یہ تحریر مجھے ایک دوست نے غور و فکر کے لیے بھجوائی
ہے تاکہ یہ تحریر پڑھنے کے بعد اندازہ لگایا جا سکے کہ ایک غلام قو م اور
آزاد قوم کی زندگی کے طور طریقے کس قدر مختلف ہوتے ہیں ۔ میں یہ پراثر
تحریر اپنے قارئین کی نذر کررہا ہوں تاکہ وہ بھی جائزہ لے سکیں کہ اس وقت
ہم کس نہج پر کھڑے ہیں اور ہمارے مسائل میں کمی ہونے کی بجائے دن بدن اضافہ
کیوں ہوتا جارہا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں-: جن انگریز افسران نے ہندوستان
میں ملازمت کی، جب وہ انگلینڈ واپس جاتے تو انہیں وہاں کسی بھی اہم پبلک
پوسٹ کی ذمہ داری نہ دی جاتی۔ دلیل یہ تھی کہ جن انگریز افسروں نے ایک غلام
قوم پر حکومت کی ہو ،ان کے رویوں اور اخلاق میں زمین آسمان کا فرق آجاتا
ہے۔ یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری انگلینڈ میں بھی دی جائے تو تم آزاد
انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کروگے جس طرح تم ہندوستان کی غلام کو جوتی
کی نوک پر رکھتے تھے۔اس مختصر تمہید کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے-:ایک
انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر
تھا۔ خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے۔ واپسی
پر اس نے اپنی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی۔ خاتون نے لکھا ہے کہ میرا
شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اْس وقت میرا بیٹا تقریبا چار سال کا
اور بیٹی ایک سال کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش
گاہ میں ہم رہائش پذیر تھے۔ ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر
کئی سو افراد مامور تھے۔ روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پروگرام بنتے ضلع کے
بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا باعث فخر تصور کرتے، جس کے ہاں
ہم چلے جاتے ،وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا۔ ہمارے ٹھاٹھ باٹھ ایسے تھے کہ
برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بھی مشکل سے ہی وہ میسر تھے۔ٹرین کے
سفر کے دوران نوابی ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالیشان ڈبہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی
فیملی کے لیے مختص ہوتا ۔ جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے تو سفید لباس میں ملبوس
ڈرائیور ہمارے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا۔ اور سفر کے آغاز کی
اجازت طلب کرتا۔ اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا شروع ہوتی۔ایک بار ایسا ہوا کہ
ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر
اجازت طلب کی۔ اس سے پہلے کہ میں بولتی ،میرا بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی
وجہ سے خراب تھا۔ اْس نے ڈرائیور سے کہا کہ ٹرین نہیں چلانی۔ ڈرائیور نے
حکم بجا لاتے ہوئے کہا جو حکم چھوٹے صاحب۔ کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ
اسٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہو کر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کر
رہا تھا، لیکن میرابیٹا ٹرین چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوا۔ بالآخر
بڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹس دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی
اجازت دلائی تو سفر کا آغاز ہوا۔چند ماہ بعد میں رشتہ داروں سے ملنے واپس
برطانیہ آئی۔ ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے تھے، ہماری منزل ویلز کی ایک
کاونٹی تھی جس کے لیے ہم نے ٹرین کا سفر کرنا تھا۔ بیٹی اور بیٹے کو اسٹیشن
کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں ٹکٹ لینے چلی گئی، قطار لمبی ہونے کی وجہ سے
خاصی دیر ہو گئی، جس پر بیٹے کا موڈ خراب ہو گیا۔ جب ہم ٹرین میں بیٹھے تو
عالیشان کمپاونڈ کے بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر
ناراضگی کا اظہار کرنے لگا۔ وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا تو بیٹے
نے باقاعدہ چیخنا شروع کر دیا۔ ’’ وہ زور زور سے کہہ رہا تھا، یہ کیسا الو
کا پٹھا ڈرائیور ہے۔ ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر دی
ہے۔ میں پاپا سے کہہ کر اسے جوتے لگواؤں گا۔‘‘ میرے لیے اْسے سمجھانا مشکل
تھا کہ ’’یہ تمہارے باپ کا ضلع نہیں ہے، ایک آزاد ملک ہے۔ یہاں ڈپٹی کمشنر
جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم تو کیا وزیر اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ
اختیار حاصل نہیں ہے کہ اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کر سکے‘‘۔
..................
ہمیں انگریزوں سے آزادی حاصل کیے74سال ہوچلے ہیں لیکن گورے انگریز تو رخصت
ہوئے اب ہم پر کالے انگریزوہی طور طریقے استعمال کررہے ہیں جو ان کے آقاکیا
کرتے تھے۔ آج بھی حکمرانوں اور بیورو کریسی سمیت سب کے حقوق ہیں لیکن اس کے
برعکس عوام کے کوئی حقوق نہیں ۔جہاں جہاں تک نظر جاتی ہے پاکستانی عوام ہی
مشق ستم بنی نظر آتی ہے ۔بنکوں کے باہر کی بات ہو، چینی حاصل کرنے والی
لمبی قطاریں ہوں یا کسی وی آئی پی کے گزرتے لمحے ،کرفیو جیسا ماحول ہو ۔نہ
جانے ہمیں ایک آزاد قوم کی طرح کب ٹریٹ کیاجائیگا۔
|