بہتر روزگار کے حصول اور اپنے خاندان کی خوشحالی و مالی
آسودگی کی خاطر دیار غیر میں سکونت اختیار کرنے والے غریب الوطنوں کے پردیس
میں حالات زندگی اور وطن میں اپنوں کے رویوں اور نیتوں کی ترجمانی کرتے
ہوئے کافی کچھ لکھا بھی گیا ہے اور ان تحریروں کو ٹی وی ڈراموں کی صورت میں
ڈھالا بھی گیا ہے ۔ ماضی میں سونا چاندی ، دوبئی چلو اور حالیہ برسوں میں
روگ ، قید تنہائی ، جیکسن ہائٹس اور دلدل وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔
اور اب اے آر وائی ڈیجیٹل کی پیشکش پردیس اسی سلسلے کا ایک شاہکار ہے ۔
کہانی میں نیا کچھ بھی نہیں ہے مگر ثروت نذیر کی تحریر کو ہدایتکارہ مرینہ
خان نے اتنی عمدگی اور چابکدستی سے ناظرین کی دلچسپی کو قائم رکھنے کے
تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈرامے کی شکل میں ڈھالا ہے جو واقعی داد کے
قابل ہے ۔
ڈرامے کا آغاز غالباً تیس بتیس برس پہلے کے زمانے کی کہانی سے ہوتا ہے جب
پاکستان میں انٹرنیٹ نووارد تھا اور اور سیل فون یا وڈیو کال کا تصور بھی
نہ تھا ۔ ٹی وی ہر گھر میں نہیں ہوتا تھا اور ٹیلیفون تو اور بھی بڑی بات
تھی ۔ اور ایک عام بات یہ ہوتی تھی کہ اس پر پردیس سے آنے والی کال پر پہلے
پورا گھر بات کر لیتا تھا پھر جاکر اس بکرے کی بیوی کی باری آتی تھی تو گھر
والے وہاں سے ٹلتے نہیں تھے اور بدستور اس کے سر پر مسلط رہتے تھے ۔ جس کی
وجہ سے وہ بیچاری کوئی بات کھل کر نہیں کر سکتی تھی سوائے رسمی سی علیک
سلیک کے ۔ پھر دل کی بات خط پتر کے ذریعے ہوتی تھی اسے بھی پہنچنے میں دو
ہفتے لگ جاتے تھے پھر اس کا جواب لکھنے اور اس کو پہنچنے میں مزید دو ہفتے
لگتے تھے ۔ خیر کوئی پندرہ سترہ برس پہلے پاکستان میں موبائل سروس عام ہوئی
تو سیل فون کو ہر ایک کی دسترس میں آنے میں مزید چند برس لگے ۔ اس طرح دور
دراز تفصیلی بات چیت میں تو آسانی پیدا ہو گئی مگر اس سے پردیسیوں کو لاحق
ان کے خانگی حالات ان پر مسلط کیے جانے والے لامحدود مسائل و مطالبات ان سے
مسلسل ایثار و قربانی کی طلب اور خود اپنی ذات کو بھلا کر اپنے پورے خاندان
کی بہبود کے لیے مرتے دم تک جان ماری کے رواج میں کمی لانے میں کوئی کردار
ادا نہیں ہو سکا ۔ الٹا یہ ہو گیا کہ گھر والوں نے دن دیکھا نہ رات جب مرضی
کال کھڑکا دی اور ایمرجنسی نوٹس پر کوئی بھی مطالبہ یا فرمائش پیش کر دی ۔
پتہ نہیں کیوں ان کو لگتا ہے کہ پردیس میں پیسے درختوں پر لگتے ہیں ۔
تقریباً نصف صدی قبل اس رجحان کی داغ بیل پڑی کہ زیریں و نیم متوسط طبقے سے
تعلق رکھنے والے محنت کش اور پڑھے لکھے ہنرمند افراد سعودیہ اور خلیجی
ممالک میں قسمت آزمائی کے لیے لاکھ جتن کر کے وہاں پہنچتے تھے اور نوے فیصد
سے بھی زائد کیسوں میں وہاں ان کی مشقتوں قربانیوں اور یہاں خود اپنوں خون
