پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جہاں پر پورے ملک
کے فیصلے کئے جاتے ہیں اور ملک کے دیگر علاقوں کے مکینوں کا خواب ہوتا ہے
کہ وہ کسی بھی طریقے سے یہاں رہائش پذیر ہو جائیں تاکہ وہ ایک ماڈرن شہر
میں زندگی گزاریں اور بچوں کا مستقبل بھی بہتر ہو جائے مگر اسی وفاق میں
کچھ ایسے واقعات رونماء ہوئے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف یہاں پر بسنے والے
افراد خوف وہراس کا شکار ہو گئے بلکہ ملک کے دیگر علاقوں کے عوام بھی تشویش
کا شکار ہو گئے پہلے اسلام آباد میں وفاقی پولیس کے ہاتھوں اسامہ ستی جیسے
معصوم طالبعلم کا قتل ہوا اس پر شور ہوا تو اس وقت کے آئی جی نے کہا کہ ہم
انصاف کے تقاضے پورے کرینگے اور حکومتی شخصیات تو کیا دیگر سیاسی و سماجی
شخصیات بھی اسامہ ستی کی رہائش گاہ پر گئیں اور اسامہ کے والد کو دلاسہ دیا
مگر بعد میں جوں جوں وقت گزرتا گیا ویسے ویسے اسامہ ستی کے حق میں بلند
آواز کی گونج کم ہوتی گئی آج بھی اسامہ کے والدین نوحہ کناں ہیں کہ انہیں
انصاف نہیں ملا اس کیس کو گزرے ابھی کچھ ماہ ہی گزرے تھے کہ سی ٹی ڈی کے
اہلکاروں نے تھانہ شمس کالونی میں قتل ہونے والے دو پولیس اہلکاروں کے قتل
کے الزام میں 15سالہ حسن کو گرفتار کیا اس بچے کی سی آئی اے میں تفتیش ہوئی
مگر بچہ بے گناہ نکلا جس پر سی آئی اے نے اسے چھوڑ دیا مگر سی ٹی ڈی کے
اہلکار وں نے بچے کو دوبارہ دبوچ لیا اور مبینہ طور پر اس پر تشدد کرتے رہے
اس کی والدہ کے مطابق اس کے جگرگوشے کو کرنٹ لگا کر مارا گیا مبینہ طور پر
اس کی والدہ کو یہ کہہ کر بچے کی لاش واپس کی گئی کہ اسے بخار تھا اس لئے
طبیعت خراب ہو گئی اس کے بعد یہ کہا گیا کہ اس نے خود جیل کی سلاخوں میں سر
مار کر موت کو گلے لگایا سوال صرف اتنا سا ہے کہ اگر حسن کی طبیعت خراب تھی
تو کیا سی ٹی ڈی کے تفتیشی کے باپ نے اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا تھا یا
یہ تفتیشی کی ذمہ داری تھی بچے کی والدہ نے آئی جے پی روڈ پر بچے لاش رکھ
کر احتجاج کیا مگر وہ معاملہ کسی ادارے نے نہیں اٹھایا جس کے باعث وہ
معاملہ بھی ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گیا جب خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو
تھانہ گولڑہ کی حدودمیں عثمان موٹا نامی شخص نے ایک جوڑے کو برہنہ کیا اور
وڈیو بنائی تو اس پر ایکشن لیا گیا جو کہ بہت اچھی بات ہے اور تھانہ گولڑہ
کے ایس ایچ او کی مدعیت میں مقدمہ بھی درج کر لیا گیا مگر اس کی پیشی پر
پیشی ہوئی اور وزیر اعظم پاکستان کے حکم کے مطابق اسے نشان عبرت بنانے کا
خواب ادھورا ہوتا نظر آتا ہے۔کچھ دن پہلے نور مقدم کا قتل ہوا ظالم شخص نے
حوا کی بیٹی کو وحشیانہ طریقے سے زبح کیا وفاقی پولیس نے فوری کارروائی
کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار بھی کر لیا اور پیشی بھی ہوتی ہے قاتل کی گرفتاری
کے بعد اس کے والدین کی گرفتاری بھی کر لی گئی جو کہ وفاقی پولیس کا اہم
کارنامہ ہے کیونکہ وفاقی پولیس کے تجربہ کارآئی جی، افسران اس معاملے کی
نزاکت کو سمجھنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں بیشک قاتل کے والدین سے تفتیش
کی جارہی ہے مگر ان کی گرفتاری پر کچھ لوگ اعتراض اٹھا رہے ہیں کہ بوڑھے
والدین کو گرفتار کیوں کیا گیا تو حضور والا ان کی گرفتاری اس لئے ضروری ہے
تاکہ وہ محفوظ رہے کیونکہ ان کے چشم و چراغ نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے
کہ عوام میں اشتعال پایا جاتا ہے اس لئے حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے ان
کی گرفتاری وفاقی پولیس کا احسن اقدام ہے کچھ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ
نور مقدم کے معاملے پر وفاقی پولیس بہت کام کر رہی ہے مگر راولپنڈی میں جو
خاتون کو چھریاں ماری گئیں اس پر ایکشن کیوں نہیں ہو رہا تو حضور وہ
راولپنڈی پولیس کا کام ہے اگر ان میں اپنی روزی حلال کرنے کی ہمت ہے تو وہ
بھی ایکشن لیں۔ ٹویٹر پر ایک خاتون نے ٹویٹ کیا کہ آئی جی اسلام آباد نور
مقدم کے قتل پر استعفی دے دیں تو ان کو جواب میں میں نے یہ تحریر کیا تھا
کہ ”میڈم پولیس کا کام واردات کے بعد شروع ہوتا ہے پولیس کو کوئی خواب نہیں
آتا کہ فلاں گھر کے فلاں کمرے میں قتل ہوگا“اس لئے اکثر اوقات ہم جذباتی ہو
کر ایسے مطالبے کر دیتے ہیں جن کی کوئی تک ہی نہیں بنتی ان سارے واقعات پر
جہاں سب افراد میں غم و غصہ پایا جاتا ہے وہاں پر ہمیں یہ بات ضرور مد نظر
رکھنی چاہئے کہ جو کام پولیس کا ہے وہ صڑف پولیس کا ہے جبکہ جو کام عدالتوں
کا ہے وہ عدالتیں بہتر طریقے سے کرتی ہیں۔
|