طاہر مقصود بٹ


وہ ایک مقناطیسی شخصیت کا حامل اچھا اور کھراانسان ہے
وہ نیک سیرت ،خوبصورت اوردوستوں کا دوست بھی ہے
اس کا شمار کرکٹ کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے

میرے اچھے دوستوں میں ایک معتبر نام طاہر مقصود بٹ کا بھی ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جب بھی مجھے محکمہ بجلی کے معاملے میں کوئی مشکل درپیش ہوئی تو طاہر بٹ ہمیشہ میری مدد کو پہنچا ۔میدان کرکٹ میں بھی وہ ایک قابل اعتبار سپین باولر تھا ،وکٹ ملے یا نہ ملے وہ سکور کو بریک لگا دیتا تھا ۔اس سے میری دوستی کو تقریبا 43سال ہو چکے ہیں ۔مجھے یاد ہے جب میں نے 1984ء میں مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ میں ایک بوسیدہ سا مکان خریدا تو اس میں بجلی کا کنکشن نہیں تھا۔ جب کنکشن لگوانے کے لیے ایس ڈی او آفس سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے صاف انکار کردیا کہ پی وی سی لائن سے نیا کنکشن نہیں دیا جاسکتا،جبکہ بجلی کے بغیر ہم سے رہا نہیں جا سکتا تھا۔چنانچہ طاہربٹ (جو اس وقت چیف آفس میں ملازم تھا )انہوں نے ایس ڈی او کو فون کیا تو منٹوں میں تمام رکاوٹیں دور ہوگئیں اور بجلی کا کنکشن بھی لگ گیا۔ اب جبکہ میں67 سال کی عمر کو پہنچ چکا ہوں توطاہر بٹ بھی لیسکو اتھارٹی سے ریٹائر ہوچکا ہے ۔طاہر بٹ میری زندگی میں کیسے آیا اور کس طرح وہ میرے بااعتماد اور اچھے دوستوں میں شامل ہوا۔ یہ بھی ایک طویل داستان ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں 1978ء میں فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان میں بطور اردو سٹینو گرافر ملازم تھا،یہ میری زندگی کی دوسری باقاعدہ ملازمت تھی ۔فیملی پلاننگ میں ایک رسالہ نکلتا تھا جس کا نام "سکھی گھر"تھا ۔ اس رسالے کو سارے پاکستان میں بھجوانے کی ذمہ داری علی شاہد کے سپرد تھی ،علی شاہد کا فلمی دنیا سے بھی گہرا تعلق تھا ،وہ اپنی ملازمت کے علاوہ ایک فلمی رسالہ "مالا" بھی شائع کیا کرتاتھا ۔حسن اتفاق سے علی شاہد کے دوستوں میں ایک نام مقصود ایاز بٹ کا بھی تھا ۔ مقصود ایاز بٹ اپنے زمانے کے مشہور فلم ڈائریکٹر تھے ۔ ایک دن طاہر مقصود بٹ اپنے والد کا رقعہ لے کر فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کے دفتر واقع -3ٹمپل روڈ پر علی شاہد کے پاس آئے ۔ پھر ان کی آمد کا سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہا ۔چونکہ میں بھی علی شاہد کے قریب ہی بیٹھتا تھا۔وہیں پرمیری ملاقات طاہر بٹ سے ہوئی ، اس ملاقات میں دونوں جانب سے گرمجوشی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے ۔

