پچھلی قسط میں ہم نے مرد کا والد کی حثییت سے مقام جانا
تھااس قسط میں بھائی اور خاوند کی حثییت سے مقام جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھائی کی حثییت سے:۔
بڑے بھائی کا حق دوسرے چھوٹے بھائیوں پر ایسا ہے جیسے باپ کا حق اولاد پر،
حق کبیر الإخوة علی صغیرہم کحق الوالد علی ولدہ (مشکوة) چھوٹے بھائیوں کو
چاہیے کہ بڑے بھائی کا ادب واحترام کریں، ان سے رابطہ رکھیں، ان کی غلطیوں
پر عفو ودرگذر سے کام لیں، اگر وہ غلط راستے پر چلیں تو حکمت وحسن تدبیر سے
تنبیہ کریں، ان کے لیے دعا بھی کریں، جائز امور میں ان کی رائے مشورے پر
عمل کریں اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا برتاوکریں، والدین کے
گذرجانے کے بعد بڑے بھائی کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے، بڑے بھائی کو چاہیے
کہ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں پر شفقت ورحمت کا معاملہ کریں، ان کی اچھی تعلیم
وتربیت پر توجہ دیں، ان کا ہرممکن تعاون کریں اور ان کی دینی، علمی، فکری
اور اصلاحی راہنمائی کرتے رہیں۔
بڑی بہن کا مقام ماں کی طرح ہے
ایک بھائی بہن کے اپنے بھائی پر کیا حقوق ہیں؟ ان حقوق کی تفصیل بہت طویل
ہے،صرف چند بنیادی باتیں درج کی جارہی ہیں۔
1۔ اپنے بھائی کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور معاملے میں نرمی برتنا: رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا: ”اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کے ساتھ نیک سلوک رکھو، پھر درجہ
بہ درجہ دوسرے رشتے داروں کے ساتھ۔“ نبی کریم ﷺنے اپنی رضاعی بہن کے لیے
چادر بچھائی تھی۔
خصوصاً بڑا بھائی باپ کی مانند ہوتا ہے، اور باپ کی طرح اس کا احترام بھی
ضروری ہے، اور بڑے بھائی پر چھوٹوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی ہے۔
2۔ اپنے بھائی کے لیے دعا کرناکرنی چاہیئے
3۔ غلطی پر چشم پوشی اور درگزر سے کام لینا: حضرت یوسف علیہ السلام کے
بھائیوں نے ان کے ساتھ جو رویہ اپنایا وہ کس قدر تکلیف دہ تھا،لیکن آپ نے
انتقام نہ لیا
4۔
باہمی رابطہ مضبوط رکھنا، تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو: عام طور پر
دیکھا جاتا ہے کہ بھائیوں کے درمیان دوری سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں،باہمی
روابط کو مضبوط رکھنا چاہیئے
اسلام میں شوہر کا احترام ومقام
شوہر کی حثییت سے مرد کا مقام. اسلام میں شوہر کا بڑا مقام ھے. حدیث میں ھے
اگر اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کا حکم ھوتا تو میں عورتوں حکم دیتا
کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں. (جامع ترمذی). اللہ کے رسول ﷺسے ایک عورت
نے پوچھا میری شادی ھو رہی ھے مجھ پر میرے خاوند کا حق کیا ھے آپ ﷺنے ارشاد
فرمایا تیرے خاوند کے پورے جسم پر زخم ہوں اور ان میں پیپ بھر جائے تو اس
کو زبان سے چاٹ کر صاف کرے تو بھی خاوند کا حق ادا نہ ہوا.
