بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان

جب تک بچے اس زبان پر عبور نہ حاصل کر لیں جس میں انہیں مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں تب تک ان پر تحریری امتحان کا بوجھ نہ ڈالا جائے کیونکہ اس طرح ہمیں انہیں رٹے لگانے پر مجبور کر لیتے ہیں اور پڑھائی کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔

میں اکثر جب بچوں کو کسی سوال کا جواب یا کوئی مضمون وغیرہ لکھ کر دیتا ہوں تو ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ میں نے جو کچھ آپ کو لکھ کر دیا ہے کیا میں حرف بہ حرف اس کو دوبارہ لکھ سکتا ہوں؟ ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہاں کیوں نہیں ۔ لیکن جب میں انہیں کہتا ہوں کہ اگر یہی چیز میں پانچ مرتبہ آپ کو لکھ کر دوں تو میری پانچوں کی پانچ تحریریں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی تو وہ بہت حیران ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں۔ تب میں ان کو بتاتا ہوں کہ وہ اس لیے کہ میں رٹا نہیں لگاتا۔ میں نے اس موضوع کو سمجھا ہوتا ہے اور ہر دفعہ جب میں اس کے بارے میں لکھتا ہوں تو میرے ذہن میں اپنی بات بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ آتے ہیں جن میں سے میں مناسب الفاظ کا انتخاب کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی چیزوں کو سمجھیں اور پھر ان کو اپنے الفاظ میں لکھنے کا فن سیکھیں۔ شروع میں آپ سے غلطیاں ہوں گی اور ایک مدرس کا کام ہی انہی غلطیوں کو ٹھیک کرنا ہے۔ آہستہ آہستہ آپ اس فن میں مہارت حاصل کر لیں گے اور پھر آپ پوری کی پوری کتاب کچھ گھنٹوں میں پڑھ کر اس میں امتحان دینے کے قابل ہونگے۔

جب سے میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوا ہوں میری یہی کوشش ہے کہ بچوں کو رٹا لگانے کی قباحت سے چھٹکارا دلاوں، لیکن ہمارا امتحانی نظام ہی اس طرح بنا ہے کہ وہ ایسے بچوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو اپنے الفاظ میں سوالوں کے جواب دیں۔ اساتذہ انہی طالب علموں کو زیادہ نمبر دیتے ہیں جنہوں نے حرف بہ حرف ان کے لکھے جوابات نقل کیے ہوں۔ اس طرح ایک طرف تو ہم بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے میں ناکام رہتے ہیں تو دوسری طرف کئی بچے ہائیر کلاسز میں جاکر دل برداشتہ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہاں مضامین اتنے لمبے ہوجاتے ہیں کہ ان کو رٹنا ناممکن ہوتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کو سائنس اور دوسرے مضامین صرف سمجھانے چاہئے ،تحریری امتحان تب لینا چاہئے جب وہ اس زبان میں لکھنے کے قابل ہوجائیں جس میں انہیں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے لیے انہیں سکول میں ایسا ماحول دینا ہوگا کہ وہ ہر وقت اسی زبان کو سنیں اور اسی میں بات چیت کریں۔ اسی طرح اساتذہ اسی زبان میں ان کے ساتھ گفتگو کیا کریں اور اس کے دوران ان سے مختصر سوال و جواب کیے جائیں اور پھر انہیں حوصلہ دیا جائے کہ وہی جوابات وہ آپ کو تحریری صورت میں دیں۔
 

Mohsin Kamal
About the Author: Mohsin Kamal Read More Articles by Mohsin Kamal: 2 Articles with 2380 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.