اِقرارِ حیات و اِنکارِ حیات !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالمؤمنون ، اٰیت 77 تا 83 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لا کھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ھوالذی
انشالکم
السمع والابصار
والافئدة قلیلا ما
تشکرون 78 وھوالذی
ذراکم فی الارض والیہ
تحشرون 79 وھوالذی یحیٖ
ویمیت وله اختلاف الیل والنہار
افلاتعقلون 80 بل قالوامثل قال الاولون
81 قالواءاذامتنا وکناترابا عظاماءانالمبعثون
82 لقد وعدنا نحن واٰباءنا ھٰذا من قبل ان ھٰذا
الّا اساطیرالاولین 83
اور وہ اللہ وہی اللہ ھے جس نے تُمہارے سُننے کے لیۓ تُمہارے کان بناۓ ہیں ، جس نے تُمہارے دیکھنے کے لیۓ تُمہاری آنکھوں کے چراغ جلاۓ ہیں اور جس نے تُمہارے جسم و جان کی کشتِ ویران کو سیراب کرنے کے لیۓ تُمہارے دل کے وہ خود کار آلات بناۓ ہیں جو شب و روز تُمہارے جسم میں تُمہارے خُون و جان کو چلاتے رہتے ہیں لیکن تُم کم کم لوگ شکر گزار ہو اور کم کم ہی شکر گزار ہو اور وہ اللہ وہی اللہ ھے جس نے تمہیں جمع کرنے کے لیۓ زمین میں پیدا کرکے پھیلایا ہوا ھے ، وہ اللہ وہی اللہ ھے جو تمہیں موت کے بعد زندگی دیتا ھے ، زندگی کے بعد موت دیتا ھے اور موت کے بعد پھر زندگی دے دیتا ھے اور وہ اللہ وہی اللہ ھے جو دن کے وجُود سے شَب کو اور شَب کے وجُود سے دن کو نکالتا رہتا ھے تو پھر تمہیں کیا ہو گیا ھے کہ تُم موت و حیات کے اِس تجربے سے گزرتے ہوۓ بھی موت و حیات کی کسی حقیقت پر غور نہیں کرتے بلکہ تُم تو اَب بھی وہی بات کہہ رھے ہو جو تُم سے پہلے لوگ کہتے چلے آۓ ہیں ، تُم سے پہلے لوگوں نے بھی یہی کہا تھا کہ آخر ھم یہ بات کیسے تسلیم کر لیں کہ جب ھم مر کر مِٹی ہو جائیں گے تو زمین کے ذرّوں سے اسی جسم و جان کے ساتھ دوبارہ اُٹھا لیۓ جائیں گے ، ھم تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سدابہار افسانہ ھے جو پہلے زمانوں میں بھی سنایا جاتا رہا ھے اور ھمارے زمانے میں بھی سنایا جا رہا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
موت کے بعد موت سے پہلے والی پہلی والی حیات جیسی دُوسری حیات کا اقرار کرنا دینِ اسلام کے بُنیادی عقائد میں سے ایک بُنیادی عقیدہ ھے جس کا قُرآنِ کریم بار بار اسی طرح ذکر کرتا ھے جس طرح دینِ اسلام کے دُوسرے بُنیادی عقائد کا بار بار ذکر کرتا ھے تاکہ انسان جس طرح دینِ اسلام کے دُوسرے بُنیادی عقائد کا اقرار کرتا ھے اسی طرح مرنے کے بعد جینے کے اِس بُنیادی عقیدے کا بھی اقرار کرلے ، انسان کا موت کے بعد ملنے والی حیات کا اقرار کرنا دَراصل اِس بات کا اقرار کرنا ہوتا ھے کہ اُس کی موجُودہ زندگی اللہ تعالٰی نے اُس کی اُس پہلی موت سے پیدا کی ھے جس پہلی موت کا اُس کو علم نہیں ھے اور اُس کی موجُودہ زندگی پر بھی دوبارہ وہی موت وارد ہونی ھے جو اِس سے پہلے وارد ہو چکی ھے اور اُس کی اُس موت سے دوبارہ اُسی زندگی نے پیدا ہونا ھے