جُرم و سزا کا قانُون اور جُرم و سزا کا جنُون !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنُور ، اٰیت 1 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
سورة
انزلنٰہا و
فرضنٰہا و
انزلنا فیھا
اٰیاتِ بینٰت
لعلکم تذکرون 1
ھم نے اپنے تمام جہان کو اپنے تمام اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی جاۓ پناہ بنادیا ھے اور ھم نے اپنے تمام جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی قانون بناکر اُس قانون کو اپنے جُملہ جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک ایسا قانونِ راہ بنا دیا ھے جو ھمارا ایک مُفصل بیانیہ ھے اور ھم نے اپنے اِس بیانیۓ کا یہ اہتمام اِس لیۓ کیا ھے کہ شاید تُم اِس قدیم قوم کے اِس قدیم اور فطری قانونِ جہان کو اپنے خیال میں لا سکو اور شاید تُم اِس قدیم اور فطری قانونِ جہان سے اپنے موجُودہ زمان و مکان میں ایک مُتمدن انسانی معاشرہ بنا سکو !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
اِس سُورت کی اِس پہلی اٰیت کا جو پہلا لَفظ ھے"سُورَة" ھے اُس کا ایک معنٰی رُتبہِ ذات و فضیلتِ ذات ھے ، دُوسرا معنٰی علاماتِ راہ و نشاناتِ راہ ھے اور تیسرا معنٰی وہ شہرِ پناہ و ریاستِ پناہ ھے جس کے رحمانی دائرے میں شیطانی لَشکر داخل نہیں ہو سکتا اور"سُورة" کے چوتھے مفہوم سے عراق کی وہ قدیم قوم بھی مُراد ھے جو ایک قدیم زمانے میں عراق کے شہرِ بصرہ میں آباد تھی ، شہرِ پناہ کے اِس لُغوی معنی کے اعتبار سے اگرچہ قُرآنِ کریم کی ہر ایک سُورت ہی وہ شہرِ پناہ ھے جس شہرِ پناہ کے رحمانی دائرے میں کوئی شیطانی لَشکر داخل نہیں ہو سکتا لیکن اِس سُورت کے آغاز میں سُورت کا جو لَفظ ھے وہ لَفظ صرف اِس سُورت کا وہ اسمِ سورت ہی نہیں ھے جو جسمِ سُورت سے ایک جُدا گانہ حقیقت کا حامل ہوتا ھے بلکہ اِس سُورت میں آنے والا یہ اسمِ سُورت قُرآن کی ہر ایک سُورت کی طرح اِس سُورت کا ایک اسمِ سُورت بھی ھے اور مضمونِ سُورت کے اعتبار سے اِس سُورت کا وہ جسمِ سُورت بھی ھے جس جسمِ سُورت سے مُراد وہ انسانی ریاست ہوتی ھے جس انسانی ریاست کے اہلِ ریاست حیات کے پہلے لَمحے سے حیات کے آخری لَمحے تک اَمن و سکون کے ساتھ رہتے ہیں ، اِس سُورت کی اِس پہلی اٰیت کا دُوسرا لفظ "فرض" ھے جس کا ایک معنٰی بارِ ثبوت ، دُوسرا معنٰی نکاح ، تیسرا معنٰی ذمہ داری ، اور چوتھا معنٰی ہر وہ کام ھے جو اللہ تعالٰی کے حکم پر کیا جاتا ھے ، اِس سُورت کی اِس پہلی اٰیت کا تیسرا لَفظ "لعلکم" ھے جس کا معنٰی وہ توقع ہوتا ھے جس توقع کو شاید یا مُمکن ہونے کے معنی میں کہا اور بولا جاتا ھے اور اِس سُورت کی اِس پہلی اٰیات کا جو چوتھا لَفظ "تذکرون" ھے اور جس کا معنٰی ماضی کی کسی فراموش حقیقت کو مُفیدِ حال جان کر اپنے حال و خیال میں لایا اور مُناسبِ حال و اَحوال بنایا جاتا ھے ، سُورت کا بنیادی اور طے شُدہ معنٰی شہرِ پناہ ھے اور قدیم زمانے میں اِس شہرِ پناہ کا اطلاق ہر اُس شہر پر ہوتا تھا جو ایک مضبوط سَنگی چار دیواری میں بنایا جاتا تھا اور جس شہر کے آہنی دروازوں اور اُونچے برجوں پر شب و روز پہرہ دینے والے وہ مُسلح پہرے دار کھڑے ہوتے تھے جن کو دیکھ کر شہرِ پناہ کے وفادار سکون سے سوتے تھے اور شہرِ پناہ کے غدار ذہنی عذاب میں مُبتلا ہوتے تھے اور اِس شہر کو اِس شہر کے اِنہی اُونچے برجوں اور اِنہی حفاظتی اہل کاروں کے اِنہی حفاظتی حوالوں سے شہرِ پناہ کہا جاتا تھا لیکن اِس شہرِ پناہ کی اِن خوبیوں کے باوجُود اِس شہرِ پناہ کے اُونچے بُرجوں کے اُوپر شب کو چراغ جلاکر اِن برجوں کو روشن نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اِن شہروں کے اِن برجوں کو شب کی تاریکی میں چُھپا کر رکھا جاتا تھا تاکہ شہرِ پناہ کی طرف بڑھنے والے دُشمنوں کا کوئی لَشکر یا کوئی لَشکری شہرِ پناہ کے اِن برجوں کو روشن دیکھ کر اِن پر کوئی شَب خُون مارنے کی جسارت نہ کر سکے ، اِس سُورت کی اِس پہلی اٰیت میں آنے والے