ڈاکٹر شمشاد اختر
دور حاضر میں نقل و حمل کے لئے گاڑی کا استعمال ناگزیر ہے۔ لیکن افسوس کچھ
لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں بسنے والے دیگر
افراد کی زندگی میں حرج واقع ہوتا ہے ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ ایسا
نظام بنایا جائے جو ٹریفک کو منظم کرے اور اس حوالے سے ہونے والی کسی بھی
قانونی مخالفت پر گرفت کی جا سکے ۔ چونکہ گاڑی ایک مشین ہے جو مکمل طور پر
چلانے والے کے تابع ہوتی ہے ۔ اس لئے تمام تر ذمہ داری ڈرائیور پر عائد
ہوتی ہے ۔ کیونکہ اس کے غلط استعمال سے جانی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ۔لہذا
اس خدشے کو کم کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے ایسا نظام عوام پر نافذ کیا
جاتا ہے اوراس نظام کو بناتے وقت مصلحت عامہ کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ اور
حاکم وقت کے واجبات میں سے ایک واجب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان و
مال کی حفاظت رکھے ۔ حاکم کی صحیح اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے ۔حاکم اپنی
حکومت چلانے کے لئے کچھ قوانین کا اجراء کرتا ہے ان میں سے ایک نظام ٹریفک
بھی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’ اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اﷲ کی
اور فرمانبرداری کرو رسول ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ ( النساء :
۹۵) ابن العربی ؒ اطاعت کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ ’’ اطاعت کا معنی ہے کہ
جو حکم دیا جائے اس پر عمل کیا جائے اور مذکورہ آیت کی تفسیر میں اولی
الامر سے مراد علماء اور حکام ہیں ‘‘ ( احکام القرآن لابن العربی ،۱:۴۵۱)
اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام ٹریفک پر عمل درآمد کرنا حاکم کی اطاعت میں سے
ہے ۔(الفقہ الاسلامی و ادلتہ ،۶: ۷۰۴)
اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : ’’ اور بلاشبہ ہم نے عزت بخشی
بنی آدم کواور ان کو طرح طرح کی سواریوں سے نوازا خشکی میں بھی اور تری میں
بھی اور ہم نے ان کو روزی کا سامان مہیا کیا طرح طرح کی پاکیزہ چیزوں سے
اور ان کو اپنی بہت سی مخلوق پر طرح طرح کی فضیلت بخشی ۔‘‘ ( الاسراء
:۷۰)مذکورہ بالا آیت سے واضح ہوا کہ اﷲ تعالی نے بنی آدم کی تکریم کے لئے
شریعت میں احکامات نازل فرمائے جو کہ اس کی زندگی اور اس کے مال کی حفاظت
کرتے ہیں کیونکہ یہ وسیلہ ہیں عزت کی زندگی گزارنے کا اور اس کی جان و مال
پر کسی بھی طرح کے ظلم کو جرم قرار دیا اور اس کی سزا مقرر فرمائی آخرت میں
جبکہ دنیا میں اس پر ہرجانہ اور سزا متعین فرمائی ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں
ہے :’’ کسی مومن کو دوسرے مومن کو قتل کرنا زیبا نہیں مگر غلطی ہو جائے (
تو اور بات ہے ) جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے اس پر ایک مسلمان
کی گردن آزاد کرانا لازم اور مقتول کے عزیز وں کو خون بہا پہنچانا ہے ہاں
یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں ۔‘‘ ( النساء : ۹۲) حضور ﷺ
نے خطبۃ الوادع کے موقع پر فرمایا : ’’ تمہارے خون اور مال تم پر ایسے حرام
ہیں جیسا کہ یہ دن ( یعنی حج کا دن ) ‘‘ ( بخاری) جان اور مال کی حفاظت ان
پانچ بنیادی ضروریات میں سے ہے جن کی اسلام نے ہر حال میں حفاظت کی ہے ۔اور
انہیں ہر طرح کے خطرے سے محفوظ کیا ہے ۔ ( الموافقات للشاطبی،۲: ۱۰) اور
انسانی نفس کو پہنچنے والے ازالے کے لئے دیت مقرر فرمائی ہے ۔ جبکہ مالی
نقصانات کے ازالے کے لئے ہرجانہ مقرر فرما کر نفس اور مال کی حفاظت فرمائی
۔ ضمانت اور ضامن کے لئے مقرر کردہ شرعی قواعد دو طرح کے ہیں ۔ ۱۰) نقصان
کو روکنے اور اسکے ازالے کے لئے قواعد عامہ (۲) نقصان اور ضامن کے تعین کے
لئے خصوصی قواعد ۔
(۱) قاعدہ نمبر ۱: لا ضرر ولا ضرار : ( نہ کسی کو ابتداءَ َ نقصان پہنچایا
جائے اور نہ بدلے میں ) یہ قاعدہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نقصان کے
مقابلہ میں نقصان کرنا جائز نہیں سوائے حدود و قصاص کے ۔ اور جس کا نقصان
ہو ا ہے وہ اگر چاہے تو معاف کر دے یا نقصان کا ہرجانہ وصول کر لے ۔ پس جس
کی گاڑی کو ٹکر لگی ہے اس کے مالک کو چاہیے کہ وہ یا تو ٹکر مارنے والی
گاڑی کے مالک سے نقصان کا ہر جانہ لے،یا اسے معاف کر دے ،جس گاڑی کو ٹکر
لگی ہے اس کے مالک کے لیے جائز نہیں کہ اپنی گاڑی سے دوسرے فریق کی گاڑی کو
ٹکر مار کر بدلہ لے کیونکہ شریعت میں جان بوجھ کر نقصان نہ کرے کی ہدایت دی
گئی ہے ۔ ( شرح الزرقانی علی الموئطا،۴: ۴۰) (۲) قاعدہ نمبر ۲ : الضرر یزال
( نقصان کا ازالہ کیا جائے ) حقوق خاصہ کے باب میں اس قاعدہ کی تطبیق ایسے
کی جا سکتی ہے کہ جس گاڑی والے نے اپنی گاڑی دوسرے کی گاڑی سے ٹکرائی ہے وہ
اس دوسرے متاثرہ شخص کے نقصان کا ازالہ کرے گا ۔ (۳) قاعدہ نمبر ۳: المرور
فی الطریق مباح بشرط السلامۃ فیما یمکن الاحتراز عنہ : ( یہ قاعدہ فقہاء کے
نزدیک متفق ہے ۔اور اس قاعدے کے تحت سڑک سے استفادہ حاصل کرنا ہر انسان کا
حق ہے چاہے وہ پیدل ہو یا سواری پر ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے
لیے ضرر کا باعث نہ ہو ۔ لیکن اگر وہ اس شرط کی مخالفت کرتا ہے تو وہ
گنہگار ہو گا اور اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار بھی وہی شخص
ہو گا ۔حضور ﷺ نے فرمایا : راستوں میں بیٹھنے کا حق ادا کر و صحابہ ؓ نے
عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ راستے کا کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نگاہیں نیچی
رکھنا ۔( یعنی غیر محرم عورتوں اور حرام چیزوں پر نظر نہ ڈالنا ) ، ایذا
رسانی سے باز رہنا ۔ ( یعنی راستہ تنگ کرنے یا کسی اور طرح سے گزرنے والوں
کو ایذا نہ پہنچانا ) ،سلام کا جواب دینا اور لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم
دینا اور بری باتوں سے روکنا ۔ ( متفق علیہ) اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ
ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عام سڑک سے فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن
دوسروں کے لیے ضرر اور نقصان کا باعث نہ بنے ۔
قاعدہ نمبر ۴:اذا اجتمع المباشر و المتسبب یضاف الحکم الی المباشر : یعنی
اگر مباشر( جس سے براہ راست نقصان ہوا ہو اور متسبب ( جس سے بلا واسطہ
نقصان ہوا ہو ) جمع ہو جائیں تو حکم مباشر پر ہو گا ۔ مثلاََ : اگر ایک شخص
نے کنواں کھودا اور اس کنویں میں کسی دوسرے شخص نے کسی کا جانور پھینک دیا
تو اس صورت میں مباشر وہ ہو گا جس نے جانور پھینکا اور جس نے کنواں کھودا
وہ شخص متسبب ہوا۔ دوسری مثال : ایک شخص نے چور کو کسی کے مال کے بارے میں
بتایا اور چور نے وہ مال چوری کر لیا تو ایسی صورت میں ہاتھ صرف چور کا
کاٹا جائے گا کیونکہ وہ مباشر ہے جبکہ راہ دکھانے والے کو تعزیراََ سزا دی
جائے گی کیونکہ وہ متسبب ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ٹریفک نظام کی پابندی ہر حال میں کرنی چاہیے ،پابندی
نہ کرنے کی صورت میں ایک تو حاکم کی اطاعت نہ کرنے کا گناہ بھی ہے اور
دوسرا حادثے کی صورت میں جان و مال کا ضیاع بھی جو کہ شرعاََ جائز نہیں ۔
حاکم کے لئے جائز ہے کہ وہ مالی سزا بھی لاگو کر سکتا ہے اور جسمانی سزا
بھی ۔ اگر مباشر اور متسبب جمع ہو جائیں تو حکم مباشر پر ہو گا ۔
|