جب باتوں میں بات چلتی ہے تو پھر ہماری بات کرکٹ پر آ ٹھہری ۔ایک جانب مجھے کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق تھا تو دوسری جانب طاہر بٹ کا شمار بہترین کرکٹر میں ہوتا تھا ۔ ریلوے کوارٹروں سے کچھ ہی فاصلے پر فورٹریس سٹیڈیم موجودتھا جو آج بھی اپنی پوری تب وتاب کے ساتھ موجود ہے، جہاں اس زمانے میں موسم بہار میں ہارس اینڈ کیٹل شو اورصنعتی نمائش کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا ،یہ تمام تقریبات مارچ کے مہینے میں ہوا کرتی تھیں ۔فورٹریس سٹیڈیم کے اردگرد ایک وسیع میدان خالی تھا، جہاں ایک نہیں کتنی ہی کرکٹ ٹیمیں کھیلتی تھیں ۔ یہیں پر ہماری ٹیم" ون مون ٹین سٹار کرکٹ ٹیم" کھیلتی تھی ۔طاہر بٹ سے جب دوستی پکی ہوگئی تو وہ اپنے سید میٹھا کی کرکٹ ٹیم لے کر فورٹریس سٹیڈیم آیا کرتا تھا ،ہمارے ساتھ ان کی ٹیم سے اکثر میچز ہوا کرتے تھے ۔اس ٹیم میں ان کے چچا ، چھوٹے بھائی اطہر کے علاوہ محلے کے اور لوگ بھی شامل ہوا کرتے تھے ۔ وقت گزرتا رہا ۔ میرے اور طاہر بٹ کے درمیان دوستی اور احترام کا رشتہ مزید مستحکم ہوتا چلا گیا ۔ پھر وہ میرے گھر اور کبھی میں ان کے گھر سید میٹھا جاتا رہا ۔ مسجد ملاں وزیراں میں بھی چند نمازیں پڑھنے کا مجھے اتفاق ہوا لیکن طاہر کی زندگی میں مسجد ملاں وزیراں بہت اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے ۔ ان کی زندگی کے بیشمار واقعات مسجد ملاں وزیراں سے وابستہ ہیں کیونکہ ماہ رمضان کے دروان فرض نمازوں کے علاوہ نماز تراویح بھی طاہر بٹ وہیں ادا کیاکرتا تھا ۔سید میٹھا کی وہ تنگ و تاریک گلیاں مجھے آج بھی یاد ہیں ۔ جہاں سے گزر کر میں طاہرکے گھر جایا کرتا تھا ۔چھوٹی اینٹوں سے بنے تین تین منزلہ مکان اﷲ کے توکل پر ہی کھڑے تھے ۔میں جب طاہر کے گھر گیا توخوفزدہ ہی رہا کہ کہیں کوئی مکان میرے سر پر نہ آگرے۔لیکن وہاں کے لوگوں کی ہمت کو داد دینے کو جی چاہتا ہے جو ان تنگ اورتاریک گلیوں میں زندگی گزار رہے ہیں ۔

فورٹریس سٹیڈیم کے ساتھ ساتھ قربان پولیس لائن کی گراؤنڈ میں بھی ہمارے میچز ہونے لگے ۔طاہر بٹ لیفٹ آرم لیگ سپنر کے طور پر بہت مشہور تھے ۔ میچ ختم ہونے کے بعد طاہر میرے ساتھ ہی ہمارے گھر چلے آتے ،پھر جو کچھ ہمیں کھانے کو ملتا وہ ہم ہنسی خوشی کھا پی لیتے ۔ اگر جمعہ کا دن ہوتا تو نماز جمعہ قربان لائن کی جامع مسجد میں مولانا بشیر احمد کی امامت میں ادا کرتے ۔ جب ہمارا کرکٹ میچ قربان لائن کی گراؤنڈ میں ہوتا تو باوردی اور بے وردی پولیس والوں کا ہجوم کرکٹ گراؤنڈ کو اپنے حصار میں لیے رکھتا اورہر اچھی شارٹ پر داد بھی ملتی اور وکٹ لینے پر باؤلر کی تعریف کی جاتی۔ایک بات یہاں ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ طاہر بٹ بظاہر تو ہمارے ہی جیسا انسان نظر آتا ہے لیکن اﷲ نے اس کو خوبصورت دل اور پرکشش شکل بھی عطا کررکھی ہے ۔ جوانی میں وہ اس قدر پرکشش دکھائی دیتا تھا کہ اس کے ساتھ دوستی کرنے والوں کی لمبی قطار نظر آتی تھی ۔ طاہر مفتی ( اﷲ اسے غریق رحمت فرمائے )وہ طاہر بٹ کا جانثار دوست تھا ، اس کی ہر ممکن یہ کوشش ہوتی کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت طاہر کے ساتھ گزارے ۔اس مقصد کے لیے وہ طاہر بٹ کی ہر وہ خواہش پوری کرنے کو تیار نظر آتا ،وہ اس وقت مہران کارپوریشن برانڈرتھ روڈ لاہور کا منیجر تھا ، دوپہر کا کھانا وہ اکثر طاہر بٹ کے ساتھ ہی کھاتا ۔اس مقصد کے لیے وہ اپنے ملازم کے ذریعے کبھی کوزی حلیم منگوا لیتا تو کبھی طاہر بٹ کی پسند کی کوئی اور ڈش دسترخوان پر نظر آتی ۔کبھی کبھار میں بھی دوپہر کے کھانے میں شریک ہوجاتا۔

پھر نہ معلوم وجوہ کی بناپر طاہر مفتی کو مہران کارپوریشن سے مستعفی ہونا پڑا ۔چند دن کے بعد ہمیں خبر ملی کہ اس نے جے پی انٹرپرائزر فرم کو جوائن کرلیا ہے ۔جس کا دفتر اس وقت گلبرگ میں تھا ۔یہاں اس کی ڈیوٹی مہران کارپوریشن سے خاصی مختلف تھی لیکن اتوار کے دن وہ طاہر بٹ کی ناز برداریاں اٹھانے کے لیے اپنے گھر رحمان پورہ میں دعوت شیراز کا اہتمام کرنا نہ بھولتا ۔ طاہر بٹ اس شرط پر رحمان پورہ جانے پر آمادہ ہوتا کہ اس دعوت میں، میں ( محمد اسلم لودھی ) بھی شریک ہوں ۔اگر میں کسی وجہ سے انکار کردیتا تو طاہر بٹ بھی اس دعوت میں شریک نہ ہوتا ۔جس پر طاہر مفتی کئی دنوں تک ناراض رہتا ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتا تا چلوں کہ طاہر مفتی کا ایک حریف بھی تھا جس کا نام محمد آصف تھا ، وہ رشتے میں طاہر بٹ کا بہنوئی تھا لیکن طاہر مفتی کی طاہر بٹ سے دوستی اسے ہرگز پسند نہ تھی ۔ایک مرتبہ قربان پولیس لائن کی گراؤنڈ میں کرکٹ میچ ہو رہا تھا جس میں سید میٹھے کے اور بھی لڑکے شریک تھے ۔ گراؤنڈ کے اندر توکرکٹ ہورہی تھی لیکن گراؤنڈ کے باہرطاہر مفتی اور محمد آصف کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش جاری تھی ۔ طاہر مفتی کا تقاضہ تھا کہ میچ ختم ہونے کے بعد طاہر بٹ ان کے ساتھ جا ئے گا جبکہ محمد آصف اپنی پک اپ کی اشارہ کرتے ہوئے اصرار کررہا تھا کہ طاہر بٹ میرے ساتھ بیٹھ کر سید میٹھا جائے گا ۔بات گرما گرمی تک جا پہنچی ۔اور مقدمہ طاہر بٹ کی والدہ تک جا پہنچا ۔ طاہر بٹ کی والدہ بھی پریشان ہوگئی کہ ایک جانب اس کا داماد تھا تو دوسری جانب طاہر بٹ کی دوستی کی خاطر پانی کی طرح پیسہ بہانے والا طاہر مفتی اور اس کی گرانقدر خدمات تھیں ۔فیصلے کا تو مجھے علم نہیں کہ کیا ہوا؟ لیکن چند ہی دنوں بعد ایک منحوس خبر سننے کو ملی کہ طاہر مفتی ایک حادثے کا شکار ہوکر موت کی وادی میں جا سویا ہے ۔اس کی موت کا ہمیں بہت دکھ ہوا لیکن مشیت ایزدی کے سامنے سب بے بس ہی نظر آئے ہیں ۔جانے والے کو کون روک سکتا ہے ، بھیگی ہوئی آنکھوں سے طاہر بٹ اور میں نے اپنے تیسرے جانثار دوست طاہر مفتی کو قبر میں اتارا۔ آج بھی جب میں رحمان پورہ اپنے دیرینہ دوست توصیف کو ملنے جاتا ہوں تو شاہ کمال قبرستان کے قریب سے گزرتے ہوئے طاہر مفتی کی یاد آتی ہے ۔اﷲ تعالی سے دعا ہے ،ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل فرمائے ۔آمین