کے رشتوں کی خودغرضیوں سیان پتیوں اور بےحسی کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز ہو
جاتا تھا جو زیادہ تر ایک جذباتی صدموں دھچکوں سے پُر لاچار بڑھاپے اور
المناک موت پر منتج ہوتا تھا اور یہی سب کچھ آج بھی بس تھوڑے بہت رد و بدل
کے ساتھ جاری ہے جس کا شکار خوشحال طبقے کے اعلا تعلیمیافتہ اور بڑی پوسٹوں
پر کام کرنے والے پردیسی بھی بنتے ہیں بخشا انہیں بھی نہیں جاتا ، کمر میں
خنجر ان کے بھی گھونپا جاتا ہے ۔ امریکہ و یورپ پہنچ جانے والے بھی اپنوں
کے وار سے محفوظ نہیں رہتے ۔
ڈرامہ پردیس کی کہانی معاشرے میں موجود مثالوں پر مبنی ہے اور ابتداء ہی
سے ناظرین کو اپنی گرفت میں لے لینے کے ہنر سے آراستہ ہے ۔ عدیم الفرصتی کے
باوجود ہم اسے دیکھنے کا وقت نکال لیتے ہیں حالانکہ مرض نہ ہونے کے باوجود
ہمارا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگتا ہے ۔ تمام ہی مرکزی کردار اپنے فن کی
بلندیوں پر نظر آتے ہیں ، نبیلہ نوشی اور عاصم جیسے کردار اکثر ہی گھرانوں
میں پائے جاتے ہیں تینوں فنکاروں نے اس کی خوب عکاسی کی ہے ۔ منظور جیسے
داماد ساری زندگی بھی نہیں سدھرتے سسرال کے مال کا چسکہ انہیں کسی نشے کی
طرح لگ جاتا ہے ۔ زوبی ایک نہایت ہی احمق اور گھامڑ عورت ہے اس کی بزدلی
اور بےحسی کا سب سے بڑا نشانہ خود اس کی اولاد بنی ۔ یہ کردار نا تو قابل
تحسین ہے اور نا ہی قابل تقلید ۔ زرخرید لونڈی کی طرح پورے خاندان کی غلامی
کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں ایک حد کے بعد عورت کو کم از کم اپنے لیے نا
سہی بچوں کے لیے سٹینڈ لینا چاہیئے ۔ خود غرض اور لالچی سسرال والوں کی
خاطر اپنی اولاد کو نظر انداز کرنا کون سی عقلمندی کا کام ہے؟ احسن اپنی
ماں کا تو فرمانبردار ہے مگر خدا رسول کا سخت نافرمان ، اس نے بیوی کا ایک
بنیادی حق سلب کر کے اسے اپنی ماں کی سیوا کے لیے وقف کر دیا ، بچوں کے حال
اور ان کے مسائل سے بےخبر ، اور خود اپنوں کی سیاست کے سامنے قطعی بےبس ۔
اور ڈرامے کو فلمی ٹچ دیئے بغیر بہت حقیقت پسندی کے ساتھ احسن کا ایک متوقع
اور منطقی انجام دکھا دیا گیا ۔ حالیہ قسط میں وہ شدید علالت کے بعد چل بسا
اور عام طور پر ایسے کیسوں میں ایسا ہی ہؤا کرتا ہے سب ہنسی خوشی نہیں رہنے
لگتے ۔ اس کی موت کے چند ہی روز بعد اس کی دونوں بہنوں کا گہرا میکپ اور
فینسی ملبوسات ان کی بےحسی اور منافقت کا ثبوت ہے ۔ ایمن اپنی ماں کے
برخلاف ایک جرأتمند اور صاف گو لڑکی ہے وہ اپنی ماں پر نہیں پڑی اور ہونا
بھی ایسا ہی چاہیئے ۔ احسن کی موت اور ایمن کے نکاح کے بعد کہانی کا ایک
حصہ ختم ہو کے دوسرا شروع ہو گیا ہے دلچسپی اور تجسس برقرار ہے اس میں بہت
سبق بھی ہے پردیسیوں کے لیے مگر پہلے کبھی سمجھا ہے جو اب سمجھ لیں گے؟
|