کرونا نہیں بھوک سب سے بڑا وائرس ہے

موجودہ حالات و واقعات سے تو ہم بخوبی با خبر ہیں کہ جہاں ایک طرف کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری نے نا صرف ملکِ پاکستان بلکہ پوری دنیا کو اپنے خوف میں جکڑا ہوا ہے. وہاں دوسری طرف لاک ڈاؤن کی وجہ سے قومی و عالمی معیشت بھی لڑکھڑا رہی ہے.

سوشل اور الیکٹرانک میڈیا، سیاست دان، ایکٹرز وزراء ججز اور تعلیم یافتہ طبقہ , سب کے سب, عوام سے کرونا وائرس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں لیکن عوام ہے کہ ان کی بات نہیں سن رہے. اب تو یہاں تک سننے میں آرہا ہے کہ لوگ خود مرنا چاہتے ہیں . ان میں سمجھ ہی نہیں ہے . اگر انہیں اپنا خیال نہیں ہے تو کم از کم اپنے بچوں کا ہی خیال کر لیں، گھروں میں سکون سے کیوں نہیں بیٹھتے ؟.اس طرح کی اور کئی باتیں زبان پر عام ہیں

لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے کہ لوگ لاک ڈاؤن کے باوجود گھروں میں نہیں بیٹھ رہے؟ پولیس کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہورہے ہیں اور مظالم برداشت کر رہے ہیں. لیکن پھر بھی قابو میں نہیں آرہے ہیں. کیوں؟ آخر کیوں

یہ صرف اس لیے کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انتہائی غربت کی وجہ سے بھوک، بدحالی اور بےروزگاری اپنے عروج پر ہے ۔
اور مشہور ہے کہ:
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے.

کہتے ہیں کہ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ بھوکے آدمی کا کوئی مقام. اس تمام خرابی کا زمہ دار ہمارا گھٹیا اور فرسودہ نظام ہے جہاں لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے ججزکی بجلی بلکل فری ہے پارلیمنٹ میں بیٹھے مسخرہ نما انسان یعنی .وزراء MPA.MNA speaker اور بجلی والے چپڑاسی سے لیکر چیرمین واپڈا کی بجلی ٹوٹل مفت ہے اور بھاری بھاری بجلی کے بل غریب عوام پر ٹھونس دیے جاتے ہیں ۔آخر کیوں غریب عام پر بوجھ ڈالتے ہیں۔پوری دنیا میں بجلی کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہاں مسائلستان بنا دیا ہے۔پھر جتنا بھی شوروع سے لیکر اب تک لاک ڈاون ہوا ہے صرف سرکاری لوگوں نے عیاشیاں کی ہیں جبکہ جو غریب ورکرز چپڑاسی۔کلرک۔ آفس اسسٹنٹ۔چوکیدار جو بھی پرائویٹ دفاتر میں کام کرتے تھے انکے لیے کوئ لاک ڈاون نہیں ہوا بلکہ مالکان نے دفتر دروازے بند کر کے ان سے کام لیا اور ان بے چاروں کا مہینہ بھی 35 دن کا ہوتا ہے یعنی 10 گھنٹے سے بھی ذیادہ ڈیوٹی ٹائم ہے۔جب کے دوسری طرف ہماری پولیس مساجد بند کراتی رہی۔اگر کوئی غریب چھٹی کر لیتا تو مالکان یا تو کام سے نکال دیتے یا کئی مالکان اس ملازم کی دہہاڑی کاٹ لیتے تھے۔غریب مایوسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے کہاں مر گئے 40 ۔40 لاکھ تنخواہ لینے والے اور اتنی ہی رقم کی مراعات لینے والے بے ضمیر انسان۔ پالیسی میکر جن کا ہر بوجھ غریب پر ڈال دیا جاتا ہے کیا انکی آنکھوں کی روشنی ختم ہو گئی جو انکو 12 ہزار سے 19000 ہزار کمانے والے پرائیوٹ ملازم نظر نہیں آرہے نابینا ہو گئے یا آنکھوں کی پتلیاں ہی بند ہو چکی ہیں۔یعنی چور اچکے عیاش زندگی گزار رہے ہیں اور مزدور خود کشی کرنے پر مجبور مایوسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا ان وطن پاک کے پالیسی میکرز نے قبر میں نہیں جانا۔۔مزید یہ کے وطن عزیز کا ایک بڑا طبقہ دیہاڑی دار مزدور ہے، چھابڑی والے سے لےکر اینٹ پتھر اٹھانے والےتک، روزانہ کی بنیاد پر کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا ایک کثیر طبقہ ہے. اگر وہ گھر بیٹھ گیا تو ان کے بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں گے اسی لیے وہ اس مبینہ خوفناک وائرس اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کو سمجھنے کے بجائے بھوک سے پھیلنے والی ہلاکت انگیز بیماری کا سوچ رہا ہے.