طاہر مفتی کی دنیا سے رخصتی کے بعد محمد آصف کے رویے میں بھی قدرے ٹھہراؤ آگیا ،وہ بھی انتہاء سے اتر کر بہت حد تک نارمل ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ طاہر بٹ ہر دلعزیز شخصیت کا حامل انسان ہے۔اس سے جو بھی ملتا ہے پھر اسی کا ہو جاتا ہے ، طاہر بٹ کے ہر دلعزیز دوستوں میں منیر صاحب کا نام بھی شامل ہے ۔طاہر مفتی کے انتقال کے بعد ہر دوپہر کے کھانے کا اہتمام کرنا اب منیرصاحب کی ذمہ داری میں شامل ہوچکا تھا ۔چند ایک مرتبہ منیرصاحب سے ملنے کا مجھے بھی موقعہ ملا ۔ مجھے وہ ایک اچھے انسان دکھائی دیئے،وہ طاہر مفتی کی طرح انتہاء پسند نہ تھے ۔زندگی کا گھوڑا سر پٹ دوڑ رہا تھا کہ ایک دن پھر یہ منحوس خبر ملی کہ منیر صاحب بھی اﷲ کو پیارے ہوگئے ہیں ۔بہت دنوں تک ان کی موت کا صدمہ رہا پھر ایک دن میں نے طاہر بٹ کو مخاطب کرکے ازراہ مذاق کہا۔ بٹ صاحب جو بھی آپ کا جانثار دوست بنتا ہے پتہ نہیں کیوں وہ اﷲ کو پیارا ہوجاتا ہے لیکن میں تو ابھی جینا چاہتا ہوں اس لیے میں آپ سے کچھ فاصلے پر ہی ٹھیک ہوں ۔میری اس بات پر طاہربٹ نے قہقہہ لگایا ۔

7مئی 1979ء فیملی پلاننگ کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر میں پنجاب انڈسٹریل بورڈ کے آفس واقع لاہور چیمبرز آف کامرس ۔ریس کورس روڈ لاہور میں گیارہویں گریڈ میں بطور اردو سٹینوگرافر ملازم ہوگیا ۔یہاں تنخواہ بھی اچھی تھی اور وہاں جانے سے پہلے کرکٹ ٹیم بھی موجود تھی ۔جس کے کپتان جنرل منیجر فنانس جاوید ظفرصاحب تھے ،کچھ عرصے بعد وہ استعفی دے کر چلتے بنے ان کی جگہ آفتاب احمد خان جنرل منیجر فنانس بنے ۔حسن اتفاق سے وہ بھی کرکٹ کے شوقین تھے ۔ان کے بعد غلام کبیریا نے کرکٹ ٹیم کو سنبھالا اورمجھے پی آئی ڈی پی کرکٹ ٹیم کاوائس کپتان بنا دیا گیا ۔کچھ عرصے بعد غلا م کیبریا بھی ملازمت چھوڑ کر چلے گئے تو کرکٹ ٹیم کا مکمل چارج میرے پاس آگیا ۔ پی آئی ڈی بی کے افسر اور ملازمین زیادہ اچھا کھیلنے والے نہ تھے بس شوقیہ پلیئر تھے ۔ جب میں کپتان بنا تو میں نے طاہر بٹ کے توسط سے سید میٹھا سے پروفیشنل کھلاڑی منگوانے شروع کردیے ۔لاہور کی شاید ہی کوئی بڑی گراؤنڈ( قذافی سٹیڈیم کو چھوڑ کر) ہو گی جہاں ہم نے کرکٹ میچ نہ کھیلا ہو ۔ باقی کھلاڑی تو تبدیل ہوتے رہے لیکن طاہر بٹ مستقل طور پر ہماری ٹیم کا بن چکے تھے ۔مجھے جب بھی مخالف ٹیم کو پریشان کرنے کی ضرورت ہوتی تو میں باولنگ طاہر بٹ کو دے دیتا ۔طاہربٹ اپنی سپین باولنگ سے سکور کو روک دیتا ،وہ اتنی اچھی باولنگ کرتا تھا کہ انہیں کھیلنے والا بیٹسمین پریشان ہوجاتا۔ بٹ صاحب کی دو باتیں مجھے آج بھی یاد ہیں وہ کہاکرتے تھے ،ٹھنڈے پانی سے نہانا اور صبح دھی کھانا بٹوں کی سب سے بڑی نشانی ہے ۔جو سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہیں نہاتے اور دھی بھی نہیں کھاتے ،انہیں بٹ نہیں کہا جاسکتا۔