ہمارے معاشرے میں بعض بیویوں کو خاوندوں سے اور خاوندوں کو اپنی بیویوں سے
جو جائز قسم کے شکوے شکایتیں ہوتی ہیں ان کو دور کرنے کا حل اسلام خوب
بتاتا ہے۔
مثال کے طور پر بیوی کہتی ہے کہ میرا خاوند مجھے وقت نہیں دیتا اور مجھے
چھوڑ کر ادھر ادھر دوسری عورتوں کے پاس جاتا ہے اور خاوند کو شکایت ہوتی ہے
کہ میں کیا کروں کہ میری بیوی کے پاس میرے لیے وقت نہیں ہوتا۔قارئین احادیث
نبویﷺ کی روشنی میں یہ گزارش کروں گا کہ خاوند کی جائز شکایات کا ازالہ
کرنا آپ کا د ینی فریضہ ہے۔اگر عورت اپنے خاوند کے ساتھ اسلام کے بتائے ہو
ئے طریقے سے پیش آئے تو مجھے یقین ہے کہ عورت کی شکایت جو اپنے خاوند سے ہے
اس کا ازالہ خود بخودہو جائے گا اور گھر کا ماحول اور خاوند بیوی کے تعلقات
نہ صرف اچھے بلکہ مثالی بن جائیں گے ایک حدیث میں بہترین اور صالح ترین
عورت کی یہ دو صفات بیان ہوئی ہیں: ”اپنے بچوں پر جب کہ وہ کم عمر ہوتے
ہیں، بڑی مہربان اور شفیق اور اپنے خاوندوں کے معاملات میں ان کے مفادات کا
بہت خیال رکھنے والی۔
“اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کا دائرہ کار گھر کی چار دیواری ہے جس
میں گھریلو امور سر انجام دینے کے علاوہ، مزید دو ذمے داریوں کا بوجھ بھی
اس نے اٹھانا ہے۔ ایک بچوں کی حفاظت، جس میں حمل سے لے کر رضاعت (دودھ
پلانے) تک اور اس کے بعد بھی تعلیم و تربیت تک کے مراحل ہیں۔ دوسرے خاوند
کی خدمت و اطاعت کے امور کی انجام دہی۔ گویا عورت نے بہ یک وقت تین خدمات
سر انجام دینی ہیں:(1)امور خانہ داری۔
(2)بچوں کی پرورش و نگرانی۔(3)خاوند کی خدمت اور اس کی خواہشات کی تسکین۔یہ
تینوں خدمات اتنی عظیم ہیں کہ اس کے شب و روز کے تمام لمحات اس میں صرف
ہوجاتے ہیں یوں وہ پورے طور پر مرد کی شریک زندگی بن کر مرد کو اس کو سکون
مہیا کرتی ہے جس کی وجہ سے مرد گھریلو معاملات سے بے فکر ہو کر یکسوئی سے
کسب معاش میں مصروف رہتا ہے خاوند کی خدمت و اطاعت کی اسلام میں کتنی اہمیت
اور تاکید ہے، اس کااندازہ ذیل کی چند احادیث سے لگایا جا سکتا ہے۔
ایک حدیث میں ﷺ نے فرمایا:”اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم
دیتا تو یقینا عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا
کرے۔‘)ترمذی(دوسری حدیث میں فرمایا: ”عورت خاوند کی موجودگی میں اس کی
اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔)مسلم(حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جس عورت کی
موت اس حالت میں آئے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنتی ہے۔
) مشکوٰة ص 281، ترمذی ص219(حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی کو اپنی
حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تو ضرور اس کے پاس آجائے،اگر چہ چولھے پر
بیٹھی ہو،سب چھوڑ چھاڑ کر چلی آئے۔) مشکوٰة(حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب
کسی مرد نے اپنے پاس اپنی عورت کو لیٹنے کے لیے بلایا اور وہ نہیں آئی، پھر
وہ بھی اسی طرح غصہ میں لیٹ گیا تو صبح تک سارے فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے
رہتے ہیں۔
)مشکوٰة ص 280، بخاری ص782 ج2شوہر کو راضی کرنا اور خوش کرنا بڑی عبادت ہے۔
اور شوہر کو ناخوش کرنا اور ناراض کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ جو عورت پانچوں وقت کی نماز پڑھتی رہی اور رمضان
المبارک کے روزے رکھتی رہی اور اپنی عزت وآبرو کو بچاتی رہی،یعنی پاک دامن
رہی اور شوہر کیفرماں برداری کرتی رہی تو اس کو اختیار ہے کہ جس دروازہ سے
چاہے جنت میں داخل ہو جائے (کسی نے حضورﷺسے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ﷺسب سے
اچھی عورت کونسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ عورت جب شوہر اس
کی طرف دیکھے تو خوش کردے اور جب کچھ کہے تو بات مانے اور جان ومال میں کچھ
اس کے خلاف نہ کرے جو اس کو ناگوار ہو۔
) مشکوٰةص283،نسائی ص71 ج2
(خدا اور رسول کے بعد سب سے زیادہ حق شوہر کا ہے، واضح رہے کہ دین کے کام
اور شریعت کے سوا باقی سب کاموں میں خاوند کا حق سب سے زیادہ ہے۔
اگر خاوند کا حکم دین کے خلاف ہو تو اب اس کے مقابلہ میں کسی کے حکم کو بھی
ترجیح نہ ہوگی لہٰذا خاوند کا حق اللہ ورسول کے بعد سب سے زیادہ ہے۔خاوند
اگرایک ایسے کام کا حکم کرے جو شریعت کے خلاف ہے تو ایسی صورت میں خاوند کے
حکم کو نہیں مانا جائے گا، بلکہ شریعت کے حکم کودیکھا جائے گا۔
مرد کو عورت کا مقام جاننا چاہیئے اور عورت کو مرد کا مقام جاننا چاہیئے
۔اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے آمین
اگر اس تحریر میں کہیں بھی کوئی غلطی ہو گئی ہو تو بارگاہ خدا وندی میں
معافی کا طلب گار ہوں۔
|