تاخیرِ نکاح و نتائجِ تاخیرِ نکاح !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالنُور ، اٰیت 33 ، 34 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیرآن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لیستعفف
الذین لایجدون
نکاحا حتٰی یغنیھم
اللہ من فضلهٖ والذین
یبتغون الکتٰب من ملکت
ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم
فی ھم خیرا واٰتوھم من مال
الذی اٰتٰکم ولا تکرھوا فتیٰتکم علی
البغاء ان اردن تحصنالتبتغوا عرض
الحیٰوةالدنیا ومن یکرھھن فان اللہ
من بعد اکراھھن غفوررحیم 33 ولقد
انزلناالیکم اٰیٰت مبینٰت ومثلامن الذین
خلوا من قبلکم وموعظة للمتقین 34
اور مُسلم ریاست کے جن تہی دست باشندوں کے نکاح کا ریاست و اہلِ ریاست کو ذمہ دار بنایا گیا ھے وہ اپنے نکاح کا انتظام ہونے تک اپنی عفت کا اہتمام کرتے رہیں اور اُن کے لیۓ یہ سہُولت بھی موجُود ھے کہ اگر ریاست کے کشادہ دست و کشادہ دل باشندے اُن پر اعتماد کرتے ہوۓ اُن کو نکاح کے لیۓ ایک باہمی معاھدے کے تحت قرض بھی دے سکتے ہیں اور ھم نے مُسلم ریاست کے جُملہ اہلِ ریاست پر یہ اَمر بھی لازم کر دیا ھے کہ اگر اُن کی جوان لڑکیاں شادی کا ارادہ رکھتی ہیں تو وہ اُن جوان لَڑکیوں کو اُن کے اِس جائز ارادے سے روک کر اِن کو خود سے سرکش ہونے پر مجبُور نہ کریں اور اُن کا جو سرپرست بھی اُن کو اِس اَمر پر مجبُور کرے گا تو اللہ تعالٰی اُس کے خلاف اُن کی حفاظت و رہنمائی کے ذرائع پیدا کرے گا تاکہ وہ جائز آزادی کے ساتھ جی سکیں اور جائز آزادی کے ساتھ رہ سکیں ، اگر تُم سو چو گے تو خود بھی اسی نتیجے پر پہنچو گے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے جو روشن اَحکام بیان کر دیۓ ہیں وہی اَحکام تُم کو تُمہارے مَنفی اعمال کے مَنفی نتائج سے بچاسکتے ہیں اور تُم کو مُثبت اعمال کا حامل بنا کر مُثبت نتائجِ اعمال تک پُہنچا سکتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
پہلی اٰیت سے پہلے آنے والے حرفِ عطف واؤ نے اِس اٰیت کے اِس مضمون کو بھی پہلی اٰیت کے اُس پہلے مضمون سے ملادیا ھے جس پہلی اٰیت کے پہلے مضمون سے نکاحِ مُفلس کے مضمون کا آغاز کیا گیا تھا اور اَب اِس دُوسری اٰیت کے اِس دُوسرے مضمون میں پہلی اور دُوسری دونوں اٰیات کے اُس مُشترکہ مضمون کو اُس کے مَنطقی انجام تک پُہنچا دیا گیا ھے ، اِس اٰیت میں آنے والا پہلا وضاحت طلب لفظ { فتیٰتکم } ھے جس کی اَصل "فتٰی" اور معنٰی"جوان" ھے جو قُرآنِ کریم کی قُرآنی لُغت کے مطابق سُورَةُالنساء کی اٰیت 25 ، سُورَہِ یُوسف کی اٰیت 30 ، 36 ، 62 ، سُورَةُالکہف کی اٰیت 10 ، 13 ، 60 اور سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 60 کے علاوہ سُورَةُالنُور کی اِس اٰیت میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ھے لیکن عُلماۓ روایت نے قُرآنِ کریم کے اِس آٹھویں اور آخری مقام پر اِس کا روایتی معنٰی "لونڈیاں" کیا ھے ، اِس اٰیت میں آنے والا جو دُوسرا وضاحت طلب لفظ "تحصنا" ھے