مسکراہٹ سنت نبوی ﷺ

آج ہر کوئی غمگین ہے ہر کوئی ڈپریشن کا شکار ہے اگر ہم اپنے روز مرہ زندگی اور معاملات ومعمولات میں ہم اگر صرف ایک مسکراہٹ کااضافہ کرلیں تو’’ سنت، تجارت، سہولت اور برکت‘‘ کا ایک امتزاج سامنے آجائے گا۔
ایک اور تحقیق کے مطابق مسکراہٹ دل کی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے، جس کی وجہ پرتناﺅ واقعات کے دوران مسکرانے سے دل کی دھڑکن معمول پر آجاتی ہےخادم رسول اللہ ﷺحضرت انس رضی اللہ عنہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں: ’’آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صرف دنیاوی مفاد کی خاطر آتا تھا، مگر شام ہونے سے پہلے پہلے اسے دین اسلام دنیا وما فیہا سے بڑھ کر محبوب اور عزیز از جان ہوجاتاتھا۔وجہ کیا تھی آقا نامدار مدنی تاجدار تاجدار ختم نبوت ﷺ کا برتاو آپ کا حسن سلوک آپ کا لب و لہجہ تھا۔‘‘

مسکراہٹ سنت نبوی ﷺ
آج ہر کوئی غمگین ہے ہر کوئی ڈپریشن کا شکار ہے اگر ہم اپنے روز مرہ زندگی اور معاملات ومعمولات میں ہم اگر صرف ایک مسکراہٹ کااضافہ کرلیں تو’’ سنت، تجارت، سہولت اور برکت‘‘ کا ایک امتزاج سامنے آجائے گا۔
ایک اور تحقیق کے مطابق مسکراہٹ دل کی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے، جس کی وجہ پرتناﺅ واقعات کے دوران مسکرانے سے دل کی دھڑکن معمول پر آجاتی ہےخادم رسول اللہ ﷺحضرت انس رضی اللہ عنہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں: ’’آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صرف دنیاوی مفاد کی خاطر آتا تھا، مگر شام ہونے سے پہلے پہلے اسے دین اسلام دنیا وما فیہا سے بڑھ کر محبوب اور عزیز از جان ہوجاتاتھا۔وجہ کیا تھی آقا نامدار مدنی تاجدار تاجدار ختم نبوت ﷺ کا برتاو آپ کا حسن سلوک آپ کا لب و لہجہ تھا۔‘‘
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ رضي الله عنه قَالَ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَکْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ۔
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في بشاشۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 5 / 601، الرقم: 3641، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 191، الرقم: 17750، والبیھقي في شعب الإیمان، 6 / 251، الرقم: 8047، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 9 / 205، الرقم: 189، وابن المبارک في الزھد، 1 / 47، الرقم: 145۔
''حضرت عبد اﷲ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کسی کو نہیں دیکھا۔''
اِسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔ اسلام مضبوط ہوچکا تھا۔ تمام قبائل عرب فوج در فوج دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ انہی ایام میں قبیلہ عبدالقیس کا ایک وفد بھی رسول اللہ ﷺ سے ملنے آیا۔ ابھی یہ لوگ سواریوں سے اترے نہیں تھے کہ رسول اللہﷺ ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھے۔ انہیں خوش آمدید کہا:’’بہت خوب ہے آپ لوگوں کا آنا! عزت وسرخروئی کے ساتھ آئے ہو! ‘‘
آپ کا یہ خیر مقدمی سلوک دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔ وہ اپنی سواریوں سے کود کر اُترے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے لگے۔
اللہ تعالی نے سورۃ النجم میں ارشاد فرمایا
وانہ ھو اضحک و ابکی
ترجمہ: اور بے شک وہ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے۔
ہم اگر سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کریں تو ہزار ہا مسائل اور مشکلات کے باوجود ہمیں پیارے آقا ﷺ کے چہرہ انور پر مسکراہٹ اور تبسم کا دیدار ہوتا ہے۔
حضور ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ فطری انداز میں رہتے، ہنسی و مزاح میں بھی شریک ہواکرتے اور غم پریشانی میں بھی شریک ہواکرتے۔ کیونکہ خوشی پر مسکراہٹ اور ہنسنا اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے نعمت ہے اور پریشانی پر غم اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔
عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه یُحَدِّثُ حِیْنَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوْکَ، قَالَ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَھُوَ یَبْرُقُ وَجْھُہٗ مِنَ السُّرُوْرِ، وَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْھُہٗ حَتّٰی کَأَنَّہٗ قِطْعَۃُ قَمَرٍ، وَکُنَّا نَعْرِفُ ذَالِکَ مِنْہُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1305، الرقم: 3363، وأیضًا في کتاب المغازي، باب حدیث کعب بن مالک ص، 4 / 1607، الرقم: 4156، ومسلم في الصحیح، کتاب التوبۃ، باب حدیث توبۃ کعب بن مالک وصاحبیہ، 4 / 2127، الرقم: 2769، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 359، الرقم: 11232، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 458، الرقم: 15827، والحاکم في المستدرک، 2 / 661، الرقم: 4193، وقال: ھذا حدیث صحیح۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اُس وقت کی روایت ہے جب وہ غزوہِ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اُنہوں نے بیان فرمایا: (توبہ قبول ہونے کے بعد) جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہِ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی مسرور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرئہ مبارک یوں نور بار ہو جاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہِ انور ہی سے آپ کی خوشی کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حضرت علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی سواری کے لیے گھوڑا لایا گیاآپ نے جب اس کی رکاب میں پاوں رکھا تو بسم اللّٰہ کہا ،پھر اس کی پیٹھ پر سوار ہوئے تو الحمد للّٰہ فرمایا،پھر سواری کی دعا پڑھی ،پھر تین بار الحمد للّٰہ اور اللّٰہ اکبر کہا اور پھر یہ دعا پڑھی :
سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لایغفر الذنوب الا انت۔
’’یارب تو پاک ہے بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ،تو مجھے بخش دے تیرے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں ہے۔‘‘یہ کہہ کر آپ ہنس پڑے۔
میں نے پوچھا !یاامیر المؤمنین! آپ کس بات پر ہنسے؟فرمایا!میرے سامنے ایک بار حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا اور پھر آپ ہنسے تھے وجہ پوچھنے پر آقا عﷺنے فرمایا تھا:’’جب بندہ کہتا ہے’یارب میرے گناہ بخش دے‘اور بزعمِ خویش یہ سمجھتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی میرے گنا ہ معاف کرے گا اور کوئی بخشنے والانہیں تو اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے۔‘‘ اس بات پر حضور ﷺبھی مسکراے تھے اور اس سنت کی پیروی میں سیدنا علیِ مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بھی مسکراے۔ اس سے یہ واضح ہو اکہ مسکرانا پیارے نبی ﷺکی سنت مبارک ہے اور شمع رسالت کے پروانے کس طرح سے آپ کی محبت و الفت میں اآپ کی ایک ایک ادا کو ادا کرنے میں مخلص تھے۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَہْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنْہَا وَآخِرَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلًا، رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ کَبْوًا فَیَقُوْلُ اﷲُ: اذْہَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَأْتِیْہَا، فَیُخَیَّلُ إِلَیْہِ أَنَّہَا مَـلْأَی، فَیَرْجِعُ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ، وَجَدْتُہَا مَـلْأَی، فَیَقُوْلُ: اذْہَبْ، فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَأْتِیْہَا، فَیُخَیَّلُ إِلَیْہِ أَنَّہَا مَـلْأَی، فَیَرْجِعُ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ، وَجَدْتُہَا مَـلْأَی، فَیَقُوْلُ: اذْہَبْ، فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ فَإِنَّ لَکَ مِثْلَ الدُّنْیَا وَعَشَرَۃَ أَمْثَالِہَا، أَوْ إِنَّ لَکَ مِثْلَ عَشَرَۃِ أَمْثَالِ الدُّنْیَا، فَیَقُوْلُ: تَسْخَرُ مِنِّي أَوْ تَضْحَکُ مِنِّي وَأَنْتَ الْمَلِکُ، فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ، وَکَانَ یَقُوْلُ: ذَاکَ أَدْنٰی أَہْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: قِیْلَ: کَانَ لَا یَضْحَکُ إِلَّا فِي أَمْرٍ یَتَعَلَّقُ بِالآخِرَۃِ فَإِنْ کَانَ فِي أَمْرِ الدُّنْیَا لَمْ یَزِدْ عَلَی التَّبَسُّمِ۔
: أخرجہ البخاري في الصحیح،کتاب الرقاق ، باب صفۃ الجنۃ والنار، 5 / 2402، الرقم: 6202، ومسلم في الصحیح ، کتاب الإیمان، باب أخر أہل النار خروجًا، 1 / 174، الرقم: 186، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ جھنم، باب منہ، 4 / 712، الرقم: 2595، وابن ماجہ في السنن ، کتاب الزہد ، باب صفۃ الجنۃ، 2 / 1452، الرقم : 4339، وابن حبان في الصحیح، 16 / 517، الرقم: 7475، والعسقلاني في فتح الباري، 4 / 171۔
''حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم سے کون نکالا جائے گا یا سب سے آخر میں کون جنت کے اندر داخل ہو گا۔ یہ آدمی اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں داخل ہو جا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا تو اُسے گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے، چنانچہ وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا: اے ربّ! وہ تو بھری ہوئی ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں چلا جا۔ لہٰذا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ جنت میں جا کر اُسے پھر گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے۔ پس وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا: اے ربّ! میں نے تو وہ بھری ہوئی پائی ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا اور جنت میں داخل ہو کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اُس سے دس گنا زیادہ حصہ ہے، یا فرمایا: تیرے لیے دس دنیاؤں کے برابر حصہ ہے۔ وہ عرض کرے گا: (اے اﷲ!) کیا مجھ سے مزاح کرتا ہے یا مجھ پر ہنستا ہے؟ حالانکہ تو حقیقی مالک ہے۔ (حضرت عبد اﷲ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:) میں نے دیکھا کہ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: یہ اہلِ جنت کے سب سے کم درجہ والے شخص کا حال ہے۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام عسقلانی نے فرمایا: یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آخرت کے اُمور میں ہنسا کرتے تھے اگر کوئی معاملہ دنیا سے متعلق ہوتا تو اُس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف تبسم فرمایا کرتے تھے۔
آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا فرما دیجئے کہ حق تعالیٰ شانہ مجھے جنت میں داخل فرمادے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت داخل نہیں ہو سکتی !! وہ عورت رونے لگی ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ حق تعالیٰ جل شانہ سب اہل جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنا دیں گے۔
آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے مزاح بھی ایسا ہوتا تھا کہ جس میں ذرا برابر جھوٹ کی آمیزش نہ ہوتی تھی
عَنْ جَرِیْرٍص قَالَ: مَا حَجَبَنِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلَا رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ فِي وَجْھِي، وَلَقَدْ شَکَوْتُ إِلَیْہِ أَنِّي لَا أَثْبُتُ عَلَی الْخَیْلِ، فَضَرَبَ بِیَدِہٖ فِي صَدْرِي وَقَالَ: اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْہٗ، وَاجْعَلْہٗ ہَادِیًا مَہْدِیًّا۔
3: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجھاد، باب مَن لا یَثْبُتُ علی الخَیْلِ، 3 / 1104، الرقم: 2871، وأیضًا في کتاب الأدب، باب التبسم والضحک، 5 / 2260، الرقم: 5739، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ ث، باب من فضائل جریر بن عبد اﷲ ص، 4 / 1925، الرقم: 2475، والترمذي في السنن، کتاب المناقب باب مناقب جریر بن عبد اﷲ البجلي ص، 5 / 679، الرقم: 3821،
''حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوا اُس وقت سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کبھی ملنے سے نہیں روکا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی مجھے دیکھتے تو چہرہِ انور تبسم ریز ہو جاتا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گذارش کی کہ میں جم کر گھوڑے پر سواری نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میرے سینے پر مارا اور دعا فرمائی: اے اللہ! اِسے جما دے اور اِسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔''
حدثنا هناد بن السري قال: حدثنا وكيع، عن شعبة، عن ابي التياح، عن انس بن مالك قال: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليخالطنا حتى يقول لاخ لي صغير: «يا ابا عمير، ما فعل النغير؟» قال ابو عيسى:" وفقه هذا الحديث ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يمازح وفيه انه كنى غلاما صغيرا فقال له: يا ابا عمير. وفيه انه لا باس ان يعطى الصبي الطير ليلعب به. وإنما قال له النبي صلى الله عليه وسلم: «يا ابا عمير، ما فعل النغير؟» لانه كان له نغير يلعب به فمات، فحزن الغلام عليه فمازحه النبي صلى الله عليه وسلم: «يا ابا عمير، ما فعل النغير؟»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اتنے مل جل جاتے تھے کہ ایک مرتبہ میرے چھوٹے بھائی کو کہا: اے عمیر کے باپ! تمہارا نغیر کیسا ہے۔ امام ابوعیسیٰ (ترمذی) فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزاح بھی فرما لیا کرتے تھے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کی کنیت ابوعمیر رکھی، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس میں کوئی امر مانع نہیں کہ بچے کو پرندہ دیا جائے کہ وہ اس سے کھیلے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: «يا ابا عمير ما فعل النغير» اس سے مراد یہ ہے کہ اس بچے کے پاس ایک نغیر تھی جس سے وہ کھیلتا تھا وہ نغیر مر گئی تو اس بچے کو افسوس ہوا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے اس سے دل لگی اور خوش طبعی کرتے ہوئے فرمایا: «يا ابا عمير ما فعل النغير» ۔
«(سنن ترمذي 333، 1989، وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (6129)»
انسٍ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلاً استحمل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقةٍ فقال ما اصنع بولد الناقةِ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہل تلد الابل الا النوق (مشکوٰة ص۴۱۶)
(حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیاکروں گا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟)
ملاحظہ فرمائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایاتو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اوراونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔

الغرض مزاح ایک سنتِ مستحبہ ہے جولوگ اسے اپنی وقار اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں اگر ہم اپنی زندگی میں مسکراہٹ والے پہلو کو لازم کر لیں تو ہم س کی زندگی آرام و سکون والی ڈپریشن سے آزاد ہو جائے گی۔



 

MUHAMMAD BURHAN UL HAQ
About the Author: MUHAMMAD BURHAN UL HAQ Read More Articles by MUHAMMAD BURHAN UL HAQ: 164 Articles with 242794 views اعتراف ادب ایوارڈ 2022
گولڈ میڈل
فروغ ادب ایوارڈ 2021
اکادمی ادبیات للاطفال کے زیر اہتمام ایٹرنیشنل کانفرنس میں
2020 ادب اطفال ایوارڈ
2021ادب ا
.. View More