فلموں کا برا آدمی اداکار ادیب

دلیپ کمار سے شان اور سدھیر سے سلطان راہی کے مد ِ مقابل آنے والا فلموں کا برا آدمی جس کی کمال اداکاری دیکھ کر تماشائی خواتین اسے برا بھلا کہنے اور گالیاں دینے پر مجبورہوجاتی تھیں یہ حقیقت ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں دو ولن مصطفےٰ قریشی اور ادیب نے بڑا نام کمایا ان کی موجودگی فلموں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی تھی جتنا بڑا ہیرو ہو اس کے مدمقابل اس سے جاندار ولن ہو پھر فلم کا مزا دوآتشہ ہو جاتاہے مصطفےٰ قریشی اور ادیب میں یہ خوبی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اداکار ادیب مصطفےٰ قریشی سے بھی پہلے ایک مسند ولن سمجھے جاتے تھے کریکٹر ایکٹر ایسے باکمال کہ ان کی اداکاری پر حقیقت کا گمان ہوتاتھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے لولی وڈ پر راج کیاہے یہ بہت کم اوگ جانتے ہوں گے کہ پاکستانی فلموں کے مشہور ولن ادیب کا اصل نام مظفر ادیب تھا لیکن فلم دنیا میں صرف ادیب کے نام سے جانے گئے۔ ریاست جموں کشمیر کے ایک پٹھان خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ان کے والدین سلسلہ ٔ معاش میں کشمیر سے ممبئی منتقل ہو گئے تھے ادیب نے ممبئی میں اردو ادب میں ایم اے کیا۔وہ بمبئی میں کشمیر کے ایک قدامت پسند پختون (پٹھان) گھرانے میں پیدا ہوئے ان کا کنبہ 1947 میں پاکستان کی آزادی سے قبل بمبئی چلا گیا تھاور اسی جگہ مہاراشٹر کے بمبئی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹر کی ڈگری کی تکمیل کے بعد ا اداکاری کے جوہردکھائے اسکرپٹ رائٹنگ ادیب کی پہلی محبت تھی ، جس نے راج کپور کے والد پرتھوی راج کپور کے ساتھ پرتھوی تھیٹر میں اسکرپٹ رائٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں اور بعد میں انڈین نیشنل تھیٹر میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کیا۔ ہندوستان میں اس وقت انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پس ِ پردہ نہیں بلکہ پردہ ٔ سکرین پر اداکاری کے جوہردکھائیں گے اس فیصلہ سے انہوں نے نصف صدی تک اپنی اداکاری سے فلم بینوں کومحظوظ کئے رکھا ان پر فرنگی فیم فلموں میں انگریزاور ڈاکو کے کردار بہت جچتے تھے اگرچہ ادیب نے اپنے ابتدائی کیریئر میں معمولی کرداروں میں کام کیا ، لیکن یہ ضیاء سرحدی کی فلم فٹ پاتھ (1953) میں دلیپ کمار ، مینا کماری اور انور حسین ( نرگس کے بھائی) کے مابین پہلی فلم کی پیش کش کی گئی جس میں انہوں نے مختصر لیکن بہت جاندارکردار ادا کیا پھر ڈائریکٹر اکبر علی اکو اور اداکار / ہدایتکار اقبال یوسف کے بیٹے ، ادیب کے قریبی دوست تھے ان کے اصرار پر انہوں نے 1962 میں پاکستان ہجرت کرلی اس سے قبل ان کی فلمیں مہندی ، پاک دامن (1956) اور جنگ سمیت ہندوستان میں قیام کے دوران 30 فلموں میں کام کیا ان دنوں ایس ایم یوسف کراچی میں رہائش پذیر تھے ادیب وہیں چلے گئے پھر بعد میں لاہور کو مستقل مسکن بنالیا 1960 کی دہائی سے لے کر اپنی آخری فلم سید نور کی سپر ہٹ مجاجن (2006) اورچوڑیاں تک انہوں نے جوبھی کردار ادا کیا اسے یادگار بناڈالا جب مظفر ادیب پاکستان آئے اس وقت پاکستانی فلموں اسلم پرویز ، مسعود اختر اور یہاں تک کہ محمد علی (اپنی ابتدائی فلموں میں) جیسے اچھے ولن کی حکومت تھی ، ادیب نے دال میں کالا (1964) کے ساتھ اپنی انٹری بنائی محمد علی کے ہمراہ اقبال یوسف اور سید کمال اور بہار بیگم کے ساتھ کام کیا پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ محمد علی کا قریبی دوست بن گیا اور دونوں نے کنیز (1965 کی فلم) ، عادل (1966) اور باغی سردار (1966) ، حاتم طائی (1967) ، محل (1968) جیسی متعدد کامیاب فلموں میں کام کیا ۔ ، ناز (1969) ، آنسو بن گئے موتی (1970) ، دوشمن (1974) ، شیرین فرہاد (1975) ، حیدر علی (1979) ، جوش ، سنگرام (1981) ، زنجیر (1986) آندھی اور طوفان میں ایک ساتھ کام کیا محمدعلی کے ساتھ راکی دادا (1987) ان کی آخری فلم تھی اداکارادیب نے اردو اور پنجابی اور پشتو فلموں میں کام کیا بے شمار فلموں میں یادگار کردار ادا کئے سلطان راہی میں مولا جٹ (1979) اور ان داتا ، وحید مراد میں عید مبارک (1965) اور کنیز (1965 فلم) ، ساز اور آواز (1965)،راستے کاپتھر (1967)، ایک نگینہ (1969)، افسانہ (1970) اور دشمن (1974)، سید کمال میں دال میں کالا (1962) اور شب بخیر ندیم میں تلاش (1986) ، استاد وں کے استاد (1990) اور خزانہ (1995)۔ مرحوم ڈائریکٹرز - رنگیلا کی دیا اور طوفان (1969 فلم) اور ریاض شاہد کی غرناطہ اور یہ امن (دونوں 1971) - وہ اداکار شان کے والد ہدایت کار ریاض شاہد کی ٹیم میں بھی شامل رہے اپنے آخری سالوں کے دوران ، وہ فلموں کے مقابلے میں اسٹیج پر زیادہ سرگرم رہے اور انہوں نے اپنے ایک آخری ٹی وی ڈرامے میں سر سید احمد خان کے کردار کو پیش کیا۔ 50 سال سے زیادہ کے کیرئیر میں ، ادیب نے 500 1سے زائد فلموں میں شامل کیا ، جس میں مختلف شیڈوں میں دھوکہ دہی والا بھائی ، ظالمانہ والد ، گندی شوہر ، بے ایمان دوست اور سفا ک مکان مالک جیسے کردار اداکئے ان کی بہترین فلموں میں آخری جیت(1970) اردو،،آنسو بن گئے موتی 1970 اردو،
جنگل میں محبت 1970 اردو،نیا سویرا 1970 اردو،شاہی فقیر 1970 اردو،تخت و تاج 1970 اردو،ٹکہ مٹھے دا 1970، سلطانہ ڈاکو 1975 ، چیتا تے شیرا 1976،رنگا ڈاکو 1978،مولا جٹ 1979،ہتھیار 1979 ،وحشی گجر 1979، جنرل بخت خان 1979 اردو،بہرام ڈاکو 1980، شیر خان 1981 ،جیدار 1981 ،دارا بلوچ 1983 ،جٹ تے ڈوگر 1983،موتی ڈوگر 1983 ،شیر ماما 1983،،کالیا 1984 ،پوکر 1984 ،غلامی 1985 ،شاہ بہرام 1985 ،جرنیل سنگھ 1987 ،شیر دل،1990 ،گنڈاسہ 1991 ،ریاض گجر 1991 ،اکری شہزادہ،1993 ،پجارو گروپ 1994 ،شیر پنجاب دا 1994 ،غنڈا راج،1994 ،1994 سرکٹا انسان سرفہرست ہیں ہدایت کار حیدرچوہدری کے ساتھ انہوں نے کئی یادگار فلموں میں کام کیا اداکار ندیم کی ذاتی فلم مکھڑامیں بھی انہوں نے بہترین کردار نگاری کی گوگاشیر،دہشت خان ،کالاسمندر،سارجنٹ ،غلامی کا شمار ان کی بہترین فلموں میں ہوتاہے اداکار ادیب نے 1940 سے لے کر 1962 تک 38 ہندوستانی فلموں میں کام کیا حالانکہ انہوں نے 1950 کی دہائی تک فلموں میں زیادہ سرگرمی سے کام شروع نہیں کیا تھا۔ 26 مارچ 2006 کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں انہیں دل کا دورہ پڑنے کے بعد داخل کرایا گیا جہاں اداکار ادیب کا انتقال ہوگیا انا ﷲ وانا الیہ ِ راجعون۔ اداکار ادیب نے دوشادیاں کیں لیکن وہ اولادکی نعمت سے محروم رہے دوسری شادی انہوں نے اداکاری تانی بیگم سے کی تھی۔بلاشبہ اداکار ادیب جیسے فنکار صدیوں بعدپیدا ہوتے ہیں جب بھی دنیا کے بہترین ولن کا ذکرہوگا لوگ ضرور اداکار ادیب کاتذکرہ کریں گے اﷲ پاک ان کی لغزشیں،کوتاہیوں اور گناہوں کو معاف کرکے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے( آمین) یارب العالمین۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 384484 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.