موت قبل الحیات اور حیات بعد الموت !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالمؤمنون ، اٰیت 84 تا 92 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
لمن الارض
ومن فیھا ان
کنتم تعلمون 84
سیقولون للہ قل افلا
تذکرون 85 قل من رب
السمٰوٰت السبع ورب العرش
العظیم 86 سیقولون للہ قل افلا
تتقون 87 قل من بیدہٖ ملکوت کل شئی
وھویجیر ولایجار علیہ ان کنتم تعلمون 88
سیقولون للہ قل فانٰی تسحرون 89 بل اتینٰھم با
لحق وانھم لکٰذبون 90 مااتخذاللہ من ولد وما کان
معهٗ من الٰه اذالذھب کل الٰه بما خلق ولعلابعضھم علٰی
بعض سبحٰن اللہ عما یصفون 91 عٰلم الغیب والشہادة فتعٰلٰی
عما یشرکون 92
اے ھمارے رسُول ! ھمارے عالَم کے جو لوگ ھمارے عالَم کے اَحوالِ رَفتہ کو اَفسانہِ رَفتہ کہتے ہیں آپ اُن سے پُوچھیں کہ اگر تُم لوگ اِس عالَم کے بارے میں کُچھ علم رکھتے ہو تو بتاؤ کہ یہ زمین کس کی ھے جس پر تُم رہتے ہو اور اِس زمین کے وہ وسائل و ذرائع کس کے ہیں جن کو تُم اپنے استعمال میں لاتے ہو ، آپ کا یہ سوال سُن کر یہ لوگ بِلاتامل کہیں گے کہ یہ زمین اللہ کی ھے جس پر ھم رہتے ہیں اور یہ وسائلِ زمین بھی اللہ کے ہیں جن کو ھم استعمال میں لاتے ہیں ، اِن لوگوں کے اِس جواب کے بعد آپ اُن لوگوں سے یہ بھی پُوچھیں کہ اگر تُم یہ سب کُچھ جانتے ہو تو پھر یہ سب کُچھ ماننے سے کیوں انکار کرتے ہو ؟ اِس پہلے سوال کے بعد اگر آپ اِن سے یہ دُوسرا سوال کریں گے کہ سات بلند آسمانوں کا اور عظمت والے عرش کا خالق و مالک کون ھے تو اِس سوال کے جواب میں بھی یہ لوگ تُرت کہیں گے کہ آسمان و عرش کا خالق و مالک بھی اللہ ھے ، اِن لوگوں کے اِس جواب کے بعد آپ اُن لوگوں سے سوال کریں کہ اگر تُم لوگ اپنے اور اپنے عالَم کے خالق کو جانتے اور مانتے ہو تو پھر اُس کے ساتھ یہ بغاوت و سر کشی کیوں اختیار کیۓ ہوۓ ہو ؟ اور لگے ہاتھوں آپ اِن سے یہ سوال بھی کر لیں کہ زمین اور وسائلِ زمین کس کی دست رَس میں ہیں اور وہ کون ھے جو ہر ایک کے مقابلے میں تُم کو پناہ دیتا ھے اور اُس ایک کے مقابلے میں تمہیں کوئی بھی پناہ نہیں دے سکتا تو آپ کے اِس سوال کا بھی وہ یہی جواب دیں گے کہ وہ تو صرف ایک اللہ ہی ھے جو سب کے مقابلے میں ھم سب کو پناہ دیتا ھے اور جس کے مقابلے میں ہمیں کوئی بھی پناہ نہیں دیتا ، پھر اِس کے بعداِن سے آپ یہ بھی پُوچھ لیں کہ اگر تُم اپنے خالق و مالک کی قُدرتوں اور قُوتوں کے بارے میں یہ سب کُچھ جانتے ہو تو پھر تُم اُس خالق و مالک کو چھوڑ کر ایک سحر زدہ بیمار کی طرح اِدھر اُدھر کیوں بہٹکتے پھر رھے ہو ؟ یقین کریں کہ آپ کا پُہنچایا ہوا پیغامِ حق اِن لوگوں تک پُہنچ چکا ھے اور اَب یہ لوگ جان بُوجھ کر اُس پیغامِ حق کے بارے میں ایک جُھوٹ کے بعد دُوسرا جُھوٹ بول رھے ہیں اور پھر دُوسرے جُھوٹ کے بعد مُسلسل جُھوٹ پر جُھوٹ بول رھے ہیں ، آپ اِن جُھوٹے لوگوں کو یہ سَچی بات بھی باور کرادیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنی جانشینی کے لیۓ کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا ھے اور اپنے مدد گار کے طور پر کوئی دُوسرا خُدا بھی نہیں بنایا ھے ، اگر اُس نے ایسا کیا ہوتا تو عالَم کا ایک خُدا عالَم کے دُوسرے خُدا پر چڑھ دوڑتا ، حقیقت یہ ھے کہ اِن پَست خیال لوگوں نے اللہ کے خیال کے ساتھ جو پَست خیال باتیں منسوب کر رکھی ہیں اللہ اُن سب باتوں سے بری الذمہ ھے ، وہ اپنے عالَم و اپنے اہلِ عالَم کے ہر حاضر و غائب کا خالق و مالک اور جاننے والا ھے اور اِن مُشرک لوگوں نے اُس لاشریک کے بارے میں جو مُشرکانہ عقائد تیار اور اختیار کر رکھے ہیں وہ اُن مُشرکانہ عقائد سے بلند تر ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے موجُودہ و گزشتہ اٰیات اور گزشتہ سے پیوستہ اٰیات کے اِس علمی و فکری سلسلہِ مضامین میں عالَمِ دُنیا و اَحوالِ عالَمِ دُنیا اور