وہ دعا مانگنے دن کو کیوں نہیں آئے؟ 50 دن سے دریا کے کنارے خیمہ زن پروفیسر کے اکلوتے بیٹے کی لاش کہاں گئی؟

پنجابی کے نامور شاعر اور گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج جھنگ کے پروفیسر کے اکلوتے بیٹے کی لاش کہاں گئی؟
image
دریا کنارے خیمہ زن پروفیسر اور فیملی
 
پنجابی کے نامور شاعر اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے پروفیسر بشارت وقار اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ 16 مئی کو عید الفطر ملنے جھنگ سے نواحی گاؤں سسرال کے ہاں گئے جہاں ان کی سالی کا بیٹا باقر بھی آگیا اور کہا کہ میں ناراض تھا کہ آپ کے اکلوتے بیٹے توقیر نے میری مطلقہ بہن سے شادی سے انکار کیا ہے- مگر آج سے ناراضگی ختم ہو گئی اور آپ اس خوشی میں ہمارے ساتھ چلیں اور رات کی دعوت کھائیں چنانچہ اس پہ اعتبار کرتے ہوئے وہ قریبی گاؤں چاندنہ میں باقر کے گھر گئے اور کھانے کے بعد سو گئے۔
 
پروفیسر بشارت کا کہنا ہے کہ “ صبح باقر نے مجھے کہا کہ آپ توقیر بھائی کو ہمارے ساتھ قریبی دریائے جہلم پر نہانے بھیج دیں مگر میں نے انکار کیا کہ اسے تیرنا نہیں آتا اس لیے کسی صورت لے کر نہ جائیں مگر ان سے چوری وہ اسے صبح صبح 17 مئی کو لے گئے اور 10 بجے فون پر منحوس خبر سنائی کہ وہ دریا میں ڈوب گیا ہے۔ میں اور فیملی بھاگم بھاگ دریا کنارے پہنچے تو باقر اور اس کے ساتھی بظاہر لاش تلاش کر رہے تھے مگر ایک مقامی شخص نے مجھے بتایا کہ جب توقیر ڈوب رہا تھا تو ملزمان نے اسے مرنے دیا“۔
 
ریسکیو 1122 جھنگ اور فیصل آباد اور پاکستان نیوی کے غوطہ خور 3 روز تلاش کرتے رہے مگر لاش ہوتی تو ملتی۔ پروفیسر وقار کا کہنا ہے ملزمان نے لاش کو کہیں ٹھکانے لگا دیا ہے۔ بہرحال مقدمہ درج تو کیا گیا سارے 6 ملزمان گرفتار بھی ہوئے مگر پولیس ان سے لاش برآمد نہ کرسکی۔
 
image
پروفیسر اور ان کی اہلیہ لاش کی تلاش میں دریا کی چھوڑی ہوئی ریت کو کھودتے ہوئے
 
پروفیسر نے بتایا کہ 26 مئی کی رات ساڑھے 11 بجے ملزمان کے 16 رشتہ دار ایک سوزوکی کیری وین اور 6 موٹرسائیکلوں پر دریائے جہلم کے کنارے پہنچے مگر مجھے دیکھ کر فرار ہوگئے جو یقینی طور پر لاش لینے آئے تھے جو انہوں نے کہیں دفن کی ہوگی۔ میں نے تھانہ میں ان کے خلاف اس واقعہ کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی مگر پولیس ملزمان کی وکالت کر رہی ہے۔
 
ہم سب نے جب تھانہ کوٹ شاکر کے ایس ایچ او محمد رمضان سے رابطہ کیا تو اس کا جواب تھا کہ ملزمان سے پروفیسر وقار کی موجودگی میں تفتیش کی گئی مگر انہوں نے حلف دیا کہ وہ دریا کنارے پہنچے تھے تاکہ دعا کریں کہ لاش مل جائے۔ مگر پروفیسر وقار کے سوالات کا پولیس کے پاس کوئی جواب نہیں کہ وہ رات کے ساڑھے 11 بجے دریا کنارے کیا کرنے آئے تھے اور پھر بھاگ کیوں گئے؟
 
وہ اگر دعا مانگنے آئے تو دن کو کیوں نہیں آئے؟ یا کیا یہ دعا گھر بیٹھے نہیں مانگی جاسکتی تھی؟
اب پروفیسر صاحب انکی اہلیہ اور 4 بیٹیوں کو جو 50 دن سے دریا کنارے خیمہ زن ہیں کون اٹھائے گا علاقے کے ارکان اسمبلی انکے دکھ کا مداوا کیوں نہیں کرتے۔
 
image
مقتول توقیر کالج کے مذاکرے میں خطاب کرتے ہوئے
 
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ دریا میں پانی کا لیول کم ہوگیا ہے اور وہ اور ان کی اہلیہ سارا دن کسی کے ساتھ دریا کی چھوڑی ہوئی ریت کو اس امید پر کھودتے ہیں کہ شاید توقیر کی لاش مل جائے ۔ ان کے شاگردوں اور توقیر کے بی ایس فائنل کے کلاس فیلو طلباء بتاتے ہیں کہ کبھی کبھی تو پروفیسر وقار آٹھ کر آوازیں دینے لگتے ہیں کہ میرے بیٹے توقیر اب آجا اور یہ منظر دیکھ کر وہ آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: