روشنی کا سفر

روزِ ازل سے انسانی زندگی میں مذہب ہمیشہ اہم ترین عنصر رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر ارتقائے انسانی کا تصور محال ہے۔انسانوں کیلئے زندگی کے اصول و ضوابط متعین کرنا خدائی کام ہے جبکہ ان ہدایات کے مطابق عملی زندگی کو کشید کرنا،نافذ کرنا ،طاری کرنا اور ان پر عمل در آمد کو یقینی بنانا کارِ مذہب ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اﷲ تعا لی نے اپنی مخلوق کو جو ضابطے اور قوانیں عطا کر رکھے ہیں انہی کی روشنی میں انسان کی نجات ، اس کی بقاء اور اس کا ارتقاء ممکن ہے ۔کیا انسانیت کیلئے خدائی ضوابط کے بغیر زندگی کا سفر طے کرنا سہل ہو سکتا ہے ؟کیا انسان خدائی ہدائیت کے بغیر اس مقام سے بہرہ ور ہو سکتا ہے جس پر وہ نازاں ہے؟ہماری سائنسی ترقی، ایجادات اور عروج بھی تو اس وحی کا نتیجہ ہیں جو انسانوں کی ہدائیت کیلئے آسمان سے اتاری گئی تھی۔سچ تو یہ ہے کہ وحی کی کہنہ و حقیقت کو جاننا غیر از نبی کا کام نہیں ہے لہذا کوئی یہ بتا نہیں سکتا کہ جب وحی کا نزول ہوتا ہے تو انسان کی کیفیت کیا ہو تی ہے؟یہ تجربہ صرف انبیاء تک محدود ہوتا ہے اور وہی وحی کی کہنہ و حقیقت کو جان سنتے ہیں۔وحی کا علم کا ایک ایساوسیع و عریض بحر ہے جس کا کوئی کنارا نہیں اور جو انسانوں کو ایسے جہاں کی نوید سناتا ہے جو ہمارے ادراک سے ماوراء ہوتاہے۔ مذہب میں علم کی آفاقیت ہمیشہ مقدم ہوتی ہے کیونکہ علم ہی انسان کے لئے نت نئے دروازے کھول کر اسے جہانِ نو کی نوید سنا تا ے ۔ رسول اﷲ ﷺ پرپہلی وحی کے الفاظ دیکھئے ۔(ارشادِ خدا وندی ہے ۔پڑھ اﷲ کے نام سے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا۔) ایک دوسری جگہ ارشاد ہو تا ہے (ہم نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ) ۔تخلیقِ آدم کے حساس ترین اور عظیم ترین لمحوں میں فرشتوں کو اسمائے اشیاء سکھانا بھی انسان کی علمی فوقیت کا ایک انداز تھا ۔علمِ اشیاء کی برکت نے آنے والے زمانوں میں انسان پر علم و حکمت کے دروازے کھول کر نئی ایجادات کی بنیادیں رکھی جانی تھی ۔وحی نے انسان کو علم کی برتری ،فو قیت اور فضیلت کا احساس دلایا تاکہ وہ علمی قوت سے آنے والے زمانوں میں تسخیرِ کائنات سے اپنی بر تری کی گواہی دے سکے۔ ارشادِ خداوندی ہے( ہم نے کائنات کی ہر شہ انسان کیلئے مسخر کر دی ہے۔)بقولِ اقبال(محبت مجھے ان جوانو ں سے ہے ۔،۔ ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند) ۔،۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام کا پیغام انسانی اخلاقیات کی سر بلندی اور ایک صالح اور راست باز معاشرے کی تشکیل کا با ضا بطہ اعلان تھا ۔اسلام کی نظریں سائنسی ایجادات پرنہیں بلکہ انسانی اعمال و کردار پر جمی ہوئی تھیں کیونکہ یہی منشاءِ الہی تھا اور یہی مقصودِ کائنات تھا لہذا انسان کو عہدکرنا ہو گا کہ وہ اﷲ تعالی کی متعین کردہ حدود سے تجاوز نہیں کریگا ۔یہی رازِ فطرت ہے اور یہی ہماری نجات کی اساس ہے اور ہمیں اس اساس پر سختی سے پہرہ دینا ہو گا۔مرنے کے بعد معرکہِ قیامت ہو گا، روزِ محشر ہوگا،انسانی اعمال کا حساب ہو گا، جزا و سزا ہو گی ،جنت و دوزخ کا فیصلہ ہوگا،صالح اور غیر صالح کا نتارا ہو ، صالحین کو انعام و اکرام سے نوازا جائیگا اور وہ جھنوں نے راہِ حق سے انکار کیا ہو گا اور اپنی سفلی اور حیوانی خواہشات کی تسکین کو مدعائے زندگی قرار دیا ہو گا انھیں سخت عذا ب سے گزارا جائیگا ۔جہنم کی آگ گمراہی کے شکار انسانوں کی منتظر ہو گی کیونکہ برے اعمال کا فطری نتیجہ آگ کے شعلے ہی ہوا کرتے ہیں ۔خدائے واحد پر ایمان ہی انسان کو ایسی حسین منزل کی جانب کشاں کشاں کھینچ کر لے جا سکتا ہے جس کا منشور خالقِ کائنات نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفے ﷺ کی وساطت سے انسانیت کو پہنچا یا رکھا ہے اور پھر سرکاردو ِ جہاں ﷺنے اس منشور کی روح کے مطابق اپنے اسوہِ حسنہ کا جو کامل ترین نمونہ اہلِ جہاں کو دکھایاہے ا سی پر عمل پیرا ہونے میں انسانیت کی نجات مضمر ہے۔اسی لئے اقبال جیسے مفکر کی وسعت ِ نگاہ کو بے ساختہ اعلان کرنا پڑا ۔(سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفے سے مجھے ۔،۔ کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں)۔،۔

قرآنی تعلیمات کی روشنی کے مطابق اﷲ تعالی نے آدم کو پیدا کیا ،اس میں اپنی روح پھونکی اور پھر اسے اس کرہِ ارض پر اتارا تا کہ وہ خدا ئے یکتا کے بتائے گے ضابطوں قوانین ،پیمانوں اور اصول و ضوابط کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالے ۔ آزمائش آدم کا مقدر بنی لہذا حق کی اطاعت اور باطل سے ستیزہ کاری کی خاطر اسے ایک معینہ مدت عطا کی گئی تا وہ اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکل سکے۔کام تو اتنا مشکل نہیں تھا لیکن انسان کی سفلی خواہشات نے اسے مشکل بنا رکھا ہے ۔ ایک سادہ سی بات کو اتنا دقیق،گنجلک اور مشکل بنا دیا گیا کہ انسان اپنی راہ سے بھٹک گیاہے(ارشادِ خدا وندی ہے۔ ہم کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے) اﷲ تعالی نے اپنی مشیت کی تکمیل کی خاطر مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء کرام کو معبوث فرمایا تا کہ اس کا پیغام بڑے واضح اور دوٹوک انداز میں انسانوں تک پہنچ جائے تا کہ کل کو کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ ہمیں تو زندگی بسر کرنے کیلئے کوئی واضح ہدایات ہی نہیں دی گئی تھیں لہذا ہم سے جو کوتاہیاں ، غلطیاں اور گناہ سر زد ہو ئے ہم ان سے بری الذمہ ہیں ۔یہ ایک ایسا عذر ہے جسے قرآن نے بڑے واضح انداز میں رد کر دیا ہے ۔انبیاء علیہ السلام پر کتابوں ، صحیفوں اوروحی کا نزول اس پیغامی سلسلے کی کڑیاں ہیں جو انسانی رشدو ہد ائیت کی ہدایات سے لبا لب بھرا ہوا ہے تا کہ کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہو سکے کہ ہم تک خدائی پیغام نہیں پہنچا تھا۔