خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا لیکن اس انسان نے
اشرف المخلوقات ہونے کا حق ادا کیا کرنا تھا انسانیت کی ہی دھجیاں بکھیر
دیں انسان تو انسان جانور بھی ہم کو دیکھ کر شرمندہ ہونے لگے ہیں یہ وہی
اشرف المخلوقات ہے جس پر خدا نے فرشتوں کو کہا تھا کہ میں نے اس انسان کو
اپنا خلیفہ بنایا ہے ہے اور پھر اس خلیفہ نے خوب حق ادا کیا انسانیت کا کہ
ایک حوا کی بیٹی اسلام آباد میں چیخی چلائی لیکن اس کی پکار کو کسی نے نہیں
سنا اس کا چیخنا بیکار گیا کیونکہ یہ انسانوں کی بستی نہیں تھی یہاں تو تو
پتھر کی مورتیاں رہتی ہیں انسان تو شعور دے کر بھیجا گیا یہاں تو جانور
بستے ہیں پھر اس حوا کی بیٹی کی آواز کو کون سنتا اور پھر بے رحمی کی حالت
یہ ہے انصاف کے تقاضوں کا پورا کرنے کا طریقہ کار یہاں یہ ہے کے ان درندوں
کی ضمانت فوری طور پر لے لی جاتی ہے جنہوں نے عورت نام کو کھلونا سمجھ کر
پوری رات کھیلا شاید ان کی اپنی ماں کوئی عورت نہیں ہے ان کی بہن کوئی عورت
نہیں ہے عورت نام سے یہ درندے ناواقف تھے اس لئے انہوں نے یہ حرکت کی اور
عدالت کو ان معصوم لوگوں پر ترس آگیا کے ان لوگوں کو تو معلوم ہی نہیں عورت
کیا ہوتی ہے اور اس کے تقدس کو پامال کرنا کیا ہوتا ہے اس لیے عدالت نے
فوری طور پر ان کی ضمانت کو منظور کیا اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کس سوشل
میڈیا پر وکیل کے سامنے بیٹھ کر وہ فتح کا نشان لہرا رہے ہیں اور بڑی خوشی
کے ساتھ وہ بیان دے رہے ہیں کہ بڑے لوگوں نے چاہا کہ ہم کو سزا مل جائے
لیکن ہمیں عدالت نے رہا کرکے ہم پر بڑی مہربانی کی ہے اسلام آباد میں
درندگی قصور میں درندگی ساہیوال میں درندگی ملک کے کونے کونے میں ریپ کے
بڑھتے جا رہے ہیں ہوس کی انتہا ہوتی جارہی ہے ہم جانوروں سے بدتر ہوتے جا
رہے ہیں انسانیت کا جنازہ اٹھتا دکھائی دے رہا ہے اور پھر بھی ہم اپنے آپ
کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کیا اشرف المخلوقات کو
درندگی کے لیے دنیا میں بھیجا گیا پوچھنا یہ چاہتا ہوں کیا اشرف المخلوقات
صرف ہوس کے لیے دنیا میں بھیجا گیا اور یہ بتاؤ کہ کل اپنے رب کو کیا جواب
دو گے کہ ہم آپ کے خلیفہ تھے ہمیں بنا کر آپ نے فرشتوں کو کہا کہ یہ وہ ہے
جو میری اطاعت کریں گے ندامت تمہارا مقدر بنے گا اور سر اٹھا کر آپ کہیں
بھی یہ لفظ نہیں کہہ سکتے کہ ہم امت محمدی میں پیدا ہوئے تھے ریاست مدینہ
کے دعویدار یہ کیوں نہیں سوچتے مجھے کہ زنا کی سزا اسلام میں کیا ہے لیکن
شاید ماڈرن ریاست مدینہ میں زنا کی سزا کچھ بھی نہ ہو انعامات ہی دیے جاتے
ہوں گے اس لئے عثمان مرزا اور اس کے جو چند دوست تھے جنہوں نے پوری رات
درندگی کی ایک معصوم لڑکی کے ساتھ ان کو انعام کے طور پر ضمانت دے دی گئی
قصور شہر میں جب ایک بیوہ کی بارہ سالہ لڑکی کے ساتھ ریپ کیا گیا اور ان
ملزموں کو بھی عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا تو پولیس کے ان جوانوں پر رشک
آتا ہے مجھے کہ کیا خوب تفتیش کی ہوگی اس کیس کی انہوں نے کبھی وہ پولیس
والے اپنے گھر میں اپنی بیٹی کی طرف دیکھیں اگر اس کے ساتھ ایسا سلوک ہوا
ہوتا تو وہ کیا کرتے لیکن افسوس ہم اشرف المخلوقات نہیں بلکہ جانوروں سے
بدتر ہیں
|