کرونا کی تباہ کارياں ۔

کرونا وائرس کی تعلیم پر اثرات ۔

موجودہ دور میں کرونا وائرس پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اس کی ابتدافروری 2019 میں چین کے شہر ووہان سے ہوئی پاکستان پر اس نے دسمبر 2020 میں وار کیا کرونا وائرس کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی موت واقع ہوئی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس کے سامنے بے بس ہیں یہی وجہ ہے کہ اب تک اس کا کوئی علاج نظر آرہا ۔اس وبا سے نہ صرف انسان متاثر ہوئے بلکہ اس دنیا کی ہر چیز ہر ہر شعبہ اس سے متاثر ہوا ۔اس کا سب سے زیادہ اثر تعلیم پر مرتب ہوا 2020 سے لے کر 2019 تک پاکستان میں سخت لاگ ڈا ؤن ، سرکاری دفاتر ،سے بازار ، تعلیمی ادارے کچھ دنوں کے لیے بند کر دیے جاتے اور کچھ دن ایس او پیز پر پابندی کی جاتی ہے اس کے بعد تمام تر معمولات زندگی رواں دواں رہتی ۔ لیکن تعلیمی ادارے نہیں کھولے گئے ۔کرونا کا سب سے زیادہ سے تعلیم پڑھایا اور زیادہ نقصان ہوا ہے ۔کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے ۔جس ملک کے افراد ان پڑھ ہوں گے وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا ۔لہذا کسی نے ملک کو ترقی کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ہمارا ملک پاکستان تعلیم میں سب سے پیچھے رہ گیا ہے ۔اس کی اصل وجہ سے وہاں وائرس سے کرونا وائرس نے تعلیم کی سرگرمیوں پر بہت سے برے اثرات مرتب کیے ہیں ۔
نوجوان ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں وزیر تعلیم نے نویں اور دسویں کے طالبات کو بغیر امتحانات کے پاس کر دیا ۔یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے مستقبل میں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے ملک کو چلانا ہے اور انہی کو اگر بغیر امتحان پاس کر دیا گیا تو ملک کی ترقی کیسے ممکن ہوگی ۔کرونا کی وجہ سے ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں پر اس کے بہت سے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ابتدائی تعلیم اس دور کے بچے جو کہ یہ مونٹ پہلی دوسری جماعت میں تعلیم حاصل کرتے ہیں یہ ان کا سنہری دور ہوتا ہے ۔اس عمر میں بچے کی 80 فیصد شخصیت بن جاتی ہے ۔اس عمر کے بچے چیزوں کو بہت اچھی طرح سے یہ سمجھتے ہیں اور اس عمر میں ان کے سوچنے کی بولنے کی سمجھنے کی صلاحیت بڑھنے لگتے ہیں اور اگر اسی عمر میں اچھا پڑھایا لکھایا جائے تو ان کی شخصیت میں مثبت اثرات نمایاں ہوتے ہیں ۔لیکن کبھی بچے کی شخصیت کو گھر پر بیٹھ نہیں سنوارا جا سکتا ۔چھوٹے بچے اسکول میں جاکر وہاں کے ماحول میں رہ کر ہی پڑھنا لکھنا سیکھتے ہیں اور آن لائن تعلیم کی وجہ سے چھوٹے بچے اس سے محروم ہوگئے ہیں ۔آن لائن تدریس سے بچوں کی اس طرح نشوونما نہیں ہوسکتی جس طرح ایک استاد بچے کو براہ راست دیکھ کر اس کی شخصیت کو سناتا ہے ۔کرونا کی وجہ سے ابتدائی تعلیم زیادہ متاثر ہوئے ہیں کیوں کہ نہم اور دہم کی کلاس کو کچھ عرصے کے لیے بحال کیا گیا تھا ان کا نظام تعلیم جاری رکھا گیا تھا لیکن پہلے سے آدمی تک کے طالبات کی اسکول پورے دو سال بند رکھے گئے ۔اس وجہ سے اب ترک اسکول کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔آن لائن تدریس میں بچوں کو واٹس ایپ پر یا زوم پر لکھنے کے لیے کام دے دیا جاتا ہے اور بچہ اسے بوجھ سمجھتا ہے ۔کہ جی اور مونٹیسری کے بچوں کو سرگرمی کروا کر ہر چیز سمجھائ جاتی ہے ۔اور کھیل کود کے ذریعے انہیں پڑھایا جاتا ہے اور بچے اسے خوشی سے پڑھتے ہیں لیکن آن لائن تدریس میں ایسا ممکن نہیں ۔