اگر یہاں طاہر بٹ کی والدہ اور والد کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی، جنہوں نے طاہر بٹ کی اتنے اچھے انداز میں تربیت کی کہ وہ آج بھی روشنی کا مینار دکھائی دیتے ہیں۔ طاہر کی والدہ بہت ہی نیک سیرت اور ہمدرد خاتون تھیں ،میری ان سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں ، انہوں نے مجھے بے پناہ شفقت سے نوازا۔طاہر کے والد مقصود ایاز بٹ 1935ء میں امرتسر (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم امرتسرکے تعلیمی اداروں سے حاصل کی ۔قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے لاہور میں آبسے اور فلمی دنیا کو اپنے روزگار کا ذریعہ بنایا۔ان کی پہلی فلم "خون کی پیاس " تھی جو 1963میں منظر عام پر آئی ۔دوسری فلم "کالا آدمی" تھی،تیسری فلم "برما روڈ"تھی جو 1967 میں بنی ۔انکی چوتھی فلم "چھین لے آزادی"تھی ،جو 1968ء میں مکمل ہوئی ۔1970ء میں انہوں نے اپنی پانچویں فلم "کوثر" بنائی ۔اسی طرح 1970ء میں پنجابی فلم "بہرام "،1971ء میں پنجابی فلم "اوچی حویلی1979" میں پنجابی فلم" انتقام دی اگ "بنائی ۔1991ء میں ان کی آخری فلم "شیرا بانڈی" تھی۔چالیس سال تک فلمی دنیا میں معیاری کام کرنے کے بعد آپ تحقیق و تحریر کی دنیا کی جانب راغب ہوئے ۔اس دوران لاتعداد ناول لکھے ۔جن میں سلطان حیدر علی ، محبت خاں ،سلطان محمود غزنوی ، اور درجنوں اسلامی ہیروز پر بھی کام کیا ۔ مقبول اکیڈمی اورعمران بک سنٹر کے لیے درجنوں کہانیاں ،ناول لکھے ۔ادارہ شعاع ادب کے لیے" شخصیات کا انسائیکلوپیڈیا " لکھا جس میں دو ہزار سے زائد معروف شخصیات کے حالات زندگی شامل تھے ۔ جگر کے عارضے میں مبتلا ہونے کی بناپر آپ طویل عرصہ علیل رہے۔ بالاخر 29 مئی 1996ء کواپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ وہ چالیس سال تک فلمی دنیا سے وابستہ رہے لیکن ان کا کوئی سیکنڈل سامنے نہیں آیا، وہ شرافت کا لبادہ اوڑھے اپنے کام میں مگن رہے۔
...................
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ طاہر بٹ ایک اچھے انسان ہی نہیں،وفادار دوست بھی ہیں ۔ اس نے واپڈا /لیسکو کی ملازمت کے دوران ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا ۔شادی تو طاہر کی پہلے ہوچکی تھی ۔ماشا اﷲ اب تو ان کے بیٹے اور بیٹیا ں بھی جوان ہوچکی ہیں ۔بلکہ ایک بیٹے اور بیٹی کی شادی بھی ہوچکی ہے ۔اب وہ فیروز پور روڈ کی شاداب کالونی،کے ایک خوبصورت گھر میں ریٹائرمنٹ کی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں ۔ باوفا بیوی کے علاوہ اﷲ تعالی نے انہیں اولاد بھی نیک اور صالح عطا کی ہے ۔میری ایک ملاقات ان کے نئے گھر میں ہوچکی ہے ،میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ طاہر بٹ کو اﷲ تعالی نے ہر بڑی اور موذی بیماری سے محفوظ رکھا ہے۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالی میرے اس دوست کو دنیا اور آخرت اپنے صالحین بندوں میں شامل فرمائے اور زندگی کی ہر خوشی عطا فرمائے ۔آمین



 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.