آج سے ہزاروں سال پہلے اللّٰہ تعالٰی نے اپنے ایک پیارے
نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اشارہ کر کے ان کے پیارے بیٹے
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مانگی،انھوں اس بات کا ذکر جب حضرت
اسماعیل علیہ السلام سے کیا تو بقول علامہ محمد اقبال ؛
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی
انھوں نے بھی باپ کے اس فریضہ کی انجام دہی کرنے کے لیے بخوشی اپنی جان
حاضر کردی۔لیکن عین اسی وقت جب حضرت اسماعیل علیہ السلام چھری کے نیچے تھے،
اللّٰہ تعالٰی نے جنت سے دنبہ اتار دیا۔اور اسی لیے تمام مسلمان ہر سال
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے دس ذولحجہ قربانی کرتے
ہیں۔قربانی اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ویسے تو قربانی تمام صاحب استطاعت
مسلمان پر فرض ہے،لیکن ہم پورے ٹبر میں سے صرف ایک ہی فرد کو صاحب استطاعت
سمجھتے ہیں۔اسی لئے پاکستان میں اکثر ایک ہی قربانی کرتا ہے۔بلکہ اکثر لوگ
تو خاندان کے افراد دیکھ کر ہی قربانی کے سائز کا تعین کرتے ہیں۔
ویسے تو قربانی مرغی کے علاوہ ہر اس جانور کی ہو سکتی ہے جس کو اسلام میں
حلال قرار دیا گیا ہے، مثلاً دنبہ،بکرا،مینڈھا،بیل،بھینسا،اونٹ وغیرہ ان کی
فیمیل برادری کے ساتھ،لیکن جہاں پہلے زمانوں میں قربانی فرض تھی،پھرشوق ہو
گئی،پھر فیشن اور اب تو اس کے لیے جدید لفظ ٹرینڈ استعمال ہوتا ہے ۔اوریہ
ٹرینڈ بھی صرف بکرے کا ہے۔قربانی کا بکرا ایک ایسا بزنس ٹرینڈ ہے جو بکرے
کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات کی بھی قربانی کرواتا ہے۔کسی کے ستارے چمکتے
ہیں،کسی کے ستارے ڈوبتے ہیں۔
کچھ بیوپاری حضرات لاکھوں کما کر خوشیاں مناتے ہیں۔وہ اپنے بکروں کو مہنگا
ترین بیچنے کے لیے کسی بھی بےایمانی اور ٹھگی ٹھوری سے گریز نہیں کرتے،اسی
طرح سے کچھ عوام ایسی بھی ہے جو سستی ترین قربانی ڈھونڈنے کے چکر میں اپنے
مذہبی فریضے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور ٹرینڈ بھی آج
کل عام کہ بیچارے بکرے کو تو بانٹا ہی نہیں جاتا،بلکہ کچھ لوگ تو اسے ذبح
ہی دوسرے یا تیسرے دن کرتے تاکہ آرام سے اس کو فریج کی زینت بنایا جاسکے۔
اس کے علاوہ چور اچکے اور جیب کتروں کی کمائی کا بھی یہی سیزن ہوتا ہے۔وہ
نہیں دیکھتے کہ ان پیسوں کے اصل حقداران کا ہارٹ فیل ہوتا ہے یا کسی کا گھر
اجڑتا ہے۔انھیں تو صرف اپنی عید کو چار چاند لگانے کی فکر ہوتی ہے۔وخیرایک
بات تو ہے اتنے برے بھی نہیں ہیں ہم،بکرا چوری کر کے تو قربانی نہیں
کرتے،کیونکہ اس کی قربانی قبول نہیں ہوتی ناں،مگر ہاں چوری کیے گئے پیسوں
سے بکرا خرید کر قربانی ضرور کرلیتے ہیں۔
ویسے آپ کا کیا خیال ہے؟کس کی قربانی قبول ہوگی۔ان بیوپاریوں کی جو ناجائز
منافع خوری کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں،یا پھر ان امیر زادوں کی جو صرف
دکھاوے کے لیے مہنگے مہنگے بکرے خریدتے ہیں،پھر ان کو فریج کی زینت بنا
دیتے ہیں۔ان غریبوں کے جذبات کی جو سستی قربانی کے چکر میں خالی ہاتھ رہ
جاتے ہیں۔یا پھر ان چوروں اور جیب کتروں کی جو چوری کے پیسوں سے جانور خرید
کر قربانی کرتے ہیں۔
|