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کلاسز کو بھی انسان کے پاس کیا گیا اور ان کا نظام تعلیم آن لائن جاری رہا ۔اور پھر نصاب میں اچانک تبدیلی کی وجہ سے بچے کافی پریشان ہوگئے نہم نہم کا نصاب آدھا کر دیا گیا ۔نصاب ادا کرنے کے بعد اب موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیر تعلیم نے 6 جون کو یہ فیصلہ کیا کہ کمپلسری مضمون کے امتحانات نہیں لے جائیں گے ۔ان میں انگریزی اردو اور اسلامیات شامل ہیں ۔انگریزی جو کہ سرکاری زبان ہے جبکہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اسلامیات جس کے ذریعے ہم اسلام کے بارے میں جانتے ہیں ۔انہیں اہمیت نہیں دی جا رہی ۔کرونا وبا نے ہمارے نظام تعلیم کو متاثر کیا ہی تھا اب ہم سے ہماری قومی زبان اردو کو بھی چھیننا چاہتا ہے ۔کسی بھی ملک کو کمزور کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کی زبان پر وار کیا جاتا ہے اور ہمارے خود کے لوگ ہیں اپنی قومی زبان کو اہمیت نہیں دے رہے۔انگریزی جو کہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اسے بھی اہمیت نہیں دی جاری ۔
آن لائن تدریس کے بہت سے آثار مطلب میں ان میں ایک کسر یہ ہے کہ آن لائن تدریس کے دوران طلباء اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی اور بداخلاقی سے پیش آتے ہیں یعنی کے اساتذہ کا مقام ابو ہریرہ جو ک ایک استاد کا ہونا چاہیے ۔آن لائن تدریس برائے نام آن لائن تدریس ہے اس میں بچے کچھ نہیں سیکھ رہے بہت کم بچے ایسے ہیں جو آن لائن تدریس میں سمجھ کر پڑھ رہے ہیں ۔آن لائن تدریس کی وجہ سے طالب علم اور اساتذہ دونوں نے ہی پریشان نظر آتے ہیں ۔اساتذہ ایمانداری سے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے انہوں نے تقریر میں بچوں کو تعلیم دے رہا ہوتا ہے لیکن وہ ہسپتال میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔اس طرح اساتذہ بی زیادہ توجہ نہیں دے پاتے ۔آن لائن ڈریس کی وجہ سے بہت سے ذہین طلبہ اب مایوس ہو گئے ہیں کیوں کہ پچھلے سال بنا پیپلز کے بچوں کو پرموٹ کیا گیا اس وجہ سے پڑھنے والے بچے اب محنت سے جی چرانے لگے ہیں ۔طالب علموں کو بغیر امتحانات پروموٹ کر دینے سے طالبعلموں میں احساس محرومی پیدا ہوا ہے کہ تمام طالب علم برابر ہے جو پڑھتا ہے وہ بھی اور جو نہ پڑھی ہو گی سب کو ایک جیسے نمبر دے کر پاس کر دیا گیا ۔یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہر طالب علم کو پڑھنے میں دلچسپی نہیں لے رہے ۔

کرونا کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ آن لائن جاری رکھا گیا آن لائن تعلیم جاری تو رہی لیکن پاکستان میں 40% فیصد بچے ایسے ہیں جن کے پاس لیپ ٹاپ اسمارٹ فون کمپیوٹرز وغیرہ کی سہولیات نہیں اور بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں سگنلز کا مسئلہ ہوتا ہے ۔اور بہت سے والدین ایسے ہیں جنہیں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں آتا ۔اسی وجہ سے پاکستان کے 40 سے 60 فیصد بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں ۔آن لائن تدریس میں نقل کو بہت زیادہ فروغ ملا ہے گھر میں بیٹھ کر پیپر دینے سے بچوں کے اندر کسی چیز کو پڑھنے اس کے بارے میں جاننے یعنی کے بچوں کے اندر تجسس ختم ہو چکا ہے ۔اور اب بچے صرف سوالات کا جواب ان دیکھ کر لکھ دیتے ہیں اور امتحان میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں ۔کرونا کی وجہ سے ملک بھر میں لگدا لگایا گیا اس سے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جب بھی لوگ دھوپ لگے گا تو ہماری پڑھائی بات یہاں تک ہے کہ چھوٹے بچے جو نا سمجھ ہیں وہی کہتے ہیں کہ اللہ کرے کرو نہ دوبارہ آجائے تاکہ ہمارے اسکول نہ کھلے یہ بات تو چھوٹے طالب علم کی لیکن اگر دیکھا جائے تو جماعت کے طالب علم اور کالج کے طالب علم جب پیپر لینے کا اعلان کیا گیا تو احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئے ان کا کہنا تھا کہ اگر آن لائن تعلیم ہمیں بھی گئی ہے تو امتحان ابھی آن لائن دی جائیں ۔یعنی کہ اب طالب علم تعلیم سے جی چرانے لگے ہیں اور محنت کر کے امتحان نہیں دینا چاہتے ۔
آن لائن امتحانات میں ذہین طلبہ کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوتی ہے ۔وہ طالب علم جیو پورا مہینہ گھر بیٹھ کر کلاسز لے رہا ہے اور وہ طالب علم جو ایک بھی کلاس نہیں لے رہا اور امتحانات میں شرکت کرتا ہے اسے بھی اتنے ہی نمبر دیں جارہے ہیں اور یوں پورے مہینے پورے سال بیٹھ کر پڑھا تھا اسے بھی انہیں نمبر بند کر دیا گیا ہے ۔اس طرح بچوں کے ذہنوں میں اب پڑھائی کے بارے میں غلط خیالات بھر رہے ہیں کہ پاکستان میں انصاف نہیں لہٰذا انہیں مسلمانوں پر نہ چھوڑ دیا ہے ۔کرونا کی وجہ سے سکول تو بن تھی لیکن والدین سے اسکول والے فیس وصول کرتے رہے اور غریب ماں باپ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے ان کی فیس سے ادا کرتے رہے ۔نجی اداروں نے سرکاری اداروں میں بچوں سے پیسے وصول کرتے رہے لیکن بچوں کو ایک لفظ تک نہ پڑھا یا گیا ۔

