ایک روشن دماغ فوجی ٗایک عالی طبع ادیب ٗایک وسیع الشرب
انسان
بریگیڈیئر صدیق سالک شہید
کی حیرت افزا کہانی…… ولادت سے شہادت تک
تحریر : عرفان صدیقی تحقیق و پیشکش۔ محمداسلم لودھی
پاکستان ابھی نہیں بنا تھا۔
لاہور سے نوے کلومیٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ کے بائیں ہاتھ ضلع گجرات کا
فوجی قصبہ کھاریاں سویا ہوا تھا۔ کھاریاں سے سات کلومیٹر دور بھمبر جانے
والی سڑک سے ذرا ہٹ کر کوئی ڈیڑھ سو گھروں پر مشتمل گاؤں منگلیہ‘ سردیوں کی
دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ پانی کو ترستی‘ بنجر ناکھیتوں میں زردی مائل گندم
اور بجھی بجھی سی سرسوں گاؤں کی بدحالی کا نوحہ پڑھ رہی تھی۔ فجر کی نماز
ہو چکی تھی۔ اکا دکا عورتیں گاؤں سے باہر مسلمانوں کے واحد کنوئیں سے پانی
بھرنے جا رہی تھیں۔ کچھ گھروں سے دھوئیں کی لکیریں اٹھ رہی تھیں اورسردیوں
کی دھند سے گلے مل رہی تھیں۔
گاؤں کے وسط میں دو کمروں پر مشتمل ایک کچا مکان تھا۔ اس مکان میں رحمت خان
کی بیوہ عالم بی بی نماز سے فارغ ہو کر مصلے پر تسبیح کر رہی تھی۔ اس کا
بیٹا محمد صدیق قرآن پڑھنے کے لئے مسجد چلا گیا تھا۔ عالم بی بی نے ساتھ
ساتھ سوئی ہوئی اپنی تین بیٹیوں عائشہ‘ نذیراں اور بشیراں پر ایک نگاہ ڈالی
پھر اپنے کچے گھروندے کی سنولائی دیواروں کو دیکھا۔ اس گاؤں میں مسلمانوں
کے تقریباًسبھی گھر ناپختہ تھے۔ صرف ہندوؤں کے گھر پکی اینٹوں کے بنے ہوئے
تھے ان کی حویلیوں کی چاردیواری سے خوش حالی جھانکتی تھی۔ تین بہنوں کا
اکلوتا بھائی محمد صدیق مسجد سے واپس آ کر سکول جانے کی تیاری کرنے لگا۔ وہ
گھر میں سب کا لاڈلا تھا۔ ماں اور بہنیں اس کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ عالم
بی بی تو اس پر جان نثار کرتی تھی۔ وہ منگلیہ کی سب سے توانا خاتون تھی۔
دراز قد‘ باہمت‘ دلیر اور انتہائی جفاکش وہ کھیتوں میں ہل بھی چلاتی تھی۔
ایک بار گاؤں کا ایک سرکش بیل رسی تڑا کر بھاگ نکلا۔ بیل گاؤں کی گلیوں میں
دندناتا پھر رہا تھا کسی کو حوصلہ نہ ہوا کہ اسے پکڑ لے۔ اچانک ایک موٹر پر
اس کا سامنا عالم بی بی سے ہو گیا۔ عالم بی بی نے دونوں سینگ پکڑ کر بیل کو
آن واحد میں ایسی پٹخی دی کہ وہ اٹھ نہ سکا۔ پھر گاؤں کے دوسرے لوگ پہنچ
گئے اور سرکش بیل پر قابو پا لیا گیا۔
آج منگلیہ کی اس جفاکش اور دلیر خاتون کا چہرہ خزاں رسیدہ پتے کی طرح زرد
ہو رہا تھا۔ سکول کے لئے تیار ہو کر محمد صدیق نے رسوئی کا رخ کیا۔ عالم بی
بی نے محمد صدیق کو آتے ہوئے دیکھا لیکن اس کے مضبوط اعصاب جواب دینے لگے۔
لہجہ بھرا گیا اور بڑی بڑی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔ اس نے اپنا دایاں
ہاتھ محمد صدیق کی پشت پر رکھا اور بولی ’’پتر‘ آج گھر میں کھانے کو کچھ
نہیں ہے۔‘‘ محمد صدیق نے ماں کو سلام کیا اور پلٹ کر دیکھے بغیر باہر نکل
گیا۔ عالم بی بی اپنے بیٹے کو دور تک جاتا ہوا دیکھتی رہی حتیٰ کہ وہ نظروں
سے اوجھل ہو گیا۔
٭٭٭٭٭
قیام پاکستان سے کوئی پانچ برس پہلے گجرات کے گمنام سے قصبے منگلیہ میں کچھ
کھائے پئے بغیر خالی پیٹ سکول جانے والا محمد صدیق بے پناہ محنت‘ تعلیم سے
عشق اور کچھ کر گزرنے کی لگن کے سہارے آگے بڑھتا گیا۔ پاکستانی فوج میں
بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچا۔ صدیق سالک کے نام سے معروف ہوا اور علمی وادبی
دنیا میں منفرد مقام حاصل کیا۔ کچھ کتابیں تصنیف کیں اور ایک عشرے تک ملک
کے مقتدر اعلیٰ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا معتمد ترین ساتھی رہا۔ اس کے
قلم سے نکلنے والے الفاظ ملک کے سیاسی خدوخال کی نقش گری کرتے رہے۔
٭٭٭٭٭
صدیق سالک کی ابتدائی زندگی کی کہانی ہمارے پسماندہ دیہاتی معاشرے کے پیچ
درپیچ مسائل کی کہانی ہے۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان‘ معاشی بدحالی‘ ناکافی
زمینیں‘ باہمی چپقلش‘ بیگانوں کی لاتعلقی اور اپنوں کی کرم فرمائیاں۔ نو
عمر صدیق کو یہ سب کچھ دیکھنا پڑا لیکن اس کے سینے میں ایک توانا دل تھا۔
اس کے عزائم جواں تھے اور ارادے پختہ۔ اس نے سنگلاخ چٹانوں کی تراش خراش
کرتے ہوئے کٹھن حالات میں بھی اپنا سفر جاری رکھا۔ بلاشبہ وہ ایک مثالی خود
ساز انسان تھا۔
٭٭٭٭٭
قیام پاکستان سے پہلے منگلیہ ایک نہایت ہی پسماندہ گاؤں تھا۔ نہ پکی سڑک‘
نہ پرائمری سکول‘ نہ ڈسپنسری‘ نہ ڈاکخانہ‘ کچی گلیاں اور کچے گھر۔ کسان
چھوٹے چھوٹے رقبوں کے مالک تھے۔ آبپاشی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ بروقت
بارشیں ہو جاتیں تو تھوڑی بہت فصل اگ آتی ورنہ بنجر زمین کا سینہ بانجھ ہی
رہتا۔ گاؤں میں ہندو بھی تھے اور نسبتاً خوشحال تھے۔ گاؤں کی دو چار دکانیں
انہی کی تھیں۔ مسلمان مجموعی طور پر مفلوک الحال تھے۔ ان کا کمال فن یہی
تھا کہ وہ اپنے مضبوط اور توانا جسموں کا خراج وصول کرتے۔ یہاں کی اٹھتی
جوانیاں انگریزوں کے سامراجی عزائم پورے کرنے کے لئے فوج کا رخ کرتیں۔ گاؤں
کے بڑے بوڑھے بے حال دھرتی سے رزق چنتے یا انہی لاٹھیوں پر ٹھوڑیاں ٹیکے
اپنے بیٹوں کا انتظار کرتے رہتے۔
منگلیہ کی بے حال دھرتی سے رزق چننے والوں میں رحمت خان بھی تھا۔ قد کاٹھ
اور ڈیل ڈول سے پکا کسان۔ اس کے پاس چند کنال رقبہ تھا۔ وہ بے حد محنتی
تھا۔ ڈٹ کے کام کرتا۔ اس نے مال مویشی بھی پال رکھے تھے۔ کاشتکاری کے ساتھ
ساتھ اس نے یہ مشغلہ بھی اپنا رکھا تھا کہ گائے بھینسیں خریدتا۔ انہیں پال
پوس کر جوان کرتا اور پھر منافع پر بیچ دیتا۔ اس کی وفا شعار بیوی عالم بی
بی بھی مردوں کی طرح اس کے شانہ بشانہ کام کرتی۔ دو وقت کی دال روٹی عزت سے
چل رہی تھی اس لئے وہ اپنے آپ کو خوشحال خیال کرتے تھے۔ پھر ان کے ہاں پہلی
بیٹی عائشہ بی بی پیدا ہوئی۔ ماں باپ نے اسے رحمت جانا لیکن دیہاتی معاشرے
میں بیٹوں کی ولادت کو ہی مبارک خیال کیا جاتا تھا۔ رحمت خان خاص دیہاتی
تھا۔ اس کی ساری عمر قرآن مجید پڑھنے اور نماز سیکھنے تک محدود تھی۔ عالم
بی بی بھی ان پڑھ تھی۔ دونوں نماز پڑھتے تو اﷲ سے بیٹے کی دعا ضرور مانگتے۔
کچھ عرصے بعد ان کے ہاں دوسری بچی نے جنم لیا۔ اس کا نام نذیراں بیگم رکھا
گیا۔ بیٹے کی آرزو اور شدید ہو گئی لیکن قدرت کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ دو
سال بعد عالم بی بی کے ہاں تیسری بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام بشیراں بی بی
رکھا گیا۔ اب کی بار والدین کے چہرے بجھ سے گئے۔ رحمت خان ابھی تک اولاد
نرینہ سے محروم تھا اور اکثر سوچتا تھا کہ میرے بعد اس گھرانے کا کیا بنے
گا؟
٭٭٭٭٭
یہ 6 ستمبر 1935ء کا دن تھا جب رحمت خان کے گھر کی ایک نیم تاریک کوٹھڑی
میں عالم بی بی کی آغوش میں ایک پھول کھلا۔ بیٹے کی پیدائش پر والدین کی
خوشیاں دیدنی تھیں۔ انہوں نے نذر نیاز گزاری۔ گاؤں بھر میں بتاشے تقسیم
کئے۔ تینوں بہنوں کو ایک ننھا منا سا کھلونا مل گیا۔ بچے کا نام ’’محمد
صدیق‘‘ رکھا گیا۔ یہ نام نہ جانے کب سے عالم بی بی کے دل میں بیٹھا ہوا
تھا۔ رحمت خان کے بازوؤں میں نئی توانائی آ گئی۔ اب وہ اپنے کندھے پر ہل
رکھ کر مویشیوں کو ہانکتا ہوا اپنے کھیتوں کی طرف نکلتا تو پنجابی ’’بیت‘‘
اس کے ہونٹوں پر تھرکنے لگتے۔ وہ اپنی فصلوں کی ہریالی کو دیکھتا تو اس کے
چہرے پر بھی شادابیاں کھل اٹھتیں۔ عالم بی بی اپنے نونہال کو دیکھ دیکھ کر
نہال ہوتی رہتی۔ محمد صدیق نے اس گھر کو ایک نئی زندگی‘ نئی رونق دی تھی۔
لیکن آسمانوں سے ادھر کچھ اور فیصلے ہو رہے تھے۔ محمد صدیق کی عمر تین سال
کے لگ بھگ تھی کہ اس کا والد رحمت خان اچانک بیمار پڑ گیا۔ گاؤں کے نیم
حکیموں نے اس کی بیماری میں اور پیچیدگیاں پیدا کر دیں اور ایک دن کچے گھر
کے صحن میں اس کی میت رکھی تھی اور ننھا محمد صدیق پھٹی پھٹی نظروں سے گریہ
کرتی خواتین کو دیکھ رہا تھا۔ عالم بی بی کا کڑیل جسم اس حادثے پر سالخوردہ
درخت کی طرح زمین بوس ہو گیا۔ عائشہ‘ نذیراں اور بشیراں اچانک باپ کے سایہ
شفقت سے محروم ہو گئیں۔ محمد صدیق کو کچھ پتہ نہ چلا کہ کیا قیامت گزر گئی
ہے۔ اس کے ہوش سنبھالنے تک دور دیس جاتے باپ کے قدموں کی دھول بھی بیٹھ چکی
تھی۔ وہ اپنے ماتھے پر یتیمی کا داغ سجائے پروان چڑھتا رہا۔
یہ دور عالم بی بی کے لئے کڑی آزمائش کا دور تھا۔ اس نے پختہ فیصلہ کیا کہ
وہ شادی نہیں کرے گی اور اپنی تمام عمر اپنے بچوں کے لئے وقف کر دے گی۔ اس
نے ایک جری اور باہمت خاتون کی طرح اپنے مرحوم شوہر کے تمام فرائض اپنے ذمے
لے لئے۔ کھیتوں میں ہل چلانے لگی۔ مال مویشی پالنے لگی۔ بھیڑ بکریوں کے
ریوڑ لے کر چراگاہوں کا رخ کرنے لگی۔ منگلیہ کا چھوٹا سا گاؤں اس کی حوصلہ
مندی کا معترف ہو گیا۔ تب اس کے مرحوم شوہر رحمت خان کے بھائیوں نے اپنائیت
کے جوہر دکھائے۔ پنجاب کے دیہاتوں کا آسیب بیدار ہوا۔ انہوں نے حیلوں
بہانوں سے رحمت خان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ بس ایک دو ٹکڑیاں باقی رہنے
دیں۔ عالم بی بی دلیر تھی‘ بہادر تھی لیکن وہ مردوں کی مردانگی کا مقابلہ
نہ کر سکی۔ اس نے علاقے کے پٹواری سے رابطہ قائم کیا۔ گرداور کے پاس گئی۔
تحصیل دار کے سامنے فریاد کی لیکن کچھ بس نہ چلا۔ محمد صدیق کے طاقتو ر
تائے اور چاچے پہلے ہی سب کا منہ بند کر چکے تھے۔ عالم بی بی تھک ہار کر
بیٹھ گئی۔
٭٭٭٭٭
چار بچوں کا پیٹ پالنا عالم بی بی کے لئے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ زمین کا بڑا
حصہ چھن چکا تھا اور اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ مال مویشی پالے
اور انہیں بیچ کر گزر اوقات کرے۔ جواں ہمت خاتون نے یہی راستہ اختیار کیا۔
کبھی کبھار اس کے میکے سے تھوڑی مدد آ جاتی اور یوں گھر کی گاڑی چلتی رہی۔
گاؤں میں لڑکوں یا لڑکیوں کے لئے کوئی سکول نہ تھا اس لئے تعلیم کے اخراجات
کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ویسے بھی تعلیم‘ عالم بی بی کی ترجیحات میں نہیں
تھی۔ وہ خود ناخواندہ تھی اور بچوں کو پال پوس کر جوان کر دینا کافی سمجھتی
تھی۔ اس نے محمد صدیق کے لئے بھی کبھی اعلیٰ تعلیم کے خواب نہ دیکھے البتہ
کبھی کبھار اسے اپنے خاوند کے آخری لمحات کا منظر یاد آ جاتا۔ اس نے مرتے
وقت نہ زمینوں کی بات کی تھی نہ مال مویشیوں کی۔ صرف اتنا کہا تھا ’’عالم
بی بی محمد صدیق کو ضرور پڑھانا۔‘‘ دور چلے جانے والے رحمت خان کو کیا
معلوم کہ اس کی بیوی اور بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی سب سے بڑا مسئلہ بن
جائے گی۔
اس دوران کئی دن ایسے آئے جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا اور بچے یونہی
سو رہتے۔ بہادر ماں کے صابر شاکر بچوں نے کبھی کوئی ضد کی نہ شکایت۔ کبھی
یوں بھی ہوتا کہ صرف دو روٹیوں کا آٹا ہوتا۔ ماں بڑی صفائی سے ان کے حصے
بخرے کرتی اور بچے اپنے اپنے حصے کی روٹی کھا کر چپ ہو رہتے۔ صدیق اسی
ماحول میں بڑا ہوتا گیا۔ اس کی عمر چار سال سے ذرا اوپر ہوئی تو ماں نے اسے
مسجد کے مولوی صاحب کے حوالے کر دیا جنہوں نے اسے نماز سکھائی اور قرآن
مجید کی تعلیم دی۔
٭٭٭٭٭
گاؤں میں مسلمانوں کے بہت کم بچے تعلیم کی طرف مائل تھے۔ قریب ترین پرائمری
سکول ’’ملکہ‘‘ نامی گاؤں میں تھا جو منگلیہ سے کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر
تھا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے لئے ہر روز چار کلومیٹر فاصلہ طے کرنا مشکل تھا۔
یوں بھی غربت اور معاشی پسماندگی نے مسلمانوں کو بے حال کر رکھا تھا۔ ان کے
بچے ذرا ہوش سنبھالتے تو کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے لگتے اور جوان ہوتے
تو فوج میں بھرتی ہو جاتے۔ جب محمد صدیق پانچ سال کا ہوا تو ان دنوں گاؤں
کے چھ سات بچے ملکہ کے سکول جاتے تھے۔
محمد صدیق عجیب سا بچہ تھا۔ چپ چاپ رہنے والا۔ کسی بات پر ضد نہ کرنے والا۔
وہ ماں سے کبھی پیسہ نہ مانگتا۔ اسے معلوم تھا کہ ماں کی جیب خالی ہے۔ اس
کا جی چاہتا تھا کہ سکول جائے لیکن یہ سوچ کر چپ ہو جاتا کہ ماں تختی اور
قاعدہ کیسے خریدے گی۔ سلیٹ کے لئے پیسے کہاں سے لائے گی۔ وہ اکثر صبح ہی
صبح مولوی صاحب سے درس لے کر گھر سے نکل جاتا اور ایک گلی کے نکڑ پر کھڑے
ہو کر سکول جاتے بچوں کو دیکھتا رہتا۔
٭٭٭٭٭
ایک دن خوب زوروں کی بارش تھی۔ ساتھ طوفانی ہوا بھی چل رہی تھی۔ عالم بی بی
گھر کے کام کاج میں لگی رہی۔ تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ محمد صدیق نہیں ہے۔
بہنوں نے ادھر ادھر گاؤں میں تلاش کیا لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔ ماں بہت
پریشان ہو گئی۔ اسے طرح طرح کے وسوسے ستانے لگے۔ اپنوں نے جو سلوک کیا تھا
اس کے پیش نظر وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ وہ پریشانی کے عالم میں گھر سے
نکلی۔ گاؤں کے ایک ایک گھر میں گئی۔ باہر کے کھیت اور ویران علاقے دیکھ
ڈالے۔ محمد صدیق کا کچھ پتہ نہ تھا۔ سہ پہر ہوئی تو دیکھا کہ وہ سکول جانے
والے بچوں کے ساتھ واپس چلا آ رہا تھا۔ ماں کے دل کی دھڑکنیں بحال ہوئیں
لیکن اس نے صدیق کی خوب پٹائی کی۔ ڈانٹا اور نصیحت کی کہ آئندہ سکول کا رخ
نہ کرنا۔ ہم ایک آنہ چندہ نہیں دے سکتے پھر کاپی کتاب تختی سلیٹ یہ سب کچھ
خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ صدیق مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا اور
زمین پر ٹپ ٹپ اس کے آنسو گر رہے تھے۔
کچھ ہی دن بعد وہ پھر غائب ہو گیا۔ اب کی بار ماں نے اسے گاؤں میں تلاش نہ
کیا۔ سیدھی دو کلومیٹر دور کے گاؤں ’’ملکہ‘‘ گئی اور سکول جا پہنچی۔ محمد
صدیق پہلی جماعت کے بچوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ماں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ وہیں
اس کی مرمت شروع کر دی۔ ماسٹر صاحب بھلے آدمی تھے بولے ’’بی بی کیوں مارتی
ہو‘ شکر نہیں کرتی‘ لوگ تو اپنے بچوں کو مار مار کر سکول بھیجتے ہیں اور وہ
آتے نہیں۔ تم اسے سکول آنے پر مارتی ہو۔‘‘ ماں نے اپنی مجبوری بیان کی۔
ماسٹر صاحب نے کہا ’’کوئی بات نہیں میں اسے سب کچھ لے دوں گا۔‘‘ عالم بی بی
نے محمد صدیق کو اٹھایا اور گھر لے آئیں لیکن سارے راستے رحمت خان کا سایہ
سرگوشیاں کرتا رہا ’’عالم بی بی اسے ضرور پڑھانا۔ عالم بی بی اسے ضرور
پڑھنا۔‘‘ اور گھر پہنچتے پہنچتے عالم بی بی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ محمد
صدیق کو ضرور پڑھائے گی۔
٭٭٭٭٭
محمد صدیق ’’ملکہ‘‘ کے پرائمری سکول میں داخل ہو گیا۔ وہ دن اس کے لئے بے
پناہ خوشی کا دن تھا۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ دل لگا کے پڑھے گا۔ اتنا
پڑھے گا جتنا منگلیہ کے کسی اور شخص نے نہ پڑھا ہو۔ گھر میں بدستور بے
چارگی کا راج تھا۔ کبھی کچھ کھانے کو مل جاتا اور کبھی فاقہ پڑتا۔ گاؤں کے
سب بچے دوپہر کا کھانا ساتھ لے کر جاتے تھے۔ محمد صدیق بھی ایک خشک روٹی
اور رات کا بچا ہوا سالن رومال میں باندھ لیتا۔ کبھی کبھار اسے اچار بھی مل
جاتا۔ اکثر اسے گڑ یا پیاز کے ساتھ لنچ کرنا پڑتا۔ رومال اتنا میلا ہو گیا
تھا کہ محمد صدیق کو شرمندگی ہونے لگی تھی لیکن وہ ماں سے نہیں کہتا تھا۔
شاید اس کے پاس صابن کے لئے پیسے ہی نہ ہوں۔ پھر لڑکے اس کا لنچ دیکھ کر
ہنستے تھے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ صبح دال ساگ کھا کر گھر سے نکلے
گا اور ’’لنچ باکس‘‘ ساتھ لے کر نہیں جائے گا لیکن ایسے بھی دن آ جاتے جب
گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا اور صدیق کو خالی پیٹ ہی سکول جانا پڑتا۔
ایک دن محمد صدیق نے کالی سیاہی کے لئے ماں سے دو پیسے مانگے۔ ماسٹر نیاز
علی پھیکی روشنائی پر بہت غصے ہوتے اور پٹائی کرتے تھے۔ ماں کے پاس دو پیسے
نہیں تھے۔ اس نے صدیق کو جھاڑ پلا دی۔ وہ عجیب الجھن میں پڑ گیا۔ ماں کے
پاس سیاہی کے لئے پیسے نہیں اور ماسٹر نیاز علی کو پھیکی سیاہی قبول نہیں۔
وہ کیا کرے؟ وہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل سوچنے لگا۔ آخر کسی نے اسے ایک
نہایت عمدہ نسخہ بتایا۔ محمد صدیق کے گاؤں کے حکیم صاحب کے گھر چلا جاتا
اور ان کے دروازے کے باہر بکھرے باداموں کے چھلکے چن لاتا۔ ان میں درختوں
کی اتاری گئی گوند اور توے کی کالک شامل کر کے سیاہی بنا لیتا۔ اس کے
ہونٹوں پر کوئی مطالبہ کم کم ہی آتا۔
ایک بار ماں نے اسے گاؤں کے موچی سے نئی جوتی بنوا کے دی۔ صدیق ہنسی خوشی
یہ جوتی پہن کر سکول گیا۔ جوتی تنگ تھی لیکن اس نے کوئی شکوہ نہ کیا۔ شاید
ماں کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا ہو جائے۔ وہ یہی جوتی پہن کے سکول جاتا رہا۔ اس
کے پاؤں میں آبلے پڑتے اور پھٹتے رہے۔ ایک دن وہ ننگے پاؤں سکول جانے لگا
تو ماں ناراض ہوئی اور جوتے پہننے پر زور دیا۔ ماں کے کہنے پر صدیق نے جوتی
پہن لی لیکن گاؤں سے نکلتے ہی اتار کر ہاتھ میں اٹھا لی۔ اب اس کا یہی
معمول بن گیا۔ جوتی پہن کے نکلتا اور گاؤں سے باہر نکلتے ہی اتار لیتا۔
ننگے پاؤں سکول جاتا اور ننگے پاؤں واپس آتا۔ گاؤں سے ذرا باہر وہ جوتیاں
پہن لیتا۔ ایک دن ماں کی نظر اس کے پاؤں پر پڑی تو حیران رہ گئیں۔ وجہ
پوچھی۔ صدیق نے اصل بات بتائی تو ماں کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ وہ فوراً موچی
کے پاس گئی اور جوتی ٹھیک کرا دی۔
٭٭٭٭٭
محمد صدیق ایک ہونہار طالب علم تھا۔ استادوں کا خیال تھا کہ شاید رحمت خان
کا بیٹا دو چار جماعتیں پڑھ کے بھاگ نکلے گا لیکن اس نے ان سب کے اندازے
غلط ثابت کرد یئے۔ وہ خوب دل لگا کے پڑھتا۔ اپنا سبق محنت سے یاد کرتا۔ ہر
امتحان میں نمایاں رہتا۔ وہ پہلی جماعت میں تھاکہ سکول میں غل پڑا۔ ’’بابو
آ رہا ہے۔‘‘ اس زمانے میں بابو سکولوں کے معائنے کو آنے والے انسپکٹر کو
کہا جاتا تھا۔ اس دن ماسٹر صاحب کی ہدایت تھی کہ سب بچے صاف ستھرے کپڑے پہن
کے آئیں۔ صدیق نے بھی اپنا بہترین جوڑا زیب تن کیا۔ وہ سکول پہنچا۔ کوٹ
پتلون پہنے سر پر سولا ہیٹ سجائے سائیکل پر سوار بابو صاحب آئے تو ماسٹر
صاحب نے آگے بڑھ کے ان کا استقبال کیا۔ ان کی سائیکل تھامی۔ بابو صاحب نے
تختہ سیاہ پر ایک انگریزی ہندسہ لکھا۔ صدیق کو ابھی سکول آئے چند دن ہوئے
تھے۔ اتفاق کی بات کہ انسپکٹر صاحب نے اسی کو کھڑا کر دیا۔ ’’بتاؤ تختہ سیا
ہ پر کیا لکھا ہے؟‘‘ صدیق نے جھٹ بتا دیا۔ انسپکٹر صاحب نے اسے خوب شاباش
دی۔ صدیق نے اس شاباش کو زندگی بھر یاد رکھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے
’’شاباشی اور حوصلہ افزائی انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔‘‘
٭٭٭٭٭
محنت اور مشقت کے ماحول میں بے ایمانی اور بددیانتی راہ نہیں پا سکتی۔ صدیق
نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں آسودگی نہ تھی بلکہ غربت کا راج تھا لیکن
محنت اور مشقت کی عظمت کا تصور پوری طرح راسخ تھا۔ اپنے دست وبازو سے کچھ
کر دکھانے کی امنگ اس گھر کا خاصہ تھی۔
وہ دن صدیق کے لئے بڑی خوش کا دن تھا۔ آج ماں نے خوش ہو کر اسے ایک چونی دی
تھی۔وہ سیدھا ہندو بنئے کی دکان پر پہنچا اور ریوڑیاں طلب کیں۔ بنئے نے
ترازو کے ایک پلڑے میں ریوڑیاں رکھ کے وزن کیا اور صدیق کی جھولی میں ڈال
دیں۔ اتفاق کی بات کہ وہ چونی بھی ریوڑیوں کے ساتھ صدیق کی جھولی میں آ
پڑی۔ صدیق بہت خوش ہوا۔ ریوڑیاں بھی مل گئیں اور چونی بھی واپس آ گئی۔ وہ
دوڑا دوڑا گھر کی طرف جا رہا تھا کہ مسجد کے قریب اچانک ٹھوکر کھائی اور
منہ کے بل گر پڑا۔ آدھی سے زیادہ ریوڑیاں اور چونی پاس بہتی گندی نالی میں
گر پڑیں۔ صدیق نے روتے روتے باقی ریوڑیاں سمیٹیں اور یہ عہد کر لیا کہ وہ
زندگی میں کبھی بددیانتی نہیں کرے گا۔ یہ سبق اسے عمر بھر یاد رہا۔
ایک اور تصور جو بچپن ہی سے صدیق کے ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا‘ ہندو کے
متعصبانہ رویے اور تنگ نظری کا تھا۔ گاؤں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ہندو
تھوڑی تعداد میں تھے لیکن کھاتے پیتے تھے۔ گاؤں میں مسلمانوں کا صرف ایک ہی
کنواں تھا جبکہ ہندو دو تین کنوؤں کے مالک تھے۔ اگر کسی وجہ سے مسلمانوں کا
واحد کنوا ں ناپاک ہو جاتا تو ہندو انہیں ہرگز اپنے کنویں سے پانی نہ بھرنے
دیتے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر کوئی مسلمان ان کے کنویں میں ڈول ڈالے گا تو
پانی ناپاک ہو جائے گا۔ ہندو اور مسلمان لڑکوں میں دوستیاں تھیں۔ وہ اکٹھے
سکول جاتے‘ اکٹھے کھیلتے کودتے تھے۔ ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے تھے۔ ہندو
عورتیں اپنے بچوں کے دوستوں سے بہت پیار کرتی تھیں لیکن ایک برتن میں کھانے
نہ دیتیں۔ باورچی خانے میں نہ گھسنے دیتیں۔ مسلمانوں کا درجہ اچھوت کا تھا۔
ہندو کی اس عصبیت کا صدیق کے قلب و ذہن پر انتہائی گہرا نقش تھا۔
’’ملکہ‘‘ کے پرائمری سکول کا درجہ چار جماعتوں تک تھا۔ جب صدیق نے چار
جماعتیں پاس کر لیں تو گویا لنکا سر کر لی۔ ماں بہنیں بے حد خوش تھیں۔ گاؤں
کے بڑوں کو بھی خوشی تھی کہ ایک یتیم مسلمان بچہ چار جماعتیں پاس کر گیا۔
محمد خان اور رمضان نے اسے بہت کافی جانا۔ ان کا خیال تھا کہ فوج میں
جمعدار یا صوبیدار بننے کے لئے اتنی تعلیم کافی ہے۔ صوبیداری سے کسی مسلمان
کے لئے کسی عہدے کا تصور ان کے ذہن میں نہ تھا۔ ماں نے بھی اتنی تعلیم کو
کافی جانا لیکن بیٹے کے دل میں پڑھائی کی لگن تھی اور اس کی نگاہیں اگلی
منزلوں پر تھیں۔
مڈل سکول‘ منگلیہ سے کوئی تین کلو میٹر دور ’’ٹھوٹھارائے بہادر‘‘ میں تھا۔
بیٹے کے اصرار پر ماں نے اسے ٹھوٹھا رائے بہادر کے مڈل سکول میں داخل کرا
دیا۔ اب صدیق فارغ وقت میں خود بھی ماں کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ چھٹی کے دن اور
سکول سے واپس آنے کے بعد مال مویشی چرانے نکل جاتا۔ جو ایک آدھ کھیت اپنوں
کی دستبرد سے بچ رہا تھا اس میں ہل چلاتا۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کے لاتا اور
اس کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھتا۔
٭٭٭٭٭
آٹھ جماعتیں اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد صدیق کے حوصلے اور بلند ہو
گئے۔ وہ مزید آگے بڑھنے کے لئے بے تاب تھا لیکن ہائی سکول ککرالی خاصے
فاصلے پر تھا۔ صدیق کے لئے روز وہاں آنا جانا ناممکن تھا اور وہاں کے
بورڈنگ ہاؤس میں رہنے کے لئے پیسے نہ تھے۔ یہ صبر آزما دور تھا۔ صدیق کے
ننھیال گجرات ہی کے ایک اور گاؤں لنگڑیال میں تھے۔ ننھیال میں کچھ لوگ
تعلیم یافتہ تھے اور صدیق کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ اپنے گھر کی فضا
میں علم کی خوشبو نہ تھی۔ تینوں بہنیں ناخواندگی کے اندھیروں میں پروان چڑھ
رہی تھیں۔ گھر میں عربی قاعدے اور قرآن مجید کے علاوہ دو کتابیں تھیں۔ ایک
پکی روٹی‘ اور دوسری ’’بہشتی زیور‘‘۔ پکی روٹی اور بہشتی زیور پڑھنے والا
بھی کوئی نہ تھا۔ محض تبرک کے طور پر یہ کتابیں گھر میں رکھی تھیں۔ صدیق کی
بڑی بہن عائشہ کی شادی لنگڑیال کے سردار خان سے ہوئی لیکن کچھ ہی عرصے بعد
عائشہ کا انتقال ہو گیا تو چھوٹی بہن بشیراں کا نکاح سردار خان سے کر دیا
گیا۔ صدیق ماں سے اجازت لے کر لنگڑیال اپنی بہن کے گھر چلا گیا۔ یہاں آتے
ہی اس نے ادھر ادھر سے کتابیں جمع کیں اور میٹرک کے امتحان کی تیاری کرنے
لگا۔ اس کے دل میں ایک ہی امنگ تھی۔ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی
امنگ۔ اب وہ جوان ہو چلا تھا۔ اونچے لانبے قد اور مضبوط جسم والا پنجاب کا
گھبرو جوان۔ فوج کے سانچے میں ڈھلا ہوا۔ گاؤں کے بڑ ے بوڑھوں نے اسے ایک
بار پھر فوج میں بھرتی ہونے اور جمعدار یا صوبیدار بننے کی مت دی لیکن اس
نے کسی کی نہ سنی۔ پرائیویٹ امیدوار کے طور پر میٹرک کا امتحان دیا اور
صوبے بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
اب ماں نے جان لیا تھا کہ صدیق نے اپنے مستقبل کا راستہ چن لیا ہے۔ عائشہ
اﷲ کو پیاری ہو چکی تھی۔ بشیراں اور نذیراں اپنے گھروں کو سدھار گئی تھیں۔
عالم بی بی بس اپنے بیٹے کے لئے جئے جا رہی تھی۔ کالج کی تعلیم ایک مشکل
مرحلہ تھا۔ صدیق کو بھی احساس تھا کہ یہ بھاری پتھر ہے لیکن وہ ’’خوئے
فرہاد‘‘ لے کر پیدا ہوا تھاا اور اس نے ’’جوئے شیر‘‘ بہا لانے کا عزم کر
رکھا تھا۔ کالج میں داخلے کی تاریخیں گزر چکی تھیں۔ کلاسیں شروع ہو گئی
تھیں کہ ایک دن محمد صدیق زمیندارہ کالج گجرات پہنچا۔ پرنسپل کے دفتر کے
باہر کھڑے چپڑاسی کو چٹ دی۔ پرنسپل صاحب نے اس کی کہانی سنی اور اسے فرسٹ
ایئر میں داخل کر لیا۔ وہ ہاسٹل میں رہنے لگا۔ میٹرک میں اچھے نمبروں کے
باعث اسے وظیفہ بھی مل گیا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ چھوٹی کلاس کے بچوں کو ٹیوشن
پڑھانے لگا اور اپنی پڑھائی کا خرچہ نکالتا رہا۔
ایف اے کے بعد اس نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ پہلے بی اے اور
پھر انگریزی ادب میں ایم اے کر ڈالا۔ اس وقت وہ اس علمی مرتبے پر پہنچنے
والا منگلیہ گاؤں کا پہلا نوجوان تھا۔ اس کے مرحوم باپ کی روح شاداں تھی
اور عالم بی بی کے ماتھے سے عجیب سی شفق پھوٹ رہی تھی۔ اس نے بڑے حوصلے سے
بیٹے کا ساتھ دیا تھا۔ اس دوران اس نے سونے کی تین چوڑیاں اور چاندی کا
سارا زیور بیچ ڈالا تھا لیکن اس کی محنت ٹھکانے لگی تھی۔ بیٹے نے وہ کچھ کر
دکھایا تھا جس کا تصور بھی محال تھا۔
گاؤں کے بڑے بوڑھے حیران تھے کہ رحمت خان کا بیٹا کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس کا
تذکرہ صدیق سالک اپنی کتاب ’’سیلوٹ‘‘ میں ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’اتنی فالتو جماعتیں پڑھنے کے بعد میں فوج کے قابل نہ رہا لیکن گاؤں والوں
کی خواہش تھی کہ میں فوج میں صوبیدار ہو جاؤں کیونکہ پچھلی کئی نسلوں سے
ہمارے گاؤں سے کوئی شخص صوبیداری کے عہدے تک نہ پہنچا تھا۔ ہزاروں لوگ
انگریز کی نوکری کے لئے جاتے تھے۔ وہ یا تو دیار غیر میں داد شجاعت دے کر
وہیں کہیں دفن ہو جاتے تھے یا دس پندرہ روپے ماہوار پنشن پا کر واپس گاؤں آ
جاتے تھے۔ ان میں سے چند ایک اچھے کھلاڑی واقع ہوئے تھے۔ لانس نائیک اور
حوالدار ہو گئے تھے لیکن کسی کے کندھے پر پھول نہیں چمکے تھے۔ لہٰذا سارا
گاؤں خاص کر چاچا احمد خان کی نظریں مجھ پر تھیں کہ میں علم کے زور پر ضرور
جمعدار یا صوبیدار ہو جاؤں گا۔ میں جب بھی ایف اے‘ بی اے یا ایم اے کا
امتحان دے کر آتا تھا تو چاچا احمد خان مجھے یہی مشورہ دیا کرتا تھا کہ پتر
بس کر‘ اتنی جماعتوں سے بھی جمعدار ہو سکتا ہے بس کر‘ فالتو جماعتیں نہ
پڑھ۔‘‘
٭٭٭٭٭
اسلامیہ کالج لاہور کے زمانہ طالب علمی میں معروف استاد پروفیسر حمید احمد
خان نے صدیق کو بہت متاثر کیا۔ پروفیسر حمید احمد خان کا کہنا تھا کہ
’’افسری کے پیچھے نہ دوڑنا۔ یہ اعلیٰ انسانوں کا شیوہ نہیں۔ صرف بھوکے کتے
سر جھکائے‘ دم دبائے‘ ہڈیوں کی تلاش میں گلیوں کا کوڑا کرکٹ سونگھتے پھرتے
ہیں۔ شاہین کی نظر ہمیشہ بلند ہوتی ہے۔ انسان کی عظمت عہدے میں نہیں‘ اس کے
علم میں ہوتی ہے۔ لہٰذا علم پڑھو‘ علم پڑھاؤ اور سربلند رہو۔‘‘ پروفیسر
صاحب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ مسرت کے چشمے باہر نہیں‘ انسان کے اندر ہوتے
ہیں۔ دنیا کا بڑ ے سے بڑا عہدہ تمہیں خوشی نہیں دے سکتا تاوقتیکہ خوشی کے
سرچشمے تمہارے اندر سے نہ پھوٹیں۔‘‘
٭٭٭٭٭
محمد صدیق عمر بھر انہیں سرچشموں کی تلاش میں رہا۔ یہی تلاش اسے ادب کے
لالہ زاروں میں لے آئی اور اس نے تخلیق کی سرمدی لذت سے جو رشتہ جوڑا وہ
فوجی تھا لیکن فوج کا کڑا نظم وضبط بھی اس کی فکر کے شگوفوں کو کھلنے سے نہ
روک سکا۔ اس نے فوجی بریگیڈیئر کی حیثیت سے نہیں ایک صاحب اسلوب نثر نگار
’’صدیق سالک‘‘ کی حیثیت سے شہرت پائی۔
منگلیہ کے رحمت خان کا بیٹا محمد صدیق‘ صدیق سالک‘ کیسے بنا۔ یہ بھی ایک
دلچسپ حقیقت ہے۔ ان دنوں وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ سالانہ امتحان کے
لئے داخلہ فارم پر کیے جانے لگے تو ماسٹر صاحب کو ایک مشکل پیش آئی۔ جماعت
میں آدھے درجن سے زیادہ لڑکے ’’محمد صدیق‘‘ نام کے تھے۔ انہوں نے اعلان کیا
کہ محمد صدیق نام کا ہر لڑکا اپنے نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی لاحقہ لگا لے۔
محمد صدیق سوچ میں پڑ گیا۔ اسے کچھ نہ سوجھی۔ کسی اخبار رسالے میں اس نے
عبدالمجید سالک کا نام پڑھ رکھا تھا۔ یہ نام اس کے تحت الشعور میں موجود
تھا۔ اس نے چپکے سے اپنے نام کے ساتھ ’’سالک‘‘ کا لاحقہ لگا لیا۔ یوں
منگلیہ کا محمد صدیق‘ محمد صدیق سالک اور پھر صدیق سالک بن گیا۔
٭٭٭٭٭
1959ء میں صدیق سالک نے ایم اے انگریزی کا امتحان دیا۔ ابھی نتیجہ نہیں
نکلا تھا کہ انہیں لیکچر شپ کی آفر آ گئی۔ پروفیسر حمید احمد خان نے کہا
تھا علم پڑھو اور علم پڑھاؤ‘ صدیق سالک کو اپنے محبوب استاد کی نصیحت یاد
تھی۔ انہوں نے فوراً یہ آفر قبول کر لی اور اسلامیہ کالج لائل پور (فیصل
آباد) میں انگریزی پڑھانے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پبلک سروس کمیشن
میں بھی درخواست دے دی۔ پبلک سروس کمیشن کی طرف سے ان کی تقرری گورنمنٹ
کالج مانسہرہ میں ہو گئی۔ وہ فنی طور پر گزیٹڈ سرکاری افسر ہو چکے تھے لیکن
گاؤں کے بابے رمضان اور احمد خان اس افسری سے مطمئن نہ تھے۔ وہ اسے
تھانیدار‘ تحصیلدار یا کم ازکم گرد اور اور پٹواری دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں
مانسہرہ کے کالج کی پروفیسری پسند نہ آئی۔ صدیق سالک نے مانسہرہ کے مغربی
حصے لوہار بھانڈے میں ایک مکان کرائے پر لے لیا اور گزر اوقات کرنے لگے۔
پوری لگن سے طلبا ء کو پڑھانا اور فارغ وقت میں مطالعہ کرنا ان کا محبوب
مشغلہ تھا۔ انہی دنوں سالک صاحب کا ایک کلاس فیلو مانسہرہ کا اسسٹنٹ کمشنر
ہو کر وہاں آ گیا۔ صدیق سالک کی شامیں مقامی کلب میں گزرنے لگیں۔ ان کا
دوست بلحاظ عہدہ مقامی کلب کا صدر تھا۔ شام کو مقامی ڈاکٹر‘ جج‘ وکیل اور
مجسٹریٹ اس کلب میں جمع ہوتے۔ صدیق سالک نے محسوس کیا کہ وہ تعلیم یافتہ
اور افسر ہونے کے باوجود اپنے سے کم درجے کے مقامی انتظامی عہدیداروں کے
مرتبہ و مقام سے محروم ہے۔ تین چار سال کے عرصے میں اس نے بار بار محسوس
کیا کہ نام نہاد جینٹری ایک استاد کو وہ مرتبہ ومقام دینے پر آماد ہ نہیں
جس کا وہ مستحق ہے۔
اسی زمانے میں فیڈرل سروس کمیشن کی طرف سے ایک ہفت روزہ ’’پاک جمہوریت‘‘ کے
عملہ ادارت کے لئے اشتہار آیا۔ صدیق سالک اپنے پروفیسر کی نصیحت پلے باندھے
پڑھنے اور پڑھانے کے عمل سے گزر رہے تھے۔ لیکن بے کلی دور نہیں ہو رہی تھی۔
انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور درخواست دے دی۔ انہیں
منتخب کر لیا گیا اور یوں و ہ تدریس کے میدان سے صحافت کی وادی کی طرف نکل
آئے۔ وہ اس پرچے کے اسسٹنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس دوران انہیں صحافت کے
اسرار ورموز جاننے کا موقع ملا لیکن ایک ہی سال کے بعد یہ رسالہ بند ہو
گیا۔ ان دنوں الطاف گوہر سیکرٹری اطلاعات تھے۔ انہوں نے بے روزگار عملے کو
اپنی وزارت میں کھپا دیا اور صدیق سالک وزارت اطلاعات میں افسر رابطہ (پی
آر او) بن گئے۔ اس عرصے میں انہیں سید قاسم رضوی کے زیرسایہ کام کرنے کا
موقع بھی ملا۔ صدیق سالک صحافتی امور میں رضوی صاحب کو اپنا استاد کہا کرتے
تھے۔
مالی اعتبار سے نہ تدریس کا پیسہ برا تھا نہ صحافت کا اور نہ وزارت اطلاعات
کی ملازمت لیکن صدیق سالک معاشرے کے رویوں کے سامنے پروفیسر حمید احمد خان
کی نصیحت کو ڈھال نہ بنا سکے۔ انہیں قدم قدم پر یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ
معاشرہ افسروں کا معاشرہ ہے۔ افسریت سے محروم انسان اچھا کھا پی تو سکتا ہے
لیکن معاشرے کی نظروں میں محترم نہیں ہو سکتا۔ یہ سوچ صدیق سالک کے قلب
وذہن میں جڑ پکڑتی گئی اور آخرکار اس نے افسری اور پروفیسر حمید احمد خان
کی تلقین کے درمیان مصالحت کا ایک راستہ تلاش کر لیا۔ اخبار میں اشتہار آیا
اور انہوں نے درخواست داغ دی۔ جی ایچ کیو سے بلاوا آیا۔ تحریری ٹیسٹ اور
انٹرویو کے مراحل طے ہوئے۔ چار سو کے لگ بھگ امیدواروں کو طلب کیا گیا تھا
جن میں سے صرف دو کا انتخاب ہوا۔ پہلے تھے صدیق سالک اور دوسرے احسان اﷲ
خان دانش۔ صدیق سالک پرمزاح انداز میں کہا کرتے تھے:
’’فوج والوں کو پڑھائی لکھائی کرنے والوں کے متعلق کچھ زیادہ علم نہیں
ہوتا۔ انہوں نے مشہور ادیب عبدالمجید سالک اور مزدور شاعر جناب احسان دانش
کا نام سن رکھا تھا۔ امیدواروں کی فہرست میں یہ دونام دیکھے تو باقی سب کو
چلتا کیا اور ہمیں رکھ لیا۔‘‘
٭٭٭٭٭
صدیق سالک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں کپتان لے لئے گئے اور یوں ان کی
زندگی کا وہ سفر شروع ہو گیا جو 17 اگست 1988ء تک جاری رہا۔ انہیں فرنٹیئر
فورس رجمنٹ سے منسلک کر دیا گیا۔ فوجی آداب کی ابتدائی تربیت کے لئے وہ
فرنٹیئر فورس رجمنٹ ایبٹ آباد بھیجے گئے۔ یہ ایوب خان کا مارشل لائی دور
تھا۔ فوجی میسوں کی فضا آج کے ماحول سے خاصی مختلف تھی لیکن صدیق سالک ثابت
قدم رہے اور ان آلائشوں کو قریب نہ آنے دیا جو فوجی افسریت کا طرہ امتیاز
ہوتی ہیں۔ ایف ایف سنٹر میں ابتدائی تربیت کی تکمیل کے بعد انہیں باقاعدہ
طور پر آئی ایس پی آر (انٹر سروسز پبلک ریلیشنز) راولپنڈی میں تعینات کر
دیا گیا۔ یہ ادارہ فوجی رسالہ ہفت روزہ ’’ہلال‘‘ بھی شائع کرتا تھا۔ صدیق
سالک کی تحریریں اس ہفت روزہ میں نظر آنے لگیں۔ یہ تحریریں بہت لطیف اور
