نکاح اور پارٹنر شپ میں فرق

ایجاب و قبول اور نکاح دنیا بھر کی تمام تہذیبوں میں محترم و معزز ہے ،اس کے ذریعے اجنبی مرد و عورت ایک خوبصورت تعلق میں بندھ جاتے ہیں ، باہمی رازوں اور عیوب کے امین بن جاتے ہیں، گویا کہ ایک دوسرے کاستر پوش لباس ہیں ۔ لباس لغوی ہو یا اصطلاحی ، حقیقی ہو یا مجازی، عارضی ہو یا دیرپا، کپڑوں کی صورت میں ہو یا شریک زندگی کے طور پر بہرحال دونوں معنوں میں انسان کے جسم و روح کی اہم ترین ضرورت ہے ، اس قدر لازم و ملزوم کہ انسان کو اس سے محروم کرنے کے لیے ہمارے ازلی ابدی دشمن نے بڑی منصوبہ بندی ترتیب دی ، جھوٹی قسموں اور چالبازی سے حضرت آدم علیہ السلام کوشجر ممنوعہ چکھنے پر مائل کیایعنی بنی نوع انسان کو بے لباس کیا۔ابلیس کے لشکر میں سب سے بڑی شاباش اس فرد کو ملتی ہے جو ایک شادی شدہ جوڑے میں علیحدگی کا معرکہ سر کرتا ہے۔ خالق کائنات نے بطور خاص امت محمدیہ کو خبردار کیا ہے کہ شیطان سے خبردار رہیں اور اپنے لباس کی حفاظت کریں۔

کوئی مذہبِ سماوی مرد و عورت کی مادر پدر آزادی اور من چاہی زندگی کی اجازت نہیں دیتا ۔ سرِ بازار عالم جو طوفان بدتمیزی اور عیاشی کا سیلاب برپا ہے وہ مختلف مذاہب کے نافرمانوں اور باغیوں کی ذاتی عیاش طبعی ہے،دنیا بھر میں مشرکین اوراہل کتاب نے اپنے ادیان کو اپنے مزاج کے مطابق ترمیم و تبدیل کرلیا ہے اور اپنی معاشرت میں جانوروں سے بھی بدتر بن گئے ، پہلے اپنی روایات سے نکاح کو تفریق کر لیا اب اس غلاظت سے اسلامی اجتماعیت کو آلودہ کرنے کے درپے ہیں۔ خیر الماکرین کے مدمقابل ان کی سازش یہ ہے کہ ساری دنیا پر بے حیائی کی لعنت غالب آ جائے اور مسلمان اپنے رہے سہے اعمال و ایمان سے بھی دستبردار ہو کر کلی طور پر ان کے نقال بن جائیں۔

اسلامی معاشرت کودجالی نظام کے تسلط میں لانے کے لیے دنیائے کفرنے اپنے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔عرب ممالک پر بے انتہا عنایات وکرامات کر کے یہود وہنود نے وہاں کے شاہی دماغوں کو اپنے تابع کر لیا ہے جس کے نتائج واضح ہیں کہ حرم پاک خالی ہے لیکن سینما ہال بھرے ہوئے ہیں ، فلم فیسٹیولز کا انعقاد عروج پر ہے صرف چند ماہ کے دوران سعودیہ میں 73ملین ڈالرز کے سینما ٹکٹ فروخت کیے گئے، کوڑوں کی شرعی سزا کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر ختم کر دیا گیا ہے، فلسطینی عوام کا خون بیچ کر اسرائیل سے تعلقات قائم کیے جا رہے ہیں، خواتین پرسے شرم وحیا کی شرعی پابندیاں معطل کر دی گئی ہیں ۔