آن لائن تدریس سی پاکستان کا نظام تعلیم تو جاری و ساری رہا لیکن وہ طالبان کے پاس بنیادی سہولتیں یعنی اسمارٹ فون کمپیوٹر وغیرہ موجود ہیں ان کے پاس بھی بہت سی مشکلیں آتی جیسا کہ کلاس کے دوران انٹرنیٹ کے سگنلز کا اچانک چلے جانا اس طرح طالب علم اور ایک استاد کے درمیان ایک ربط قائم نہیں رہ پاتا اور ان کے بہت سے سوالات کے جوابات رہ جاتے ہیں اس طرح طالب علم کے تمام کا سیکس صحیح طریقے سے واضح نہیں ہوپاتے ۔آن لائن تدریس کی وجہ سے بچوں کی نہ صرف تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں بلکہ بچوں کی صحت بھی اس سے متاثر ہوئے وہ اس طرح کے بچے سکول جاتے تھے تب ان کی ایک روٹین سیٹ تھی صبح اٹھنا ورزش کرنا اس لیے بچے تندرست اور خوش رہتے ہیں ۔لیکن کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے اور بچے صبح اٹھتے بھی نہیں نہ ورزش کرتے اور گھر میں بھی بیٹھے بیٹھے کلاسز لے رہے ہوتے اور اس طرح ان میں سستی کا مادہ پیدا ہوگیا ہے ۔اور گھر میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے سے بچوں کے اندر خود اعتمادی کا مادہ ختم ہوگیا ہے ۔کیوں کہ ایک وہ طالب علم جو جماعت کے اندر جا کر اساتذہ کے ساتھ سوالات کرتا ہے ان کے جوابات معلوم کرتا ہے اور تمام طالب علموں کے سامنے کھڑا ہو کر مثال کرتا ہے تو اس طرح اس کا اعتماد خود پر قائم رہتا ہے ۔لیکن اب ایسا ممکن نہیں کیونکہ آن لائن تدریس کے دوران طالب علم توجہ سے یہ کلاس نہیں لے رہے اور نہ ہی کوئی سوال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر خود اعتمادی کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔

کرونا کیا جہاں منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں تو دوسری طرف اس کی تھوڑے بہت مثبت اثرات بھی تعلیم پر مرتب ہوئے ہیں ۔موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے تعلیم کو بذریعہ سوشل میڈیا یعنی کے انٹرنیٹ کے ذریعے جاری رکھا گیا ۔ذرائع ابلاغ نے تعلیم کو جاری و ساری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔کارروائی کے دوران بہت سے طالب علم جو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں انہوں نے یوٹیوب ،ایم ایس ٹی ایم آل ایپس کو استعمال کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو جاری رکھا ۔بات کی جائے یوٹیوب کی تو یہ طالب علم کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے جہاں پر طالب علم جس عنوان پرجو چاہے پڑھ سکتا ہے ۔کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سے نجی اداروں میں اساتذہ کو ان کی نوکری سے نکال دیا گیا اور وہ بے روزگار ہو گئے ۔لیکن ہونہار طالب علم جو کہ واقعی اہلیت رکھتے ہیں انہوں نے یوٹیوب پر پڑھا کر طالب علم کو فائدہ پہنچایا اور اپنے لئے ذریعہ معاش کا بندوبست کیا ۔جانی یوٹیوب پر پڑھا کر انہیں لائکس اور کمنٹس دے کر ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور بہت سے اساتذہ نے طالب علموں کو آن لائن کورسز بھی کروائے اس سے ناصرف اساتذہ کو فائدہ ہوا بلکہ طالبعلموں نے بھی کا فائدہ اٹھایا ۔

ٹیلی اسکول جو کہ پاکستان کے قومی چینل پی ٹی وی پر صبح آٹھ بجے سے لیکر شام 6 بجے تک مون سے لے کربارہویں تک کے طالب علم کے لئے بہترین لیکچر فراہم کر رہا ہے ۔عمران خان کی طرف سے اٹھایا جانے والا یہ دام طالب علموں کے لئے بہت زیادہ احمد کا حامل ہے ۔اس طرح وہ طالبان جن کے پاس اسمارٹ فونز لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کی بنیادی سہولیات موجود نہیں ان ان کی تعلیم و ذریاتء ٹی وی کے جاری رہ سکتی ہے ۔کرونا نے تعلیم کے بارے میں منفی اور مثبت اثرات مرتب کیے ۔پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے ۔120 پر عمل کر کے تعلیمی اداروں کو کھولا جائے استاد کی طالب علم تعلیم حاصل کر سکیں ۔

 

Shazia Hameed
About the Author: Shazia Hameed Read More Articles by Shazia Hameed: 23 Articles with 25038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.