ہلکی پھلکی ہوتیں جن میں طنز کی چبھن تو تھی لیکن بہت ہی خفیف۔
اب صدیق سالک افسر بن چکا تھا۔ اپنے جونیئرز کے سیلوٹ انہیں ہر آن افسری کا
احساس دلاتے رہتے۔ انہی دنوں صدیق سالک ایک فوجی تقریب کی کوریج کے لئے جیپ
میں سوار سیالکوٹ جا رہے تھے۔ کھاریاں کے قریب پہنچے تو اپنے گاؤں کا خیال
آیا اور والدہ سے ملنے کو جی چاہا۔ انہوں نے ڈرائیور سے کہا اور اس نے رخ
منگلیہ کی طرف موڑ لیا۔ آگے کا تذکرہ خود صدیق سالک کی زبانی سنئے:
’’میں گاؤں پہنچا تو تہلکہ مچ گیا۔ تہلکہ کی ایک وجہ تو فوجی جیپ تھی جو
غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ گاؤں کی کچی پگڈنڈیوں پر دیکھی
گئی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ اس تہلکے کا اصل سبب میری کپتانی تھی کیونکہ
صدیوں کے انتظار کے بعد اس گاؤں کا پہلا کپتان آج اپنے آبائی گاؤں میں داخل
ہوا تھا۔ لوگوں نے گاؤں کے باہر ہی مجھے روک لیا‘ مردوں نے بغلگیر ہونا
شروع کر دیا۔ چاچیوں اور ممانیوں نے چومنا اور سر پر ہاتھ پھیرنا شروع کر
دیا۔ گھر پہنچا تو والدہ نے بوسے اور دعائیں نچھاور کیں۔ ان کی آنکھوں میں
خوشی کے آنسو آ گئے۔ انہوں نے رشک آلود آنکھوں اور کانپتے ہاتھوں سے میرے
کندھے کو چھوا اور کہا بیٹا شکر ہے تمہاری محنت ٹھکانے لگی۔ یہ بتا کہ تجھ
سے بڑے افسر بھی ہیں؟ اور کیا وہ تجھ سے زیادہ جماعتیں پڑھے ہوئے ہیں۔ میں
نے مامتا کے تجسس کو تسکین دینے کے لئے عرض کیا ’’افسر تو شاید کچھ اوپر
بھی ہوں گے لیکن وہ تمہارے بیٹے سے زیادہ پڑھے لکھے نہیں۔‘‘ انہوں نے فوراً
ہاتھ اٹھا کر خدا کا شکر ادا کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گھر کا چھوٹا سا
ڈرائنگ روم مہمانوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ دودھ‘ لسی اور شربت کے دور چلنے
لگے۔ اندر پوچھے بغیر چائے چولہے پر ابلنے لگی۔ کرسیاں کم پڑ گئیں تو
چارپائیاں بچھا دی گئیں۔ بچے بالے جو کرسیوں یا چارپائیوں پر بیٹھنے کے اہل
نہ تھے‘ دروازے کی چوکھٹ سے لگ کر جھانکنے لگے کہ کپتان کیسا ہوتا ہے۔ باہر
ایک چھوٹی سی ٹولی ڈرائیور کی خاطر تواضع میں لگی ہوئی تھی۔
میں اجازت لے کر چلنے ہی والا تھا کہ چچا احمد خان گرد میں اٹا ہوا آ
دھمکا۔ جس پھرتی سے وہ آ رہا تھا لگتا تھا کہ سیدھا میرے سینے سے ٹکرائے گا
لیکن ایک سابق فوجی ہونے کی وجہ سے چند قدم دور رک گیا۔ خوب اٹینشن ہو کر
سیلوٹ کیا۔ پھر آگے بڑھ کر دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ گاؤں سے باہر
کھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے دیر سے پہنچنے کی معذرت کی پھر اس کی نظریں
میرے سراپا کا جائزہ لیتی ہوئی میری کپتانی پر آ کر رک گئیں۔ ہر کندھے پر
تین تین پپ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک پیدا ہوئی اور منہ سے بے
اختیار نکل گیا ’’ہن گل ہوئی نا……‘‘ (اب بات بنی نا)
٭٭٭٭٭
کپتانی ہی کے زمانے میں 5 اکتوبر 1963ء کو صدیق سالک کی شادی موضع لنگڑیال
میں قیام پذیر قریبی عزیز ماسٹر محمد خان کی بیٹی زرینہ سے ہو گئی۔ زرینہ
بی بی نے خالص دیہاتی ماحول میں تربیت پائی تھی۔ انہوں نے مقای سکول سے
پانچ جماعتیں پڑھ رکھی تھیں۔ فوج کا خوبرو اور تعلیم یافتہ کپتان کہیں بھی
شادی کر سکتا تھا لیکن زرینہ بی بی اس کی والدہ کی پسند تھی اور فرمانبردار
بیٹے نے اپنی والدہ کی خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ زرینہ بی بی نے
وفاشعار رفیقہ حیات کی حیثیت سے صدیق سالک کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی
مصروفیات پر کبھی احتجاج نہ کیا اور انہیں وہ گھریلو سکون فراہم کیا جو
تخلیقی کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭
آئی ایس پی آر میں پہلے قیام کے دوران کیپٹن صدیق سالک کو فوجی ادیبوں کی
صحبت میسر آئی۔ ان میں کرنل محمد خان اور میجر ضمیر جعفری خاص طور پر قابل
ذکر ہیں۔ ان سے ان کی دفتری اور گھریلو محفلیں رہتیں۔ انہی دنوں صدیق سالک
کو کرنل شفیق الرحمن اور بریگیڈیئر گلزار کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
یوں ان کے اندر نیم خوابیدہ ادبی جراثیم توانا ہوتے گئے اور قلمکاری کا شوق
جوان ہوتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭
’’رن آف کچھ‘‘ کی جھڑپ اور جنگ ستمبر 1965ء کے دوران کیپٹن صدیق سالک کی
تقرری آئی ایس پی آر ہی میں تھی۔ انہیں جنگی نامہ نگاروں کے ساتھ کئی بار
محاذ جنگ پر جانا پڑا۔ فوجیوں کو جنگ لڑتے ہوئے دیکھا۔ جنگ بندی کے بعد
میدانوں میں بکھری کہانیوں کا مشاہدہ کیا۔ یہ فوج میں آنے کے بعد ان کے لئے
ایک اچھوتا تجربہ تھا۔
٭٭٭٭٭
جنوری 1970ء میں کیپٹن صدیق سالک میجر ہو گئے اور انہیں مشرقی پاکستان بھیج
دیا گیا۔ اس وقت وہاں کے حالات آتش بجاں تھے۔ انتخابات ہو چکے تھے اور
عوامی لیگ اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد انتقال اقتدار کا
مطالبہ کر رہی تھی۔ ادھر کچھ لوگ اپنے اقتدار کے انتقال سے خوفزدہ تھے۔ وہ
حیلے بہانے کرنے لگے۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مسلسل دباؤ
ڈالتے رہے۔ یحییٰ خان سے ان کی مسلسل ملاقاتوں کو بنگالی شک کی نگاہوں سے
دیکھتے رہے۔ یکم مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس طلب
کیا گیا۔ بھٹو نے اعلان کیا کہ جو اس اجلاس میں شرکت کرے گا اس کی ٹانگیں
توڑ دی جائیں گی اور جو ڈھاکہ جانا چاہتا ہے وہ یکطرفہ ٹکٹ لے کے جائے۔
مجیب کی برہمی بڑھتی گئی۔ 28فروری کو جنرل یحییٰ خان نے یکم مارچ کو منعقد
ہونے والا اجلاس غیرمعینہ عرصے کے لئے ملتوی کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمن فوراً
گورنر ہاؤس پہنچے۔ گورنر وائس ایڈمرل ایس ایم احسن‘ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ
یعقوب خان اور میجر جنرل راؤ فرمان علی سے ملاقات کی۔ ان سے درخواست کی کہ
مجھے اسمبلی کے نئے اجلاس کی تاریخ لے دو ورنہ میں بنگالیوں کو مطمئن نہ کر
سکوں گا۔ گورنر نے مغربی پاکستان اپنی ہائی کمان سے رابطہ قائم کیا لیکن
یہاں کوئی اور ہی کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ نتیجہ یہ کہ مشرقی پاکستان‘ اسلام
آباد کے اقتدار سے نکل گیا اور وہاں عملاً شیخ مجیب الرحمن کا سکہ چلنے
لگا۔ جنرل یعقوب نے استعفیٰ دیا اور مغربی پاکستان واپس آ گئے۔ ان کی جگہ
لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کا تقرر ہوا۔
میجر صدیق سالک ان دنوں کی تلخ یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یحییٰ‘ مجیب‘ بھٹو کی سہ رنگی ڈور میں پاکستان کی پتنگ الجھتی گئی۔ جنرل
ٹکا خان اور ان کے ماتحت فوجی محوتماشائے لب بام رہے۔ حتیٰ کہ 25 مارچ کا
ناقابل فراموش دن آ پہنچا۔ جنرل یحییٰ اور دوسرے سیاسی لیڈر مغربی پاکستان
چلے آئے اور اسی رات جنرل ٹکا خان نے ڈھاکہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا شروع کر
دی۔
میں نے یہ خوفناک رات ٹکا خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ گزاری۔ میرے سامنے
ڈھاکہ یونیورسٹی سے شعلے بلند ہوئے۔ میرے سامنے وائرلیس پر مزید طاقت
استعمال کرنے کے آرڈر پاس ہوئے اور میرے سامنے شیخ مجیب کو رات کے ایک بجے
کے قریب سفید کرتے پاجامے میں گرفتار کر کے لایا گیا۔‘‘
٭٭٭٭٭
میجر سالک نے ہماری تاریخ کے سب سے بڑے المیے کو بہت قریب سے دیکھا۔ وہ
فوجی وردی میں ملبوس تھے اور فوجی نظم کے مطابق احکام بجا لانے پر مجبور
تھے۔ لیکن ان کے سینے میں ایک صاحب فن کا دل تھا۔ وہ اس صورت حال پر بہت
کڑھتے۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو بھی ہمراہ لے گئے تھے۔ چار سالہ صحیفہ اور
دو سالہ سرمد۔
28 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کے اعلان
کے ساتھ ہی ڈھاکہ کی فضا میں بارود سلگنے لگا تھا۔ صورت حال غیریقینی ہو
گئی تھی۔ ایک شام صدیق سالک گھر پر نہیں تھے کہ ان کے ایک قریبی دوست کرنل
بشیر ملک تشریف لائے اور بیگم سالک سے کہنے لگے ’’بھابی آپ جلدی سے تیار ہو
جائیں۔ آپ کو ابھی واپس جانا ہے۔‘‘ بیگم سالک حیران ہوئیں اور کہا کہ ابھی
تو سالک بھی گھر پر نہیں ہیں لیکن کرنل بشیر نے اصرار کیا اور کہا کہ میں
سب کچھ سالک کو بتا دوں گا۔ آپ فوری طور پر ضروری اشیاء سمیٹیں اور جانے کے
لئے تیار ہو جائیں۔ چنانچہ 3 مارچ 1971ء کو بیگم سالک اپنے بچوں اور کچھ
دوسرے فوجی افسران کے خاندانوں کے ہمراہ مغربی پاکستان واپس آ گئیں لیکن ان
کا دل مسلسل دھڑکتا رہا کہ نہ جانے صدیق سالک کس حال میں ہوں گے۔
25 مارچ کی سہ پہر ڈھلی تو قیامت جاگ اٹھی۔ صدیق سالک اس حشر ساماں دن کا
تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جب سورج اچھی طرح ڈوب چکا اور ڈھاکہ پر سیاہی پوری طرح چھا گئی تو جنرل
یحییٰ خان ایک چھوٹی سی فوکس ویگن میں بیٹھ کر فلیگ سٹاف ہاؤس سے نکلے۔
چپکے چپکے پی اے ایف بیس کے راستے جہاز پر بیٹھے اور کراچی روانہ ہو گئے۔
پیاسوں کے لبوں پر کوثر وتسنیم کا پیالہ رکھنے والے سب کے دلوں میں زہریلا
پل گھول کر چلے گئے۔ اس رات پاکستان کی عظیم الشان عمارت میں رکھا ہوا
ڈائنامیٹ پھٹ پڑا اور قومی وحدت کے سارے سر بکھر گئے۔ پھر بھی کسی کا دعویٰ
تھا کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا۔‘‘( یادرہے کہ یہ دعوی بھٹو صاحب نے کیا تھا
)
مشرقی پاکستان میں ٹکا خان کے فوجی ایکشن نے کیا گل کھلائے اور بنگالیوں کے
دلوں میں نفرت کا لاوا کس طرح پھٹ پڑا۔ مکتی باہنی نے بھارتی فوجیوں کے
ساتھ مل کر کیا کچھ کیا اور مغربی پاکستان کے کرتوں دھرتوں نے کس طرح اپنی
فوج کو بے بال وپر کر دیا۔ یہ ایک روح فرسا کہانی ہے۔ صدیق سالک نے یہ سب
کچھ بہت قریب سے دیکھا اور اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے
دیکھا‘‘میں محفوظ کر دیا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ سالک فوجی ضابطوں کے اسیر
تھے۔ انہیں اپنے مسودے‘ اپنے احکام سے منظور کرانا ہوتے تھے۔ سیاسی گرد بھی
ابھی پوری طرح نہ بیٹھی تھی لیکن ان تمام بندشوں کے باوجود صدیق سالک کی
تصنیف ایک عینی شاہد کی گواہ ہے۔اسے شاید سند کا درجہ حاصل نہ ہو لیکن اسے
نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
٭٭٭٭٭
صدیق سالک کو دسمبر 1969ء میں دو سال کے لئے ڈھاکہ پوسٹ کیا گیا تھا اور
یوں دسمبر 1971ء میں ان کی معیاد پوری ہورہی تھی لیکن نامہرباں حالات نے
ایک ایسی کروٹ لی کہ دسمبر 1971ء میں وہ ڈھاکہ سے واپس راولپنڈی آنے کے
بجائے جنگی قیدی بنے اور نوے ہزار ساتھیوں کے ہمراہ سوئے بھارت روانہ ہو
گئے۔ شعر وادب سے گہری دلچسپی اور خود ایک صاحب قلم ہونے کے ناتے وہ کلکتہ
کے فورٹ ولیم کالج کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے لیکن انہوں نے کبھی یہ نہ
سوچا تھاکہ ایک دن اسی فورٹ ولیم کالج کی ایک پیرک ان کا زنداں بنے گی۔ ہر
پاکستانی جنگی قیدی کی طرح صدیق سالک کے لئے یہ دن صبر آزما تھے…… صدیوں
سالوں کی طرح سست روی سے گزرتے دن اسے قید تنہائی سے بھی واسطہ پڑا۔ قیدی
خانے بھی تبدیل ہوتے رہے اور حساس صدیق سالک اپنی بے چارگی پر کم اور
پاکستان کی شکست پر زیادہ کڑھتا رہا‘ جلتا رہا۔
ان کے بیوی بچے لنگڑیال میں رہ رہے تھے۔ بوڑھی والدہ عالم بی بی‘ بیٹے کے
فراق میں گھلی جا رہی تھیں۔ انہیں کسی طرح چین نہ آتا تھا۔ راتوں کو اٹھ
اٹھ کے تاروں بھرے آسمان کو گھورنے لگتیں۔ شاید بہت دور کہیں محمد صدیق
سالک بھی ان تاروں کو دیکھ رہا ہو۔ وہ کچھ دن لنگڑیال رہتیں اور کچھ دن
منگلیہ۔ بے چین ممتا انگاروں پر لوٹتی رہی۔
صدیق سالک نے ایام اسیری کی روئیداد اپنی کتاب ’’ہمہ یاراں دوزخ‘‘ میں
قلمبند کی ہے۔ یہ کتاب بلاشبہ اسلوب اور مواد کے حوالے سے سالک کی خوبصورت
کتاب ہے۔ اس میں قاری کی دلچسپی کا وہ سارا سامان موجود ہے جو کسی کتاب کو
مقبول بناتا ہے۔ خود صدیق سالک کو بھی اپنی نصف درجن کتابوں میں سے ’’ہمہ
یاراں دوزخ‘‘ سب سے زیادہ پسند تھی۔
1973ء کے اواخر میں جنگی قیدیوں کی واپسی کا چرچا ہوا۔ منگلیہ کی عالم بی
بی کی بوڑھی آنکھوں میں ایک نئی چمک آ گئی۔ یہ ستمبر کا تیسرا ہفتہ تھا جب
قیدیوں کی واپسی شروع ہو گئی۔ عالم بی بی کو مبارک باد دینے والے آنے لگے۔
اس نے ساری زندگی صدیق کی نذر کر دی تھی اور وہ صدیق دو سال دکھ اٹھانے کے
بعد واپس آ رہا تھا۔ لیک قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 21 ستمبر 1973ء کو
عالم بی بی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ تقریباً 25دن بعد 16 اکتوبر 1973ء کو
صدیق سالک واپس آیا تو عالم بی بی منوں مٹی تلے ہمیشہ کی نیند سو رہی تھی۔
صدیق سالک نے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:
’’میں دو سال بھارت کی قید میں رہا۔ جسمانی اور روحانی اذیتیں برداشت کرتا
رہا لیکن تصور میں ماں کا شفیق چہرہ ہی مجھے باعزم رکھتا تھا۔ وہی ایک روشن
کرن تھی جو میری تاریک کوٹھڑی میں مجھے دلاسے دیتی رہتی تھی۔ جب میں رہا ہو
کے آیا تو میرا استقبال کرنے کے لئے دوست احباب‘ بیوی بچے سبھی موجود تھے
لیکن وہ شفیق مسکراہٹوں والا چہرہ نہ تھا۔ میں ہجوم میں اپنی ماں کا چہرہ
تلاش کرتا رہا مگر وہ تو کہیں دور آسمانوں میں گم ہو چکا تھا۔ افسوس کہ
میری رہائی سے چند روز پہلے وہ وفات پا چکی تھیں۔ شاید وہ میری بے سر
وسامانی‘ بگڑی ہوئی صحت اور میرے مہینوں کے بے دھلے میلے لباس پر پی او
ڈبلیو کی نمایاں مہر دیکھنا نہیں چاہتی تھیں۔ ان کا وفات پانا میرے لئے
والد کی وفات پانے سے بھی بڑا المیہ تھا اس لئے کہ جب والد گئے تو میں تین
سالہ ناسمجھ بچہ تھا۔ اس کے بعد ماں ہی میری زندگی کا محور تھی۔ وہی ماں‘
وہی باپ‘ وہی سرپرست۔ اس کی ایک ذات میں میری زندگی کا سارا حسن سمٹ آیا
تھا۔ وہ محور زندگی سے نکل گیا اور میں ایک خلا کا شکار ہو کے رہ گیا۔‘‘
٭٭٭٭٭
میجر صدیق سالک چار سال بعد مغربی پاکستان واپس آئے تو ایک بار پھر ان کی
تقرری آئی ایس پی آر راولپنڈی میں ہوگئی۔ 1974ء کا ذکر ہے۔ راولپنڈی میں
کور کمانڈر کانفرنس ہو رہی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیاء الحق بھی اس
کانفرنس میں شریک تھے۔ انہوں نے صدیق سالک کو پاس بلایا۔ ان کی کتاب ہمہ
یاراں دوزخ کی تعریف کی اور حسب عادت کہا ’’میں آپ کے لئے کیا کر سکتا
ہوں۔‘‘ سالک نے کہا ’’مجھے فوج سے نکلوا دیجئے۔‘‘ لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق
کے پوچھنے پر انہوں نے اپنا رونا رویا اور کہا کہ ’’کسی نے سقوط ڈھاکہ سے
سبق نہیں سیکھا۔ فوج مسلسل نیچے جا رہی ہے‘‘ جنرل ضیاء نے تحمل سے سب کچھ
سنا اور کہا ’’آپ سال ڈیڑھ سال رک جائیں‘ شاید اصلاح احوال کی کوئی صورت
نکل آئے۔‘‘ اگرچہ اس وقت تک فوج کی سربراہی کے لئے جنرل ضیاء الحق کا نام
کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا لیکن ڈیڑھ سال بعد جنرل ضیاء الحق غیر
متوقع طور پر پاکستانی فوج کے چیف آف دی آرمی سٹاف بن گئے۔
جنوری 1977ء میں میجر صدیق سالک کو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدہ پر ترقی مل گئی
لیکن وہ بدستور آئی ایس پی آر میں ہی فرائض سرانجام دیتے رہے۔5 جولائی
1977کو مارشل لاء نافذ ہو گیا اور اسی تاریخ سے کرنل صدیق سالک مارشل لاء
سیکرٹریٹ میں فرائض سرانجام دینے لگے۔ 1985ء میں انہیں بریگیڈیئر کے عہدے
پر ترقی دے دی گئی۔ اسی سال آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر تفضل حسین
صدیقی ریٹائر ہو گئے اور 30 جون 1985ء کو بریگیڈیئر صدیق سالک اس ادارے کے
چیف بن گئے جس میں وہ 1963ء میں بطور کیپٹن شامل ہوئے تھے۔ آئی ایس پی آر
کے معاملات کو سنوارنے اور اسے ایک پروقار ادارہ بنانے کے لئے صدیق سالک نے
ان تھک کام کیا۔ انہیں چیف کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔
5 جولائی 1977ء سے 17ا گست 1988ء تک صدیق سالک کا‘ ملک کے مقتدر اعلیٰ جنرل
ضیاء الحق کے ساتھ نہایت قریبی رابطہ رہا۔ وہ صدر کے پریس سیکرٹری تھے۔ ان
کے سپیچ رائٹر تھے۔ اکثر معاملات میں ان کے مشیر تھے اور عہدوں کے نمایاں
فرق کے باوجود ان کے مابین ایک طرح کی دوستانہ بے تکلفی بھی تھی۔ صدیق سالک
نے اقتدار کے اتنے قریب رہتے ہوئے بھی اپنے اندر کے ادیب کو زندہ رکھا۔
منگلیہ کے اس محمد صدیق کو نہ مرنے دیا جس کی ریوڑیاں گندی نالی میں گر گئی
تھیں۔ انہوں نے دیانت اور شرافت کے اس معیار کو برقرار رکھا جو خود جنرل
ضیاء الحق کا طرۂ امتیاز تھا۔ کوئی رعایت نہ اٹھائی۔ کوئی پلاٹ حاصل نہ
کیا۔ اقرباپروری نہ کی۔ البتہ صدیق سالک نے صدر سے اپنے قریبی تعلقات کا
ایک فائدہ ضرور اٹھایا۔ اس نے اپنے گاؤں منگلیہ کی حالت تبدیل کر دی۔ اب
