تَزویرِ روایات و تَفسیرِ اٰیات !! { 6 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالنُور ، اٰیت 1 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روازانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
سورة
انزلنٰہا و
فرضنٰہا و
انزلنا فیھا
اٰیٰت بینٰت
لعلکم تذکرون 1
ھم نے اپنے تمام جہان کو اپنے تمام اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی جاۓ پناہ بنادیا ھے اور ھم نے اپنے تمام جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی قانُون بنا کر اِس قانُون کو اپنے جُملہ جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک ایسا قانُونِ راہ بنا دیا ھے جس میں ھمارا ایک مُفصل بیانیہ ھے اور ھم نے اپنے اِس مُفصل بیانیۓ کا یہ اہتمام اِس لیۓ کیا ھے کہ شاید تُم اُس قدیم قوم کے اُس قدیم اور فطری قانُونِ جہان کو اپنے فکر و خیال میں لا سکو اور شاید تُم اُس قدیم اور فطری قانُونِ جہان سے اپنے زمان و مکان میں ایک مُتمدن انسانی معاشرہ بنا سکو !
مطابِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
امام بخاری کے سیدہ عائشہ صدیقہ کی سیرت و کردار پر لگاۓ گۓ اِس بڑے بُہتان کی حامل بڑی حدیث کے اِن پانچ مضامین کے بعد بھی اِس بڑی حدیث کا بڑا حصہ اُسی فرضی بُہتان کی فرضی تفصیلات پر مُشتمل ھے جس فرضی بُہتان کی اُن کے زندیق اہلِ روایت نے تَخلیق اور تَشہیر کی ھے اور چونکہ ھم اُس بُہتان کی اُن تفصیلات کا اعادہ و تکرار کرنا نہیں چاہتے اِس لیۓ ھم اُس بُہتان و تفصیلاتِ بُہتان کو نظر انداز کرتے ہیں لیکن اُس کے جن چند ضمنی اُمور پر ھم چار و ناچار بات کریں گے اُن اُمور میں اَمرِ اَوّل یہ ھے کہ قُرآنِ کریم نے دینِ حق کے اقرارِ زبانی اور کیفِ قلبی و رُوحانی میں تدریج و تسلسل کے اعتبار سے سُورةُالحُجرات کی اٰیات 14 اور 15 میں یہ فرق بیان کیا ھے کہ { قالت الاعراب اٰمنا قل لم تؤمنوا ولٰکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم وان تطیع اللہ ورسولهٗ لا یتلکم من اعما لکم شیئا ان اللہ غفور رحیم ، انما المؤمنون الذین اٰمنواباللہ ورسولهٖ ثم لم یرتابوا وجٰھدوا بامواھم وانفسھم فی سبیل اللہ اولٰئک ھم الصٰدقون } یعنی مضافاتِ شہر کے جو لوگ کہتے ہیں کہ ھم ایمان لے آۓ ہیں تو آپ اُن سے کہیں کہ تُم ابھی یہ مَت کہو کہ ھم ایمان لے آۓ ہیں بلکہ ابھی صرف یہ کہو کہ دینِ حق کو ھم نے تسلیم کر لیا ھے کیونکہ ایمان ابھی تُمہارے دلوں میں راسخ نہیں ہوا ھے لیکن جب تُم اللہ اور اُس کے رسول کے اطاعت کار بن جاؤ گے تو وہ تُمہارے اعمال کے اَجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا بلکہ اِس میں ضافہ کرے گا ، یقین جانو کہ اللہ تعالٰی تُمہارا پردہ پوش اور رحم پرور ھے ، اِس وقت تک تو مومن صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ و رسُول پر ایمان لاۓ ہیں اور جنہوں نے کوئی تردد کیۓ بغیر ہی اپنے اَموال و اَنفس راہِ للہ میں وقف کر دیۓ ہیں اور وہ اپنے اِن جسمانی و رُوحانی اَعمالِ کار کی بدولت اللہ کے راست باز بندے بن چکے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اِس راست باز جماعت کو 87 مقامات پر { یٰاالذین اٰمنوا } کے معزز و محترم خطاب کے ساتھ مُخاطب کیا ھے لیکن امام بخاری کی یہ بڑی حدیث بتاتی ھے کہ جس وقت نبی اکرم کی اُس بی بی پر لگاۓ گۓ اِس بُہتان کا چرچا ہوا تو آپ نے منبر پر کھڑے ہو کر اپنے اَصحاب و اَحباب کو { یا معشرالمسلمین } کے خطاب کے ساتھ مُخاطب کیا اور پھر یہ سوال بھی کیا کہ تُم میں کون ھے جو اِس شخص کی زبان بند کرے جس نے میری بیوی کی بد نامی مُجھ تک پُہنچائی ھے ؟ بخاری شریف کی اِس روایت سے بخاری کے یہ شریف راوی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بیس برس کی طویل محنت کے بعد بھی نبی اکرم کو اپنی اِس ساری جماعت کے ایمان دار ہونے میں شک تھا اور اِس بات میں بھی شک تھا کہ اِن میں سے کوئی شخص بھی آپ کی اہلیہ پر بُہتان لگانے والے شخص کی زبان بند کرنے کا اہل ھے اور بخاری کے اِن راویوں کے مطابق نتیجہ بھی یہی ہوا کہ نبی کے گھر گھرانے کے دُشمن کی زبان بندی کی نوبت آنے سے پہلے ہی نبی اکرم کے خطاب کے درمیان ہی آپ کی اِس تربیت یافتہ جماعت کے مابین تُوتکار شروع ہو گئی ، نبی اکرم منبر پر کھڑے ہو کر دیر تک اِن کو خاموش ہونے کی تلقین کرتے رھے یہاں تک کہ تَھک تھکا کر وہ خود ہی خاموش ہو گۓ اور اُن کے خاموش ہونے کے بعد نبی اکرم بھی خاموش ہو گۓ ، امام بخاری کی اِس حدیث میں اَمرِ ثانی یہ ھے کہ بظاہر تو یہ ساری حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ کی سیرت و کردار کے بارے میں اِن راویوں کے ایک بُہتان کے گرد گُھومتی ھے لیکن اِس حدیث کے راویانِ حدیث قدم قدم پر نبی اکرم کی ذاتِ گرامی پر بھی اپنے رکیک حملے کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ ایک مُسلم کے طور پر ہر ایک مُسلم یہ بات جانتا ھے کہ قُرآنِ کریم نے انسان کے جس عمل کو جُرم کہا ھے وہ بِلا اختلاف ایک جُرم ھے اور قُرآنِ کریم نے جس جُرم کی جو سزا مقرر کی ھے وہ سزا بھی بِلا اختلاف اُس جُرم کی وہ مقررہ سزا ھے جس کو نبی اکرم نہیں بدل سکتے لیکن بخاری کی اِس حدیث شریف میں نبی اکرم کی زبان سے سیدہ عائشہ صدیقہ کو یہ تلقین کرتے ہوۓ دکھایا گیا ھے کہ { انه بلغنی کذا وکذا فان کنت بریئة فسیبرئک اللہ وان کنت الممت بذنب فاستغفری اللہ وتوبی الیه فان العبد اذا اعترف ، ثم تاب تاب اللہ علیه } یعنی تُمہاری بابت یہ یہ بات مُجھ تک پُکنچی ھے ، اگر تُم نے یہ گناہ نہیں کیا ھے تو اللہ تُمہاری بے گناہی ثابت کر دے گا اور اگر تُم نے یہ گناہ کیا ھے تو پھر اللہ سے توبہ کرو کیونکہ اگر بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ھے اور پھر توبہ کرتا ھے تو اللہ تعالٰی اُسے معاف کر دیتا ھے ، یعنی بخاری کے یہ راوی اِس حدیث میں یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوۓ ہیں کہ اللہ کے نبی کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ انسان کا کون سا جُرم توبہ سے تحلیل ہوتا ھے اور کون سا جُرم اُس جُرم کی مقررہ سزا سے ساقط ہوتا ھے اِس لیۓ یہ گُم راہ راوی ایک طرف تو اپنے اِس بُہتانِ عظیم کو نبی کی زبانِ نبوت سے"کذا و کذا" کے اضافے کے ساتھ فردِ جُرم کے بجاۓ فردِ جرائم کے طور پر پیش کراتے ہیں تو دُوسری طرف اسی فردِ جُرائم کی سزا کو موقوف کرانے کے لیۓ اپنی اہلیہ کو توبہ کی تلقین کرتے ہوۓ اور خطا بخشی کی نوید سناتے ہوۓ بھی دکھاتے ہیں ، سوال یہ ھے کہ اگر اِس جُرم کی اللہ کی طرف سے ایک مقررہ سزا ھے اور وہ سزا ہی اِس جُرم کی توبہ ھے تو نبی اکرم اُس جُرم کو اعترافِ جُرم اور حرفِ توبہ سے کس طرح تبدیل کر سکتے تھے ? آپ سے اِس اَمر کا امکان اِس لیۓ بھی نہیں ھے کہ ایسا کرنا اللہ کے قانُون کی نفی کرنا ھے اور آپ سے اِس بات کا یہ گمان اِس لیۓ بھی نہیں ھے کہ آپ اپنی اہلیہ کی پاکیزہ سیرت اور پُختہ کردار سے بخوبی آگاہ تھے ، اِس بات کا ایک ثبوت عُلماۓ مجوس کی اسی حدیث میں آپ کا نقل کیا گیا وہ خُطبہ ھے جس میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا ھے کہ { واللہ ماعلمت علٰی اھلی الا خیرا ، ولقد ذکروا رجلا ماعلمت علیہ الا خیرا ، وما یدخل علٰی اھلی الا معی } یعنی میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں اپنی بیوی کے بارے میں بَھلائی کے سوا کُچھ بھی نہیں جانتا اور جس آدمی کے نام سے اُس پر بُہتان لگایا گیا ھے میں اُس کو بھی ایک پاک باز انسان سمجھتا ہوں ، وہ جب بھی میرے گھر گیا ھے میرے ساتھ ہی گیا ھے ، آپ کا یہ بیان آپ کی اُس تلقینِ توبہ سے ایک مُختلف بیان ھے جس تلقینِ توبہ کا اسی حدیث میں ذکر کیا گیا ھے اور آپ کی وہ تلقین توبہ بھی آپ کے اُس بیان سے مُختلف ھے جو بیان آپ کے اِس خُطبے کی صورت میں سامنے آیا ھے ، اللہ تعالٰی کے مُعلمِ صادق اور مُتکلمِ صادق کے اِس کلام کا یہ تضاد اِس بات کی دلیل ھے کہ یہ اُس مُعلمِ صادق اور مُتکلمِ صادق کا بیان نہیں ھے بلکہ آپ کی ذات کے ساتھ مجُوس کے منسُوب کیۓ گۓ دُوسرت اکاذیب کی طرح کا منسُوب کیا گیا ایک کذب و افترا ھے جو اِن جُھوٹی روایات کے جُھوٹے راویوں نے آپ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ منسُوب کیا ھے ، اِس حدیث کے بارے میں کہنے کی تیسری بات یہ ھے کہ اِس حدیث میں اِس حدیث کے نتجیہِ کلام کے طور پر یہ بھی بتایاگیا ھے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ پر الزام لگانے والے حسان بن ثابت تھے جن پر برأتِ عائشہ کے بعد حَدِ قذف کا نفاذ ہوا تھا اور آپ کو 80 تازیانے لگاۓ گۓ تھے ، ہر چند کہ اِس روایتِ حدیث میں حسان بن ثابت کے ساتھ مسطح بن اثاثہ اور سیدہ عائشہ کی ایک سوتن زینب بنتِ جحش کی بہن حمنہ بنت جحش کے نام بھی شامل ہیں لیکن یہ دونوں نام وزنِ بیت کے طور پر شامل کیۓ گۓ ہیں ، اِن روایت کاروں کا اصل مقصد رسُول و گھرانہِ رسُول کو بدنام کرنا اور حسان بن ثابت کو مداحِ رسُول ہونے کی سزا دینا تھا کیونکہ ایک قاذف کا عُمر بھر کا کہا ہوا ہر قول عُمر بھر کے لیۓ غیر معتبر ہوجاتا ھے اور حسان بن ثابت کی یہ سزا ثابت کرکے دَرحقیقت یہ ثابت کیا گیا ھے کہ حسان بن ثابت نے مَدحِ محمد میں عُمر بھر جو کُچھ کہا ھے وہ عُمر بھر کے لیۓ ساقط الاعتبار ہو چکا ھے ، اِس حدیث کے بارے میں چوتھی بات جو ھم یاد دلانا چاہتے ہیں وہ سیدہ عائشہ صدیقہ کی زبان سے ادا کراۓ ہوۓ وہ الفاظ ہیں جن میں آپ سے یہ کہلوایا گیا ھے کہ { وکنت جاریة } یہ ایک ننگی گالی ھے جو اِن روایت کاروں نے سیدہ عائشہ صدیقہ کی زبان سے سیدہ عائشہ صدیقہ کو دی ھے کیونکہ "جاریہ" کا معنٰی سُورج ، کشتی ، سانپ اور لونڈی ھے ، کلامِ مقصد کے طور پر ہر چلتی چیز کو جاریة کہا جاتا ھے اور جاریة کی یہ اَمثال صرف کلامِ عرب میں ہی موجُود نہیں بلکہ قُرآنِ کریم میں بھی بکثرت موجُود ہیں ، سُورج خلاء میں چلتا ھے ، پانی دریا میں چلتا ھے ، کشتی پانی پر چلتی ھے اور سانپ زمین پر چلتا ھے ، اہلِ عرب اور کلامِ عرب میں اِن سب چیزوں کو اِن کی اسی چال کی بنا پر جاریة کہا جاتا ھے ،عرب لونڈی کو بھی اُس کی اسی چلتی چال کے اَحوال کی بنا پر جاریة کہتے تھے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ جاریة ایک جگہ پر رُکنے یا ٹِکنے کی چیز نہیں ہوتی تھی اور امام بخاری کا اپنی اِس حدیث میں سیدہ عائشہ کے لیۓ سیدہ عائشہ صدیقہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا کرانا بھی بظاہر اس مذموم مقصد کے سوا کسی اور مقصد کا حامل نہیں ہو سکتا اور بخاری کی اِس حدیث کی پانچویں بات جو اِس حوالے سے ھم یاد کرانا چاہتے ہیں وہ یہ ھے کہ بخاری اور راویانِ بخاری نے اپنے اِس بہتان کو سُورہِ نُور کے ساتھ اِس پاکیزہ خیال سے نَتھی نہیں کیا ھے کہ وہ اِس سے سیدہ عائشہ کی سیرت و کردار کی تطہیر ثابت چاہتے تھے بلکہ اُنہوں نے اپنے اِس بُہتان کو سُورَہِ نُور کے ساتھ اِس غرض سے نَتھی کیا ھے کہ وہ انسانی ذہن کو قُرآنِ کریم کے اِس قانُون تک لانا چاہتے تھے جس قانُون میں یہ کہا گیا ھے کہ { الخبیثٰت للخبیثین والخبیثون للخبیثٰت والطیبٰت للطیبین والطیبون للطیبٰت } یعنی بُری عورتیں بُرے مردوں کے لیے ، بُرے مرد بُری عورتوں کے لیۓ ، اَچھی عورتیں اَچھے مردوں کے لیۓ اور اَچھے مرد اَچھی عورتوں کے لیۓ تَخلیقِ فطرت کے مُتوان جوڑے ہوتے ہیں تاھم اِس اٰیت پر شاید مزید بات اِس اٰیت کے آمدہ مقام پر ہی ہوسکے گی ، اِس مقام پر ھم نے صرف یہ بتانا ھے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ پر نہ تو کبھی کوئی ایسا بہتان لگا ھے اور نہ ہی سُورَةُالنُور سیدہ عائشة صدیقہ پر لگے ہوۓ اُس بہتان سے برأت کے لیۓ نازل ہوئی ھے ، اگر سُورةُ النُور عائشہ صدیقہ پر لگاۓ ہوۓ کسی بُہتان کی برأْت کے لیۓ نازل ہوئی ہوتی تو اِس میں عائشہ صدیقہ کا نام اسی طرح موجُود ہوتا جس طرح سُورةُالاَحزاب میں ذکرِ زید کے ضمن میں زید کانام موجُود ھے ، اَمرِ واقعہ یہ ھے کہ عائشہ صدیقہ پر بُہتان مجوس کا وہ خانہ ساز افسانہ ھے جس کا مقصد نبی اکرم کی بیوی پر بُتان لگانا اور نبی اکرم کو اِس بُہتان کا نشانہ بنانا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558446 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More