نبی ٔ اکرم کی اولاد مبارک کا تذکرہ

 ایک عالم ّ دین کا معمول تھا کہ وہ ہرجمعتہ المبارک کو خطبہ میں چاروں خلفائے راشدین کے ساتھ ساتھ حضورپرنور ﷺ کی چاروں صاحبزادیوں اور تمام امہات المومنین کابھی ذکرکرکے ان پرسلام بھیجتا ایک روز ایک شخص نے کہا جناب یہ آپ کیا کرتے ہیں میں نے پڑھاہے کہ حضورپاک کی قفط ایک صاحبزادی تھی باقی تین کے والد ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پہلے شوہر تھے ا س لئے خطبہ میں ان کا ذکر کرنا ضروری نہیں ہے دوسرے نے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا میں نے بھی ایسا ہی سنا ہے ان کی باتیں سن کر عالم ِ دین مسکرائے انہوں نے کہا مسلمانوں کوالجھاکرغلط فہمیاں پیدا کرنا فتنے کا سبب ہے یہی وجہ ہے کہ آج نت نئے فتنوں نے مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرکے رکھ دیاہے بہرحال آپ کے سوال کا جواب میں آئندہ جمعتہ المبارک کو دوں گا سوال کرنے والا زیر ِلب مسکرایا دوسرے نے شرلی چھوڑی بھا گ گیا بات آئی گئی ہوگئی آئندہ جمعتہ المبارک کے روز وہ عالم دین جب مسجدمیں تشریف لائے تو ان کی گاڑی میں نایاب کتابوں سے بھرا ایک صندوق بھی تھا انہوں نے معتبر کتابوں کے حوالوں سے دلائل کے دفترکھول کررکھ دئیے یہ نامور عالم ِ دین علامہ مولانارشیداحمدرشیدقادری آف سمندری تھے ان کا شمار بلاشبہ نابغہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے ساری زندگی دلیل سے بات کرکے مخالفین کو ہمیشہ لاجواب کئے رکھاآخرمیں انہوں نے کتابوں کے حوالہ جات،اصل متن اور تراجم پر مشتمل اصل نایاب کتابوں کی فوٹو کاپیاں بھی تقسیم کیں کہ کسی کو کوئی شک یا اعتراض ہو وہ وضاحت طلب کرسکتاہے ۔انہوں نے کہانبی پاک کی اولاد ِپاک میں حضرت قاسم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ 598–601، حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا 599–629،حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا 601–624،حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا603–630،حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا 605–632،حضرت عبد اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ611–613،حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ 630–632 تھے ایک بیٹے ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (ان کی والدہ ام المومنین حضرت ماریہ الکبیتیارضی اﷲ تعالیٰ عنہا تھیں) کے علاوہ سب اولادحضرت محمدﷺ کی پہلی بیوی ام المومنین خدیجہ بنت خوولیدرضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے حضرت زینب رضی اﷲ عنہاکی سب سے بڑی بیٹی تھیں ان کی پیدائش کے وقت حضورپرنورﷺ کی عمر ِ مبارک 30 سال تھی جب حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے عقد میں تھیں البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 113 کے مطابق حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی سگی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد کے شریف اور امانت داربیٹے حضرت ابوالعاصؓ سے ہوا، اس حوالہ سے حضرت ابوالعاص رضی اﷲ عنہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ہم زلف ہوئے۔ ذخائر العقبی صفحہ 751 اور البدایہ والنہایہ کے مطابق حضورﷺنے جب نبوت کااعلان کیا کی تو کافروں نے حضرت ابوالعاص کو لالچ دیا کہ ہم تمہارا نکاح قبیلہ قریش کی حسین ترین عورت سے کر دیتے ہیں تم حضرت محمد ﷺ کی بیٹی کو طلاق دے دو مگر انہوں نے جواب میں کہا خدا کی قسم میں اپنی بیوی سے ہر گز جدا نہیں ہو سکتا۔ البدایہ کے مطابق حضور ِ اکرم ﷺ کے معاشرتی بائیکاٹ اور شعب ابی طالب میں محصور ی کے دوران، آپ ﷺ کے داماد حضرت ابوالعاص ایمان نہ لانے کے باوجود حضور اکرم ﷺ کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا بندوبست کرتے رہے ، جس پرحضورﷺنے فرمایاکہ ہماری دامادی کی بہترین رعایت ابوالعاص نے کی۔ غزوہ بدر کے دوران کفار نے حضرت ابوالعاص اور حضور پرنورﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہو کو قید کرلیا تو حضرت زینبؓنے اپنے خاوند کی رہائی کے لئے وہ ہار بھیجا جو ان کی والدہ حضرت خدیجہ ؓنے انہیں دیا تھا، اس ہار کو دیکھ کر حضور ﷺ پر رقت طاری ہوئی اور صحابہ کرام سے مشورہ کیا، اگر تم کہو تو یہ ہار میں اپنی بیٹی کو واپس کر دوں اور ابوالعاص کو چھوڑ دوں۔ صحابہ کرام کی حالت بھی دیکھنے والی تھی اور روتے ہوئے عرض کی حضورلب کشائی کی بھی ہمت نہیں۔ نبی پاک ﷺ نے ابوالعاص کو چھوڑ دیا اور وعدہ لیا کہ مکہ واپس جا کر میری بیٹی کو میرے پاس بھیج دینا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 2 صفحہ 324، مسند احمد، ابو داود جلد 2 صفحہ 367، مشکوۃ، البدایہ والنہایہ) مکہ واپس جا کر سارے حالات بتا کر حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کو اپنے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ پاک کی طرف روانہ کیا، کفار کو علم ہوا تو وادی ذطوی میں حملہ کر کے سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا کو نیزہ مارا جس سے آپ کا حمل ساقط ہو گیا، اونٹ پر رکھے کجاوے سے نیچے گر گئیں۔ کفار نے تیر چلاتے ہوئے کہا کہ ہمارے دشمن کی بیٹی کو سر عام لے کر جائے گا، اگر لے جانا ہے تو رات کے وقت لے جانا، اسپر چند دنوں بعد کنانہ نے مدینہ سے آئے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ رات کے وقت نکل کر حضور پرنورﷺ کے پاس ان کی بیٹی کو پہنچایا۔ (البدایہ والنہایہ، زرقانی جلد ۳ صفحہ 223) ایک مرتبہ حضرت ابوالعاص شام کے علاقے میں کفار کے تجارتی قافلے کے ساتھ تھے، نبی ٔ رحمت ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قافلے کے پیچھے بھیجا، مقام عیص میں قافلہ اس حالت میں ملا کہ کچھ لوگ پکڑے گئے، حضرت ابوالعاص نے بھاگ کر حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کے پاس مدینہ میں پناہ لی جس پر حضرت ابوالعاص کا تجارتی مال بھی ان کو واپس کر دیا گیا۔ آپ واپس مکہ گئے اور سب کا سامان واپس کر کے مدینہ آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ اسطرح حضورﷺ نے میاں بیوی کو اکٹھا کردیا۔ مجمع الزوائد ﷲیثمی جلد 9 صفحہ 12، دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 2، صفحہ 436 میں لکھا ہے کہ حضورﷺ کے پاس جب بھی حضرت زینب رضی اﷲ عنھا آتیں تو آپ ﷺ فرماتے کہ یہ میری بیٹی بہترین ہے جس کو میری وجہ سے ستایا گیا، یہ افضل بیٹی ہے جس کو میری وجہ سے روکا گیا ہے۔ حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کی اولاد میں ایک صاحبزادہ علی تھے جو حضورﷺ کے پاس پرورش پاتے رہے، فتح مکہ کے روزحضور ﷺ نے ا پنے نواسے کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ (اسد الغابہ لابن کثیر جلد 4 صفحہ 41، الاصابہ لابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 503)۔ ان سے ایک صاحبزادی بھی تھیں جن کا نام اْمامہ بنت ابی العاص تھا جو حضور ﷺ کی نماز کے دوران آپ ﷺ کے کاندھے پر سوار ہو گئیں اور آپ ﷺ نے نواسی کو سنبھالتے سنبھالتے نماز ادا کی۔ (بخاری و مسلم، ابو داود)

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کو ایک خوصورت ہار کسی نے تحفتاً د یا تو آپ ﷺ نے گھروالوں سے پوچھا یہ ہار کیسا ہے، سب نے کہا بہت خوبصورت ہے، آپ ﷺ نے تبسم فرماکرکہایہ اس کو دوں گا جو اہلبیت میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور پھر وہ ہار حضرت امامہ رضی اﷲ عنہا کو دیا (اسدالغابہ، مجمع الزوائدﷲیثمی، الاصابہ) ۔کہاجاتاہے کہ حضرت زینب رضی اﷲ عنہا مدینہ طیبہ آتے ہوئے حجرت ہبار بن اسود کے نیزہ سے زخمی ہوئی تھیں،وہ زخم تازہ ہو گیا جو ان کی وفات کا سبب بنا، اسلئے وہ شہیدہ بھی ہیں۔ ان کی وفات نے حضورﷺ کے ساتھ سب کو رْلایا، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عورتوں کے رونے پر کچھ سختی کرنے کی کوشش کی تو حضورﷺ نے فرمایا اے عمر سختی نہ کر اور عورتوں کو فرمایا کہ شیطانی آوازیں نکالنے سے پرہیز کرو پھر فرمایا: جو آنسو آنکھوں سے بہتے ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے تو یہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی رحمت ہے (مشکوۃ شریف صفحہ 152)۔ حضرت ام ایمن، حضرت سودہ اور حضرت ام سلمی رضی اﷲ عنہم نے حضور پرنور ﷺ کے فرمان کے مطابق بیری کے پتے ڈال کر، پانی اْبال کر، غسل کے بعد کافور کی خوشبو لگائی اور پھر حضور ﷺ نے اپنا تہنبددیا اور فرمایا یہ بھی حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کے کفن کے ساتھ رکھ دو (بخاری و مسلم)۔ انساب الاشراف جلد1 صفحہ400 کے مطابق جنازہ حضور پاکﷺ نے پڑھایا۔ قبر کے پاس بیٹھے رہے، قبر تیار ہوئی تو خود اﷲ کے آخری رسول ﷺ قبر میں اْترے، واپس ہوئے تو چہرے سے غم کے آثارکم تھے۔ پوچھنے پر ارشاد فرمایا کہ میں اپنی بیٹی کے لئے قبر کی تنگی سے ڈر رہا تھا، قبر میں دعا کی تو اﷲ کریم نے اسکے لئے آسانی فرما دی ہے (مجمع الزوائد ﷲیثمی جلد 3، صفحہ 47، کنزالعمال جلد 8، صفحہ120)۔

نبی ٔ رحمت ﷺ کی دوسری بیٹی حضرت سیدہ رقیہ رضی اﷲ عنہاکی پیدائش کے وقت حضور ﷺ کی عمر مبارک33 سال تھی ج ان کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔ طبقات ابن سعد جلد 8، صفحہ 24 اور الاصابہ لابن حجر کے مطابق ’’اعلان نبوت’’ پر ماں کے ساتھ ہی انہوں نے سات سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا۔ حضورﷺنے حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتبہ اور عتیبہ سے کیا ہوا تھا، ابھی رْخصتی ہونی باقی تھی کہ تبلیغ کے دوران ہی سورۃ ابولہب اترنے پر ابولہب نے اپنے بیٹوں کو دھمکی دی کہ حضورﷺ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دو ورنہ تمہارا میرے ساتھ اْٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔ دونوں بیٹوں نے اپنے والد کے کہنے پر دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد حضورِ اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں اپنی بیٹی حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ سے یہ فرما کر کیا کہ اﷲ کریم نے مجھے وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح عثمانؒ بن عفان سے کر دوں۔ (کنزالعمال جلد 6 صفحہ 375)۔ البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 66 کے مطابق اسی جوڑے نے حبشہ کی طرف جو پہلا قافلہ گیا اس کے ساتھ ہجرت کی۔حبشہ سے ایک عورت آئی تو حضور ﷺ نے اْس سے ہجرت کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ اے محمد ﷺ میں نے عثمانؒ کو اپنی بیوی کے ساتھ سواری پر سوار جاتے ہوئے دیکھا تو حضور پرنور ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالی ان دونوں کا ساتھی ہو، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ان لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی۔ الاصابہ لابن حجر جلد 4 صفحہ 298 پر ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو علم ہوا کہ حضورِ اکرم ﷺ مدینہ پاک ہجرت کرنے لگے ہیں تو پہلے اپنی بیوی کے ساتھ مکہ اور پھر بعد میں مدینہ ہجرت فرمائی۔ اسی طرح الغابہ جلد 5 صفحہ 456 میں ہے کہ ہجرت حبشہ کے دوران وہاں عبداﷲ بیٹا آپ کے ہاں پیدا ہوا، جو 6 سال کا ہو کر مدینہ منورہ میں انتقال کر گیا جس کی نماز جنازہ حضور ﷺ نے خود پڑھائی اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے اسے قبر میں اتارا۔ بخاری جلد 1 صفحہ 523 کے مطابق غزوہ بدر سے پہلے حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کو خسرہ کی بیماری ہوئی، بدر میں جانے سے حضورﷺ نے حضرت عثمان کوروک دیا اور فرمایا کہ آپ رقیہ کی تیمارداری کرو، آپ کو وہی اجر ملے گا جو بدر میں شرکت کرنے والوں کو ملے گا اور غنیمت کے مال میں بھی برابر کا حصہ ہے۔ غزوہ بدر سے واپسی تک حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا فوت ہو چکی تھیں۔ اسلئے طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 25 کے مطابق حضورﷺ جب غزوہ سے مدینہ واپس آئے تو جنت البقیع میں جا کر حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کی قبر پر دعا فرمائی۔ ایک روایت میں ایسا بھی آتا ہے کہ حضورﷺ پر حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کی تعزیت پیش کی گئی تو آپﷺ نے فرمایا: الحمد ﷲ شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے۔

حضورﷺ کی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہاہیں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنھا کے بطن سے جو حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا سے چھوٹی تھیں اور اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 216، طبقات ابن سعد صفحہ 52 کے مطابق حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا نے بھی اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ اوپر بیان ہوا ہے کہ ان کا نکاح بھی چچا ابولہب کے بیٹے سے ہوا اوررخصتی سے پہلے طلاق ہو گئی۔ طبقات ابن سعد جلد 8، صفحہ 811 اور البدایہ لابن کثیر جلد 3 صفحہ 202 کے مطابق حضورﷺ نے ہجرت کی تو بعد میں آپﷺ نے حضرت ابو رافع اور حضرت زید بن حارثہ جن کو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے 500 درہم دیئے تاکہ مکہ مکرمہ سے ام المومنین حضرت سودہؓ، حضرت ام کلثوؓم اور حضرت فاطمہ ؓ کو مدینہ منورہ لے کر آئیں پھر ان تینوں کی تشریف آوری مدینہ پاک ہوئی۔ المستدرک للحاکم جلد 4 صفحہ 94 پر ہے کہ حضورپاک ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنی بیٹیوں کی اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرتا بلکہ اﷲ تعالی کی طرف سے ان کے نکاح کے فیصلے ہوتے ہیں‘‘۔ حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کے وصال کے بعد حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ بڑے اداس تھے نبی کریمﷺ کے پوچھنے پرمغموم ہوکر عرض کی کہ غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور جو قریبی رشتہ آپ سے تھا وہ بھی نہیں رہا۔ اس پر حضور ﷺ نے تسلی دے کر فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اﷲ کریم نے حکم دیا ہے کہ میں ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کا نکاح جیسا حق مہر حضرت رقیہ کا تھا اْسی پر ام کلثوم کا نکاح تجھ سے کر دوں۔ (ابن ماجہ، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 316، کنزالعمال جلد 6 صفحہ 573)۔ حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہاسے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے گھر کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ سیرت حلبیہ جلد 4 صفحہ 44 پر ہے کہ ایک دن حضور انورﷺ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے گھر گئے، وہ اس وقت گھرمیں موجود نہیں تھے، انہوں نیبیٹی سے پوچھا کہ تم نے عثمانؓ کو کیسا پایاتو انہوں نے عرض کی کہ اباجان وہ بہت اچھے اور بلند رتبہ شوہر ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کیوں نہ ہوں وہ دنیا میں تمہارے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمہارے باپ سے بہت مشابہ ہیں۔ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 52 کے مطابق 9 ہجری کو حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا بھی انتقال فرما گئیں جس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو ایک ایک کر کے اے عثمان تیرے نکاح میں دے دیتا۔(مجمع الزوائد للھیثمی جلد 9 صفحہ 712) بعض روایات میں اس سے بھی زیادہ تعداد لکھی ہے۔ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 62، شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی جلد 2 کے مطابق حضرت ام کلثوم کا غسل اور کفن ہو چکا تو حضور ِ اکرم نے خود جنازہ پڑھایا۔ حضور پاک ﷺ کوسوگوار دیکھ کر تمام صحابہ کرام غمگین ہوگئے۔

حضور اکرم ﷺ کی سب سے چھوٹی چوتھی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا جن پر زہرا، بتول ،طیبہ، طاہرہ جیسے لقب خوب سجتے ہیں۔ مسلم جلد 2 صفحہ 29، الاستیعاب جلد 4 صفحہ 343 وغیرہ میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا حضور ﷺ کے ہرہر انداز سے مشابہت رکھتی تھیں۔ ذخائر العبقی المحب الطبری کے مطابق آپ کاحضرت علی رضی اﷲ عنہ سے نکاح ہوا جس کے گواہ حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اﷲ عنہمو ہیں۔ تفسیر قرطبی کے مطابق اْس وقت حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی عمر 15 یا 18برس تھی۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی عمر 21 یا 24 سال تھی۔ نکاح کی تیاری حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے کی، جہیز کے لئے حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے زرہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو بیچی اور پھر جب واپس جانے لگے تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے زرہ بھی تحفے میں واپس کر دی، انہی پیسوں سے جہیز کا سامان حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ خریدکرلائے۔ ابن ماجہ کی حدیث پاک کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھی گئی۔ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا جنت کی سردار ہیں اورآپ کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہیں۔ اﷲ کریم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہاکو تین بیٹے حضرت امام حسنؓ و امام حسین، محسن اوردو بیٹیاں ام کلثوم، زینب رضی اﷲ عنہم عطا فرمائے۔ محسن رضی اﷲ عنہ بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے۔ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے ہوا جبکہ حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کا نکاح حضرت عبداﷲ بن جعفر طیار رضی اﷲ عنہ سے ہوا۔ (نسب قریش صفحہ 52) ۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا شب بیدار، سخی، سب کے لئے دعائیں کرنے والی عظیم ہستی تھیں۔حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا حضورﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد فوت ہو گئیں۔ بیماری سے پہلے آپ کی تیمارداری حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی بیوی حضرت اسما بنت عمیس رضی اﷲ عنہا انجام دیتی رہیں۔البدایہ والنہایہ جلد 6 صفحہ 433 کے مطابق 28 یا 29 برس کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔ 5۔ حضرت اسماء نے دوسری عورتوں کے ساتھ آپ کو غسل دیا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ بھی غسل کے دوران معاون تھے۔ (اسد الغابہ جلد 5، صفحہ 874، البدایہ و النہایہ جلد 6، صفحہ 333) آپ کا جنازہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے پڑھایااور جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا۔ صل اﷲ تعالی علی محمد و علی آلہ و ازواجہ و بناتہ و اصحابہ اجمعین۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 383964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.