ہاں ! آج اگر قوم جاہل ہے تو اس کی بڑی وجہ ہمارے حکمران اور ان کا قائم کردہ ناکارہ سسٹم ہے.

جس میں تمام سہولیات تو در کنار 70 سالوں سےعوام کو روٹی، کپڑا، مکان جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ... اور بنیادی تعلیم سے بھی دور رکھا گیا ہے یعنی یہ پالیمنٹ میں بیٹھے ایک دوسرے پر بھونک کر کردار کشی کرتے کرتے ارب پتی ہوتے چلے گئے عوام کی حالت مخدوش سے مخدوش ہوتی چلی گئی کئی تو دس دس نسلوں کے لیے ناجائز کمائی جوڑ جوڑ کر قبروں میں چلے گئے .۔یعنی

چوری ، ڈکیتی ، قتل کرتے تو سب دیکھتے ہیں اور انکو پکڑا بھی جاتا ہے, مگر کیا کسی نے کبھی بھوک سے مرنے والوں کے قاتلوں کو کبھی پکڑا ہے۔انکو کبھی کسی عدالت نے پھانسی دی نہیں نہ۔۔

کرونا وائرس سے مرنے والوں کے تعداد کی لسٹ سب کو یاد ہے. کیا کبھی کسی نے بھوک سے مرنے والے لوگوں کی تعداد معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔یا انکی لسٹ بنانے کو کوشش کی

نہیں! جی نہیں! کیوں کے ہمارے ضمیر اندر سے مر چکے ہیں بلکہ کھوکھلے ہو چکے ہیں۔. . ہم کھانا بناتے وقت اپنے سالن کے مصالحہ کی خوشبوؤں کو تو تیز کر کے غریبوں کے بچوں کو تڑپا تو سکتے ہیں لیکن انکو ایک پلیٹ سالن نہیں دے سکتے

ہم اپنے پاس کام کرنے والوں کو تو امیروں کے گھر تحفے تحائف دے کے بھجتے ہیں لیکن انکے ہاتھوں انکے گھر کبھی ایک روٹی کیا چھوٹا سا تحفہ بھی نہیں بھیج سکتے

ہم مسجد کے ملاؤں کو تو ہر سال زکوت اور فطرا تو دیتے ہیں لیکن اپنے غریب ہمسایوں کو اور غریب رشتہ داروں کو کا سہارا نہیں بن سکتے

ہم دکھاوے کے لیے تو اپنے بچوں کی شادیوں میں اچھے سے اچھاکھانا تو بنوا لیتے ہیں لیکن اس میں سے ایک پلیٹ بھی غریبوں کو نہیں دیتے کیونکہ احساس اندر سے مر چکا ہے

ہمارے سامنے جب کوئی غریب باپ اپنے بچوں کی بھوک کی فریاد لے کے آتا ہے تو ہم اسے گھور رہے ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ دس روپے تھما دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم نے بڑی خیرات دے دی جب کہ

وہ غریب باپ اپنے بچوں کے آنسوؤں سے مجبور ہو کے چوری کرتا ہے تو ہماری غیرت اس وقت جاگتی ہے کہ یہ چور ہے اس نے چوری کی ہے, اسے سزا ملنی چائیے. کاش کہ تمہاری غیرت اس وقت جاگتی جب یہ غریب باپ اپنے بچوں کے بھوک کی فریاد لے کر آیا تھا تو شاید اس باپ کو مجبور ہو کہ چوری نہیں کرنا پڑتی

جب کوئی چوری کرے ہم بغیر سوچے سمجھے بغییر اس کی حالت پوچھے بغیر اس کے حالت جانے اسے حوالات میں بند کروا دیتے ہیں. جب کہ ہمیں پتا ہوتا ہے کہ انکے چوری کرنے کی وجہ کیا ہے اور کس کی وجہ سے اسے یہ قدم اٹھانا پڑا لیکن ہم اپنے غلطیوں سے پردہ اٹھانے کے بجائے اس کو ازیت میں ڈال دیتے ہیں اور اس کے بچے فاقوں سے مر جاتے ہیں

بھوک ہر وہ کام کراتی ہے جو قانون کے خلاف ہیں.انسانیت کے منافی ہے بھوک خودکشی کرنے پے مجبور کر دیتی ہے. بھوک طوائف بنا دیتی ہے. یہ بھوک ہی ہے جو فساد پھیلا دیتی ہے۔آج کل۔اکثر دیکھا گیا کے ہر چوک پر جوان لڑکی ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوتی ہے پھر کئی تو چھوٹے چھوٹے دودھ پیتے بچے لیے ہوتی ہیں اللہ جانے کیا مجبوری ہے جو رات گئے

11 بجے تک عورتیں ہاتھ جوڑ کر مانگتی ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر غربت سے تنگ آکر انہوں نےاپنی عزت فروخت کرنا شروع کردی یا پیٹ کی دوزخ بھرنے کے لیے جسم فروشی کرنا شروع کر دی تو کون اس گناہ کا زمہ دار ہوگا ۔ اگر بیت المال۔محکمہ صحیح طرح کام کر ے اور لوگ ایمانداری سے ٹیکس دیں۔اور حاصل کئے گئے ریونیو کی بندر بانٹھ نہ تو تو غربت آ ہی نہیں سکتی۔ہر محکمہ کو صیح ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی دینا ہوگی جسکی وہ تنخواہ لیتے ہیں۔یعنی عدالتوں میں بھاری تنخواہ اور مراعات پبلک کو انصاف دینے کے لیے ملتی ہے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو مزدور کے مسائل حل کرنے کی تنخواہ دی جاتی ہے۔لیکن سب مراعات اور بھاری تنخواہ لیکر بھی اپنا کام ایک۔پرسنٹ بھی ایمانداری سے نہیں کر رہے۔اگر ہم نے سیدھا راستہ نہ اپنایا تو تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی

آج ہمیں جس چائنا کی مثالیں دی جا رہی ہیں ان کی معیشت اور سسٹم اپنی مثال آپ ہے.. وہاں غربت کی شرح کم سے کم اور تعلیم کی شرح زیادہ سے زیادہ ہے. جس کی وجہ سے قوم میں شعور ہے. جس نے اس خطرناک بیماری سے یک جان ہو کر لڑائی لڑی اور اپنی ایک مضبوط قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے.

حقیقت یہ ہے کہ جب غربت بڑھتی ہے تو با شعور افراد سے بھی شعور چھن جاتا ہے اور وہ ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد بیچ دیتا ہے..

یہ غربت کی وجہ سے پیدا ہونے والی بد تہذیبی کا ہی نتیجہ ہے کہ لوگ ہر پریشانی کے موقع پر انسانیت کا خیال کیے بغیر اپنی جھولیاں بھرنا شروع کر دیتے ہیں.. رمضان المبارک کے آنے پر جہاں غیر مسلم اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرتے ہیں وہاں ہم اس مقدس ماہ کے آنے سے پہلے ہی عوام کو لوٹنے کی تیاری کر چکے ہوتے ہیں ..

کورونا وائرس نے ابھی پاکستان کا رخ بھی نہیں کیا تھا کہ سرمایہ پرست ذخیرہ اندوز متحرک ہو چکے تھے کہ اب ہمارا سیزن آنے والا ہے... اس وقت قوم کا سر شرم سے جھک گیا جب اس نے یہ سنا کہ سندھ رینجرز نے 70 ہزار سے زائد جمع کیے گئے فیس ماسک برآمد کرکے ایک شخص کو گرفتار کرلیا ہے...

پچھلے ‏کچھ دنوں میں وہ مسلمان بھی دیکھے گئے جو ماسک،سینی ٹائزرز ،چینی،آٹا اور گھی تہہ خانوں میں چھپا کر چھتوں پر اذانیں دے رہے تھے..!!

یہ تربیت کا فقدان ہی ہے جو ہم حقوق اللّٰہ کے چکر میں حقوق العباد کی دھجیاں اڑا رہے ہیں...

پچھلے 72 سالوں میں اگر ہمارے حکمرانوں نے مکمل عادلانہ نظام قائم کرنے کی یقینی کوشش کی ہوتی تو آج شعوری تعلیمی نظام کے ذریعے قومی سوچ پیدا ہوتی اور غربت کے خاتمے کےلیے اقدامات کیے گئے ہوتے اور قوم میں وہ صلاحیت ہوتی کہ وہ اس طرح کی آزمائشوں اور پریشانیوں سے پریکٹیکلی لڑتی وہ صرف صرف دعاؤں پہ انحصار نہ کرتی.. اور ہمیں آج اس کورونا کی کیفیت میں بار بار عوام سے اپیلیں نہیں کرنا پڑتیں..

بحیثیت انسان آج ہمیں اس کرونا سے لڑنے کےلیے پہلے اپنے اندر کے کورونا کو مارنا ہو گا...

اس کے لیے ہم سب کو، حکومت کو اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ ان تمام لوگوں کا خیال کریں جو ان بدترین حالات میں اپنی فیملی کی بھوک وائرس کی وجہ سے مجبوراً موت کے منہ میں کود کر جانے اور باہر نکلنے پر مجبور ہیں

 

Syed Maqsood ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood ali Hashmi: 171 Articles with 152409 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.