جو اِس وقت اُس کے جسم میں اُس کی جان کی طرح موجُود ھے ، انسان کا موجُودہ زندگی سے پہلے پہلی موت کو تسلیم کرنا اور موجُودہ زندگی پر آنے والی موت کے بعد ایک دُوسری زندگی کو تسلیم کرنا دَراَصل اِس اَمر کو تسلیم کرنا ہوتا ھے کہ اُس کو اِس زندگی سے پہلے اُس کے خالق کی جس ہستی نے موت سے ہَمکنار کیا تھا وہ اُس کے خالق کی وہی ہستی ھے جس نے اُس کی اُس موت سے اُس کی موجُودہ زندگی پیدا کی ھے اور اِس کا وہ خالق ایک دن اُس کی موجُودہ زندگی پر بھی ایک موت وارد کردے گا اور پھر اُس کا وہی خالق اُس کی اُسی موت سے اُس کی وہی زندگی پیدا کر کے اُس کو دے دے گا جو زندگی اِس وقت اُس نے اِس کو دی ہوئی ھے ، انسان کا اپنی ہر موت پر بار بار آنے والی بہارِ حیات اور اپنی ہر بہارِ حیات پر بار بار وارد ہونے والی موت کا اقرار کرنا دَراصل اِس بات کا اقرار کرنا ھے کہ اُس کے جسم و جان پر بار بار آنے والی موت کے بعد بار بار جو حیات آتی ھے وہ اُس حیات کا مالک نہیں ھے بلکہ صرف وہ امین ھے جس نے اپنی اِس زندگی کی ایک امانت کی طرح حفاظت کرنی ہوتی ھے اور جب وہ زندگی کی یہ امانت اللہ تعالٰی کے سپرد کر دیتا ھے تو اللہ تعالٰی اُس کو یہ زندگی دوبارہ واپس دے دیتا ھے جس سے انسان کو بار بار خالق کے خالق ہونے کا اور بار بار اپنے مخلوق ہونے کا یقین ہوتا رہتا ھے ، انسان اپنی عقل و مَنطق کی رُو سے اپنی زندگی سے پہلے خود پر وارد ہونے والی پہلی موت اور اپنی زندگی کے بعد اپنی زندگی پر وارد ہونے والی دُوسری موت کو تسلیم کرتا ھے لیکن اپنی دُوسری موت پر وارد ہونے والی دُوسری زندگی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ھے اور اُس کے اِس انکار کو اقرار میں بدلنے کے لیۓ اللہ تعالٰی اُس کو یہ مثال دیتا ھے کہ تُم زندگی کے جس تجربے سے گزر رھے ہو اِس تجربے کے آتے جاتے موسموں کے دوران تُم بار بار شَب کی جگہ پر دن کو اور دن کی جگہ پر شَب کو آتے جاتے دیکھتے رہتے ہو اِس لیۓ تُمہارے لیۓ اِس اَمر کو سمجھنا کوئی دُشوار اَمر نہیں ہونا چاہیۓ کہ عالَم میں جس طرح شب و روز ایک دائرے میں رہتے ہوۓ ایک دُوسرے کے آگے پیچھے چل رھے ہیں ، جس طرح سردی و گرمی کے موسم ایک ہی دائرے میں رہتے ہوۓ ایک دُوسرے کے آگے اور پیچھے آتے اور جاتے رہتے ہیں اور جس طرح بہار کے زندہ رَنگ اور خزاں کے مُردہ رَنگ ایک ہی دائرے میں رہتے ہوۓ ایک دُوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں اسی طرح زندگی اور موت بھی ایک ہی دائرے میں رہتے ہوۓ ایک دُوسرے کے آگے پیچھے چلتی رہتی ھے ، اگر انسان اپنے تجربے و مُشاھدے میں آنے والی دُوسری تمام چیزوں کے ایک دُوسرے کے تعاقب میں آنے جانے کا یقین کرتا ھے تو اِس کو موت اور زندگی کے بھی ایک دُوسرے کے تعاقب میں آنے جانے کا یقین کرلینا چاہیۓ !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558371 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More