عالَمِ عُقبٰی و اَحوالِ عالَمِ عُقبٰی کے جو دقیق علمی و فکری گوشے عقلی و مَنطقی دلائل کے ساتھ اُجاگر کیۓ ہیں اُن دقیق علمی و فکری اور عقلی ومَنطقی گوشوں میں سے ایک عقلی و مَنطقی گوشہ جس کو ھم اپنے احاطہِ خیال میں لاسکے ہیں وہ موت قبل الحیات اور حیات بعد الموت کا وہ عقلی و مَنطقی گوشہ ھے جس کے ابتدائی خط و خال اور انتہائی خط و خال کو کسی اور آسمانی کتاب نے اتنا واضح نہیں کیا ھے جتنا قُرآنِ کریم نے واضح کیا ھے اور قُرآنِ کریم نے اپنے کتابِ ناطق ہونے کے اِس دعوے کے حق میں جو پہلی دلیل دی ھے وہ اِس سُورت کی اٰیت 62 میں دی گئی وہ دلیل ھے جس میں کہا گیا ھے کہ عالَم کے اِس خاص معاملے میں اور اِس خاص معاملے کی طرح کے ہر ایک خاص و عام معاملے میں بولنے اور بتانے والی کتابِ ناطق صرف قُرآن ھے لیکن مُشکل یہ ھے کہ انسان نے اِس قابلِ غور کتاب میں کبھی غور ہی نہیں کیا ھے جس کی وجہ سے یہ قوم اِس کتاب کے نطقِ سماعت و نظرِ بصارت اور فکرِ رُوح و دل سے محروم ہو چکی ھے ، قُرآنِ کریم نے اپنے کتابِ ناطق ہونے کے دعوے کے حق میں جو دُوسری دلیل دی ھے وہ اِس سُورت کی اٰیات 68 ھے جس میں یہ یہ ارشاد فرمایا گیا ھے کہ قُرآنِ کریم حق کی وہ جامع صداقت ھے جو اِس سے پہلے اپنی اِس مُکمل شکل میں کسی اور قوم کے پاس نہیں آئی ھے لیکن یہ کتاب اپنی آخری شکل میں زمین کی جس آخری قوم میں آئی ھے اُس آخری قوم کی جمہُوری تعداد نے اِس کتاب کا اور اِس کتاب کے سُنانے اور سمجھانے والے نبی کا انکار کیا ھے حالانکہ اِس کتاب کو سُننے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اِس قوم کو کان دیۓ ہیں تاکہ اللہ تعالٰی کا نبی جب اپنی قوم کو یہ کتاب پڑھ کر سُناۓ تو اِس نبی کی اُمت اِس کتابِ صدق کو اپنے کانوں سے سُنے ، اِس کتاب کو پڑھنے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اِس قوم کو آنکھیں دی ہیں تاکہ اللہ تعالٰی کا نبی جب اپنی قوم سے اِس کتاب کی کتابت کراۓ تو اِس نبی کی یہ اُمت اِس کتاب کے حروف و الفاظ کو آنکھوں سے دیکھ کر لکھے اور آنکھوں سے دیکھ کر پڑھے اور پھر کُھلے کانوں سے سُنی اور کُھلی آنکھوں سے پڑھی جانے والی اِس کتاب پر غور و فکر کرنے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اِس قوم کو ایک مُتحرک دل بھی دیا ھے تا کہ جب یہ اُمت اپنے نبی کی اِس کتاب کو اپنے کانوں سے سنے ، اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے دل سے اِس پر غور و فکر بھی کر لے تو پھر دل کی کامل آمادگی کے ساتھ اِس پر ایمان لاۓ اور اَب اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے پہلے اپنے نبی سیدنا محمد علیہ السلام سے کہا ھے کہ آپ اپنی قوم کے ساتھ مُکالمہ کر کے اِس اَمر کو یقینی بنائیں کہ آپ کی قوم اپنے کانوں سے ہر بات کو سُن سکتی ھے ، اپنی آنکھوں سے ہر عمل کو دیکھ سکتی ھے اور اپنے دل کے ارتکاز اور دماغ کے استعمال سے فکر و تجزیہِ فکر کر کے ہر بات کے صحیح و غلط ہونے یا ہر بات کے قابلِ عمل و ناقابلِ عمل ہونے کا فیصلہ بھی کر سکتی ھے اور اِن سب باتوں کے بعد اللہ تعالٰی نے اٰیاتِ بالا میں اپنے نبی کو اِس اَمر کی یقین دھانی کرائی ھے کہ آپ نے اپنی قوم تک اللہ تعالٰی کا کلام مُکمل طور پر پُہنچا دیا ھے اور آپ کی قوم نے اللہ تعالٰی کا وہ مُکمل کلام مُکمل طور پر سُن کر سمجھ لیا ھے اور پھر سُن سمجھ کر اُس کا انکار کیا ھے جس کی وجہ سے آپ کی کُچھ قوم تو انکارِ حق کی وجہ سے راندہ دَر گاہ ہوئی ھے اور آپ کی کُچھ قوم نے اخفاۓ حق کے باعث راندہ درگاہ ہونا ھے اور قُرآن و صاحبِ قُرآن کے آنے کے بعد آپ کی جس قوم نے راندہِ درگاہ ہونا ھے اُس نے اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے باعث راندہ درگاہ ہونا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457273 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More