|
|
|
|
|
“اگر مجھے بروقت اسپتال لے جاتے تو میری بچی زندہ بچ
جاتی“ |
|
|
|
یہ الفاظ اس دکھی ماں کے ہیں جس نے اپنی بیٹی کو پیدا
ہونے سے پہلے ہی کھو دیا۔ جانے اسے انتظامیہ کی بے حسی کہنا ٹھیک ہوگا یا
لاپروائی جس نے ایک ماں کی گود بھرنے سے پہلے ہی اجاڑ دی۔ |
|
|
|
آمنہ بی بی نام کی پاکستانی 31 سالہ خاتون دس جون کو
اپنے شوہر اور باقی اہلِ خانہ کے ساتھ برطانیہ پہنچیں تو وہ 34 ہفتوں کی
حاملہ تھیں۔ برطانیہ پہنچنے کے بعد کورونا کی وجہ سے برطانوی سرکار کی جاری
کی گئی ہدایات کی وجہ سے آمنہ کو دس دن کے لئے ان کے شوہر اور باقی گھر
والوں کے ساتھ خصوصی ہوٹل میں قرنطینہ کرنا پڑا۔ |
|
|
|
اچانک طبعیت بگڑنے پر
اسپتال نہیں جانے دیا گیا |
|
مسز آمنہ کا کہنا تھا کہ انھیں قرنطینہ کے دوران اسکین
کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ ان کے جسم پر سوجن پیدا ہورہی تھی لیکن
ہوٹل کے پیرامیڈک اسٹاف نے کہا کہ مریض ہفتے میں صرف دو بار اسپتال جاسکتے
ہیں اور آمنہ اسپتال جانے کی مقررہ حد پوری کرچکی ہیں |
|
|
|
|
|
|
|
دو بار باتھ روم میں
گریں اور زخمی ہوگئیں |
|
آمنہ نے بتایا کہ ان کے جسم میں سوجن اتنی بڑھ گئی تھی
جسے کم کرنے کے لئے وہ نہانے گئیں لیکن دو بار ان کا پیر پھسلا اور وہ زخمی
بھی ہوئیں اور چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا۔ لیکن ہوٹل کا اسٹاف انھیں اسپتال
جانے کی اجازت دینے کے بجائے درد کم کرنے والی دوا کی پیشکش ہی کرتا رہا۔
اگلے دن جب وہ درد سے تڑپنے لگیں اور ان کو بہت زیادہ پسینہ آنے لگا تو
اسٹاف نے انھی اسپتال جانے کی اجازت دی لیکن پھر بھی وہیل چئیر منگوانے کے
لئے انھیں 45 منٹ انتظار کرنا پڑا۔ |
|
|
|
آپ کے شوہر آپ کے ساتھ
نہیں جاسکتے |
|
مسز آمنہ کہتی ہیں کہ وہ درد سے بے حال ہونے کے ساتھ
خوفزدہ بھی تھیں۔ ہوٹل اسٹاف سے انھوں نے اپنے شوہر کو ساتھ لے چلنے کی
درخواست کی جسے انھوں نے مسترد کردیا اور کہا کہ “آپ کے شوہر ساتھ نہیں
جاسکتے“ جس کے بعد وہ سیکورٹی کے ساتھ اسپتال پہنچیں جہاں ڈاکٹرز نے ان کا
معائنہ کیا اور بچے کی دھڑکن سننے کی کوشش کی جو بند ہوچکی تھی۔ ڈاکٹرز نے
آمنہ کو بتایا کہ ان کی بچی کا پیدائش سے پہلے ہی انتقال ہوچکا ہے۔ مسز
آمنہ کو سی سیکشن کے لئے آئی سی یو وارڈ میں لے جایا گیا جہاں انھیں خون
چڑھایا گیا۔ آمنہ کو چار دن تک اسپتال میں رہنا پڑا۔ |
|
|
|
مجھے دوسری زندگی ملی تو۔۔۔ |
|
اپنے دکھ کو بیان کرتے ہوئے آمنہ کہتی ہیں کہ “میں چاہتی
ہوں کہ انتظامیہ اسپتال جانے کے قواعد و ضوابط کو واضح کرے اور شرائط میں
نرمی پیدا کرے تاکہ جو دکھ میں نے جھیلا وہ کوئی اور ماں نہ جھیلے“ آمنہ نے
مذید کہا کہ “اگر مجھے ایک اور زندگی ملی تو بھی میں اس مسئلے کو حل کرنے
کے لئے کام کروں گی۔ میرا دکھ بہت بڑا ہے جو پوری زندگی کم نہیں ہوسکے گا۔
کاش مجھے اسپتال جانے دیا جاتا تو میری بچی زندہ ہوتی“ |
|
|
|
ہوٹل کا بیان |
|
اس معاملے پر ہوٹل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے
مہمانوں کی حفاظت کرنا ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے اور رازداری کی وجوہات کی
وجہ سے وہ اس بارے میں کوئی بیان نہیں دے سکتے البتہ قواعد و ضوابط بنانا
برطانیہ کے سرکارہ ادارے کی ذمہ داری ہے جس پر انھیں ہر حال میں عمل کرنا
پڑتا ہے“ |
|
|