جمع مُتکلم کے پہلے دو صیغے"انزلنا" اور "فرضنا" کا تعلق عھدِ ماضی سے ھے اور دُوسرے جمع مُذکر حاضر کے دو صیغے "لعلکم" اور "تذکرون" کا تعلق عھدِ حال سے ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ اٰیت ھٰذا میں جو قانونِ وحی بیان کیا گیا ھے اُس کا تعلق ماضی کی کسی قوم سے ھے اور ماضی کی اُس قوم میں وہ قانون اتنا قابلِ عمل و زیرِ عمل رہا ھے کہ اہلِ حال کے اہلِ عقل سے توقع کی جاسکتی ھے کہ وہ بھی اِس قانونِ ماضی سے اپنے حال میں فائدہ اُٹھا کر اپنے مُستقبل کو بہتر سے بہتر تر بنا سکتے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کے آغاز میں جس شہرِ پناہ کا ذکر کیا ھے وہ اپنے اِس بیانیۓ کی رُو سے ایک ایسا روشن شہرِ پناہ ھے جس شہرِ پناہ میں قانون کی روشنی ھے اور جس شہرِ پناہ میں قانون کے وہ نُورانی لَشکر ہیں جن کو کسی بڑے سے بڑے دُشمن سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہوتا ھے کیونکہ اِس شہر میں قانون کا جو قانونی لَشکر ہوتا ھے وہ دُنیا کے ہر لَشکر سے زیادہ جری لَشکر ہوتا ھے کیونکہ اِس لَشکر کا کوئی قانون ، قانونِ مُبہم نہیں ہوتا بلکہ اِس لَشکر پر نافذ کیۓ ہوۓ اِس قانون کے سارے اَحکام ، اَحکامِ مُفصل ہوتے ہیں ، قُرآنِ کریم جس شہرِ پناہ یا جس ریاستِ پناہ کا ذکر کر رہا ھے وہ خالقِ عالَم کا یہی عالَمِ پناہ ھے جس میں انسان رہتا ھے اور قُرآن جس قانون کا ذکر کرتا ھے وہ بھی عالَم کا وہی قانونِ فطرت ھے جو عالَم و اہلِ عالَم کی فطرت میں ھے اور انسان اپنی فطرت کی اُسی قانون کی انگیخت پر وہ شہرِ پناہ یا وہ ریاستِ پناہ بناتا ھے جس کا قُرآن نے انسان کے اُس قانونی فرض کے طور پر ذکر کیا ھے جس قانونی فرض سے یہ اَمر مُتبادر ہوتا ھے کہ اِس عظیم سُورت کا وہ موضوعِ سُخن انسان کا وہ قدیم قانونی تمدن اور انسان کی وہ قدیم قانونی معاشرت ھے جو نظرِ ثانی و عقلِ ثانی کے بعد انسان کے عھدِ حال کے لیۓ بھی مُفید و موزوں ہو سکتی ھے لیکن اِس سُورت کے اِس تاریخی موضوعِ سُخن کے برعکس عُلماۓ روایت نے اِس سُورت کے بارے میں جو تین روایتی باتیں مشہُور کر رکھی ہیں اُن میں پہلی بات یہ ھے کہ اِس سُورت میں "زنا" کا جو لفظ آیا ھے اُس سے مُراد مرد و زَن کا وہ ناجائز جنسی تعلق ھے جو قابلِ سزا ھے ، عُلماۓ روایت کی مشہُور کی گئی اِن تین باتوں میں سے دُوسری بات یہ ھے کہ جو مرد و زَن اِس جُرم کا ارتکاب کرتے ہیں اُن کی کم سے کم سزا اُن کو سرِ عام 100 تازیانے لگانا اور اُن کی زیادہ سے زیادہ سزا اُن کو سرِ عام پَتھر مار مار کر ہلاک کردینا ھے اور عُلماۓ روایت نے تیسری بات یہ مشہور کی ہوئی ھے کہ سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے میں بعض منافقینِ زمانہ نے سیدنا محمد علیہ السلام کی اہلیہ سیدہ عائشہ صدیقہ پر اِسی جنسی جُرم کا یہی الزام عائد کیا تھا اور اللہ تعالٰی نے منافقینِ زمانہ کے اسی بُہتان کو رَد کرنے کے لیۓ اپنے نبی اور سیدہ عائشہ صدیقہ کے شوہر پر یہ سُورت نازل کی تھی اور عُلماۓ روایت کے نزدیک اِس سُورت کی یہی شانِ نزول ھے لیکن قُرآن کے اپنے بیانیۓ کے مطابق اِس سُورت میں انسان کے انسانی تمدن اور انسان کی انسانی معاشرت کا ذکر ہوا ھے جو انسانی ھدایت کا ایک ذریعہ ھے اور جو قُرآنی اَحکام کو بیان کرنے کی ایک عملی صورت اور ایک عملی ضرورت ھے ، مُسلم معاشرے میں چونکہ کہیں کہیں پر اسلامی قانون کے نام پر اِس جُرم کی یہ سزا سرِ عام دی جاتی ھے اور کہیں کہیں پر یہ سزا سرِ عام دینے کا مطالبہ کیا جاتا ھے اِس لیۓ آنے والی سطور میں ھم اِس سزا و مطالبہِ سزا پر تفصیلی گفتگو کریں گے تاکہ جُرم و سزا کا وہ نقشہ بھی سامنے آسکے جو انسان کا بنایا ہوا ایک جنونی نقشہ ھے اور جُرم و سزا کا وہ نقشہ بھی سامنے آسکے جو قُرآن کا سکھایا اور سمجھایا ہوا ایک قانونی نقشہ ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558589 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More