وہاں اس کی خستہ حویلی کے سوا کچھ نہ تھا جن عزیزوں اور رشتہ داروں نے
زمینوں پر ناجائز قبضہ جما لیا تھا صدیق سالک کو ملک کے حکمران کے اس قدر
قریب دیکھ کر وہ گھبرا گئے اور زمینوں کی واپسی کی پیش کش کی لیکن سالک نے
یہ پیش کش مسترد کر دی۔
منگلیہ نہایت ہی پسماندہ گاؤں تھا لیکن صدیق سالک نے اس کی حالت تبدیل کرا
دی۔ اب وہاں پختہ سڑک ہے‘ ہسپتال ہے‘ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ ہائی
سکول ہیں۔ ایک ٹیکنیکل سکول ہے‘ بجلی پہنچ چکی ہے‘ ٹیلیفون کی سہولت فراہم
کر دی گئی ہے‘ ایک بینک بھی کام کر رہا ہے‘ حیوانات کا شفاخانہ موجود ہے‘
گلیاں پختہ ہو گئی ہیں‘ ڈاک خانہ قائم کر دیا گیا ہے۔ رحمت خان کا منگلیہ‘
صدیق سالک کا منگلیہ بن کر جدید دور کی تمام سہولتوں سے آراستہ ہو چکا ہے۔
اب وہاں کے کسی محمد صدیق کو پڑھائی کے لئے ننگے پاؤں کوسوں دور نہیں جانا
پڑتا۔
٭٭٭٭٭
بریگیڈیئر صدیق سالک‘ ضیاء الحق شہید کے گیارہ سالہ عہد اقتدار کی نمایاں
شخصیت رہے۔ انہیں صدر کے انتہائی قریبی ساتھی کی حیثیت سے دیکھا جاتا رہا۔
صدیق سالک نے پاک فوج کے ایک وفا شعار سپاہی کی طرح اپنے چیف کا بھرپور
ساتھ دیا۔ تقریباً تمام غیرملکی دوروں پر صدر کے ساتھ رہے۔ اندرون ملک
تاریخ کے ہر اہم موڑ پر ضیاء الحق کے منہ سے نکلنے والے الفاظ صدیق سالک کے
قلم سے نکلے ہوتے تھے۔ بریگیڈیئر سالک ضیاء الحق کی شخصیت سے بہت متاثر
تھے۔ انہوں نے صدر کے شخصی کردار کے بعض نہایت خوبصورت گوشے قریب سے دیکھے
تھے اور ان کی عظمت کے معترف تھے۔ ایک واقعہ انہوں نے اپنی کتاب ’’سیلوٹ‘‘
میں بھی رقم کیا ہے:
’’ہم ایک مرتبہ آزاد کشمیر کے دورے پر تھے۔ اس کی ایک شمالی چھاؤنی ’’کیل‘‘
سے بذریعہ ہیلی کاپٹر واپس راولپنڈی آ رہے تھے کہ مشین میں خرابی کی وجہ سے
ہمیں مظفرآباد اترنا پڑا۔ مقامی بریگیڈیئر ہیڈکوارٹر کو خیرمقدمی انتظامات
کے لئے بہت کم موقع ملا۔ پھر بھی وہ بھاگم بھاگ ہیلی پیڈ پر پہنچے۔ ہمیں
خوش آمدید کہا۔ میس میں لے گئے اور جب تک ہم وضو کر کے نماز ادا کرتے‘ کچھ
آملیٹ اور کچھ سبزی کی بھجیا بنا کر اور ٹوسٹ سینک کر لے آئے۔ ہم کھانے کی
میز پر پہنچے تو بھوک خاصی چمک چکی تھی۔ میں تو کھانا دیکھتے ہی پل پڑا
لیکن جنرل ضیاء الحق نے ہاتھ روکے رکھا۔ وہ تفتیش کر رہے تھے کہ ہیلی کاپٹر
کے پائلٹ کہاں گئے اور آیا انہیں کھانا ملا ہے یا نہیں؟ اتنے میں پائلٹوں
کو تلاش کر کے لایا گیا تو جنرل ضیاء الحق نے پہلا لقمہ لیا۔ اپنی بھوک روک
کر دوسرے کی بھوک کا خیال رکھنا یقینا عالی ظرفی ہے۔‘‘
صدیق سالک کو یہ بھی اطمینان تھا کہ ضیاء الحق نے فوج کا مزاج اور رنگ ڈھنگ
بدل دیا ہے۔ شراب وشاہد قصہ پارینہ ہو چکے ہیں اور ضیاء کی سربراہی میں ایک
نئی‘ خالص پاکستانی اور اسلامی سپاہ نے جنم لیا ہے۔ اس کا تذکرہ سالک شہید
ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’اب اکثر وبیشتر فوجی جن میں فوجی افسر پیش پیش ہیں‘ دفتری اوقات کے بعد
شلوار کرتا پہنتے ہیں اور نماز کے لئے جیبی ٹوپی ساتھ رکھتے ہیں حالانکہ جب
میں فوج میں آیا تھا تو کوئی آفیسر گاؤن پہنے بغیر‘ شلوار کرتے میں اپنے
گھر میں مہمان کے سامنے نہیں آ سکتا تھا۔ اس وقت نماز پڑھنے والے اکادکا
ہوتے تھے جو چھپ چھپا کر یہ فریضہ ادا کرتے تھے تاکہ ماڈرن سوسائٹی کے
تمسخر کا نشانہ نہ بنیں۔ اب نماز کا وقت آ جائے اور کوئی نماز نہ پڑھے تو
وہ منہ چھپاتا پھرتا ہے کہ کہیں تمسخر کا نشانہ نہ بنے۔
پہلے فوجی افسر چھٹی لے کر یورپ اور امریکہ جاتے تھے اور واپسی پر رنگین
داستانوں کے کئی دیوان ساتھ لاتے تھے۔ اب باقاعدگی کے ساتھ حج اور عمرے پر
جاتے ہیں۔ واپسی پر کھجوریں‘ تسبیحیں‘ مصلے اور ٹوپیاں لاتے ہیں اور خانہ
کعبہ اور روضۂ رسولﷺ پر واردات قلبی سنا کر اپنے ساتھیوں کے ایمان کو تازہ
کرتے ہیں۔
نماز روزے کے علاوہ ان کی بود وباش ہی بدل چکی ہے۔ اب ان کی اقدار پاکستانی
اور اسلامی ہیں۔ آزادی کے بعد انگریز کی تقلید میں‘ فوجیوں نے اپنے اوپر
مصنوعی آب وتاب کا جو خول پہن رکھا تھا وہ اب اتر چکا ہے اور اب وہ اپنے
اصلی روپ میں ایک سچے پاکستانی اور پکے مسلمان کے طور پر اپنے فرائض انجام
دیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آج فوج آسمانی فرشتوں کی فوج بن چکی ہے۔ اب
بھی ان میں کالی بھیڑیں ہوں گی (کس شعبے میں نہیں ہوتیں) لیکن اس ریوڑ کا
مجموعی رنگ کالا نہیں‘ صاف سفید ہے۔
مجھے مزید تقویت 1987ء کے موسم سرما میں ملی جب بھارت نے ایک وسیع جنگی مشق
(Brasstacks) کے نام پر ہماری مشرقی سرحدوں پر جنگ کی کیفیت پیدا کر دی
تھی۔ کشیدگی کے اس ماحول میں میں نے پنجاب کی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے
افسروں اور جوانوں کے ساتھ چند روز بسر کئے اور انہیں نغمہ دفاع چھیڑنے کے
لئے ستار کے تاروں کی طر ح تنا ہوا پایا۔ بادِصرصر کا ہلکا سا اشارہ ان کی
دفاعی صلاحیتوں کے لئے مہمیز کا کام دے رہا تھا۔
جنگی تیاری کا یہ معیار راتوں رات حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے طویل راتیں
اور طویل ترین دن صرف کرنے پڑتے ہیں اور متعلقہ لوگوں نے ایسا کیا تھا جس
کے نتیجے میں آج ہماری دفاعی تلوار کی دھار اتنی تیز ہے کہ بڑے سے بڑے
جارحیت پسند کے گھمنڈ کو خاک میں ملا سکتی ہے۔‘‘
جنرل ضیاء الحق کے شخصی کردار کی اخلاقی و مادی تعمیر نو کا معترف ہونے اور
مسلسل گیارہ سال ان کے قریبی حلقے میں رہنے کے باوجود صدیق سالک سیاسی
نوعیت کے بعض اقدامات سے اختلاف رکھتے تھے۔ بعض اوقات ان کے قلب حساس کی
دھڑکنیں ان کے قابو سے باہر ہو جاتی تھیں۔ ایک آدھ بار انہوں نے صدر سے
درخواست کی کہ وہ فوج سے فارغ ہونا چاہتے ہیں لیکن صدر نے انہیں اجازت نہ
دی۔ صدر کی قربت کے باعث انہیں بھی دھمکیاں ملتی رہتی تھیں۔ ضیاء الحق کے
خون کے پیاسے صدیق سالک کو بھی ہدف بنانا چاہتے تھے لیکن سالک نے کبھی ان
دھمکیوں کو اہمیت نہ دی۔
29مئی 1988ء کو صدر کی طرف سے انہیں اطلاع ملی کہ فوری طور پر پریس کانفرنس
کا اہتمام کیا جائے۔ اگلے دن صدر صاحب کو چین کے دورے پر جانا تھا۔ سالک
بھی ساتھ جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنے کپڑے اور دیگر سامان تیار کر رکھا تھا۔
پریس کانفرنس کی اچانک اطلاع سے وہ ذرا چونکے۔ اسی شام وزیراعظم جونیجو
غیرملکی دورے سے واپس آ رہے تھے۔ تمام صحافی اور رپورٹر ہوائی اڈے گئے ہوئے
تھے۔ انہیں اطلاع کی گئی۔ خود سالک صاحب بھاگم بھاگ صدر صاحب کے پاس پہنچے۔
وہ حسب معمول مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ صحافی ملحقہ کمرے میں جمع ہو چکے
تھے لیکن صدر ضیاء نے اب بھی سالک صاحب کو کچھ نہ بتایا۔ انہوں نے مسکراتے
ہوئے صرف اتنا کہا تھا:
’’Salik, hers is another presure cooker for you‘‘
’’سالک یہاں تمہارے لئے ایک اور پریشر ککر منتظر ہے۔‘‘ یاد رہے کہ پریشر
ککر صدیق سالک کے ایک ناول کا نام ہے۔
٭٭٭٭٭
29 مئی کے اس اقدام کے بعد صدیق سالک بہت دل برداشتہ رہنے لگے۔ انہوں نے
اپنے جذبات کو اپنی ذاتی ڈائری میں بھی رقم کیا۔ وہ جونہی اس پریس کانفرنس
سے لوٹے اپنے گھر کی بالائی منزل میں اپنے سٹڈی روم میں بیٹھ گئے اور دیر
تک کچھ سوچتے رہے۔ انہوں نے سنجیدگی سے فیصلہ کر لیا کہ فوج سے ریٹائرمنٹ
لے لی جائے۔ اس سے کوئی سال سوا سال پہلے بھی انہوں نے صدر سے بات کی تھی
تو صدر نے ہنستے ہوئے کہا تھا ’’سالک صاحب کچھ دیر اور ٹھہر جائیں۔ اکٹھے
ہی چلیں گے۔‘‘ اب کی بار انہوں نے اپنی پنشن وغیرہ کا حساب کر لیا۔ گھر
والوں سے بات کی اپنے قریبی دوست جنرل کے ایم عارف سے مشورہ کیا۔ جنرل عارف
نے کہا ’’کیا کھاؤ گے۔ کوئی قارون کا خزانہ جوڑ رکھا ہے۔‘‘ یوں ایک بار پھر
ریٹائرمنٹ کا فیصلہ موخر ہو گیا کیونکہ سالک کے پاس واقعی قارون کا کوئی
خزانہ نہ تھا۔ سالک طبعاً ملازمت سے بیزار ہو چکا تھا۔ اس کے اندر کا تخلیق
کار توانا ہو چکا تھا اور وہ قلم کاری کے مشغلے پر توجہ دینا چاہتے تھے۔ وہ
اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے زنگ لگ گیا ہے۔ میں نوکری کے چنگل سے نکلنا
چاہتا ہوں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے ایس شاہنواز نے انہیں
پریس اتاشی کے طور پر وہاں لے جانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ نہ مانے۔
پاکستان کی سرزمین سے بے پناہ محبت ان کے خون میں رچی بسی تھی۔
