میری ساتھیوں کے پاس کھانا، جوس، سب کچھ ہوتا تھا لیکن میرے پاس۔۔۔۔ ہینڈ بال کی سٹارز جنہوں نے اس کھیل کو فیصل آباد میں مقبول بنایا

image
 
نصرت بانو جب پہلی مرتبہ سپورٹس کٹ پہن کر پریکٹس کے لیے جا رہی تھیں تو خاندان کے کچھ افراد نے انھیں دیکھ لیا اور پھر جیسے طوفان برپا ہو گیا۔ خاندان کے سب بڑے اُن کے والد کے پاس آئے اور باقاعدہ پنچایت لگا دی۔
 
نصرت بتاتی ہیں کہ ’پنچایت ہوئی مگر میرے والد نے خاندان والوں سے کہا کہ یہ میری بیٹی کا شوق ہے۔ میں خود تو ان پڑھ ہوں مگر مجھے پتا ہے کہ وہ جو بھی کر رہی ہے، ٹھیک کر رہی ہے۔ میں اسے نہیں روکوں گا۔‘
 
پاکستان میں ہینڈ بال کی بین الاقوامی کھلاڑی اور واپڈا ہینڈ بال ٹیم کی کپتان نصرت کے لیے بچپن سے سب آسان نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے والد کے اس جواب پر میرے خاندان نے دس سال تک ہمارا بائیکاٹ کیا۔‘
 
نصرت کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں سے ہے۔ اُنھوں نے آٹھ بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے اور ان مقابلوں میں وہ کانسی اور چاندی کے میڈل حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔
 
وہ بتاتی ہیں کہ ان سے قبل ان کے گاؤں میں کھیل تو کیا، کسی خاتون کی اعلیٰ تعلیم یا ملازمت کی بھی زیادہ مثالیں موجود نہیں تھیں۔
 
image
 
اُن کے والد ایک کسان ہیں اور پیشہ ور کھلاڑی بننے کے بعد اب نصرت بانو اپنے خاندان کی کفالت میں بھی مدد کرتی ہیں۔
 
وہ بتاتی ہیں کہ اس غریب گھرانے میں سات بہن بھائی کھانے والے تھے۔ ’ایسے میں اخراجات پورے ہوتے تو کیسے؟ میرے والد مجھے خود سکول سے سائیکل پر لایا اور لے جایا کرتے تھے۔
 
’مزدور تھے، ظاہر ہے کبھی اُن کے پاس پیسے نہیں بھی ہوتے تھے۔ تو میں (بعد میں خود) پیدل دس، بارہ کلومیٹر چل کر سکول آتی جاتی تھی۔‘
 
وہ بتاتی ہیں کہ ’کئی دفعہ ایسے ہوتا کہ میرے پاس سکول بریک کے وقت باقی بچوں کی طرح لنچ کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھار والدہ گھر سے کچھ بنا کر دے دیتی تو وہی کھا لیتی۔‘
 
دوسری جانب خاندان والوں کا پریشر تھا جو اپنے خاندان کی لڑکی کے باہر نکلنے پر اعتراضات کرتے تھے۔
 
نصرت بتاتی ہیں کہ ’صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جب میں باہر جاتی تو مجھ پر میرے قریبی رشتہ دار آوازیں کستے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ والد خود مجھے لانے اور چھوڑنے لگے، کہ مجھ پر کوئی تشدد نہ کردے۔‘
 
لیکن پھر انھوں نے اپنے ہنر سے سب کو حیران کردیا۔ ’جب میری کامیابی کی اطلاع پہنچی اور ایک بین الاقوامی مقابلے میں میری شاندار کارکردگی پر واہ واہ ہوئی تو پھر خاندان والے مٹھائی لے کر آئے اور ہمارے ساتھ صلح کر لی۔‘
 
نصرت بانو نے بی بی سی کو اپنی آپ بیتی حال ہی میں اس وقت سنائی جب وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں قومی خواتین ہینڈ بال چمپئین شپ میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے آئیں۔
 
image
 
یہاں فائنل میں ان کا کانٹے کا مقابلہ روایتی حریف آرمی کی ٹیم سے تھا۔
 
واپڈا کی ٹیم اگرچہ اپنے ٹائٹل کا دفاع تو نہ کر سکی مگر نصرت اور ان کے دیگر ساتھیوں کا مقابلہ خوب ڈٹ کر کیا۔
 
مگر واپڈا کی کپتان بین الاقوامی کھلاڑی نصرت بانو اور اس کے ساتھ سینیئر کھلاڑیوں آمنہ شہزادی اور آمنہ عاشق نے اپنی ٹیم کے ہمراہ آخری سیکنڈ تک مقابلہ کیا۔
 
اگرچہ ہینڈ بال پاکستان میں زیادہ مقبول نہیں مگر فیصل آباد میں اس کھیل کی مقبولیت کی وجہ نصرت بانو، آمنہ عاشق اور آمنہ شہزادی کو تصور کیا جاتا ہے۔ ان تمام کھلاڑیوں کا تعلق ضلع فیصل آباد کے غریب اور روایت پسند گھرانوں سے ہے۔
 
آمنہ عاشق اور آمنہ شہزادی بھی واپڈا کی ٹیم کے لیے کھیلتی ہیں۔
 
ان تینوں نے اپنی زندگی میں نہ صرف انتھک محنت سے یہ مقام حاصل کیا بلکہ مشکلات کے پہاڑ کو بھی عبور کرتے ہوئے کئی لڑکیوں کے لیے رول ماڈل بنی ہیں ہوئے ہینڈ بال کو فیصل آباد میں مقبول کھیل بنا دیا ہے۔
 
نصرت ہی کی طرح آمنہ عاشق اور آمنہ شہزادی کے بچپن اور نوجوانی کی کہانیاں ملتی جلتی ہیں جہاں ان کو مناسب سہولیات تو کیا مناسب حالات بھی دستیاب نہیں تھے۔
 
’بھوک بھی برداشت کی‘
آمنہ شہزادی کے والد ایک ڈرائیور تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں ان کی زندگی ہی میں کھیلا کرتی تھی۔ ابھی میں سکول میں ہی تھی کہ وہ وفات پا گئے۔ یہ بڑا سانحہ تھا۔ اس نے ہمیں بھری دنیا میں تنہا کر دیا تھا۔‘
 
’میری والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ والد کی وفات کے بعد انھوں نے کھیتوں میں محنت مزدوری شروع کر کے میری ضرورتیں پورا کرنا شروع کر دی تھیں۔ آج میں جس مقام پر ہوں، وہ میرے والد، والدہ اور اب میرے شریک حیات کی وجہ سے ہے۔‘
 
image
 
آمنہ عاشق بتاتی ہیں کہ ان کے کھیل کے لیے درکار مناسب خوراک بھی دستیاب نہیں ہوتی تھی۔
 
’جب پریکٹس کے لیے جاتی تو اپنے ساتھ صرف پانی لے کر جایا کرتی تھی، جبکہ میری ساتھیوں کے پاس ان کی کٹ میں کھانا، جوس، سب کچھ موجود ہوتا تھا۔ جب سکول و کالج میں یا کھیل کے دوران وقفے میں لنچ وغیرہ ہوتا تو میں خاموشی سے کھسک جاتی تھی۔ کبھی کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ میرے پاس پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘
 
ان کا کہنا ہے کہ ’گھر سے سکول و کالج اور پھر پریکٹس کے لیے کئی کئی کلومیٹر پیدل چلتی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر میرے محلے کے ایک صاحبِ حیثیت شخص نے مجھے سائیکل دی تھی۔ اس سائیکل سے مجھے بہت سہولت ملی تھی۔‘
 
’مشکلات کا میں نے ڈٹ کا مقابلہ کیا۔ وہ نہ صرف ختم ہوئیں بلکہ اچھا دور بھی شروع ہو چکا ہے۔ مگر روح پر لگنے والے زخم ہیں کہ ختم نہیں ہوتے۔ میں ڈھیلا ڈھالا ٹریک سوٹ پہن کر کھیلنے نکلتی تو محلے اور علاقے کے لوگ آتے جاتے مجھ پر آوازیں کستے تھے۔ ان کی زبانوں کے گھاؤ آج بھی محسوس کرتی ہوں۔‘
 
’بھائی اپنے مستقبل کے لیے باہر نکنا پڑے گا‘
آمنہ عاشق نے بتایا کہ ایک دفعہ پریکٹس کے دوران ان کا پاؤں زخمی ہو گیا تھا۔
 
’تکلیف اتنی زیادہ تھی کہ کمرے میں سے میری تکلیف کی آوازیں باہر بھائی تک گئیں تو وہ غصے سے بھرے ہوئے اندر آئے اور مجھے ڈانٹا اور کہا کہ سو دفعہ منع کیا کہ اس کھیل تماشے کو بند کرو۔ ہمارے بھی بے عزتی کرواتی ہو۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ ’ہوتا یہ تھا جو لوگ مجھ پر آوازیں کستے تھے وہی لوگ میرے بھائیوں کو بھی طعنے دیتے تھے۔ بھائی باہر کا غصہ بھی مجھ پر نکالا کرتے تھے جو میں برداشت کر جاتی تھی۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ میں تکلیف میں تھی۔‘
 
image
 
’بھائی کا غصہ برداشت نہ کر سکی اور ان سے کہا کہ بھائی ہم غریب ہیں تو اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں۔ اپنے مستقبل کے لیے مجھے باہر نکلنا ہو گا اور میں نکلوں گئی تاکہ میرا اور میرے خاندان کا مستقبل بہتر ہو سکے۔‘
 
آمنہ عاشق کا کہنا تھا کہ ’یہ سن کر بھائی باہر نکل گے۔ اس کے بعد مجھ سے کبھی بات نہیں کی۔ میں کئی دن تک بستر پر رہی، دیسی ٹوٹکوں وغیرہ سے علاج کیا خود ہی بہتر ہوئی تو دوبارہ زیادہ محنت سے پریکٹس شروع کر دی۔‘
 
سلیکشن کا دن ان کے لیے عید سے کم نہیں تھا
نصرت بانو کہتی ہیں کہ تعلیم اور کھیل ساتھ ساتھ جاری تھے۔ ’میں پڑھائی میں اگر ٹاپ طالب علم نہیں تھی تو نالائق بھی نہیں تھی۔ اب میں نے فزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز بھی کر لیا ہے۔ میری کامیابی کا آغاز کالج میں فرسٹ ایئر سے ہو گیا تھا۔‘
 
’فرسٹ ایئر میں واپڈا کے کوچ ہمارا کھیل دیکھنے آئے تو مجھ سے متاثر ہوئے اور کہا کہ یہ تو بین الاقوامی کھلاڑی ہے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ان کوچز نے مجھے کہا کہ ’بیٹا اگر آپ واپڈا کی طرف سے کھیلو تو ہمیں بہت خوشی ہوگی۔ ہم پکی نوکری دینے کے علاوہ تنخواہ دیں گے اور کام کھیلنا اور خوب کھیلنا ہوگا۔ یہ سن کر مجھے یقین نہ آیا۔ اپنا کالج چھوڑ کر گھر کی طرف بھاگی۔‘
 
’والد کو یہ بتایا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے صرف سپورٹ کیا ہے محنت تمھاری اپنی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج تم کامیاب ہوئی ہو۔ شاید اپنے علاقے سے میں پہلی سرکاری خاتون افسر ہوں۔‘
 
آمنہ شہزادی کا کہنا تھا کہ ’جب میری والدہ ہمارے لیے اتنی محنت کر رہی ہوتی تھی تو میں دگنی محنت کرتی۔ پڑھائی کو پورا وقت دیتی تھی۔ دوسرے اگر دو گھنٹے پریکٹس کرتے تو میں چار گھنٹے کرتی تھی۔ دو، دو گھنٹے ورزش کو دیتی تھی۔‘
 
’بس ایک ہی جنون اور لگن ہوتی تھی کہ کچھ کر کے دکھانا ہے۔ کالج کی طرف سے کھیلتے ہوئے واپڈا کے کوچز اور مینجرز نے دیکھا اور منتخب کر لیا تھا۔ وہ دن میرے لیے عید کا دن تھا۔‘
 
آمنہ عاشق بتاتی ہیں کہ ’ہوتا یہ تھا کہ مجھے میرے کوچ ناصر صاحب ایک ٹانگ پر کھڑا کر کے ایک ڈبے میں بال ڈالنے کی پریکٹس کرواتے یعنی گول کرنے کی پریکٹس کرواتے اور میں کئی کئی گھنٹے تک یہ پریکٹس کرتی تھی۔ پھر اکیلے ہی بال لے کر دوڑتی تھی۔‘
 
’جو مجھ پر آوازیں کستے تھے۔ آج ان کی نظریں جھک جاتی ہیں‘
نصرت بانو کہتی ہیں کہ ’اب میرے والد کام نہیں کرتے۔ میں نے ان کو کہہ دیا ہے کہ آپ نے بہت کچھ کر دیا۔ اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے سب بہن بھائیوں کو پڑھا رہی ہوں۔ بائیکاٹ کرنے والے رشتہ دار اب مجھ سے مشورے لیتے ہیں۔‘
 
image
 
’اب جب میں اپنے علاقے سے گزر رہی ہوتی ہوں اور کچھ نوجوان کھیل رہے ہوں تو وہ مجھ سے مشورہ لیتے ہیں بلکہ علاقے کے بڑے بزرگ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ان کو مشورہ دوں کہ کیا کریں کہ ان کے بچے میرے جیسے بن سکیں۔‘
 
آمنہ شہزادی کہتی ہیں کہ ’اب ہمارے حالات بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اتنے بڑے لیول تک جاؤں گی۔‘
 
آمنہ عاشق کہتی ہیں کہ ’اب میرے والد اور والدہ میرے ساتھ رہتے ہیں۔ میرے والد علاقے کے معاملات وغیرہ دیکھتے ہیں۔ میری آمدن کافی ہے ان کو کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے دیکھ کر علاقے کی کئی لڑکیاں نہ صرف تعلیم حاصل کر رہی ہیں بلکہ کھیل بھی رہی ہیں۔ میں ان کی مدد کرنے کے علاوہ مشورے بھی دیتی ہوں۔‘
 
’اب میں نے اپنی موٹر سائیکل خرید لی ہے۔ باہر آنے جانے کے لیے دھڑلے سے موٹر سائیکل استعمال کرتی ہوں۔‘
 
وہ بتاتی ہیں کہ ’ٹیلی ویژن اور اخبارات میں میری خبریں آتی ہیں۔ کل جو مجھ پر آوازیں کستے تھے۔ آج ان کی نظریں مجھے دیکھ کر جھک جاتی ہیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: