جرم سے مراد کسی بھی ایسے عمل کا جان بوجھ کرنا جو
معاشرتی طور پر نقصان دہ یا خطرناک ہو اور خصوصاً کسی ریاست کے قانون کے
مطابق قابل سزا ہو، اسکو جرم کہا جاتا ہے۔ضابطہ فوجداری کے تحت جرم کی
تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ ایسا کوئی عمل یا غلطی جو کہ کسی بھی رائج
الوقت قانون کے تحت قابل سزا ہو اسکو جرم کہا جاتا ہے۔پاکستانی ضابطہ
فوجداری قوانین کے تحت مختلف نوعیت اور اقسام کے جرائم ہوتے ہیں، جن میں
قابل ضمانت جرم، ناقابل ضمانت جرم، قابل دست اندازی پولیس جرم (یعنی پولیس
بغیر وارنٹ کے گرفتاری کرسکتی ہے)، ناقابل دست اندازی پولیس جرم قابل راضی
نامہ جرم اور ناقابل راضی نامہ جرم۔یاد رہے کسی بھی مہذب معاشرے اور ریاست
کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ جرائم کی روک تھام کے لئے سزاؤں کو عملی جامہ
پہنایا جائے کیونکہ سزاء ہی اک ایسا deterrence ہے جسکو دیکھ کر معاشرے کے
دوسرے افراد سبق حاصل کرتے ہیں اور کوئی جرم کرنے سے پہلے سزاء کے بارے میں
یقینی طور پر سوچتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستانی قوانین کے تحت کسی کو قتل کرنے
کی سزا موت ہے۔ اگر ریاست پاکستان میں قتل کی سزا موت نہ ہوتویہ بات یقینی
ہے کہ ریاست پاکستان میں قتل و غارت عام ہوجائے۔ یہ سزاؤں کا ہی ڈر ہوتا ہے
کہ معاشرے کا کوئی فرد سنگین جرم یعنی قتل، ڈکیتی، زنا، چوری وغیرہ کرنے سے
پہلے دس پندرہ مرتبہ ضرور سوچتا ہے۔ ضابطہ فوجداری قوانین کے تحت کسی بھی
جرم کی سزا سنانے کا اختیار صرف اور صرف عدالت کے پاس ہے۔ریاست کا کوئی فرد
یا افراد جن کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہیں وہ کسی بھی شخص جس نے قرار
واقعی جرم ہی کیوں نہ کیا ہو؛ اسکو سزا نہیں دے سکتے، کیونکہ ریاست نے
اختیار صرف اور صرف عدالتوں کو دیا ہے۔ محکمہ پولیس کا کام جرم کرنے والے
شخص کو قانون کی گرفت میں لانا اورمکمل طور پر غیر جانبدرانہ تفتیش کے بعد
عدالت کے سامنے اپنی تفتیشی رپورٹ کو پیش کرناہوتاہے۔ دوسری طرف محکمہ
پراسیکیوشن کا کام پولیس رپورٹ یعنی چالان اور موقع واردات پر موجود شواہد
اور گواہان کے بیانات کی روشنی میں مدعی یعنی مظلوم کو عدالت سے انصاف
دلوانا ہوتا ہے۔پراسیکیوشن یا استغاثہ کا مطلب مدعی کے مقدمہ کے تحت ریاست
کی جانب سے مدعا علیہ یا ملزم پارٹی کے خلاف قانونی چارہ گوئی کرنا
ہے۔قانون ضابطہ فوجداری 1898 کے سیکشن 492 کے تحت صوبائی حکومت کسی علاقہ،
ضلع میں پبلک پرایسیکیوٹر تعینات کرتی ہے۔اور اگر کسی جگہ پر پبلک
پرایسیکیوٹر تعینات نہ ہو تو ضلع کا مجسٹریٹ کسی کیس کی پیروی کے لئے کس
فرد کو پرا سیکیوٹر تعینات کرسکتا ہے۔ عام ز بان میں پرایسیکیوٹر کو سرکاری
وکیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ریاست کے نمائندہ کے طور پر عدالت میں پیش
ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے Criminal Cases یا فوجداری مقدمات میں مقدمہ
کے فریقین میں ایک مدعی پارٹی ہوتی ہے اور دوسری ملزم پارٹی جس کو مدعا
علیہ کہا جاتا ہے، لیکن فوجداری مقدمات میں ریاست مدعی کا کردار ادا کررہی
ہوتی ہے۔ اسی لئے عدالتی کاروائی میں کیس ”فلاں بنام سرکار“ لکھا بھی جاتا
ہے اور پکارا بھی جاتا ہے۔چونکہ مقدمہ کی مدعی ریاست ہوتی ہے اسی لئے ریاست
یعنی سرکار کی جانب سے پیش ہونے والے پراسیکیوٹر کو سرکاری وکیل بھی کہا
جاتا ہے۔ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 493 میں پبلک پراسیکیوٹر کے اختیارات کا
ذکر آتا ہے۔جس کے مطابق پبلک پراسیکیوٹر بغیر کسی تحریری کے عدالت میں حاضر
ہوسکتا ہے اور درخواست کرسکتا ہے۔کسی بھی عدالت کے روبرو اتھارٹی جس میں
کوئی بھی مقدمہ جس میں اس کا چارج ہے انکوائری، ٹرائل یا اپیل زیر سماعت
ہے۔ سرکاری وکیل اپنے اختیارات کے تحت مقدمات میں تمام عدالتوں میں درخواست
دے سکتا ہے۔ کسی بھی مقدمہ میں نجی طور پر مدعی پارٹی کی جانب سے پیش ہونے
والے وکیل کو لازمی طور پر سرکاری وکیل کی ہدایات کی روشنی میں چلنا ہوتا
ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام عدل میں محکمہ پراسیکیوشن کے کردار بارے مزید
آگاہی اورعدالتوں میں عملی طریقہ کار کو جاننے کے لئے راقم نے بطور قانون
کے طالب علم صوبہ پنجاب کے دارلحکومت لاہور کی ضلع کچہری کا رخ کیا جہاں پر
ضلع لاہور کے ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر جناب رائے مشتاق احمد سے ملاقات کا
موقع میسر آیا۔ راقم نے ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر سے پاکستانی عدالتی نظام
عدل کے طریقہ کار، عدالتی فیصلوں میں تاخیر کی وجوہات بارے جاننے کے لئے
متعدد سوالات کئے۔ان سوالات کے جواب میں رائے مشتاق احمد نے بتایا کہ
عدالتی نظام عدل میں محکمہ پراسیکیوشن اور محکمہ پولیس کا آپس میں چولی
دامن کا ساتھ ہے۔ چونکہ پولیس کا کام تفتیش کو مکمل کرنا ہے اور پولیس
رپورٹ میں ملزمان کے بارے میں اپنی رائے دینا ہے، اسی طرح محکمہ پراسیکیوشن
کا کام پولیس رپورٹ یعنی چالان اور موقع واردات پر موجود شواہد اور گواہان
کے بیانات کی روشنی میں مدعی اور مظلوم کو عدالت سے انصاف دلوانا ہوتا
ہے۔اسلئے اگر پولیس کی تفتیشی رپورٹ میں نقائص ہونگے تو یقینی طور پر
پراسیکیوشن کے لئے ملزم کو عدالت سے سزا دلوانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔انہوں
نے بتایا کہ پولیس کی ناقص تفتیش کی بناء پر اکثر اوقات ملزمان شک کا فائدہ
اُٹھا کر بری ہوجاتے ہیں۔ انہی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے رائے مشتاق نے
کہا کہ محکمہ پراسیکیوشن اور محکمہ پولیس کی مشترکہ کاوش اور ہم آہنگی قائم
کرنے سے جرائم کی روک تھام میں بہت حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ اسی سلسلہ
میں ضلع لاہور کے محکمہ پولیس کی تفتیشی برانچ اور محکمہ پراسیکیوشن کے
اعلی افسران کی ہر روز باہمی ملاقاتیں ہوتی ہیں اور ان ملاقاتوں میں نہ صرف
پراسیکیوٹرز افسران محکمہ پولیس کے تفتیشی افسران کی ٹریننگ کر رہے ہوتے
ہیں بلکہ روزبروز کی کارکردگی کی جانچ پڑتال بھی کی جاتی ہے۔ رائے مشتاق
احمد نے مزید بتایا کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے افسران اپنے تئیں مکمل
دیانتداری اور مستقل مزاجی سے مجرمان کو عدالتوں سے سزا دلوانے کے لئے
انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، مزید بتایا کہ انہوں نے اپنی تعیناتی کے
دوران سب سے زیادہ زور محکمہ پولیس کی انویسٹی گیشن برانچ، پراسیکیٹوٹرز
اور عدالتی عملے کے درمیان بہترین کوآرڈینشن پر دیا ہے، جس کی بناء پر
مقدمات کے فیصلوں میں بہت حد تک تیزی دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ
میں نے پراسیکیوشن ٹیم کی ٹریننگ پر بہت زیادہ فوکس کیا ہے اور اپنی ٹیم کو
بروقت آفس پہنچنے، سائل کے مسائل کو سننے اورانصاف کی فراہمی میں سامنے آنے
والی مشکلات کو جلد از جلد حل کرنے کے تاکید کی ہوئی ہے۔ رائے مشتاق احمد
نے مزید بتایا کہ ماشاء اللہ انکی تعیناتی کے دوران مجرمان کو عدالتوں سے
سزا دلوانے کی شرح ماضی کے مقابلے میں بہت حد تک زیادہ ہوچکی ہے۔ کیونکہ
محکمہ پولیس اور محکمہ پراسیکیوشن کے باہمی تعاون اور مشترکہ کوششوں سے
ملزمان کے چلان بروقت عدالتوں میں پیش کئے جارہے ہیں جن کی بناء پر جرم
ثابت ہونے پر عدالتوں سے مجرمان کو سزائیں دلوائی جارہی ہیں۔بطور قانون کے
طالب علم راقم کی نظر میں پراسیکیوشن اک بہت ہی اہم محکمہ ہے، کیونکہ اگر
مدعی (پراسیکیوشن) سست ہواور گواہ چست ہوتویقینی بات ہے کہ ملزم پارٹی شک
کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مقدمہ سے باعزت بری ہوجائے گی۔اس لئے جرائم کی روک
تھام یا سدباب کے لئے محکمہ پولیس کے ساتھ ساتھ محکمہ پرایسیکیوشن کو جدید
دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے حکومت پاکستان کو زیادہ سے زیادہ
سہولتیں مہیا کرنی چاہیں، کیونکہ راقم کو ضلع کچہری میں سرکاری وکیلوں کے
دفاتر کی حالت زار دیکھ بہت کوفت اور تکلیف محسوس ہوئی، بعض سرکاری وکیلوں
کے پاس بیٹھنے کے لئے مناسب کرسیاں تک دستیا ب نہیں تھیں۔ ایک کروڑ کی
آبادی سے زائد کے شہر لاہور میں جہاں محکمہ پولیس کوافرادی قوت میں کمی کا
سامنا ہے وہیں پر محکمہ پراسیکیوشن کے پاس افسران کی تعداد بھی تقریبا نہ
ہونے کے برابر ہے۔ اور عدالتوں میں ہر روزسینکڑوں کی تعداد میں مقدمات
کاروائی کے لئے پیش ہورہے ہوتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ محکمہ
پراسیکیوشن کے افسران کے لئے بہترین اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اور
سہولیات سے مزین دفاتر ہونے چاہئیں اور اسکے ساتھ ساتھ محکمہ پراسیکیوشن کی
افرادی قوت میں اضافہ وقت کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔کیونکہ پاکستانی نظام
عدل میں تاخیر کی وجوہات میں اک وجہ محکمہ جات میں افرادی قوت کی شدید کمی
کا ہونا بھی ہے۔ جتنی زیادہ افرادی قوت ہوگی اتنا ہی زیادہ تندہی اور لگن
سے محکمہ پراسیکیوشن کے افسران ہر مقدمہ کی پیروی کرسکیں گے۔ضرورت اس عمل
کی ہے کہ ریاست پاکستان کے باشندگان کو فوری، سستی اور حقیقی انصاف کی
فراہمی کیلئے ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر انقلابی اقدامات کئے جائیں۔ اک
بہت ہی مشہور قانونی اصطلاح ہے کہ Justice delayed is justice denied۔
بروقت انصاف ہی جرائم کی روک تھام میں کلید ی کردار ادا کرسکتا
ہے۔پراسیکیوشن کی اہمیت کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے وقت رائج الوقت
قوانین کو پڑھنے کا موقع ملا تو بندہ ناچیز کو عجیب حیرانگی ہوئی کہ
پاکستان میں مروجہ فوجداری قوانین (تھوڑی بہت ترامیم کیساتھ) برطانوی سرکار
کے بنائے گئے قوانین ہیں۔ تعریزات پاکستان اور ضابطہ فوجداری قوانین ایسے
قوانین ہیں جن کے تحت مجرمان کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان قوانین کے مکمل نام
Pakistan Penal Code 1860 اور Criminal Procedure Code 1898 ہیں یعنی یہ
قوانین ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے کے بنائے گئے قوانین ہیں۔کتنا ہی
افسوسناک پہلو ہے کہ 1947 میں مملکت خدادا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام
ہوا مگر 73 سال گزرنے کے باوجود آج تک ہم ان قوانین کے نام تک تبدیل نہیں
کر پائے۔چلیں ان قوانین کے نام تبدیل نہیں کئے جاسکتے تھے تو کم از کم ان
قوانین کے نام کے ساتھ سنہ عیسوی ہی بدل دی جاتی یعنی ان قوانین کے ساتھ
سنہ عیسوی 1947 کے بعد کے سنہ لکھ دیئے جاتے۔کتنی حیران کن بات ہے ہم نے
انگریز سے آزادی کے لئے اک لمبا عرصہ جدوجہد کی، جس میں مسلمانان ہند نے
اپنی جانی و مالی قربانیوں سے بھی دریغ نہ کیا۔ لیکن افسوس آزادی حاصل کرنے
کے بعد انگریز کے قوانین ہی کو اپنے ریاستی قوانین کی حیثیت دی۔ چلیں مان
لیا کہ انگریز کے بنائے گئے قوانین بہت جاندار ہیں اور قیام پاکستان کے بعد
ان قوانین میں بہت سی ترامیم بھی کی گئی ہیں، لیکن کیا ہی اچھا ہوجائے کہ
اگر ان قوانین کے ناموں کیساتھ سنہ 1860 اور سنہ 1898 لکھنے کی بجائے سنہ
2021 وغیرہ لکھ دیا جائے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں
فی الفور قانون سازی کی جائے اور انگریز دور کے بنائے گئے قوانین میں کم از
کم سنہ کو تبدیل کردیا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یہ قوانین سلطنت
برطانیہ کے نہیں ہیں بلکہ یہ قوانین ریاست پاکستان کے ہیں۔اسی طرح پارلیمنٹ
میں قانون سازی کرکے مجرموں کو پبلک مقامات پر سزا دی جائیں تاکہ معاشرے کے
دیگر افراد عبرت حاصل کریں، تاکہ ریاست پاکستان کے باشندگان جرائم سے پاک
پرسکون زندگیاں گزار سکیں۔
|