بوڑھے باپ نے نکھٹو بیٹے کی آئندہ زندگی کے لیے دس سال تک ایسا کون سا خزانہ جمع کیا کہ جس کے بعد اسے کام کی ضرورت ہی نہ پڑے

image
 
اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اولاد کی محبت اس کے اس دنیا میں آنے سے بھی پہلے رکھ دی ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے دنیا میں کسی تکلیف کا سامنا نہ کریں۔ اسی وجہ سے والدین اپنے بچوں کے آرام و آسائش کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں-
 
ایسا ہی ایک واقعہ جنوبی کوریا میں رپورٹ ہوا جہاں پر 75 سالہ چوائی نے اپنے نکھٹو اور ناکارہ بیٹے کے لیے اپنے گھر میں دس سال تک روزانہ کچرہ بطور جہیز جمع کیا۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ ایک آدمی کا کچرہ دوسرے فرد کے لیے خزانہ ہو سکتا ہے-
 
اس وجہ سے چوائی ہر روز صبح اٹھ کر گلیوں بازاروں میں گھوم کر کارآمد کچرہ جمع کرتا اور اس کو اپنے گھر میں رکھ دیتا۔ یہاں تک کہ اس کے گھر کی چھت، ٹیرس، بالکونی، سارے کمرے باہر کا صحن ہر ہر جگہ کچرے سے بھری پڑی نظر آنے لگی-
 
image
 
گھر کا دروازہ کھولنے کے لیے بھی کچرے کے ڈھیر پر سے گزر کر جانا پڑتا تھا اور اس کے بعد بمشکل دروازہ زور زبردستی سے بڑی مشکل سے کھولا جا سکتا تھا- گھر میں ہر طرف کچرے کی بو اس طرح پھیلی ہوئی تھی کہ سانس لینا بھی دشوار تھا۔ ایسے گھر میں 75 سالہ چوائی ، اپنی بیوی اور بیٹے کے ہمراہ رہتے تھے-
 
شروع شروع میں ان کے پڑوسیوں نے اعتراض بھی کیے اور شکایات بھی مگر جب کوئی فائدہ نہیں ہوا تو انہوں نے امید ختم کر کے خاموشی اختیار کرلی پورے گھر میں کچرہ بھرا ہونے کے سبب صرف ایک چھوٹے سے کمرے میں یہ تینوں افراد اپنا گزر بسر کرتے تھے-
 
ان کا بیٹا جو کہ 40 سال کا تھا اور جس کا وزن 100 کلو گرام تھا موٹاپے کا شکار تھا- اس نے گزشتہ ایک سال سے گھر سے باہر قدم تک نہیں نکالا تھا ماں باپ کے بار بار کے مطالبے کے باوجود وہ کوئی کام کاج کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ماں باپ کو ملنے والی پنشن پر ہی گزر بسر کرتا ہے-
 
چوائی کا یہ کہنا ہے کہ اس نکھٹو بیٹے کی وجہ سے انہوں نے گھر میں یہ سارا کچرہ جمع کرنا شروع کیا تاکہ والدین کے مرنے کے بعد یہ کم از کم بھوکا نہ مرے اور اس کے پاس کھانے کو کچھ تو ہو۔ چوائی کا کہنا تھا کہ یہ کچرے کا خزانہ بیچ کر وہ اپنے کھانے پینے کا بندوبست کر پائے گا-
 
image
 
مگر بدقسمتی سے چوائی کی ساری پلاننگ اس وقت دھری کی دھری رہ گئی جب ایک میڈیکل چیک اپ کے نتیجے میں چوائی کو یہ پتہ چلا کہ اس کی بیوی دل کے خطرناک عارضے میں مبتلا ہو گئی ہے-
 
اور اگر چوائی نے اپنی بیوی کو صاف ماحول اور فضا فراہم نہیں کی تو اس کی بیوی کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے شروع میں تو چوائی نے شش و پنج کا مظاہرہ کیا مگر بلا آخر بیوی کی محبت میں اور اس کی زندگی بچانے کے لیے دس سال کے اپنے خزانے کو صاف کروانے کے لیے راضی ہو گیا-
 
پھر 225 رضاکاروں اور کرین کی مدد سے اس گھر میں سے 150 ٹن کچرہ جمع کر کے باہر نکالا گیا۔ اس صفائی کے دوران ایک اور بڑا اور مشکل مرحلہ چوائی کے بیٹے کو گھر سے باہر نکلنے پر راضی کرنا تھا جس کو اس کے والدین نے زبردستی گھر سے ایک سال بعد نکلنے پر راضی کیا تاکہ اسکے کمرے کی بھی صفائی ہو سکے-
 
اور آخر کار دس سال کے بعد چوائی نے اپنی بیوی کی زندگی تو بچا لی مگر بیٹے کے لیے جمع کیے ہوئے جہیز سے ہاتھ دھو بیٹھا مگر اس کے ساتھ صاف ستھرا گھر دیکھ کر اب اس کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ کچرہ جمع نہیں کرے گا-
YOU MAY ALSO LIKE: