تعلیم یا تجارت

السلام علیکم

آج مجھے یہ لکھتے ہوئے نہایت افسوس سے لکھنا پڑا کہ آج ہمارے وطن عزیز میں تعلیم سے اچھا کوئی اور بزنس نہیں ہے۔

آج جہاں گاؤں دیہات میں بھی علم کی افادیت کو مانا جا رہا ہے اور حکومت پاکستان کی جانب سے بھی نہایت خوش آئند اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن افسوس ان اداروں پر جو آج کل گلی کوچوں میں کھلے ہوئے ہیں اور تعلیم کا مذاق اڑا رہے ہیں ان اداروں میں اساتذہ کی تعلیم کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں پاکٹ منی کے لئے ٹیچر کا درجہ دے دیا جاتا ہے یہ ٹیچر نہ تو کولیفائیڈ ہوتی ہیں اور نہ ہی انہیں سٹوڈینٹ کی نیچرل کے مطابق تدریس کا کوئی علم ہوتا ہے۔اس کے باوجود ان اداروں میں پڑھنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔

ایک طرف تو یہ ادارے ہیں اور دوسری طرف مشہور اور نامور ادارے ہیں جن کی ماہانہ فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ عام آدمی تو کیا اچھے خاصے خوشحال لوگ بھی ان اداروں کے پاس سے گزرنے سے بھی ڈرتے ہیں حیرت اس بات کی ہے کہ ان اداروں میں اکثر ٹیچر ایسے ہیں جو ایک شفٹ سرکاری سکول میں پڑھاتے ہیں اور دوسری شفٹ ان اداروں میں خاص بات یہ ہے کہ ان اساتذہ کو اگر آپ دونوں جگہ پڑھاتے ہوئے دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے سرکاری اسکول میں یہ اساتذہ انتہائی تھکے ہارے اور بے زار انداز سے پڑھاتے ہوئے ملیں گے اور جب یہ ہی اساتذہ ان پرائیوٹ اداروں میں جاتے ہیں تو ان کی پھرتی اور شفقت دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔

یہ تدریسی تضاد ہمیں تو سمجھ نہیں آیا شاید ارباب اختیار کو اس کی وجہ معلوم ہو۔

اگر انہیں اس کے سدباب کا کوئی حل معلوم ہے تو خدارا اس پر عمل درآمد کرنے میں تاخیر نہ کریں کیونکہ کہ آنے والی نسلیں آج کے انقلابی اقدام کی محتاج ہیں۔

شکریہ 
Shabir Akhtar
About the Author: Shabir Akhtar Read More Articles by Shabir Akhtar: 8 Articles with 10219 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.