کی صورت میں پیش کیاگیا ہے۔یہاں پر پاکستان کے قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کے ہاتھ سے لکھا ہوا قومی ترانہ بھی آویزاں ہے۔
پانچویں گیلری بطور خاص قصور شہر کے حوالے سے ہے ۔ یہ شہر مدتوں سے لکڑی کی خوبصورت کھدائی کے کام ٗ لکڑی پر روغنی کام ٗ چمڑے کے کام ٗ کھڈی سے تیار کی جانے والی مصنوعات کے حوالے سے مشہور چلا آرہا ہے ۔مقامی ہنرمندوں کے تیار کردہ چار خانوں والے کھیس ٗ دریاں اور چمڑے کی زینیں دنیا بھر میں مشہور رہی ہیں ۔ ان کے نمونے اس گیلری میں موجود ہیں۔عجائب گھر سے ملحقہ ایک پرشکوہ عمارت ہے جس میں مغل شہنشاہ شیر شاہ سوری کے ایک وزیر کی قبر موجود ہے ۔ سوری دور حکومت میں وکیل خان نامی اس وزیر کی عملداری میں قصور کا علاقہ شامل تھا۔ان کی وفات 1545عیسوی لکھی ہوئی ہے اس عمارت میں شاہی قلعےٗ مینار پاکستان اور چنیوٹ کی شاہی مسجد کے ماڈل بھی پڑے ہوئے ہیں۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ عجائب گھر اور اس میں رکھی گئی تمام نادر اور قدیم اشیاء اور فن حرب نئی نسل کو پرانے وقتوں اور بزرگوں کی شاندار روایات یاد دلانے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔یاد ماضی ہر زندہ قوم کے لیے ایک سرمایے کی حیثیت رکھتا ہے، جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں وہ خود بھی اپنے ماضی کا حصہ بن جایا کرتی ہیں ۔( استفادہ مضمون برائے قصور عجائب گھر از: عبدالعلیم قمرسنڈے میگزین نوائے وقت 3 جولائی 2011 ء)

(10)
................
بہرکیف ہم قصورریلوے اسٹیشن پر اتر کر اپنی پھوپھو ( سکینہ بیگم ) کے گھر واقع باغیچی فتح دین کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ ریلوے کوارٹروں سے وابستہ والدین اور دادا دادی کے حوالے سے بے شمار یادیں ذہن میں اتر رہی تھیں ۔قصور ریلوے اسٹیشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں میرے دادا ( خیر دین خان ) بھی کیبن مین کے فرائض انجام دے چکے ہیں اور میرے والد اور والدہ بھی یہاں کچھ عرصہ ریلوے کوارٹروں میں قیام پذیر رہ چکے ہیں ۔جن کی خوشبو میں وہاں سے گزرتے ہوئے بخوبی محسوس کررہا تھا ۔وقت کتنابے رحم ہے نہ دادا رہے نہ دادی ٗ نہ والد رہے اور نہ والدہ ۔ سب اپنی اپنی زندگی گزار کر منوں مٹی میں جاملے لیکن جہاں جہاں ان کے شب و روز گزرتے رہے اور جس جس مقام پر ان کے قدم پڑتے رہے وہ سب جگہیں میرے لیے مقدس گاہ کا روپ دھار چکی ہیں۔ چلتے چلتے سوچ رہا تھا کبھی وہ وقت بھی تھا جب شٹل کاک جیسا برقع پہنے ماں کی انگلی تھام کر میں یہاں آیا کرتا تھا لیکن اب ماں تو ساتھ نہیں رہی، ماں جیسی بڑی بھابی رقیہ اکرم موجود ہیں ،جسے میں اب ماں ہی کہتا ہوں ۔ مردوں میں مجھے ہی سب پر برتری حاصل تھی لیکن میں اتنا بڑا کب ار کیسے ہوگیا، مجھے خود بھی یاد نہیں ۔ میں تو ابھی تک خود کو اپنی ماں کی آغوش میں کھیلتا ہوا بچہ ہی تصور کرتا ہوں ۔یہ الگ بات ہے کہ 56 سال بعد اب ایک عمر رسیدہ انسان بن چکا ہے لیکن دلوں کے راز اﷲ ہی جانتا ہے ۔میں اب بھی ان دنوں کو زندگی کے اہم ترین دن شمار کرتا ہوں جب ماں اور باپ کے نام سے میری پہچان ہوا کرتی تھی ۔کوئی یہ کہتا کہ یہ ہدایت بیگم کا لڑکا ہے تو کوئی کہتا کہ یہ دلشاد خان لودھی کا بیٹا ہے ۔اس لمحے میں فخر سے سر بلند کرکے کہتا ....جی میں وہی ہوں جو آپ نے کہا ہے ۔میں اس وقت کو ان کیسے بھول جاؤں جنہوں نے مجھے زندگی کا شعور دیا ٗ معاشرے میں چلنا پھرنا سکھایا اور سب سے بڑھ کر پاکستان کاایک باوقار اور وطن سے محبت کرنے کا شعور بخشا ۔
بہرکیف اونچی نیچی گھاٹیوں سے اتر کر جب میں اپنی پھوپھو ( سکینہ بیگم ) کے گھرکی دہلیز پر پہنچا تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ وہ ہسپتال سے فارغ ہوکر گھر واپس آگئی ہیں ۔گھر میں داخل ہوتے ہی اس کے مکینوں کی درد ناک کہانی نے میرے ذہن میں کروٹ لینی شروع کردی ۔کبھی وہ وقت بھی تھا جب اس گھر میں میرے پھوپھا مرزا محمد بیگ کی حکمرانی ہوا کرتی تھی وہ پنجاب پولیس میں بطور کانسٹیبل ملازم تھے لیکن فرض شناسی اور نیک نامی کے اعتبار سے ان کو قصور شہر میں ہر کوئی اچھے الفاظ میں یاد کرتا تھا۔اس حوالے سے انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی بھی عطا کیاگیا ۔ میں نے تمغہ حسن کارکردگی کے بارے میں جب اپنی پھوپھو سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ قصورشہر کی حدود میں ایک قتل ایسا ہوا تھا جس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا ،بہت تفتیش کے بعد پولیس جب کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو انہوں نے اعلان کیا کہ جو بھی پولیس اہلکار اپنی ذہانت اور تحقیق سے اس قتل کیس کا راز حاصل کرے گا اس کو محکمہ پولیس کی جانب سے میڈل دینے کی سفارش کی جائے گی ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ قصور پولیس کو دو الگ الگ ڈویژنوں میں تقسیم کیاگیا ہے اے ڈویژن اور بی ڈویژن ۔ مرزا محمد بیگ بی ڈویژن کی پولیس چوکی کوٹ مراد خان میں تعینات تھے۔انہوں نے بھیس بدل کر ارد گرد کی آبادیوں اور گاؤں کا رخ کیا، کبھی جوگی بن کے ٗ کبھی فقیر بن کے ٗ کبھی عورت کا روپ دھار کے ٗ صبح دوپہر شام پھرتے رہے ۔جب وہ عورت کا روپ دھار کر عورتوں کے ایک جمگھٹے میں موجود تھے تو وہاں عورتیں ایک قتل کے بارے میں گفتگو کررہی تھیں۔گفتگومیں شامل ہوئے بغیر انہوں نے اپنے کان اسی جانب لگا دیئے ۔حتی کہ جب ایک عورت نے انکشاف کیا کہ قتل تو اس شخص ( کسی کانام لے کر) نے کیا ہے لیکن مقتول کی گردن وہاں دفن ہے یہ بات اسکو اس کی سہیلی نے بتائی ہے ۔سب عورتیں اس قتل کہانی پرحیران تھیں ۔ مرزا محمد بیگ نے جب اس مقام پر زمین کو کھودا تو واقعی ایک انسانی سر وہاں سے برآمد ہوا ۔اب انہیں یقین ہوگیا کہ عورتیں جن قاتلوں کی نشاندہی کررہی تھیں ،وہ بھی سچ ہی ہوگا۔ چنانچہ پولیس نفری کے ساتھ مرزا محمد بیگ نے چھاپہ مارا اور تمام قاتلوں کو گرفتار کرلیا ۔ اس اعلی ترین خدمت اور الجھے ہوئے قتل کیس کو سلجھانے کے عوض انہیں تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ جو اب بھی میری پھوپھو کے پاس موجود ہے ۔اس گھر میں عزت ٗ شہرت اور خوشحالی کی خوب ریل پیل تھی ۔اﷲ تعالی نے ایک بیٹا بھی عطا کردیا ۔ باپ کی مناسبت سے جس کا نام مرزا امانت بیگ رکھا گیا وہ بھی نہایت خوبصورت ٗ دراز قد اور مضبوط جسم کا حامل نوجوان تھا ۔مجھے یاد ہے کہ جب میرے پھوپھا لاہور میں ہمارے گھر تشریف لاتے تو میں ان کی ٹوپی اور پولیس والی بیلٹ پہن کرمحلے کے بچوں پر رعب جماتا پھرتا ۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا، جب پولیس والوں کو بھی لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھاکرتے تھے اور پولیس اہلکار بھی سر عام رشوت خوری ٗ بدقماشوں کی سرپرستی اور چوری ڈاکوں میں اپنا حصہ وصول نہیں کرتے تھے۔ وردی کی جو عزت ماضی میں تھی وہ اب نہیں رہی ۔اس کا جواب خود پولیس ہی دے سکتی ہے کیونکہ اب 80 فیصد جرائم اور کرائم کے پیچھے خود پولیس ہی دکھائی دیتی ہے ۔مرزا امانت بیگ ابھی سکول میں ہی زیر تعلیم تھا کہ ان کے والد اور میرے پھوپھا کاانتقال ہوگیا ۔ مرزا محمد بیگ کی موت کے صدمے سے جہاں سارا خاندان غم سے نڈھال ہوگیا وہاں میری پھوپھو کے گھر میں ویرانیوں ٗ پریشانیوں اور مالی اعتبار سے بدحالیوں نے ڈیرے ڈال لیے ۔میرا کزن مرزا امانت بیگ بھی کچھ عرصہ پولیس میں ملازم رہا لیکن وہ اپنے والد کی طرح ڈیپارٹمنٹ میں نیک نامی کو برقرار نہ رکھ سکا ۔ اس وقت جبکہ اس کی عمر پچیس سال ہوئی تو ماں اس کی شادی کے بارے میں سوچنے لگی تاکہ گھر میں بہو آئے اور رونق ہو ۔لیکن آج سے آٹھ سال پہلے ایک شام وہ بھی دل کا دورہ پڑنے سے موت کی وادی میں جاسویا ۔اکلوتے اور جوان بیٹے کی موت کا صدمہ ایک قہر بن کے اس گھر پر ٹوٹا ۔ پھوپھو کے وہ تمام خواب تنکوں کی طرح بکھر گئے جو وہ اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں دیکھاکرتی تھی ۔ قدرت کو کیا منظور ہے کسی کو خبر نہیں ۔ بیٹے کی موت کے بعد وہ گھر میں تنہا رہ گئیں ۔

(11)