اُس کا معنٰی انسان کا عقدِ نکاح کرکے اپنی جسمانی و رُوحانی پاکیزگی کو محفوظ کرنا ھے اور اسی حوالے شادی شُدہ مردوں کو "محصنین" اور شادی شُدہ عورتوں کو "محصنٰت" کہا جاتا ھے لیکن عُلماۓ روایت نے اِس مقام پر اِس لفظ کا معنٰی پاک دامن کیا ھے اور اِس اٰیت میں اِس لفظ کا جو ایک لفظِ متضاد "البغاء" آیا ھے اُس کا حقیقی معنٰی بھی حدُود شکنی ھے اور عُلماۓ روایت نے اِس مقام پر اُس کا معنٰی بھی زناکاری کیا ھے جس نے قُرآن کے اِس قُرآنی مفہوم کو فقہاۓ عجم کا مُتعین کیا ہوا وہ فقہی مضمون بنا دیا ھے جس پر ہر مُفسر نے اپنی تفسیر میں اپنے فقہی ذوق کے مطابق رَگِ گُل سے بُلبُل کے پر باندھنے کی کوشش کی ھے اور اُس کوشش کے تحت انسان کی غلامی سے غیر مشروط آزادی کو مالی معاوضے کے بدلے میں حاصل کی جانے والی ایک مشروط آزادی بنا دیا ھے چنانچہ عُلماۓ روایت کے ایک بڑے روایتی مُفسر مولانا ابُوالاعلٰی مودودی اپنی تفسیر "تفہیم القرآن" کی جلد تین کے صفحہ 402 پر لکھتے ہیں کہ غلاموں کی آزادی کی ( اِس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود 63 غلام آزاد کیۓ ، آپ کی بیبیوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 تھی ، حضور کے چچا حضرت عباس نے اپنی زندگی میں 70 غلاموں کو آزاد کیا ، حکیم ابن حزام نے 100 ، عبداللہ بن عمر نے ایک ہزار ، ذوالکلاع حمیری نے آٹھ ہزار اور عبدالرحمان بن عوف نے تیس ہزار کو رہائی بخشی ) قدیم زمانے میں جو تین طرح کے غلام ہوتے تھے اُن میں غلاموں کی ایک قِسم وہ تھی جو جنگی قیدی کے طور پر ہاتھ آتے تھے اور غلام بنا لیۓ جاتے تھے جن کو جنگی قیدیوں کے یا جرمانہِ جنگ کے بدلے میں رہائی مل جاتی تھی یا اہلِ اسلام اُن کے احسان و اَخلاق کے طور پر آزاد کر دیتے تھے ، غلاموں کی دُوسری قِسم وہ ہوتی تھی جن کو ایک آزاد انسان کے طور پر پکڑ کر کسی نے غلام بنایا ہوا ہوتا تھا اور غلاموں کی تیسری قِسم وہ تھی جو نسل دَر نسل کسی قوم یا کسی فرد کی غلامی میں رہ کر غلام چلی آرہی تھی اور مولانا مودودی نے اِس بات کی وضاحت نہیں کی کہ نبی اکرم اور آپ سے تعلق رکھنے والے جن دیگر 6 اَفراد نے جو چالیس ہزار کے لَگ بَھگ غلام اپنی شخصی غلامی سے آزاد کیۓ تھے وہ غلاموں کی کون سی قسم کے کون سے غلام تھے ، عبدالرحمان بن عوف اپنے تیس ہزار ذاتی غلاموں سے ، ذولکلاع حمیری اپنے آٹھ ہزار ذاتی غلاموں سے اور عبداللہ بن عمر اپنے ایک ہزار ذاتی غلاموں سے کیا کیا کام لیتے تھے اور اُن کی رہاش و خوراک کا کیا اور کس طرح کا انتظام کیا کرتے تھے ، ظاہر ھے کہ یہ غلامی کے جواز کی ایسی صدری کہانیاں ہیں جیسی امام بخاری کی کتابِ بخاری کے مقدمہِ بخاری میں لکھی ہوئی وہ صدری کہانی ھے کہ امام بخاری غلاموں کی خرید و فروخت کا جو کار و بار کیا کرتے تھے اُس کار و بار سے اُن کو پانچ سو درھم ماہانہ کی آمدن ہوتی تھی ، اگر عُلماۓ روایت اپنی روایات میں غلامی کے اِس کار و بار کو عھدِ نبوی سے نہ چلاتے تو امام بخاری کے زمانے تک کس طرح پُہنچاتے ، اُنہوں نے غلامی کا یہ دَھندا عھدِ نبوی سے چلایا ھے تو عھدِ بخاری تک پُہنچایا ھے لیکن اُن کی اِن روایات سے قطع نظر اِس سلسلہِ کلام کا مقصد و مُدعا یہ ھے کہ اٰیتِ بالا سے پہلی اٰیت میں اللہ تعالٰی نے مُسلم ریاست و مُسلم اہلِ ریاست کو جن غلام و نادار اور مُفلس و لاچار لوگوں کی مدد کا حُکم دیا تھا اِس اٰیت میں اُن سارے لوگوں کو ایک تو یہ تلقین کی گئی ھے کہ جب تک اِن دو اَطراف میں سے کسی ایک طرف سے بھی اُن کو نکاح کے مطلوبہ وسائل مُیسر نہیں آتے تب تک وہ اپنے نفس کے گھوڑے کو آزاد چھوڑ کر اپنی عفت کی بے حُرمتی نہ کریں اور اُن سارے لوگوں کو دُوسری تلقین یہ کی گئی ھے کہ وہ ریاست و اہلِ ریاست کو دیۓ گۓ اللہ تعالٰی کے اِس حُکم کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بھی نہ بیٹھ جائیں بلکہ اپنی حیات کے لیۓ زیادہ سے زیادہ وسائلِ حیات جمع کرنے کے لیۓ خود بھی محنت و مُشقت کا کوئی ایسا کام شروع کریں جس میں زیادہ یافت ہو اور اگر محنت کے میدان میں اُن کو خاطر کامیابی حاصل نہ ہو تو اہلِ ریاست کے کشادہ دل و کشادہ دست لوگوں سے اپنا گھر بنانے اور بسانے کے لیۓ قرض حاصل کریں اور اِس قرض کی بر وقت وصولی و بر وقت اَدائگی کے لیۓ اہلِ ریاست کے اُن اہلِ خیر افراد کے ساتھ کوئی باہمی معاھدہ بھی کرنا پڑے تو وہ باہمی معاھدہ بھی ضرور کریں لیکن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھے رہیں ، اِس اٰیت میں جن عورتوں کو نکاح کی آزادی دینے کی ھدایت کی گئی ھے وہ مُسلم معاشرے کی کوئی غلام لونڈیاں نہیں بلکہ مُسلم معاشرے کی وہ آزاد عورتیں ہیں جن آزاد عورتوں کو بسا اَوقات مُسلم معاشرے کے با اثر اَفراد اپنی سازشوں کا نشانہ بنانے کے لیۓ شادی سے روکے رکھتے ہیں اور بسا اَوقات اپنے والدین بھی اُن کی وراثت کو خاندان سے باہر جانے سے بچانے کے خیال سے بیاہ سے روکتے رہتے ہیں اور بسا اَوقات اُن کے اپنے بھائی بھی اُن کی وراثت کو ہتھانے کے لیۓ اُن کو نکاح سے روکتے رہتے ہیں اِس لیۓ اٰیتِ بالا میں معاشرے کے اِن تینوں طبقات کو عورتوں کے حقوق پامال کرنے سے رکا گیا ھے ، اللہ تعالٰی کے اِس حُکم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنی اولادوں کی شادیوں میں تاخیر کو اُن کے پیروں پر کھڑے ہونے کے ساتھ مشروط کرکے اتنا مُتاخر کردیتے ہیں کہ ایک خاص مُدت گزرنے کے بعد والدین اور اولاد دونوں کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ھے ، اِس سلسلہِ کلام کی دُوسری اٰیت میں اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان کو یہ بتایا گیا ھے کہ انسان کے بُرے اعمال کے ہمیشہ ہی بُرے نتائج اور اَچھے اعمال کے ہمیشہ ہی اَچھے نتائج ظاہر ہوتے ہیں اِس لیۓ تعالٰی نے ہر انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ اَچھے اعمال اختیار کرنے اور بُرے اعمال کے ترک کرنے کا حُکم دیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 460013 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More