درویش خلاف ِ معمول دیرسے اپنی کٹیا سے باہر آئے وہ
انتہائی تعلیم یافتہ اور صاحب ِ نصاب تھے کئی شہروں میں ان کی متعدد
فیکٹریاں تھیں وہ شروع ہی سے اپنا الگ مزاج رکھنے کی وجہ سے عام لوگوں جیسے
نہیں تھے ہنس مکھ، ہمدرداور چپکے سے انسانیت کی خدمت کرنے والے۔انہیں کچھ
اﷲ والوں کی صحبت ایسی ملی کہ وہ ان کے رنگ میں رنگتے چلے گئے تو شہرسے دور
کئی ایکڑ جگہ خریدی اور دنیا کے بکھیروں سے بے نیازہوکر ایک دو دن وہاں
عبادت کے لئے چلے جاتے انہوں نے اپنے لئے ایک کٹیا بنوائی جو سادگی
کامظہرتھی ابتدا میں سارے کام خود کرتے تھے ماہ ِ صیام میں کئی کئی روز
وہاں قیام کرتے انہیں دیکھ کر اب بھی عام آدمی اندازہ نہیں لگاسکتاکہ وہ
شہرکے ایک بڑے صنعتکارہیں شہرسے دور کھیتوں کے آس پاس سڑک کنارے ایک کٹیا
اور چھوٹی سی مسجد دیکھ کر پہلے پہل لوگ بہت حیران پریشان ہوتے کبھی اکا
دکا مسافرروایتی نلکے سے پانی پیتے کچھ دیر سستاکراپنی اپنی منزل کی طرف
بڑھ جاتے کچھ چور بھی واردات کے لئے آئے لیکن درویش بابا کے پاس کھانے پینے
کے سوا کچھ بھی نہ ملتا تو مایوس ہوکر چلے جاتے پھر کچھ مقامی لوگوں کا
فطری تجسس جاگا تو بڑے بوڑھوں نے آناشروع کردیا جو بھی ان کو ملنے آتا
درویش کی حکمت سے لبریز باتیں ان کادل موہ لیتیں پھر نہ جانے کہاں سے ایک
حالات کا ماراشخص سکندر وہاں آن نکلا وہ فقط نام کا ہی سکندر تھا ورنہ
حالات نے اسے پریشان کرکے رکھ دیا تھا اس نے کہا اگر آپ مجھے یہاں رہنے کی
اجازت دیدیں تو میں مسجدکی خدمت کرتارہوں گا انہیں بھلاکیا اعتراض ہوسکتا
تھا اب مسجد میں آذان کی سرمدی آوازبھی گونجنے لگی تو درویش نے مستقل امام
صاحب کو بھی رکھ لیا جو باجماعت امامت کے فرائض انجام دینے لگا پھر مہمان
خانہ بنا درویش کی ہدایت تھی کہ وہاں آنے والے ہرشخص کی ضروریات کا خیال
رکھا جائے اسی دوران درویش کی شہرت پھیلتی چلی گئی تو ہفتہ وار نشست میں
کبھی کچھ دل کی باتیں ، کبھی معرفت کے رموز اسرار تو کبھی امت ِ مسلمہ کے
حالات کی منظرکشی اس اندازسے کرتے کہ ان کی باتیں دل میں ترازو ہوجاتیں
انہوں نے عبادات پر زوردینے کی بجائے عملی طورپر تربیت دینے کا عزم کررکھا
تھا درویش نے بارہا کہا باتیں تو ہرکوئی دلفریب کرنا جانتاہے اورسننا بھی
چاہتاہے لیکن عملاً قول و فعل کے تضاد کے باعث کسی پر باتیں اثرانداز اس
لئے نہیں ہوتیں کہ وہ روح سے عاری ہوتیں ہیں۔ اس روزجمعتہ المبارک کی
نمازسے ادا کرنے بعد کسی نے درویش سے سوال کرڈالا حضرت ! آپ کے خیال میں آج
کا سب سے بڑا مسئلہ کیاہے؟ ۔۔انہوں نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر جواب دیا دور
ِ حاضرکے مسلمانوں میں حرام و حلال کی تمیزختم ہوگئی ہے حالانکہ مذہب اسلام
کا حرام اور حلال کے بارے میں بڑا واضح حکم ہے اگر رشوت ،شراب ،سود حرام
ہیں تو حرام کی کمائی سے خریدا گیا بکرے،گائے ،مرغی کاگوشت حلال کیسے ہوگیا
جناب وہ بھی حرام ہے اور حرام کی کمائی کا ایک لقمہ برسوں کے اعمال کو غارت
کردیتاہے لیکن لوگوں کو اس کا خیال ہے نہ احساس ۔ اور اگر غورکریں تو روشن
ضمیروں پر حلال و حرام کے معانی کاایک دفترہے جو کھلتا چلا جاتاہے جس طرح
نماز کی ادائیگی کے لئے وضو شرط ہے بعینہ‘ آخری الہامی کتاب سے صرف اس کو
ہدایت ملتی ہے جو متقی اور پرہیزگارہے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ قرآن
حکیم سے ہدایت لینی ہے تو آپ کو متقی بننا پڑے گا یعنی ہرشخص اس سے ہدایت
نہیں پاسکتا متقی ہونے کی شرط پوری کرنا لازمی ہے اس کے بغیراﷲ کے احکامات
کی گہرائی تک نہیں پہنچاجاسکتا اس لئے اس کتاب ِ مقدس کو اپنی اپنی زبان
میں ترجمہ کے ساتھ پڑھا کریں تاکہ احکام ِربانی سمجھ میں آسکیں پھر مطالب
پر غورکریں کہ قرآن ہم سے کیا تقاضا کرتاہے اس کا ادراک ہوگیا تو پھر سمجھ
لیں بندگی کا حق اداہوگیا۔
درویش نے کہا دنیا بھر کے علماء کرام،مفتی اور لوگوں کی اکثریت عبادات پر
زور دیتی ہے عبادات بھی ضروری ہیں لیکن اس سے بھی ضروری حقوق العباد ہیں
آخری الہامی کتاب، نبی آخرالزماں ﷺ کی پوری زندگی اور تعلیمات کااگراحاطہ
کیا جائے تو انہوں نے صلہ رحمی کی تلقین کی ہے، حقوق العباد کا خیال رکھنے
پرزوردیاہے، ہمسائے کے ساتھ بہترین سلوک کا حکم دیاہے غورکریں سارے کا سارا
پور کا پوراا قرآن انسان کو مخاطب کرتاہے ا نسان کو زندگی گذارنے کے طریقے
وضاحت سے کھول کھول کربیان کرتاہے، وراثت،والدین کے حقوق، تہذیب و تمدن کے
ضوابط، جنگ کے اصول ، امن، سماجی ،سیاسی،ثقافتی سرگرمیوں کا محور ،تعلیم
الغرض کہ ہر شعبہ ٔ زندگی سے متعلق احکامات کی تشریح قرآن میں موجود ہے ۔
دنیا کی سب سے عظیم شخصیت آں حضرت ﷺ کی حیات ِ طیبہ ہماری قدم قدم
پررہنمائی کے لئے موجودہے کوئی شخص پوری پوری رات عبادت کرتارہے صوم کا
پابند،صلواۃ و تہجد گذارہی کیوں نہ ہو اگر لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ
بہترنہیں اس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرے محفوظ نہیں،بیوی پرتشدد
کرتاہو، بچے بھی اس سے خوفزدہ رہتے ہوں یاصلہ رحمی کرنے والانہیں توجان
لیجئے کہ اﷲ اور اس کا رسول ﷺایسے کسی فرد سے خوش نہیں ہیں حیات ِ طیبہ ﷺکا
ورق ورق کھنگال لیں نبی ٔ پاک نے کبھی اپنی کسی اہلیہ پرہاتھ نہیں
اٹھایاکبھی گالی گلوچ نہیں کی ہمیشہ حسنِ سلوک کا عملی مظاہر کیا یہ بھی تو
ہمارے پیارے نبی کی سنت ہے بیشتر کیوں غورنہیں کرتے دوسروں کی زندگیاں تلخ
کرکے جنت کے طالب کیوں نہیں سوچتے،معاملات میں بہتری، کمزور وں سے صلہ
رحمی،پڑوسیوں،راہگیروں،بچوں،گاہکوں سے خوش اخلاقی،خواتین کااحترام بھی تو
نبی پاک ﷺ کی سنتیں ہیں یادکرو فتح مکہ کے روزکیا ہوا تھا اﷲ کے آخری نبی ﷺ
نے غالب آنے کے باوجود اپنے دشمنوں کو معاف فرمادیا تھا ہم ایسا کیوں نہیں
کرتے آپ سرکار ﷺ نے تو ماحول کو بتوں سے پاک کردیا تھا ہمارے اندر تکبرکے
کتنے بت براجمان ہیں یہ ہم بھی نہیں جانتے،تکبر،انا،خود ستائشی،لالچ ،نفرت
،ظلم،اختیارات اور طاقت کے بتوں نے ہماری پوری شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیاہے
پھر بھی کمال حیرت ہے کسی کو اس کا مطلق احساس ہے نہ ادراک یہ ہوکیا رہاہے؟
حضرت محمد ﷺ کو اپنانبی تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل
کیا جائے ان کے اسوہ ٔ حسنہ کو رہبرمان کر معاملات ِ زندگی کو معمول بنالیں
تو بات بن سکتی ہے ورنہ دعوے اور عمل میں کوئی تال میل نہیں یہ حقیقت جانے
بغیرمسلمان ہونے کا حق ادانہیں ہوسکتا۔یقین جانو انسان ہروقت اﷲ کا شکر
اداکرے تب بھی اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکرانہ ادا نہیں ہوسکتا جو لوگ
احساسات سے عاری ہورہے ہیں یا جن کے دلوں میں اضطراب دم توڑرہاہے ان کیلئے
مخلصانہ مشورہ ہے وہ اپنے معامالات پر ازسرنو غورکریں وہ اپنے آپ کو مصروف
کرلیں اس کا آسان حل یہ ہے کہ اپنی ذات کو سماجی کاموں کیلئے وقف کردیں جس
کے پاس وسائل نہیں ہے پھر بھی وہ انسانیت کی خدمت کرسکتاہے اپنی گلی محلے
میں لوگوں کے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنے کیلئے کوشش کریں یا کسی سماجی تنظیم
میں شامل ہوجائیں بہت سے لوگ آ پ کی توجہ کے منتظرہیں اس کے ساتھ ساتھ
عبادات میں اپنا دل لگانے کی کوشش کریں اورخودکو ایک اچھا انسان بنانے کی
تحریک پیداکریں اس ضمن میں ایک نسخہ یہ ہے کہ وعظ و تلقین کی بجائے اپنے
کردار سے دوسروں کیلئے مثال بنیں یقین کریں یہی ایک طریقہ سے جس سے تکبرکے
بت پاش پاش ہوسکتے ہیں۔
|