جب میری والدہ زندہ تھیں تو پھوپھو کئی کئی مہینے ہمارے گھر لاہور میں آکر رہ لیتیں اور ماں کے ساتھ چارپائی بچھاکر صبح دوپہر شام ان حسین یادوں کو تازہ کرتیں جو قیام پاکستان سے پہلے فیروز پور اور فرید کوٹ سے وابستہ تھیں ۔ حسن اتفاق سے پھوپھو اور میری والدہ ٗ خالہ زاد بہنیں تھیں اور بچپن کی سہیلیاں بھی ۔جب وہ پرانی یادوں کو تازہ کرتیں تو میں ان کی باتیں سن کر خوب محظوظ ہوتا بلکہ شام ڈھلے جب بنک سے واپس لوٹتا تو اپنے گھر آنے کی بجائے سیدھا ماں اور پھوپھو کی قدم بوسی کے لیے پہنچ جاتا ۔اکثر اوقات رات کا کھانا( جو شام پانچ چھ بجے ہی تیارہوجاتا تھا ) ماں اور پھوپھو کے ساتھ کھاکر اپنے گھر لوٹتا ۔اس کے باوجودہمارے خاندان کے بہت سے اہم لوگ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی ماں اور پھوپھو کی موجودگی میں وقت بہت اچھا گزررہا تھا کہ اچانک 10 جون 2007 کی سہ پہر ماں بھی فرشتہ اجل کے سامنے بے بس ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔ ماں کے انتقال پر میرے بعد سب سے زیادہ آنسو بہانے والوں میں پھوپھو شامل تھیں کیونکہ وہ گھر جس میں وہ اکثر مہمان ہواکرتی تھیں ،دو الگ الگ گھروں میں تقسیم ہوگئے۔نہ وہ کھلا صحن رہا ٗ نہ امرود کا درخت رہا ٗ نہ وہ برآمدہ رہا جہاں ماں اور پھوپھو صوفے پر دن کا زیادہ حصہ بیٹھ کر گزارا کرتی تھیں ۔سب کچھ تبدیل ہوگیا ۔چھوٹے بھائیوں نے تو گھر کے دو الگ الگ حصے کرکے تین تین منزلہ مکان کچھ اس طرح تعمیر کرلیے ہیں کہ مجھ سمیت گھٹنوں میں درد والا کوئی بھی شخص وہاں بمشکل ہی پہنچ پاتا ہے ۔میں اپنے گھر میں رہنے کے لیے کئی بار پھوپھو کو درخواست کرچکا تھا لیکن ان کا دل سب سے چھوٹے بھائی ارشد کی جانب اس لیے زیادہ مائل ہوتاہے کہ وہ اوراس کی بیوی دونوں رشتے میں بھتیجے اور بھتیجی لگتی ہیں ۔پھوپھو کچھ عرصہ وہاں رہتیں پھر قصور لوٹ جاتیں ۔ میں کئی مرتبہ ان سے درخواست کرچکا ہوں کہ آپ مستقل طور پر لاہور میں ہمارے پاس قیام پذیر ہوجائیں تاکہ ہم آپ کی بہتر نگہداشت کی ذمہ داریاں احسن طریق سے پوری کرسکیں ۔ لاہور سے بار بار قصور جانا معاشی ذمہ داریوں اور صحت کی خرابی کی بنا پر میرے لیے ممکن نہیں ہے۔لیکن پھوپھو ہماری یہ بات ہمیشہ ٹال دیتیں اور بات آئی گئی ہوجاتی ۔یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پھوپھو ( سکینہ بیگم ) کے چند سسرالی رشتے دار قصور میں مقیم ہیں ان کے شوہر کے تین بھائی (مرزاحمید بیگ ٗ مرزا رمضان بیگ ٗ مرزا اسلم بیگ )بے شک اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن ان کے بیٹیاں اور بیٹے قصور شہر میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ پھوپھو کی خدمت میں سب سے زیادہ پیش پیش مرزا اسلم بیگ کی بیٹی باجی ثمینہ بیگم اور ان کی فرماں بردار اولاد ہے جن کی رہائش پھوپھو کے گھرکے بالکل پیچھے واقع ہے ۔پھوپھو سکینہ بظاہر تو اس کی رشتے میں ان کی تائی لگتی ہیں لیکن باجی ثمینہ حقیقی ماں سے زیادہ ان کا خیال رکھتی ہیں۔جب ہم سب بھائی لاہور میں تھے تو شوگر کم ہونے کی بنا پر جب پھوپھو بے ہوش ہوگئیں تو وہی ثمینہ بیگم انہیں لے کرفوری طور پر ہسپتال پہنچیں ،انہی کی نگہداشت کی بنا پر پھوپھو اب پہلے سے بہتر محسوس کررہی تھیں۔
بہرحال ہمیں دیکھ کر پھوپھو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔یہ اپنوں کی وہ کشش تھی جو ہمارے خون میں بھی اسی طرح موجزن تھی۔ رشتوں کی یہی محبت اور کسک سب کچھ چھوڑ کر ہمیں قصور پہنچنے پر مجبور کرگئی ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمیں اپنے قریب پاکر پھوپھوکوبہت حوصلہ ملا لیکن میں یہ بات شدت سے محسوس کررہا تھا کہ سب کچھ گنوا کر بھی وہ بہت حوصلہ مند نظر آئیں، اب ان کے پاس بچا ہی کیا تھا شوہر بھی بیس سال پہلے فوت ہوگیا ۔ اکلوتا بیٹا بھی آٹھ سال پہلے ساتھ چھوڑ گیا ۔اپنوں کی جدائی اورمالی پریشانیوں میں تو ایک ایک لمحہ بھی گزرنا محال ہوجاتا ہے کہاں شوہر اور بیٹے جدائی کے اعتبار سے ٗکتنے دن ٗکتنی راتیں اور کتنے منٹ اور کتنے سیکنڈ بنتے ہیں جب آگ اپنے دامن کو لگی ہو تو سکون اور قرار کہاں میسر آتا ہے لیکن اﷲ تعالی ہی ہے جس نے ان آزمائشوں میں بھی زندگی گزارنے کا حوصلہ انہیں بخش رکھاہے ۔
....................
میں دیکھ رہا تھا کہ اس گھر میں چرخہ بھی ایک کونے میں موجود تھا ٗ چھج اور چھاننی بھی نظر آئی- مرچیں پیسنے والی کونڈی ٗ اچار ڈالنے اور سالن پکانے والی مٹی کی ہانڈیاں بھی ۔ مٹی کا ایک چولہا اور گوبر کے اوپلے ( تھاپیاں )بھی دکھائی دیئے۔ لیکن ان کو استعمال کرنے والے وہ ہاتھ نظر نہیں آئے جو عام گھروں میں بہو ٗ بیٹوں ٗ بیٹیوں اور بچوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ایک کمرے کے مکان میں چھت کا کوئی پنکھا نہیں تھا ,دو ہک تو نظر آئے لیکن ان میں بھونڈوں کا بسیرا تھا ان میں سے ایک بھونڈ تو بھائی اشرف کے ہاتھ اپنی جا ن بھی گنوا بیٹھا ۔نہ گھر فریج موجود تھا، نہ ٹی وی اور نہ ہی اچھا باتھ روم ۔ گھر میں موجود صرف ایک نلکا تھا جس پر پلاسٹک کی ٹوٹی نصب تھی میونسپل کارپوریشن کے اس نلکے میں بھی دن میں ایک دو گھنٹوں کے لیے ہی پانی آتا تھا، پانی ذخیرہ کرنے کے لیے گھر میں کوئی ٹینکی موجود نہ تھی، نلکے کے نیچے پڑا ہوا پلاسٹک کاایک ٹبپ ہی پانی کے حوالے سے پوری کائنات تھا ۔باورچی خانے کی دیواریں تو اٹھی ہوئی تھیں لیکن ایک ایک اینٹ سے ویرانی اور وحشت ٹپک رہی تھی ،وہ بیٹھک جس میں کبھی میرے کزن مرزا امانت بیگ اور ان کے دوست بیٹھ کر ہلہ گلہ کیا کرتے تھے، ہڑپہ اور موہنجوداڑو کا منظر پیش کررہی تھی گھر میں پہلے ایک بھینس ہوا کرتی تھی، کچھ عرصہ پہلے وہ بھی مر گئی ۔یہ سب کچھ دیکھ کر میں سوچ رہاتھا کہ زندگی تو ہر انسان کے لیے ایک انمول تحفہ ہوتی ہے جو اسے ہر حال میں گزارنی پڑتی ہے لیکن کانٹوں کی سیج پر زندگی کیسے اورکب تک گزاری جاسکتی ہے ۔اس لمحے میں پھوپھو کی جرات اور بہادری کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا ۔
نہایت کمزوری اور لاغر پن کی حالت میری پھوپو میرے سامنے بیٹھی ہوئی تھیں ۔ابتدائی چند سالوں کی خوشیاں اور بیس سال سے غم ہی غم ٗپریشانیوں ہی پریشانیوں نے انہیں کچھ اس طرح گھیر رکھاتھا کہ اس سے نجات کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا ۔ بہت مشکل سے میں اپنے آنسو ضبط کر پارہا تھا۔ دل میں بار بار ابال اٹھ رہا تھا اف ۔ میرے خدایا یہ سب کیا ہے ۔کیا سارے غم اور پریشانیاں میری پھوپھو کے ہی نصیب میں لکھ دی گئی ہیں لیکن پھرمیں رب کا شکر اداکرتا کہ 67 سال کی عمر میں بھی وہ کسی بڑی یا موذی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں ۔ صحت اور تندرستی بھی اﷲ تعالی کا بڑا احسان ہے ۔ان سوچوں میں گم اچانک میری آنکھ لگ گئی ۔خواب میں کیا دیکھتاہوں کہ اسی گھر میں مرزا امانت بیگ نہایت اجلے کپڑے پہنے موجود ہے ،اس کی بیوی چولہے پر کھانا تیار کررہی ہے جبکہ چار بچے شرارتوں میں مصروف ہیں ۔ دادی انہیں پیار بھی کررہی ہے اور شرارتوں پر ڈانٹ بھی رہی ہے۔اسی اثنا میں پولیس کی وردی پہنے میرے پھوپھا گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔پوتے اور پوتیاں ٹانگوں سے چمٹ جاتی ہیں کوئی بچہ ٹافی مانگتا ہے تو کوئی بچہ بازار جانے کی ضد کرتا ہے۔دادی کہتی ہے کہ ابھی تو تمہارے دادا ڈیوٹی سے واپس آئے ہیں تم انہیں کیوں تنگ کررہے ہو ۔ اسی اثنا میں بجلی بند ہوگئی اور میں نیند سے حالت بیداری میں آگیا ۔اس کے ساتھ ہی وہ خواب بھی ختم ہوگیا جو میں نیند کی حالت میں دیکھ رہا تھا میرے سامنے ایک بار پھر وہی ویرانیاں تھیں۔بے شک گرمی کا آغاز ہوچکا ہے جس گھر میں صرف ایک ہی پنکھا ہو اور وہ بھی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بند ہو ۔اس گھر میں ایک شخص بیمار بھی ہو اور دور و نزدیک سے مزاج پرسی کرنے والے بھی جمع ہوں، کیا لوڈشیڈنگ اور گرمی کی شدت عذاب بن کے نازل نہیں ہوتی لیکن عوام پر کیا گزرتی ہے پاکستانی حکمرانوں کو اس سے کیا مطلب۔ ان کے اپنے ائیرکنڈیشنڈ تو کسی بھی لمحے بند نہیں ہوتے ۔بجلی کی لوڈشیڈنگ تو خیر پہلے بھی ہوتی تھی لیکن روٹی کپڑا مکان کا وعدہ کرنے والے حکمران جب سے برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے نہ صرف لوڈشیڈنگ کو دوگنا کردیاہے بلکہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی اس قدر اضافہ کردیاہے کہ غریب روٹی کھانے سے بھی ترس رہے ہیں ۔
میری وہ پھوپھو جو بے چاری صرف 1500 روپے ماہانہ ملنے والی شوہر کی پنشن میں زندگی کے آخری دن پورے کررہی ہیں، کیا یہ زندگی اس کے لیے عذاب نہیں بن گئی لیکن ا ن کے صبر کی انتہا تو دیکھیں کہ وہ روٹی پر ایک آلو رکھ کر بھی پیٹ بھر لیتی ہیں۔ چائے مل جائے تو پی لیتی ہے نہ ملے تو صبر کرلیتی ہے ،کبھی میٹھے یا خوش ذائقہ کھانوں کی فرمائش نہیں کرتیں ۔ میں نے زندگی میں ان سے زیادہ صابر اور شاکر انسان نہیں دیکھا ۔
