نجد کے اس سفر سے واپس آ کر قریباً تین ماہ آنحضرت صلی
الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف فرما رہے ۔ابو سفیان جنگِ
اُحد میں یہ کہہ کر گیا تھا کہ آئیندہ سال مقامِ بدر میں لڑائی ہو گی ۔
مسلمانوں نے اس بات کو منظور کر لیا تھا ۔ منافقینِ مدینہ جو رات دن
مسلمانوں کی بربادی کی تدبیر سوچتے رہتے تھے۔ انھوں نے نعیم بن مسعود کو
مکہ بھیجا ۔ کہ قریش کو اُحد کی قرارداد یاد دلاۓ ۔ اور جنگ کے لیۓ آمادہ
کرے ۔ نعیم نے ابو سفیان کو توجہ دلائی کہ مسلمانوں کے مقابلے کی تیاری
کرنی چاہیے ۔
مکہ میں اس سال کچھ قحط اور گرانی تھی ۔ ابو سفیان نے کہا کہ ہم جنگ کی
تیاری میں مصروف ہیں ۔ لیکن تم یہ کام کرو کہ مدینہ میں جا کر ہماری عظیم
الشان تیاریوں کا حال سُناؤ ۔ اور مسلمانوں کو ڈراؤ ۔ تاکہ وہ مدینے سے نہ
نکلیں ۔ اور اس سال لڑائی نہ ہو ۔ اگر یہ کام تم سے سر انجام پا گیا ۔ تو
تم کو بیس اونٹ بطور شکریہ پیش کئے جائیں گے ۔ نعیم نے مدینے میں آ کر بڑی
آب و تاب کے ساتھ قریش کی تیاریوں کا حال جا بجا بیان کرنا شروع کیا ۔
یہ خبر سُن کر مسلمان کچھ فکر مند ہونے لگے ۔ لیکن حضرت عمر فاروق رضی
الّٰلہ تعالٰی عنہ نے آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہو کر عرض کیا کہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم الّٰلہ کے سچے رسول ہیں ۔
پھر مسلمان ان خبروں کو سُن سُن کر کیوں گھبرا رہے ہیں ۔ آنحضرت صلی الّٰلہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
“ اگر کوئی ایک شخص بھی میرے ہمراہ نہ چلے تو میں تنہا حسبِ وعدہ کفار کے
مقابلے کے لیۓ بدر کے میدان میں پہنچ جاؤں گا ۔ “
چنانچہ اس کے بعد آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کی تیاری کی ۔ اور
بدر کی طرف روانہ ہوۓ تو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار
صحابہ کرام کا لشکر تھا ۔ روانگی کے وقت آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم
عبدالّٰلہ بن رواحہ کو مدینہ کا عامل مقرر فرما گئے تھے ۔ اس مرتبہ آپ صلی
الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لشکر کا عَلَم علی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو
دیا تھا ۔ کُل فوج میں اس مرتبہ دس گھوڑے تھے ۔
ابو سفیان لڑائی سے جان بچانا چاہتا تھا ۔ مگر جب اُس کو آنحضرت صلی الّٰلہ
علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ سے روانہ ہونے کا معلوم ہوا ۔ تو وہ مکہ سے دو
ہزار کا لشکرِ جرار لے کر چلا ۔ خشک سالی کی وجہ سے اس لشکر کے پاس سامانِ
اذوقہ میں ستو کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔ اس واسطے اس لشکر کا نام جیش السویق
مکہ میں مشہور ہوا ۔
ابو سفیان کے لشکر میں اس مرتبہ پچاس سوار تھے ۔ یہ دو ہزار کا لشکر جب
مقام عسفان میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسلامی لشکر میں ڈیڑھ ہزار جانباز
موجود ہیں ۔ اہلِ مکہ ، بدر اور احد میں دیکھ چُکے تھے کہ تہائی اور
چوتھائی تعداد کے مسلمانوں سے بھی ان کو شکست کھانی پڑی تھی ۔ اب بھی اگرچہ
مسلمان تعداد میں کم یعنی صرف 3/4 تھے ۔ مگر اس تعداد کا حال معلوم ہو کر
کفار کے اوسان خطا ہو گئے ۔ اور مقامِ عسفان ہی سے یہ کہہ کر مکہ کو واپس
چلے گئے۔ کہ ہم قحط سالی کے ایام میں جنگ کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ یہ لشکر
جب راستہ ہی سے واپس ہو کر مکہ میں پہنچا تو مکہ کی عورتوں نے کہا کہ تم
صرف ستو پینے گئے تھے ۔ اگر لڑنے کے ارادہ سے جاتے تو واپس کیوں آتے ۔
آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ بدر میں پہنچ کر آٹھ روز تک کفار
کے منتظر رہے ۔ آٹھویں روز معبد بن ابی معبد خزاعی نے آکر اطلاع دی ۔ کہ
ابو سفیان مکہ سے روانہ ہو کر اور مقامِ عسفان تک پہنچ کر پھر واپس چلا گیا
ہے۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم یہ سُن کر بدر سے مدینہ منورہ کو واپس
تشریف لے آۓ ۔ یہ آخر رجب سنہ۴ ھ کا واقعہ ہے ۔ اس سفر کا نام غزوہ بدر
موعد اور غزوہ بدر ثانی اور غزوہ بدر صغریٰ اور غزوہ بدر اخریٰ مشہور ہے ۔
مالِ غنیمت تو مسلمانوں کے ہاتھ نہ آیا ۔ لیکن ان ایام میں چونکہ بدر میں
میلہ لگتا تھا ۔ اس لیۓ مسلمانوں نے تجارت کے ذریعے فائدہ اٹھا لیا ۔
ماہِ شعبان میں آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ واپس تشریف لے
آئے۔ اسی سال میں حضرت امام حسین بن علی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ پیدا ہوۓ۔
اسی سال شراب حرام ہوئی ۔ اسی سال عبدالّٰلہ بن عثمان رضی الّٰلہ تعالٰی
عنہ یعنی آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے نے بعمر چھ سال وفات
پائی ۔ اس بچے کی وفات کا سبب یہ تھا ۔ کہ مرغ نے آنکھ میں پنجہ یا خار مار
دیا تھا ۔ جس کی تکلیف سے جاں بری ممکن نہ ہوئی ۔ اسی سال زینب بنت خزیمہ
کا انتقال ہوا ۔ اسی سال آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے عبدالسلام
مخزومی کی وفات کے بعد اُن کی بیوی اُمِ سلمہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا سے
نکاح کیا ۔ فاطمہ بنتِ اسید یعنی حضرت علی کرم الّٰلہ وجہہ کی والدہ نے بھی
اسی سال انتقال کیا ۔
|