#العلمAlilm.علمُ الکتاب {{ سُورَةُالمؤمنون ، اٰیت 93 تا
100 }} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
رب اما ترینی
مایوعدون 93 و
انا علٰی ان نریک ما
نعدھم لقٰدرون 95 ادفع
بالتی ھی احسن السیئة نحن
اعلم بما یصفون 96 وقل رب اعوذ
بک من ھمزٰت الشیٰطین 97 واعوذبک
رب ان یحضرون 98 حتٰی اذا جاء احدھم
الموت قال رب ارجعون 99 لعلّی اعمل صالحا
فیما ترکت کلّا انہا کلمة ھو قائلھا ومن ورائھم
برزخ الٰی یوم یبعثون 100
اے ھمارے رسُول ! آپ اپنے رَب سے اِس اَمر کی اِستدعا کرتے رہا کریں کہ اگر
اُن کی زندگی میں مُنکرینِ قُرآن پر مُنکرینِ قُرآن کے انکارِ قُرآن کی
کوئی ناگہانی اُفتاد آجاۓ تو اُن کو مُنکرینِ قُرآن کے اُس بُرے اَنجام کے
بُرے مُشاھدے سے محفوظ رکھا جاۓ ، ھم نے آپ کو یہ باور کرانے کے لیۓ اِس
استدعا کی تلقین کی ھے کہ ھم مُنکرینِ قُرآن کی بربادیِ جان کا وہ وقت آپ
کی موجودگی میں لا نے کی بھی پُوری قُدرت رکھتے ہیں اور اُس وقت کو آپ کی
موجُودگی میں لاکر آپ کو اُس کے نتائج و اثرات سے بچانے کی بھی پُوری قدرت
رکھتے ہیں لیکن فی الحال آپ اِن لوگوں کی بربادی کے وقت کو فراموش کر کے
اُن کے اعمالِ شر کے سامنے اپنے اعمالِ خیر کے بند باندھنے کی کوششیں جاری
رکھیں ، مُنکرین قُرآن آپ کے خلاف جو خُفیہ یا اعلانیہ سازشیں کر رھے ہیں
ھم اُن ساری خُفیہ و اعلانیی سازشوں سے باخبر ہیں تاہَم آپ اپنے رَب سے یہ
استدعا بھی کرتے رہا کریں کہ مُجھے شیطاین کے اِن ہَمشکلوں کی آہٹوں اور سر
سراہٹوں سے اِس طرح پر بچایا جاۓ کہ اِن میں سے کوئی بھی میرے رُو برُو
کبھی نہ آنے پاۓ ، اِس وقت آپ کے جو شیطان دُشمن شیطان کے راستے پر گام زَن
ہیں اُن دُشمنوں میں سے جب بھی جس دُشمن کی موت کا وقت آۓ گا تو وہ کہے گا
اے کاش کہ اِس وقت میرا رَب مُجھے موت سے زندگی کی طرف لوٹادے تاکہ میں
اپنے پیچھے کُچھ اعمالِ خیر چھوڑ سکوں اور اُس وقت اُس سے کہا جاۓ گا کہ یہ
تو وہی حسرت ھے جو موت کو سامنے دیکھنے والے اُس انسان کے دل میں آئی ھے جو
اپنے اِس اَنجام کی اِس حسرتِ اَنجام سے بہت آگے نکل چکا ھے اور اِس کے بعد
اُس انسان کو اُس کے یومِ حساب تک اسی خوفِ موت اور اسی حسرتِ حیات کے
درمیان مُعلق کرکے چھوڑ دیا جاۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
حق کے دوستوں اور حق کے دُشمنوں پر جب حق کے ساتھ اپنی دوستی و دُشمنی
نبھانے کا کوئی کڑا وقت آتا ھے تو اُس کڑے وقت میں حق کے وہ دوست اور حق کے
وہ دُشمن دونوں ہی اپنے اپنے دفاعی حصار کو محفوظ اور اپنے دُشمن کے دفاعی
حصار کو غیر محفوظ بنانے میں مصروف ہوتے ہیں اور جس وقت حق کے وہ دوست و
دُشمن اپنے دفاعی حصار کو محفوظ اور اپنے دُشمن کے دفاعی حصار کو غیر محفوظ
کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اُس وقت وہ دونوں ہی ایک یقین و بے یقینی کے عالَم
میں ہوتے ہیں اور جب بھی حق کے یہ دوست اور حق کے یہ دُشمن اِس یقین و بے
یقینی کے عالَم میں ہوتے ہیں تو حق کے دوستوں کو رحمان کی طرف سے علمی و
عملی اور فکری و رُوحانی مدد ملتی رہتی ھے اور حق کے دُشمنوں کو بھی شیطان
کی طرف سے اسی طرح کی شیطانی مدد ملتی رہتی ھے ، قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ
بالا میں انسان کے اُسی یقین و بے یقینی کے حامل معاشرے کا ذکر کیا گیا ھے
جس معاشرے کے جس ذہنی ماحول میں حق کے وہ سارے دوست اور حق کے وہ سارے
دُشمن جو ایک دُوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں اور جو ایک دُوسرے کو زَک
پُہنچانے کے لیۓ اپنے اپنے ایمان اور اپنے اپنے اعتقاد کے مطابق اپنے اپنے
ایمان و کفر کے مراکز سے مدد مانگ رھے ہوتے ہیں ، اٰیاتِ بالا کے مفہومِ
بالا کے مطابق نزولِ قُرآنِ کریم کے اُسی حساس زمانے کے اُنہی حساس لَمحات
میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کے لیۓ جو ھدایات جاری کی ہیں اُن میں پہلی
تسلّی و تشفی سے بھر پُور ھدایت یہ ھدایت ھے کہ آپ کو حق کے دُشمنوں کی
خفیہ و اعلانیہ سازشوں سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ھے کیونکہ جس طرح
اِس سے قبل ہر زمانے میں حق ہمیشہ ہی سر بلند اور باطل ہمیشہ ہی سر نگوں
ہوا ھے اسی طرح نزولِ قُرآن کے اِس موجُودہ زمانے میں بھی حق ہمیشہ کی طرح
سر بلند اور باطل ہمیشہ کی طرح سر نگوں ہو گا اور اِس وقت جو لوگ قُرآن کے
خلاف سرگرمِ عمل ہیں اُن کے عبرت ناک اَنجام کا فیصلہ ہو چکا ھے اِس لیۓ
اِس وقت آپ اپنے رَب سے یہ استدعا کریں کہ جب کبھی بھی قُرآن کے اِن
مُنکروں پر کوئی ناگہانی اُفتاد آۓ تو اِن کے اَنجامِ عبرت کی شدتوں سے آپ
کو اور آپ کے اَصحاب کو بچالیا جاۓ ، اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو اِس دُعا
کی یہ تلقین اِس لیۓ کی ھے کہ جب کسی قوم کے مطالبہِ عذاب کے جواب میں اُس
قوم پر کوئی قُدرت کی طرف سے عذاب یا عتاب آتا ھے تو اُس قوم کے نبی کو اُس
قوم سے الگ ہو جانے کا حُکم دیا جاتا ھے لیکن سیدنا محمد علیہ السلام کو یہ
بتایا گیا ھے کہ آپ کی قوم جو بار بار آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتی ھے اگر
اِس کے کسی مطالبے کے بعد اِس کے کسی فرد پر کوئی عذاب بہیج دیا جاۓ تو آپ
کو اپنی قوم میں رہنا ھے اور ھم آپ کو اِس قوم کے درمیان رہنے کے باوجُود
بھی اِس قوم پر آنے والے عذاب سے بچانے پر قُدرت رکھتے ہیں اور آپ کو اِس
عذاب طلب قوم کے درمیان میں رہنے کی یہ ھدایت اِس لیۓ کی گئی ھے کہ آپ اپنی
قوم میں رہ کر اپنی قوم کے اُٹھاۓ ہوۓ شرک کے اعمالِ شر کے مقابلے میں
توحید کے اعمالِ خیر کے بند باندھتے رہیں تاکہ اللہ تعالٰی آپ کی قوم کو
اُس کے مطلوبہ عذاب سے بچالے جس مطلوبہ عذاب کا وہ مطالبہ کرتی رہتی ھے
کیونکہ اللہ تعالٰی کا مقصد انسان کو دُنیا و آخرت میں عذاب دینا نہیں ھے
بلکہ دُنیا و آخرت کے عذاب سے بچانا ھے اور اِن تُھڑ دلے لوگوں کا تو حال
یہ ھے کہ اگر اِن کے مطالبہِ عذاب پر اِن کے کسی فرد کو موت کی سزا دی جاتی
ھے تو وہ موت کے وقت موت کی طرف پیش قدمی کرنے کے بجاۓ زندگی کی طرف پیش
قدمی کرنا چاہتا ھے اور اُس وقت اُس کو یاد کرایا جاتا ھے کہ اَب تُم حسرت
کے اِس مقام سے اتنا آگے بڑھ چکے ہو کہ تُمہارا یہاں سے آگے بڑھنا ہی مُمکن
ھے یہاں سے پیچھے ہٹنا کسی طرح بھی مُمکن نہیں ھے اور اِس اعلان کے بعد اُس
انسان کو اُس انسان کے یومِ حساب تک موت کے خوف اور حیات کی حسرت کے درمیان
مُعلق کر دیا جاتا ھے تاکہ قیامت تک اُس کو موت و حیات کا احساس ہوتا تھے
!!
|