گھڑی پر جب سہ پہر کے چار بج رہے تھے تو سب نے لاہور واپسی کا ارادہ کیا۔ میں پھوپھو سے اجازت اور پیار لینے کے لیے تین مرتبہ گیا اور تینوں مرتبہ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ڈبڈباتے لہجے میں کہا.... بیٹا تم جارہے ہو اﷲ آپ کی حفاظت کرے ۔ جب وہ میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر رہی تھیں تو میں نے محسوس کیاکہ ایک ان دیکھی لہر میرے جسم میں سرایت کررہی تھی شاید یہی وہ محبت تھی جو انسانی خون میں پروردگار نے پیدا کررکھی ہے ۔رشتوں کی وسعت اور قربت کے باعث اس میں کمی و بیشی تو ہوسکتی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ میری مرحومہ ماں بھی وہیں پر موجود ہیں اور مجھے کچھ کہہ رہی ہیں کہ اپنی پھوپھو کا خیال رکھو۔کانوں میں پڑنے والی ماں کی اس آواز پر میں نے بہت اصرار کیا کہ پھوپھو ہمارے ساتھ لاہور چلے لیکن ان کااصرار جاری رہاکہ تندرست ہوکر لاہور آؤں گی اﷲ نے اگر چاہا تو ۔پھر جب آخر ی بار پھوپھو سے شفقت بھرا پیار لے کر میں گھر سے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو رہا تھا تو میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ رہے تھے ۔اس لمحے باجی ثمینہ نے کہا تم مرد ہو اور مرد رویا نہیں کرتے ۔ ہمت سے کام لیتے ہیں ٗ میں نے کہا باجی میں اس عظیم رشتے کو اپنے آنسووں کا خراج پیش کررہا ہوں جس کی محبت اور شدت میرے لہو میں شامل ہے۔میں اس محبت کی شدت سے کیسے بچ سکتا ہوں ۔اس ٹوٹے پھوٹے گھر میں ایک بڑھیا لیٹی ہوئی ہے یہی بڑھیا اس وقت ہمارے خاندان کی سب سے بڑی اور معزز ہستی ہے اس کی دعاؤں کے طفیل تو ہم کامیابیوں کے زینے طے کررہے ہیں لیکن ان کو دینے کے لیے سوائے اپنے آنسووں کے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ۔کیا آنسووں کی شکل میں ان کی بے لوث محبت کی قیمت ادا نہ کی جائے ۔خونی رشتوں میں اب اس کا اور ہے ہی کون۔ سوائے ہمارے ۔ اورہم اس رشتے کی حساسیت کا احساس بخوبی رکھتے ہیں لیکن قسمت تو کوئی نہیں لکھ سکتا ۔ہم اس وعدے کے بعد گھر سے نکل تو آئے کہ صحت یاب ہوتے ہی وہ ہمارے پاس لاہور چلی آئیں گی لیکن بہت دنوں تک پھوپھو کی یاد کو فراموش نہ کرسکے ٗ ہر لمحے ان کے لیے یہی دعا نکلتی ہے کہ باری تعالی جتنی بھی زندگی ہے انہیں صحت اور تندرستی سے گزارنے کی توفیق عطا فرما کیونکہ زندگی اور موت پر تو ہی قادر ہے ۔
***********************
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 667865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.