قُرآنی معاشرہ و قُرآنی معاشرت !! { 1 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنُور ، اٰیت 2 ، 3 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الزانیة
والزانی فاجلدوا
کل واحدة منھمامائة
جلدة ولا تاخذکم بھما
رافة فی دین اللہ ان کنتم
تؤمنون باللہ والیوم الاٰخر و
لیشھد عذابھما طائفة المؤمنین 2
الزانی لاینکح الا زانیة اومشرکة والزانیة
لاینکحھا الا زانیة اومشرک وحرم ذٰلک علی
المؤمنین 3
قُرآنی معاشرے میں قُرآنی معاشرت کی مُخالف جماعت اور قُرآنی معاشرے میں قُرآنی معاشرت کے مُخالف افراد کے فتنہ و شر سے قُرآنی معاشرے اور قُرآنی معاشرت کو بچانے کا کام ہمیشہ جاری رکھو ، اگر تُم اللہ کی ذات اور یومِ حساب کے دن اپنے مُثبت و مَنفی اعمال کے بارے میں اللہ کی طرف سے کیۓ جانے والے متوقع سوالات کے بارے میں ایمان و یقین رکھتے ہو تو پھر تُم قُرآنی قانُون کے اِن مُجرموں کو اُن کے کُھلے جرائم کی کُھلے عام کُھلی سزا دینے میں کوئی رُو رعایت نہ کرو اور اُن کی عملی اصلاحات کی عملی اطلاعات آنے تک اُن کی اصلاح و تربیت کا یہ عمل جاری رکھو کیونکہ اگر تُم معاشرے کے اِن مُشرک و مُنحرف اَفراد کی تربیت میں تساہل کرو گے تو یہ پرانے مُشرک اور پرانے مُنحرف اَفراد ایک دُوسرے سے مل کر وہی پرانے مُجرمانہ اعمال اختیار کر لیں گے جو انسانی معاشرے کے یہ مُشرک و مُنحرف اَفراد ہمیشہ ہی ایک دُوسرے کے ساتھ مل کر کرتے ہوۓ آۓ ہیں اور وہ اپنی اِس ملّی بَھگت کی بنا پر ایک دُوسرے کے وہ پرانے فطری حلیف ہیں جو اپنے ہمیشہ ہی اپنے غیر فطری اعمال میں ایک دُوسرے کے ساتھ فطری طور پر شریکِ عمل رھے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کے آغاز سے اَب تک ھم نے اپنی جو معروضات پیش کی ہیں اُن معروضات کا ماحصل یہ ھے کہ اِس سُورت کا موضوع قُرآن کا وہ قانُونی معاشرہ اور قُرآن کی وہ قانُونی معاشرت ھے جو ہر قدیم زمانے سے ہر جدید زمانے میں اپنی ایک مقررہ صورت و ساخت کے ساتھ آتی چلی آرہی ھے اور اس بات کے ضمن میں ھم یہ بات بھی تحریر کر چکے ہیں کہ عُلماۓ روایت نے اِس سُورت کے حوالے سے جو پہلی بات مشہور کر رکھی وہ اِس سُورت میں آنے والا لفظِ "زنا" ھے جس سے اُن کی مُراد مرد وزن کا وہ جنسی تعلق ھے جو اِس سُورت کی اٰیت 2 کی رُو سے قابلِ سزا ھے ، عُلماۓ روایت کی مشہور کی ہوئی دُوسری بات یہ ھے کہ جو مرد و زن اِس جُرم کا ارتکاب کرتے ہیں اُن کی کم سے کم سزا اُن کو سرے عام 100 تازیانے لگانا اور اُن کی زیادہ سے زیادہ سزا اُن کو سرے عام پَتھر مار مار کر ہلاک کردینا ھے اور عُلماۓ روایت کی مشہور کی ہوئی تیسری بات یہ ھے کہ چونکہ سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے میں بعض منافقینِ زمانہ نے سیدنا محمد علیہ السلام کی اہلیہ سیدہ عائشہ صدیقہ پر اسی جنسی جُرم کا یہی الزام عائد کیا تھا اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے اُن منافقینِ زمانہ کے اُس الزام کو رَد کرنے کے لیۓ اپنے نبی پر یہ سُورت نازل کی ھے ، اِس سُورت کی پہلی اٰیت کے ضمن میں آنے والے پہلے مضامین میں ھم عُلماۓ روایت کی مشہور کی ہوئی اِس تیسری بات پر سیر حاصل بحث کر چکے ہیں اور عُلماۓ روایت کی اپنی روایات سے ہی یہ بات ثابت کر چکے ہیں سیدہ عائشہ صدیقہ پر یہ الزام بھی اُن کا اپنا لگایا ہوا ایک جُھوٹا الزام ھے اور اُن کے اِس جُھوٹے الزام کا اِس سُورت کے ساتھ اُن کا یہ انتساب بھی ایک جُھوٹا انتساب ھے ، عُلماۓ روایت نے سیدہ عائشہ صدیقہ پر لگاۓ ہوۓ اپنے اُس الزام کا اِس سُورت کے ساتھ یہ انتساب اِس لیۓ کیا ھے تا کہ وہ سیدہ عائشہ صدیقہ پر لگاۓ ہوۓ اپنے اِس الزام کو اُس جنسی جُرم کو اُس لفظِ زنا کے نام سے موسُوم کر سکیں جس لفظ زنا کا اُنہوں نے اسی طرح خود ہی ایک جنسی مفہوم مُتعین کیا ہوا ھے جس طرح اُنہوں نے سیدہ عائشہ صدیقہ کے خلاف ایک بے بُنیاد الزام وضع کیا ہوا ھے ، قُرآنِ کریم نے سب سے پہلے زنا کا لفظ سُورةُالاَسراء کی اٰیت 32 کے اِس مضمون میں استعمال کیا ھے جس مضمون میں کہا گیا ھے کہ { ولا تقربواالزنا انه کان فاحشة وساء سبیلا } یعنی تُم لوگ "زنا" کے کبھی قریب بھی مت جانا کیونکہ زنا ایک "فاحشة" ھے اور یہ"فاحشة" بُرے راستے کا ایک بُرا سفر ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی اِس اٰیت میں جہاں پر لفظِ زنا کا استعمال کیا ھے وہیں پر اِس نے اِس لفظ کی تفہیم کے لیۓ لاۓ گۓ لفظِ "فاحشہ" کا مفہوم بھی واضح کر دیا ھے تاکہ جو انسان زنا کے قُرآنی مفہوم کو سمجھنا چاھے تو وہ پہلے اِس لفظ کی لُغت "فاحشہ" سے استفادہ کرے کیونکہ زنا ایک مُبہم مضمون جس کو لفظِ فاحشہ نے مُفصل کیا ھے اور ھم جب قُرآن کے اِس حُکم کے مطابق زنا کا مفہوم سمجھنے کے لیۓ "فاحشہ" کا مفہوم سمجھنا چاہتے ہیں تو معلوم ہوتا ھے کہ قُرآنِ کریم نے "فاحشہ" کے اِس ایک لفظ کا مفہوم سمجھانے کے لیۓ پہلے سُورةُالاَعراف کی اٰیت 11 سے اٰیت 32 تک آدم کے اقرارِ حق اور ابلیس کے انکارِ حق پر ایک طویل علمی و قانُونی بحث کی ھے اور پھر اِس علمی و قانُونی بحث کے آخر میں جو نتیجہ خیز فیصلہ صادر فرمایا ھے وہ یہ ھے کہ { قل انما حرم ربی الفواحش ماظھر منھا ومابطن والاثم والبغی بغیرالحق وان تشرکواباللہ مالم ینزل بهٖ سلطٰنا وان تقولوا علی اللہ مالا تعلمون } اے میرے رسُول ! اَب آپ اپنے تمام اہلِ جہان کو میرا یہ حتمی فیصلہ و فرمان سُنادیں کہ آدم و ابلیس کے اِس معاشرتی و حربی معاملے کے بعد میرے رَب نے تمام نہاں اور تمام عیاں فواحش کو ، پھر تمرد و سرکشی کے بعد اختیار کیۓ گۓ تمام خیال و اعمال کو ، پھر خالقِ عالَم کے خلاف کی جانے والی تمام چھوٹی اور بڑی بغاوتوں کو روک دیا ھے اور پھر شرک کے تمام راستوں پر چلنے والے تمام لوگوں کو بھی شرک و شرک تمام راستوں پر چلنے سے روک دیا ھے کیونکہ انسان کے اِن مَنفی اعمال کی اَنجام دہی کے لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو کوئی بھی دلیل فراہم نہیں کی ھے ، اللہ تعالٰی کے اِس فیصلہ کُن حُکم سے جو پہلی بات معلوم ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ اللہ تعالٰی کے نزدیک انسان کے انکارِ حق کا وہ قول و عمل ہی وہ فحش قول و عمل ھے جو قُرآن کے اَحکامِ نازلہ کے خلاف ھے اور اللہ تعالیٰ کے اِس حُکم سے جو دُوسری بات معلوم ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ اگر لفظِ فحش کا قُرآنی مفہوم صرف یہ ھے جو قُرآنِ کریم کی اِس اٰیت سے ثابت ہوا ھے تو لفظِ زنا کا قُرآنی مفہوم بھی صرف یہی ھے جو قُرآنِ کریم کی اسی اٰیت سے ثابت ہوا ھے ، قُرآنِ کریم کے اِس تاریخ ساز سلسلہِ کلام پر مزید توجہ دی جاۓ تو اسی تاریخ ساز سلسلہِ کلام کی اٰیت 28 میں انسان کو اللہ تعالٰی کا یہ فرمان بھی نظر آجاۓ گا کہ { واذا فعلوا فاحشة قالوا وجدنا علیھا آباءنا واللہ امرنا بھا قل ان اللہ لایامر بالفحشاء اتقولون علی اللہ مالا تعلمون } اور حق کے یہ مُنکر لوگ جب اپنے انکارِ حق کے یہ فحش اعمال انجام دیتے ہیں تو کہتے ہیں ھم نے اپنے بڑوں کو بھی یہی اعمال کرتے دیکھا ھے اور اللہ تعالٰی نے بھی ھم کو یہی فحش اعمال اَنجام دینے کا حُکم دیا ھے ، سو اے میرے رسُول ! آپ اِن لوگوں کو بتا دیں کہ اللہ تعالٰی نے تو ہر گز کسی کو انسان کو یہ فحش اعمال اَنجام دینے کا کوئی حُکم نہیں دیا ھے اِس لیۓ سوچو کہ تُم اللہ کے بارے میں کہیں ایسی بے سروپا بات تو نہیں کہہ رھے ہو جس کا تمہیں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ھے ، قُرآنِ کریم کی اِس اٰیت کے اِس مضمون کے مطابق حق کے وہ مُنکر اپنے اِن اعمالِ فاحشہ کو نہ صرف اپنے بزرگوں کے اعمالِ حسنہ قرار دیتے تھے بلکہ وہ اپنے اِن ہی اعمالِ فاحشہ کو اللہ تعالٰی کا حُکم بھی قرار دیتے تھے ، ھم نے نہیں جانتے کہ انسانی تاریخ کے کسی بدترین دور میں بھی انسان نے اپنے دین کے حوالے سے اپنے بڑوں کے عملِ زنا کو اُن کا عملِ دین قرار دیا ہو اور اُس عملِ زنا کو اتنے فخر کے ساتھ بیان کیا ہو اور پھر اُسی عملِ زنا کو اللہ تعالٰی کا حکم بھی قرار دیا ہو ، قُرآنِ کریم نے اِن مُشرک و مُنحرف اور سرکش لوگوں کے برعکس اللہ تعالٰی کے فرماں بردار بندوں کے اعمال کا ذکر کرتے ہوۓ سُورةُالفرقان کی اٰیت 68 میں بتایا ھے کہ { والذین لایدعون مع اللہ الٰھا اٰخر و لا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولایزنون } یعنی جو لوگ اللہ تعالٰی پر ایمان لے آتے ہیں تو وہ اپنی حاجت روائی کے لیۓ اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ کسی اور ذات کو ہرگز شریک نہیں کرتے اور نہ ہی وہ بلاوجہ کسی کو قتل کرتے ہیں اور نہ ہی وہ بلاوجہ کوئی عملِ زنا کرتے ہیں ، ھم اُس قتل اور وجہِ قتل کو تو جانتے ہیں کہ جس قتل کے بدلے میں انسان کو قتل کے بدلے میں قتل کا حق دیا گیا ھے لیکن ھم اُس زنا اور وجہِ زنا کو ہرگز نہیں جانتے جس زنا کے بدلے میں انسان کو زنا کا حق دیا گیا ھے لیکن اَب اِس اٰیت کے اِس بیان سے ھم یقین کے ساتھ یہ بات جان چکے ہیں کہ زنا کا معنٰی اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کا انکار اور غیر اللہ کے اَحکامِ غیر نازلہ کا اقرار اور اُن اعمال پر انسان کا قولی و عملی اصرار ھے اور یہ بات جاننے کے بعد یہ بات بھی ھم یقین کے ساتھ جان چکے ہیں کہ لفظِ زنا سے وہ جنسی جُرم مُراد نہیں ھے جو عُلماۓ روایت نے اپنی کتابوں میں بیان کیا ھے بلکہ لفظِ زنا سے مُراد اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کا وہ انکار ھے جو اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ھے ، عربی قواعد و لُغت کے اعتبار سے اٰیاتِ بالا میں پہلا قابلِ توضیح لفظ "الزانیة" ھے جس سے مُراد انسانی معاشرے کی وہ مُتشکل جماعت ھے جو قُرآنی معاشرے میں رہتے ہوۓ قُرآنی معاشرت کے خلاف بغاوت کرتی ھے اور دُوسرا لفظ "الزانی" ھے جس سے مُراد قُرآنی معاشرے کے وہ مُنتشر افراد ہیں جو قُرآنی معاشرے میں رہتے ہوۓ قُرآنی معاشرت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں ، اٰیاتِ بالا میں آنے والا تیسرا قابلِ تشرح لفظ " جلد " ھے جس کا معنٰی حفاظت ھے انسان و حیوان کی جلد کو بھی اسی بنا پر جلد کہا جاتا ھے کہ وہ انسان و حیوان کے جسمانی ڈھنانچے کی حفاظت کرتی ھے اور اِس مقام پر اِس جلد سے قُرآن کے قُرآنی معاشرے کے وہ نامراد لوگ مُراد ہیں جو قُرآنی معاشرے کی جسمانی معاشرت کو نقصان پُہنچا رھے ہوتے ہیں اور معاشرے کے زندہ ضمیر انسانوں کو اُن کی اصلاح و تربیت کا حکم دیا گیا ھے ، اٰیاتِ بالا میں وارد ہونے والا چوتھا قابلِ تشریح لفظ ھے وہ "مأة" ھے جو عامل کے عملِ کثیر کے لیۓ آتا ھے اور اسی بنا پر عربی اُسلوبِ کلام میں 100 کے اَعداد کی کثیر تعداد کو بھی "مأة" کہا جاتا ھے لیکن عُلماۓ روایت اِس سے زانی ا وزانیہ کو مارے جانے والے وہ 100 تازیانے مُراد لیتے ہیں جن کو قُرآن "سوطہ" کہتا ھے کیونکہ عُلماۓ روایت کو اِس بات سے قطعاًکوئی سروکار نہیں ہوتا کہ قُرآن کی یہ روشن اٰیات کس چیز کے بارے میں کیا کہتی ہیں اِن کو صرف اِس بات سے غرض ہوتی ھے کہ اِن کی تاریک روایات نے قُرآن کی روشن آیات سے انحراف کرتے ہوۓ کس چیز کو کیا نام دیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558509 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More