مغربی سائنسدان اور فلاسفر ابھی تک اس حقیقت کا اعتراف
کرنے میں بخل سے کام رہے ہیں کہ اس کائنات کا کو ئی خالقِ حقیقی ہے جو اسے
اپنی مشیت ،پیمانوں اور اصو ل و ضوابط سے چلا رہا ہے۔وہ اسے تاریخ کا جبر
کہہ کر خود کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں کہ ہماری کائنات کا کوئی خدا نہیں
۔ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہو، فرائڈ کا فکری محاذ ہو ، کارل مارکس کا نظریہ
جدلیت یا د وسرے یورپی محققین کی تحقیق ہویہ سب کے سب شکو ک و شبہات کے
دائرے سے باہر نہیں نکل سکے جس کی وجہ سے ان کی ذاتی زندگیاں اعمالِ صالح
سے تہی ہیں ۔ کارل مارکس تو مذہب کو افیون کہہ کر پکارتا تھااور یہی حال
دوسرے مغربی مفکرین کا بھی تھا۔ان کیلئے مذہب کم ہمت انسانوں کا خود ساختہ
تصور ہے جسے ذاتی تسکین کی خاطر اختیارکیا گیا۔ ان کے بقول خدا جیسی کسی
ہستی کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ انسانوں کے اپنے اذہان کا پیدا کردہ تصور
ہے۔کارل مارکس نہ تو خدا کاقائل تھا اور نہ روحِکائنات کا۔وہ نہ تصورات کو
مانتا تھا اور نہ ان کی تکمیلی کوششوں کو وہ میکانکی تصورِ حیات کا مکمل
نمونہ تھا ۔کارل مارکس دنیا کا انقلابی سائنسدان اور ماہرِ معیشت تھا اور
اس کی کتاب (داس کیپیٹل نے پوری دنیا کو تبدیل کیا ہے۔یہ وہی کتاب ہے جو
دنیا میں انقلاب کا باعث بنی۔کارل مارکس کے بقول(سائنس کی طرف جانے والا
راستہ آسان نہیں ہے ۔صرف وہی لوگ جو تھکنے سے خوفزدہ نہیں ہوتے وہی اس کے
ڈھلوانی راستوں پر چلنے کی ہمت رکھتے ہیں۔اور انہی کیلئے ممکن ہو تا ہے کہ
وہ اس راستہ کی بلندیوں کو جا پہنچیں۔)وہ اپنی شہرہ آفاق کتاب داس کیپیٹل
میں رقمطراز ہے کہ ( اضداد کی جنگ و پیکار بجا و درست لیکن یہ جنگ و جدل
تصورات میں نہیں ہوتی کیونکہ تصورات تو ذہنِ انسانی کے پیدا کردہ ہوتے
ہیں۔ان کا الگ مستقل وجود ہی نہیں ہوتا۔کائنات میں مادی اشہاء در حقیقت
اپنا وجود رکھتی ہیں اس لئے اصل جنگ و پیکار مادیت ہی کی دنیا میں ہنگامہ
آرا ہے۔تصورات کیا ہیں۔مادی دنیا کا وہ عکس جو انسان کے دل میں مرقسم ہو تا
ہے اور جسے وہ ذہنی افکار کی راہوں سے پیش کرتا ہے۔)اس کی نظر میں وحی اور
خدائی ہدایات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ایک اور مشہور فلاسفر رابرٹ اوین کے
بقول۔(انسان کی ترقی کے راستے میں تین بڑے بڑے مو انع ہیں ۔ذاتی جائیداد
،مذہب اور شادی)۔،۔
نامور فلاسفر ہیگل کے مطابق(عقل ہی کائنات کا مرکز و محور ہے ۔کائنات کا
ڈھانچہ مکمل طور پر عقلیت پر استوار ہے۔تمام کائنات ایک مسلسل تغیر کا نام
ہے ۔یہاں کوئی شہ جامد نہیں ہے ۔ہر شہ میں ہر آن تبدیلی واقع ہوتی رہتی
ہے۔اشیاء در حقیقت تصورات کا مظہر ہیں۔لہذا یہ کائنات دنیائے تصورات ہے۔
یہاں کوئی تصور اپنی مکمل حالت میں نہیں ہے۔ہرتصور نا تمام ہے۔اس لئے اس
میں ہر آن تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں)ہیگل کی فکری اڑان اور کارل مارکس کی
فکری اڑان ایک ہی تھی بس اشیاء اور نظریات کا فرق تھا،دونوں خدا،وحی اور
مابعدالطبیعات کے انکاری تھے۔جرمنی کا مشہور و معرف فلسفی اور شاعر نطشے
مذہب سے بیگانہ تھا اور عیسائیت کے خلاف اس کا ردِ عمل بہت شدید تھا۔وہ
اسلام کی تعلیمات سے بالکل کورا تھا لہذا عیسائی مذہب کی تعلیمات اور
پادریوں کی بد اعمالیوں نے اسے مذہب سے باغی بنا دیا تھا ۔ نطشے نے تو خدا
کی موت کا اعلان کر دیا تھا۔اس کا مشہورِ زمانہ فقرہ تھا (گاڈ از ڈیڈ) خدا
مر چکاہے لہذا اب انسان اپنی قوتِ ارادی سے تسخیرِ جہاں کا کام سر انجام دے
سکتا ہے۔اب انسان کو ہی فوق البشر بننا ہو گا۔انسانی تقدیر کے ساتھ ساتھ
کائنات کی تقدیر کا مالک اب فوق البشرہی ہوگا۔اتنی مضبوط قوتِ ارادی رکھنے
والے لا محدود قوت کے حامل سپر من کے تصور کا ہی یہ اعجاز تھا جس میں فرہاد
نے اپنی محبوبہ شیریں کو پانے کیلئے دودھ کی نہر بہا کر ناممکن کو ممکن بنا
دیا تھا ا۔نطشے کے مافوق ا لبشر کے نظریہ کو نازی ازم اور فاشزم جیسے غیر
انسانی اور بھیانک نظاموں کا سر چشمہ قرار دے کر اس کے افکارو نظریات کی جس
طرح مٹی پلید کی گئی اس کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی
۔علامہ اقبال نے نطشے کے بارے میں ہی لکھا تھا( اگر ہوتا وہ مجذوب اس زمانے
میں۔،۔ تو اقبال اس کو بتاتا مقامِ کبریا کیا ہے)۔ کارل مارکس کا چہیتا
شاگرد لینن لکھتا ہے(سرمایہ داری کی غیر مرئی قوتوں نے ذہنِ انسانی میں ایک
ڈر کی صورت پیدا کر دی ہے جس سے ایک حاکمِ اعلی کے تخیل کی بنیاد پڑی ۔اسے
انسان نے خدا کے نام سے پکارنا شرع کر دیا۔سو جب تک خدا کا تخیل ذہنِ
انسانی سے فنا نہ کر دیا جائے یہ لعنت کسی طرح دور نہیں ہو سکتی۔ مذہب
لوگوں کیلئے افیون ہے ۔اس لئے مارکس ازم کی رو سے دنیا کے تمام مذاہب اور
کلیسا سرمایہ داری کے آلہِ کار ہیں لہذانفسِ مذہب کے خلاف جنگ کرنا ہر
اشتراکی کیلئے ضروری ہے تا آنکہ دنیا سے مذہب کا وجود ہی مٹ جائے)۔یورپی
اقوام ابھی تک اس راز کی کہنہ و حقیقت جاننے کیلئے سر گرداں ہیں کہ انسان
کیسے ظہور پذیر ہوا اور اسے تخلیق کرنے والی ہستی اگر ہے تو کہاں ہے ؟
انسانی تخلیق کا مقصد و منتہا کیا ہے؟ اس کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے
؟ما بعد الطبیعات کیا ہے ؟موت کی حقیقت کیا ہے؟ موت کے بعد انسان کے ساتھ
کیا ہو گا ؟ اسے کن مراحل سے گزارا جائیگا ؟کیا موت سے اس کی زندگی کا
خاتمہ ہو جائیگا ؟ کیا انسان دوبارہ جی اٹھے گا ؟ کیااسے اپنے اعمال کا
سزاوار بنایا جا ئیگا؟( میرا اگلا کالم اس پر روشنی ڈالے گا)
سائنس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ، لیکن سائنس مذہبی بنیادوں پر اٹھائے گے
سوالات کاحتمی جواب دینے سے قا صر ہے کیونکہ یہ اس کا میدان نہیں ہے ۔سائنس
یہ تو بتا سکتی ہے کہ اجرامِ فلکی کی حقیقت کیا ہے اور کمپیوٹر سے انسانی
بیماریوں کی تشخیص کیسے کی جا سکتی ہے لیکن وہ یہ نہیں بتا سکتی کہ انسانی
روح کی ماہیت کیا ہے ؟ انسانی اعمال روح پر کس طرح اثر انداز ہو تے ہیں؟اس
میں رحم و عفو کے جذبات کیسے طلاطم انگیزیاں پیدا کرتے ہیں۔کیسے انسان شب
بھر اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتا اور مناجاتیں کرتا ہے؟ کون سا روحانی جوہر
مناجاتی عمل سے خود بخود جنم لیتا ہے؟ انسانی روح کیسے بلند مدارج حاصل
کرتی ہے؟ انسانی روح کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق کیسے قائم ہوتاہے ؟ انسان
کا ہاتھ خدا کا ہاتھ کیسے بن جاتا ہے ؟ انگلی کے ایک اشارے سے چاند کیسے دو
لخت ہو جاتاہے؟ ناممکنات کیسے ممکنات میں بدل جاتی ہیں ا ورخدا کی قربت
کیسے مقدر بنتی ہے ؟ لیسلے پال کے بقول (سائنس فطرت کی قوتوں کو مسخر کرتی
ہے اور مذہب یہ سکھاتا ہے کہ ان قوتوں کے ماحصل کو صرف کس طرح کرنا
چائیے۔سائنس عا لمِ آفاق کے رموزو اسرار سے پردہ اٹھاتی ہے اور مذہب انسان
کے مضمر جوہروں میں نشو نما پیدا کر کے اسے اس قابل بناتا ہے کہ کہ وہ اپنی
موجودہ زندگی میں سر بلندی اور صحیح توازن پیدا کرسکے اور اس کے بعد کی
منازل کوبہ حسنِ تمام طے کرتا چلا جائے۔ انسان سائنس کی حدود میں آتا ہی
نہیں پھر سائنس ضابطہ اخلاق بھی مرتب نہیں کر سکتی اس لئے کہ اخلاق ہمیشہ
مقاصد سے بحث کرتے ہیں او رسائنس مقاصد سے بے تعلق ہوتی ہے) پروفیسر شین کے
بقول (طبیعات کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ایک بلند مقام پر کھڑی ہو جائے اور
ہمیں بتائے کہ اخلاقیات کیا ہوتے ہیں،اقدار کسے کہتے ہیں اور خدا کیا ہے؟
سائنس کو جس کا تعلق محض کیمیت سے ہے کیا حق حاصل ہے کہ وہ روح کے متعلق
بھی فتوی صادر کر ے ۔ایک سائنٹسٹ کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ نفسِ انسانی کے
متعلق بھی محاکمہ شرع کردے محض اس لئے کہ اس نے ایٹم کا پتہ لگایا ہے
ب)دنیا سائنسی ایجادات کی بدولت طلسماتی شکل اختیارکر چکی ہے لہذا کوئی ذی
شعور انسان سائنس کی مخالفت نہیں کر سکتا ۔اوسپنسکی کہتا ہے (جو مذہب سائنس
کی تکذیب کرے اور جو سائنس مذہب کی تکذیب کرے وہ دونو ں باطل ہیں۔ بلند
ترین مذہب وہی ہو سکتا ہے جو انسانی علم و بصیرت کی راہنمائی کرے ، نہ وہ
جو علم و بصیرت کے سامنے آنے سے شرما ئے) سوال سائنس کا نہیں بلکہ ان
سائنسدانوں کا ہے جن میں ایمان مفقود ہے ۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو علم
وبصیرت کا علمبردار ہے اور جس کی علمی اور سائنسی خدمات سے دنیا یہاں تک
پہنچی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ خدا ،وحی ،رسالت اور یومِ آخرت پر ایمان لازمی
قرار دیتا ہے۔ ،۔
|