لیکن اگر کوئی آنکھیں بند کرکے قسم کھا لے تو پھر اس کا علاج تو کسی کے بس میں نہیں ہے۔دنیا کی واحد کتاب قرآنِ حکیم ہے جو اپنے سچا ہونے کا خود اعلان کرتی ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے (یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے ) دوسری جگہ ارشادِ ربانی ہے (جس کا جی چاہے ہماری بھیجی گئی وحی پر ایمان لے آئے اور جس کا جی چائے اس سے صرفِ نظر کر لے ۔ نتائج خود بتا دیں گے کہ کون حق پر تھا اور کون گمراہی میں تھا )یہ ایک ایسا کھلاچیلنج ہے جو روزِ قیامت تک انسانوں کو غورو فکر کی دعوت دیتا رہیگا ۔جس کا جی چاہے اسے قبول کر لے اور جس کا جی چاہے اسے رد کر دے۔ہر دو امکانات کے نتائج اسے ہر صورت بھگتنا ہو ں گے۔کوئی میزانِ وقت سے بچ نہیں سکتا۔یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی جو بوئے اور گندم کاٹے یا چاول بوئے اور کپاس کاٹے۔جو کچھ بویا جائیگا گا وہی کاٹنا پڑیگا ۔،۔

ایک وقت تھا کہ مشرکینِ مکہ اسلامی فکر کے معاندین بنے ہوئے تھے ،پھر یہود ونصاری نے باہم سازشوں سے اسلامی فکر کی راہ روکنے کی کوشش کی لیکن روشنی کا کام پھیلنا ہو تا ہے لہذا اسلام کی روشنی ایک خاص مدت میں جزیرہ نما عرب سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ہندستان کا خطہ جو بت پرستی کا گھڑھ تھا اور جہاں مورتیوں کی پرستش ہو تی تھی اسے بھی اس پیغام کے سامنے سر نگوں ہو نا پڑا ۔صنم پر ستی کے گھڑھ میں کیسے اﷲ اکبر کی صدا ئیں بلند ہوئیں تصور سے ماوراء ہے؟ایک ایسا خطہ جہاں ایک فرد بھی مسلمان نہیں تھا اور جہاں گلی گلی،کوچہ کوچہ،بستی بستی،قریہ قریہ ،شہر شہر شرک و بت پرستی کا راج تھا دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا گڑھ بن گیا؟حضرت داتا گنج بخش، بابا فرید شکر گنج،بختیار کاکی،خواجہ معین الدین چشتی،سلطان باہو،میاں میر،سخی شہباز قلندر اور بے شمار اولیاء اﷲ کے اعلی اور اجلے اوصاف اسلام کی ترویج کا باعث بنے ۔ ہندو مت کے پجاریوں کیلئے ایسا منظر برداشت سے باہر تھا لہذا ہندو مت اور اسلام میں مخاصمت شروع ہو گئی۔یہ وہی جنگ ہے جو مشرکینِ مکہ اور بنی آخر الزماں ﷺ کے درمیاں لڑ ی گئی تھی۔مکہ کے سارے سردار اس نظریاتی جنگ میں کام آئے لیکن انھوں نے سرکارِ دو عالم کے پیغام کو تسلیم نہ کیا۔ابو لہب،ابو جہل،عتبہ اور دوسرے بہت سے سردار جھنیں اپنی سرداری پر بڑا گھمنڈ تھا نوجوانوں اور غلاموں کے ہاتھوں تہہ تیغ ہوئے۔سچائی ایک روشنی ہے لہذا کوئی انسان اسے روکنے پر قادر نہیں ہوتا ۔حضرت عیسی علیہ السلام کو کانٹوں کا تاج پہنا کر اور ہاتھوں میں میخیں گاڑھ کر کیا اس سچائی کا گلہ گھونٹا جا سکا جس کی وہ ترویج کیاکرتے تھے ؟ ان کا پیغام اور ان کی تعلیمات آج بھی زندہ ہیں لیکن جو انھیں مٹا نا چاہتے تھے وہ خود رتاریخ کے ہاتھوں مر چکے ہیں۔جھوٹ،منافقت،بد عہدی ،ظلم و ستم ،جبرو کراہ اور نا انصافی آخرِ کار مٹ کر ہی رہتی ہے۔


 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.