|
|
گزشتہ کئی سالوں سے قربان کیے جانے والے جانوروں کی کھال
کی قیمت بہت گر گئی ہے ۔ پہلے گائے بیل کی کھال کی قیمت چھ ہزار سے آٹھ
ہزار روپے تھی جو کہ اب کم ہو کر پانچ سو سے تین سو روپے ہوگئی ہے۔ اسی
طرح آٹھ سو روپے میں فروخت ہونے والی بکرے کی کھال بھی اب دو سو میں فروخت
ہو رہی ہے۔ جبکہ دنبے اور اونٹ کی کھال تو سو روپے میں بھی کوئی لینے کو
تیار نہیں۔ |
|
جس طرح پولیو کے قطرے اور کورونا کی ویکیسن کے حوالے سے
کئی لوگ عوام کی ذہن سازی کرتے رہے ہیں کہ یہ مغرب کی سازش ہے یہودیوں کی
سازش ہے، مسلمانوں کی نسل کشی کا طریقہ ہے۔ اس کے برعکس کئی غیر مسلم
ممالک نے کورونا ویکسین کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار تو کیا تھا لیکن
اسے اپنی نسل کشی کا طریقہ کبھی نہیں کہا۔ بالکل اسی طرح اب جانوروں کی
کھال کی قیمت کے گرنے کو بھی دینِ اسلام کے خلاف مغرب کی سازش قرار دیا
جارہا ہے اور اس بات کے حوالے سے دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اس طرح کرنے سے
مدارس اور خیراتی اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ جن کی آمدنی کا ایک بڑا
ذریعہ قربانی کی کھالیں تھا۔ جبکہ کھالوں کی قیمت صرف پاکستان میں نہیں بلکہ
پوری دنیا میں گری ہیں اور اس کی وجہ چین کا مصنوعی چمڑا متعارف ہونا ہے۔
جس سے دنیا بھر میں چمڑے کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا ہے بلکہ لاکھوں لوگ
بیروزگار بھی ہوئے ہیں۔ |
|
ان بدلتے ہوئے معاشی حالات میں مدرسوں اور خیراتی اداروں
کو بھی متبادل آمدنی کے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے، مثال کے طور پر مدرسوں
اور خیراتی اداروں کو ملنے والے عطیات سے مکان و دکانیں بنا کر کرائے پر
دی جاسکتے ہیں، ٹرانسپورٹ خریدی کر چلائی جاسکتی ہے، قربانی کے جانوروں کی
پرورش کے فام بنائے جاسکتے ہیں یا ایسے بہت سے دوسرے ذرائع پیدا کیے
جاسکتے ہیں جس سے مدارس یا خیراتی اداروں کو باقاعدگی سے ماہانہ آمدنی
ملتی رہے۔ |
|
|
|
جیسا کہ ہم نے اوپر کی سطور میں کھالوں کی قیمت عالمی
سطح پر گرنے کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ چین کا ریگزین یا مصنوعی چمڑا ہے۔ جس
سے بنی ہوئی اشیاء صارف کو سستی مل جاتی ہیں۔ اس حوالے سے ہماری چمڑے سے
بنی اشیاء فروخت کرنے والے ایک دکاندار سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ
جانور کی کھال سے بنے خواتین کے پرس، جوتے اور کوٹ ایک عرصہ سے گودام میں
پڑے ہیں جب کوئی گاہک آتا ہے اور جانور کے چمڑے سے بنی اشیاء طلب کرتا ہے
تو اسے گودام سے دکان پر لایا جاتا ہے، ان اشیاء کو دیکھنے بہت لوگ آتے
ہیں لیکن خریدار بہت ہی کم ہوتے ہیں جو خریدار ہوتے ہیں ان کا تعلق غیر
ممالک سے ہوتا ہے وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر۔ جانور کے چمڑے سے بنے ایک کوٹ
کی قیمت چھ ہزار سے آٹھ ہزار روپے ہوتی ہے اور اس کے رنگ بھی محدود ہوتے
ہیں، جب کہ مصنوعی چمڑا سے بنا کوٹ پندرہ سوروپے سے پچیس سو روپے میں با
آسانی مل جاتا ہے اور اس کے رنگوں میں بھی بہت سی اقسام ہوتی ہیں۔ |
|
جب کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا اور ملک میں
مہنگائی بھی بڑھنے لگی تو اندازہ کیا جانے لگا کہ اس سال ملک میں قربانی
میں کافی کمی آئے گی لیکن غیر ممالک سے حج پر آنے کی پابندی کی وجہ سے ملک
میں قربانی میں اضافے کا بھی امکان پیدا ہوا۔ کیوں کہ ایک لاکھ 80 ہزار
پاکستانی جو اس بار بھی حج پر نہ جاسکے ان کی بھی قربانی اس برس ملک میں
ہوگی۔ ٹینریز کی ایسوسی ایشن کے اعداد و
شمار کے مطابق اس برس ملک میں 82 لاکھ جانور قربان کیے گئے اور 95 فیصد
جانوروں کی کھالیں ٹینریز کو ملیں |
|
دوسری جانب اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو مصنوعی چمڑے کے فروغ کی ایک بڑی
وجہ جانوروں کے گوشت کا استعمال کم کرنا ہے، کئی مغربی ممالک کا ماننا ہے
کہ دنیا میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے زمین اور پانی کی کمی
ہوتی جا رہی ہے ایسے میں اگر ہم جانوروں کے افزائش کرتے ہیں تو ہمیں
جانوروں کو رکھنے کے لیے نہ صرف زمین درکار ہوگی بلکہ ان کا چارہ اگانے کے
لیے بھی زمین اور پانی درکارہوگا۔ تو کیوں نہ ابھی سے تیاری کی جائے اور
جانوروں کی افزائش کم سے کم کی جائے اور ان کے گوشت کا استعمال بھی کم کیا
جائے۔ |
|
|
|
اگر مضمون میں بیان کردہ باتوں پر غور و فکر کیا جائے تو یقیناً اندازہ
ہوگا کہ ہمارے خلاف مغرب کوئی سازش نہیں کر رہا بلکہ جو لوگ عالمی سطح پر
رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اپنے خلاف مغرب کی سازش بتارہے ہیں وہ خود
اپنے خلاف سازش میں مصروف ہیں تاکہ دنیا کی طرح ہم متبادل ذرائع تلاش کرنے
کے بجائے اپنی تباہی کا مغرب کو ذمہ دار قرار دیتے رہیں اور دنیا سے مزید
پیچھے ہوجائیں جس کی ایک مثال پولیو بھی ہے کہ اب تک ہم اس بیماری سے جان
نہ چھڑا سکے جب کہ ہمارے بعد پولیو کا شکار ہونے والے کئی ممالک اپنے ملک
سے پولیو کا خاتمہ کرچکے۔ |