رَسُولانِ دین و رَسُولانِ دعوتِ دین !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالمؤمنون ، اٰیت 51 تا 61 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الرسل کلوا
من الطیبٰت و
اعملواصالحا انی
بما تعملون 51 وان
ھٰذهٖ امتکم امة واحدة
وانا ربکم فاتقون 52 فتقطعوا
امرھم بینھم زبرا کل حزب بمالدیھم
فرحون 53 فذرھم فی غمرتھم حتٰی حین
54 ایحسبون انما نمدھم بهٰ من مال وبنین 55
نسارعلھم فی الخیرٰت بل لا یشعرون 56 ان الذین ھم
خشیة ربھم مشفقون 57 والذین ھم باٰیٰت ربھم یؤمنون 58
والذین ھم بربھم لایشرکون 59 والذین یؤتون مااٰتواوقلوبھم وجلة
انھم الٰی ربھم رٰجعون 60 اولٰئک یسارعون فی الخیرٰت وھم لھا سٰبقون 61
اے میرے پیغام رسانو ! معیاری خوراک کھاؤ اور معیاری اعمال اَنجام دو ، تُمہارا کوئی بھی عمل میری نگاہِ نگراں سے اوجھل نہیں ھے ، یقین کرو کہ تُم ایک ہی اُمت ہو ، تُمہارا قانونِ حیات بھی ایک ہی قانونِ حیات ھے اور تُمہارے اُس مُفرد قانونِ حیات کی رُو سے میں تُمہارا وہ مُفرد خالق ہوں جس نے تمہیں پیدا کیا ھے اور جس نے تمہیں یہ قانونِ حیات دیا ھے اِس لیۓ تُم میرے اِس قانون کی تابع داری کرو اور تُم مُجھ سے کبھی بھی سرکشی نہ کرو مگر اِن لوگوں نے تو میرے یہ اَحکام سُن سمجھ کر بھی میرے دین کو ٹُکڑے ٹُکڑے کر دیا ھے اور جس کے ہاتھ میں میرے دین کا جو ٹُکڑا آیا ھے وہ اُسی ٹُکڑے کو لے کر ایک دُوسرے کو نیچا دکھانے میں لگا ہوا ھے ، آپ بھی اِن لوگوں کو ایک مُدت تک اسی خو ش گمانی میں رہنے دیں جو اَب تک اس گمان میں ہیں کہ ھم اَب بھی اِن کی خواہش کے مطابق اِن کے مال و اَولاد کو بڑھاتے رہیں گے ، اور کیا یہ لوگ ابھی بھی اِس خیال میں مُبتلا نہیں ہیں کہ یہ لوگ ابھی تک کوئی بَھلائی کا بیج بو رھے ہیں اور ھم ابھی بھی اِن پر اپنی شفقت نچھاور کر رھے ہیں اور کیا یہ لوگ ابھی بھی ایسا ہی نہیں سمجھتے کہ یہ اپنے پروردِ گار کی ہیبت سے لرزاں و ترساں ہو کر نرم دل ہو چکے ہیں اور کیا یہ لوگ ابھی بھی ایسا نہیں سمجھتے کہ یہ سب لوگ اپنے رَب کی طرف سے دکھائی جانے والی نشانیوں پر یقین رکھنے والے بن چکے ہیں اور کیا یہ لوگ اَب بھی اسی یقین پر قائم نہیں ہیں کہ یہ اپنے روزی رساں کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے جُرم سے باز آچکے ہیں اور کیا یہ لوگ اب بھی اِس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ یہ اپنے روزی رساں کی دی ہوئی روزی میں سے دُوسروں کو اسی طرح دینے لگے ہیں کہ گویا اِن کے دل جزبہِ ترحم سے کپکپا رھے ہیں اور اِن کو اِس بات کا یقین ہو چکا ھے کہ ھم نے اپنے پروردِ گار کے پاس واپس جانا ھے اور کیا اِن لوگوں کا یہ مان اور گمان ابھی بھی قائم نہیں ھے کہ یہ لوگ بَھلائی میں ایسے جلد کار ہو چکے ہیں کہ گویا ایک دُوسرے پر سبقت پانے کے لیۓ ایک دُوسرے کو اُکھاڑتے پچھاڑتے ہوۓ بَھلائی کی طرف بڑھ رھے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عُلماۓ روایت کو اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا پر پہلی نگاہ ڈالتے ہی جو پہلا غلط گمان ہوا ھے وہ یہ غلط گمان ہوا ھے کہ اِن اٰیات کے اِس مضمون میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسُولوں کو معیاری روزی کمانے ، معیاری روزی کھانے اور معیاری اعمالِ حیات اَنجام دینے کا حُکم دیا ھے ، عُلماۓ روایت کا یہی وہ پہلا غلط گمان ھے جس غلط گمان کی بنا پر عُلماۓ روایت نے اِس موضوع کی پہلی اٰیت کی تشریح کرتے ہوۓ پہلے تو اَکلِ حلال و صالح اعمال کے مابین بجا طور پر ایک رَبط و تعلق تلاش کیا ھے اور پھر اُس رَبط و تعلق کی بنا پر یہ بھی بجا طور پر ہی تحریر کیا ھے کہ رزقِ حلال انسان کے دل میں چونکہ صالح اعمال کا داعیہ پیدا کرتا ھے اور اسی لیۓ اللہ تعالٰی نے اپنے تمام پیغمبروں کو اپنے ان دونوں پسندیدہ اَحکام پر عمل کرنے کا حُکم دیا ھے ، عُلماۓ روایت نے اپنے اِس گمان کے حق میں پہلی دلیل دیتے ہوۓ داؤد علیہ السلام کا اپنے ہاتھ سے کمانے کھانے کا ذکر کیا ھے اور دُوسری دلیل دیتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا ھے کہ سیدنا محمد علیہ السلام بھی قریش سے اُجرت لے کر قریش کی بکریاں قریش چَرایا کرتے تھے اور پھر عُلماۓ روایت نے دلیل کے اِن پہلے دو رَدوں پر دلیل کا یہ تیسرا رَدہ بھی چڑھایا ھے کہ اللہ تعالٰی کے ہر نبی نے اپنے اپنے زمانے میں بکریاں چرائی ہیں ، عُلماۓ روایت کی اِس تیسری بات کا مطلب یہ ھے کہ زمین پر سارے اَنبیا ء رُسل کے سارے زمانوں میں رزقِ حلال کا واحد ذریعہ صرف بکریاں چرانا تھا اِس لیۓ اللہ تعالٰی کے سارے اَنبیاء و رُسل نے رزقِ حلال کا یہی ایک ذریعہ اختیار کیا تھا لیکن اگر عُلماۓ روایت کی یہ بات سَچ ہوتی تو پھر اُس زمانے میں یہ اَمر بھی لازم ہوتا کہ ہر نبی اور ہر رسُول اپنی اُمت کے ہر فرد کو رزقِ حلال کے حصول کے لیۓ بکریاں چرانے کی تلقین کرتا لیکن کسی نبی اور کسی رسُول نے بھی اپنی اُمت کو بکریاں چرانے کی تلقین نہیں کی ھے اِس لیۓ ہر نبی کے بکریاں چرانے کی یہ روایت بہر حال غلط ھے اور اِن کا یہ اِستدلال تو بالکُل ہی غلط ھے کہ بکریاں چَرانا رزقِ حلال کا واحد ذریعہ ھے ، مزید براں یہ کہ اِس سلسلہِ کلام کی پہلی اٰیت کے پہلے مضمون کے بعد اللہ تعالٰی کی جو اٰیات وارد ہوئی ہیں اور اللہ تعالٰی نے اُن اٰیات میں جو صورتِ حال بیان کی ھے وہ صورتِ حال عُلماۓ روایت کی اِن سخن سازیوں سے دُور پار کی بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتی ھے کیونکہ اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسُولوں کو جو حُکم دیا ھے وہ حُکم اور ھے اور اُس حُکم کے بعد آنے والی اٰیات میں اللہ تعالٰی کے اِن رسُولوں کا جو عملی اَحوال بیان ہوا ھے کہ وہ عملی اَحوال بالکُل ہی اور ھے اور یہ عملی اَحوال اِس بات کا ایک ثابت شُدہ ثبوت ھے کہ پہلی اٰیت میں اللہ تعالٰی نے جن رسُولوں کو اَکلِ حلال و صالح اعمال کا حُکم دیا ھے اُن رسُولوں سے مُراد اللہ تعالٰی کے وہ رسُول نہیں ہیں جن رسولوں پر اللہ تعالٰی کی وحی نازل ہوتی ھے اور جن رسولوں پر ایمان لانا لازم ہوتا ھے بلکہ اِن رسولوں سے مُراد وہ لوگ ہیں جو اَنبیاء و رُسل کے بعد اَنبیاء و رسول کے دین کے خود ساختہ داعی بنے ہوۓ تھے اور یہ لوگ عھدِ نبوی میں بھی دینِ مُوسٰی و مسیح کے داعی و مُبلغ کے طور پر موجُود تھے اور عھدِ نبوی کے بعد بھی موجُود ہیں ، اسی لیۓ سلسلہِ کلام کی چوتھی اٰیت میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی سے کہا ھے کہ آپ اِن لوگوں کو اِن کی اسی خوش گمانی میں رہنے دیں یہاں تک کہ اِن کی یہ خوش گمانی خود ہی دُور ہو جاۓ لیکن اِس بات کو سمجھنے کے لیۓ سب سے پہلے یہ سمجھنا لازم ھے کہ دین کی دینی زبان اور دین کی دینی لُغت کی رُو سے نبی صرف اُس فردِ بشر کو کہا جاتا تھا جو خالق اور مخلوق کے درمیان ھدایت کا وہ درمیانی ذریعہ ہوتا تھا جو اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان کے لیۓ ھدایت کا پیغام لے کر اہلِ زمین کے درمیان آتا تھا ، نبی کی اِس تعریف کی رُو سے نبی اُس ہستی کو کہا جاتا ھے جو ہستی عالَم غیب سے عالَمِ شہُود میں اللہ تعالٰی کے موجُود ہونے کی خبر لاتی ھے اور اِسی لیۓ اُس کو نبی کہا جاتا ھے اور نبی چونکہ اللہ تعالٰی کے پیغام بر کے طور انسان کے پاس اللہ تعالٰی کا کوئی حُکمِ اَمر و نہی بھی لے کر آتا ھے اِس لیۓ وہ اللہ تعالٰی کے اُس زبانی یا تحریری پیغام کے حوالے سے اللہ تعالٰی کا رسُول بھی ہوتا ھے اور اللہ تعالٰی نے جب سے اپنے اُن بندوں پر نبوت کا دروازہ بند کیا ھے تو رسالت کا دروازہ بھی بند کر دیا ھے کیونکہ دونوں منصب ایک ہی وجُود میں ہوتے ہیں اِس لیۓ جب نبوت کا منصب ختم کیا جاتا ھے تو رسالت کا منصب خود بخود ہی ختم ہو جاتا ھے جس کے بعد زمین پر دین کے حامل اُس نبی کے آنے کا دروازہ بھی بند ہو چکا ھے جس پر وحی نازل ہوتی تھی اور دین کے حامل اُس رسول کے آنے کا دروازہ بھی بند ہو چکا ھے جس رسول پر وحی نازل ہوتی تھی لیکن جو لوگ نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہونے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہونے کے بعد اُن اَنبیاء و رُسل پر نازل ہونے والے اَحکامِ نازلہ سُناتے ہیں زبان و لُغت کے اعتبار سے اُن پر بھی اِس لفظ کا اطلاق ہوتا ھے اور اٰیاتِ بالا میں اُن کو ہی اَکلِ حلال اور عملِ صالح کا حُکم دیا گیا ھے جہاں تک اللہ تعالٰی کے اُن رسولوں کا تعلق ھے جن پر اللہ تعالٰی کی وحی نازل ہوتی تھی تو وہ تمام رسول چونکہ اِن امور کے پہلے ہی پابند تھے اِس لیۓ اُن کو یہ حُکم دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ یہ وہ رسولانِ دین تھے جو دین کو لے کر دُنیا میں تشریف لاۓ تھے اور جن لوگوں کا اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ھے وہ وہ لوگ ہیں جو رسولانِ دعوتِ دین کا منصب سنبھالے ہوۓ ہیں اور جو خود کو اَنبیاۓ بنی اسرائیل کی طرح مامور من اللہ سمجھتے ہیں اور یہ وہی فرقہ باز لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالٰٰی کے دین کو ٹُکڑے ٹُکڑے کیا ہواھے اور اِن میں سے جس کے ہاتھ میں دین کا جو ٹُکڑا آیا ھے وہ دین کے اُسی نامکمل ٹُکڑے کا داعی و مُبلغ بنا ہوا ھے اور یہ زبان و لُغت کے وہی پیغام رساں ہیں جن کا اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ھے جو خود کو اللہ تعالٰی کے دین کا داعی سمجھتے اور کہتے ہیں لیکن اِن کو نہ تو رزقِ حلال مُیسر ھے اور نہ ہی اِن میں وہ علمی صلاحیت موجُود ھے جو علمی صلاحیت دین کے ایک داعی میں ہونی چاہیۓ !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558679 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More