اسلام دشمن قوتوں کے تنخواہ دار گماشتے ایک عرصہ سے پاکستان میں بھی شرعی عائلی قوانین کو نشانہ بنا کر طاغوتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔ گزشتہ 3برس سے چند فاحشاؤں کوقومی شاہراہوں پر لا کر شعائر اسلامی پر طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری تھا، حقوق نسواں کے نام پر باپ بھائی شوہر کی حیثیت جھٹلائی جارہی تھی، اﷲ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عائد کردہ مقدس قوانین و ضوابط کو برسرعام تمسخر کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور اب اس ہرزہ سرائی کے لیے ایک پاکستانی نژاد متنازعہ کردار کو بھی خرید لیا گیا ہے ۔ شکل و شناخت مشرقی ہے اور منہ میں زبان مغرب کی ،آداب و حجاب پاکستانی لیکن افکار و الفاظ شیطانی، نسل و خون پختون لیکن اصل و عمل ملعون، پاک سرزمین پر پلنے بڑھنے کے بعد پہنچی خاک وہیں پر جہاں کا خمیر تھا، پاکستانی فضاؤں سے پرواز کرکے یہود ونصاریٰ کی گود میں جا بیٹھنے والی چڑیا کو نکاح کے مبارک بندھن سے بھی عار محسوس ہونے لگی۔اپنی اوقات سے بڑھ کر آزادیٔ اظہار رائے اور شریعت اسلامیہ سے بے زاری کے خیالات کسی اتفاقی لفاظی یا بچپن لڑکپن کی ناسمجھی نہیں کہلاتی بلکہ یہ زہر غیر مذہب شرپسندوں نے کروڑوں ڈالرز اور عالمی انعامات کے عوض اگلوایا ہے ۔

نکاح اورپارٹنر شپ کا فرق دین فروشوں اور غداروں کو معلوم نہ ہو تو انہیں سمجھانے کے لیے اسلام میں حدود شریعہ کا خصوصی قانون موجود ہے ۔سنت نکاح کے نتیجے میں مجاہدین و زاہدین پیدا ہوتے ہیں جبکہ پارٹنر شپ سے منافقین و ضالین پروان چڑھتے ہیں ، نکاح اخلاق و کردار کا عروج ہے جبکہ پارٹنر شپ فساق و فجارکا شیوہ ہے۔ نکاح اسلام اور مسلمانوں کی شان ہے جو مغربی چندہ خوروں کو راس نہیں آتی ۔ نکاح اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پسندیدہ بندوں کے لیے ہے جبکہ پارٹنر شپ دشمنان دین کا طرز عمل ہے۔ نکاح کی ترویج پٹھان قوم کی غیرت و حیا کی آئینہ دار ہے جس کی پاسداری پارٹنر شپ سے وجود میں آنے والے نہیں کر سکتے ، ایسے نفوس کا پاکستان سے فرار ہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے ۔ لمحۂ فکریہ دراصل یہ ہے کہ دارلکفر کی کمین گاہوں سے اہل باطل کی نظر پاکستانی سیاست پر ہے اوروہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی ریاست کو دجال کے دست تصرف میں لانا چاہتے ہیں ۔پارٹنر شپ ٹولہ ہماری آئندہ نسلوں پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم ان کا ترنوالہ بننے کو تیار ہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے ذہن سازی پروگرام دن رات جاری ہے ۔ اس فتنے سے حفاظت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں نکاح کو عام کریں۔ صحابہ کرام ؓ کے معاشرتی اصول اپنی زندگی پر نافذ کریں یعنی اوائل جوانی سے صحت تندرسی کی عمر تک کوئی مرد و عورت تنہا نہ رہے ۔ پہلے نکاح کے لیے تعلیم ، کاروبار اور نوکری کا انتظار نہ کیا جائے اور دوسرے تیسرے چوتھے نکاح کو معیوب نہ سمجھا جائے۔ مزید یہ کہ دجالی فتنوں سے حفاظت کے لیے ہر شخص جمعہ کے روز سورۃ کہف کی تلاوت کو معمول بنا لے۔
 

Qazi Baha Ur Rahman
About the Author: Qazi Baha Ur Rahman Read More Articles by Qazi Baha Ur Rahman: 20 Articles with 22308 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.