سالک صاحب کا تجزیہ تھا کہ خود صدر ضیاء الحق بھی 29مئی کے فیصلے کے بعد
قدرے اپ سیٹ تھے۔ انہوں نے انتہائی سخت اور کڑے مواقع پر بھی کبھی اپنی بے
کلی کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ 29 مئی کے بعد بھی وہ بظاہر مضبوط‘ مستعد اور
توانا نظر آتے تھے لیکن ان کے قریبی ساتھی ان کے اندر کے اضطراب کو محسوس
کر سکتے تھے۔
صدیق سالک کو دھمکی آمیز خطو ط ملتے رہتے تھے۔ ایک ایسا ہی خط یونائیٹڈ
سٹیٹس آف امریکہ سے آیا تھا۔ اس میں سالک کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ ضیاء
کی حمایت سے باز آ جائے ورنہ وہ ہماری ہٹ لسٹ میں نمبر 29 ہے۔ شہادت سے
پہلے ایک عید کارڈ موصول ہوا تھا۔ اس کارڈ پر پنجابی میں لکھا تھا ’’ایہہ
تہاڈی آخری عید اے۔‘‘ (یہ آپ کی آخری عید ہے)۔ اس عبارت کے نیچے ایک معروف
سیاسی جماعت کا نام لکھا ہوا تھا اور پرچم بنا تھا۔
٭٭٭٭٭
17 اگست سے کچھ پہلے کے دن عام سے دن ہی تھے۔ وہی صدیق سالک‘ وہی اس کی خوش
مزاجی۔ وہ دوستوں سے گپ شپ وہی اپنے اہل خانہ کے ساتھ چہلیں۔ سالک کی سب سے
بڑی تفریح اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھنا اور ہر موضوع پر باتیں کرنا تھی۔ انہیں
دفتر کی بے پناہ مصروفیات تھیں۔ صدر مملکت کے پروگراموں سے بندھا ہونے کے
باعث وقت پر ان کی کوئی گرفت نہ تھی۔ انہیں انتہائی سنجیدہ اور اہم مسائل
کا سامنا ہوتا تھا جو کسی بھی انسان کے اعصاب کو شکستہ کر سکتے تھے لیکن
سالک جب بھی گھر آتے ان کے ہونٹوں پر ایک دلآویز مسکراہٹ ہوتی۔ وہ ساری
اعصابی تھکن دہلیز پر رکھ کر اندر داخل ہوتے۔ وہ جب بھی وقت ملتا‘ اپنے
گھروں کو لمبی ڈرائیو پر لے جاتے۔ اس ڈرائیو کے دوران وہ ہر موضوع پر باتیں
کرتے اور خوب کھل کر گپ شپ لگاتے۔
صدیق سالک نے اسلام آباد کے 1/8 -E سیکٹر میں اس وقت ایک پلاٹ خریدا جب وہ
نئے نئے فوج میں آئے تھے اور ابھی اسلام آباد ایک ویرانے سے زیادہ کچھ نہ
تھا۔ ملازمت کا بیشتر حصہ انہوں نے سرکاری گھروں میں گزارا۔ 1974ء میں
انہوں نے اپنا گھر بنانا شروع کیا اور ایک حصے کی تکمیل کی۔ 1984ء میں اس
کا دوسرا حصہ بنایا اور یوں ان کے ایک خواب کی تکمیل ہو گئی۔ وہ ایک عرصے
سے اپنے ذاتی گھر کی تمنا رکھتے تھے۔ اسی مقصد کے لئے وہ ایک سرکاری سکیم
کے تحت اپنی تنخواہ سے بھی ماہانہ اقساط میں رقم کٹوا رہے تھے تاکہ
ریٹائرمنٹ تک وہ گھر مل جائے۔
ایک عرصے تک اسلام آباد کا گھر کرائے پر رہا لیکن ڈیڑھ د وسال پہلے سے وہ
بڑی شدت سے اس گھر میں منتقل ہونے کی خواہش کرنے لگے۔ ایک دن وہ صدر مملکت
جنرل ضیاء الحق کے ہمراہ انہی کی گاڑی میں اسلام آباد جا رہے تھے۔ فیصل
آباد کے قریب پہنچے تو ایک بڑھیا سے ماجرا پوچھا۔ اس نے ایک درخواست پیش کر
دی۔ صدر نے وہ درخواست صدیق سالک کو دیتے ہوئے کہا ’’سالک پڑھو۔‘‘ بڑھیا نے
لکھا تھا کہ وہ بیوہ ہے۔ اس کا ایک ہی مکان ہے جس میں کرایہ دار رہ رہے ہیں
اور بار بار کہنے کے باوجود گھر خالی نہیں کر رہے۔ صدر نے درخواست اپنے پاس
کر لی اور بڑھیا سے وعدہ کیا کہ اسی مہینے اس کا گھر خالی ہو جائے گا۔ جب
گاڑی دوبارہ چل پڑی تو سالک نے صدر سے کہا ’’سر میں نہیں چاہتا کہ کل میری
بیوی بھی اسی طرح درخواست اٹھائے کسی گاڑی کا راستہ روک رہی ہو۔ اس لئے میں
اپنا گھر خالی کرا کے اس میں منتقل ہونا چاہتا ہوں۔‘‘
21 اپریل 1988ء کو وہ اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اس گھر میں منتقل ہو گئے۔
گھر کی بالائی منزل میں ان کا سٹڈی روم‘ ان کا پسندیدہ کمرہ تھا۔ وہ اسی
کمرے میں بیٹھ کر ادبی کام کیا کرتے تھے۔ اس کی مغربی جانب کھلی کھڑکی سے
مارگلہ کی پہاڑیوں کا خوبصورت منظر انہیں بے حد اچھا لگتا تھا۔ ایک گھر کی
اونچی چھت پر بنی پانی کی ایک ٹینکی سے انہیں صرف اس لئے چڑ تھی کہ وہ
مارگلہ کے حسین مناظر کی راہ میں حائل ہو گئی تھی۔
٭٭٭٭٭
صفیہ صدیق سالک کی پہلی بیٹی تھی جو صرف پانچ دن زندہ رہ کر فوت ہو گئی۔
شادی کے تین سال بعد ستمبر 1966ء میں صحیفہ پیدا ہوئی۔ دو سال بعد سرمد
سالک نے جنم لیا۔ سرمد کے بعد صائمہ اور آئینہ پیدا ہوئیں۔
بچے‘ سالک کی کل کائنات تھے۔ وہ ان کی ہر دلچسپی میں حصہ لیتے۔ ان کے تمام
مسائل پر توجہ دیتے۔ کبھی اپنی بات ان پر نہ ٹھونستے۔ ان کے طبعی میلانات
اور ان کے رجحانات کا پورا لحاظ رکھتے۔ صحیفہ سب سے بڑی بیٹی تھی اور اسی
ناتے اس سے انہیں بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ دونوں کا ’’سٹار‘‘ ایک ہی تھا۔
’’سنیلہ‘‘ دونوں کو میوزک سے دلچسپی تھی۔ سالک کو فیض بہت پسند تھا۔ اس کا
کلام بہ شوق سے پڑھتے۔ ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ اکثر
سنا کرتے۔ فریدہ خانم کی گائی ہوئی غزل ’’وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا……‘‘
انہیں بے حد پسند تھی۔ انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو‘ بھی سنا کرتے تھے۔ رات کو
تمام معمولات سے فارغ ہو کر تقریباً تین گھنٹے تک مطالعہ ضرور کرتے تھے۔ وہ
اپنے بچوں کو کتابیں ہی تحفے کے طور پر دیا کرتے۔ کہیں کوئی اچھی غزل یا
نظم پڑھتے تو صحیفہ سے کہتے وہ ضرور پڑھنا۔ سالک خود سیلف میڈ انسان تھا
اور اسے سیلف میڈ انسان اچھے لگتے تھے۔ اکثر ان لوگوں کی آپ بیتیاں خرید کر
لاتے۔ خود بھی پڑھتے اور بچوں کو بھی پڑھنے کے لئے دیتے۔ انہوں نے بچوں کے
ساتھ انتہائی دوستانہ اور بے تکلفانہ تعلقات استوار کر رکھے تھے اس لئے وہ
زندگی کے کسی بھی موضوع پر اپنے ابو سے بات کر سکتے تھے۔
٭٭٭٭٭
اگست 1988ء کا مہینہ معمول کے مطابق طلوع ہوا جیسے ہر سال ہوا کرتا تھا۔
صحیفہ ایف جی کالج برائے خواتین راولپنڈی سے انگریزی ادب میں ایم اے کر رہی
تھی۔ 6 اگست کو اس کے سال اول کے امتحانات ختم ہوئے۔ سرمد ایف جی سرسید
کالج راولپنڈی میں تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا اور اسے چھٹیاں تھیں۔ صائمہ
میٹرک پاس کرنے کے بعد کالج میں داخلے کا انتظار کر رہی تھی اور آئینہ
آٹھویں میں تھی اور اس کا سکول بھی گرمیوں کی چھٹیوں کے لئے بند تھا۔
12 اگست کو صدیق سالک کی خواہر نسبتی (بیگم زرینہ سالک کی چھٹی بہن) نسیم
کی شادی تھی۔ سب گھر والوں کا پروگرام تھا کہ وہ اکٹھے شادی میں شرکت کے
لئے جائیں گے۔ 7اگست کو سالک صاحب نے گھر والوں سے کہا کہ صدر صاحب نے
گیارہ تاریخ کو دو میٹنگز رکھ لی ہیں۔ ایک صبح اور ایک شام کو۔ اس لئے میں
نہیں جا سکوں گا البتہ 12 تاریخ کو شادی کی تقریب میں شامل ہو جاؤں گا۔ سب
اہل خانہ 8 اگست کو لنگڑیال روانہ ہو گئے۔ 12 اگست کو دن کے گیارہ بجے کے
لگ بھگ صدیق سالک بھی لنگڑیال پہنچ گئے۔ شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ سب
عزیزوں‘ رشتہ داروں سے ملے۔ اگلے دن ولیمے میں شرکت کی دعو ت تھی لیکن سالک
نے سب کو بتایا کہ مجھے 14 اگست کے سلسلے میں بہت سے کام کرنے ہیں اس لئے
میں آج ہی واپس جاؤں گا۔ بیگم نے بچوں سے کہا کہ وہ جانا چاہتے ہیں تو چلے
جائیں لیکن کوئی نہ آیا۔ شام کو بریگیڈیئر صدیق سالک پنڈی واپس آ گئے۔
صحیفہ‘ شادی کی تقریب سے فارغ ہو کر لاہور اپنے ماموں کے پاس چلی گئی۔ باقی
سب لوگ 15 اگست کی شام پنڈی آ گئے۔ صدیق سالک ان کے منتظر تھے۔ ایف 1/8 کے
اس خوبصورت گھرکے کسی فرد کو اندازہ نہ تھا کہ اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں کون
سی قیامت بپا ہونے والی ہے۔ سالک اپنے بیٹے سرمد سے کہنے لگے ’’یار تم نے
اتنے دن کیسے گزار لئے لنگڑیال میں۔‘‘ آئینہ اور صائمہ سے خوش گپیاں کرنے
لگے۔ شادی کے حالات سننے لگے۔
16 اگست کو ایوان صدر اسلام آباد میں کوئی میٹنگ تھی اس لئے وہ صبح ہی صبح
بغیر وردی کے روانہ ہو گئے۔ 16 اگست کی شام کو روس کے موجودہ سفیر جناب
عبدالستار نے گھر پر آنا تھا۔ دن کو دو دفعہ سالک صاحب نے ایوان صدر سے فون
پر بتایا کہ ستار صاحب آئیں تو انہیں بٹھائیں۔ شام کو وہ ستار صاحب کے آنے
سے پہلے ہی گھر آ گئے۔ حسب معمول ہشاش بشاش۔ کچھ ہی دیر بعد جناب عبدالستار
اور ان کی بیگم تشریف لے آئے۔ صدیق سالک اور زرینہ ان کے ساتھ ڈرائنگ روم
میں بیٹھ گئے۔ ہنسی مذاق کی ہلکی پھلکی باتیں ہونے لگیں۔ جناب عبدالستار نے
باہر کے کسی ملک کی داستان چھیڑی تو سالک کہنے لگے ’’میں نے قریب قریب ساری
دنیا دیکھی ہے۔ سبھی ملک سبھی بڑے شہر دیکھے ہیں لیکن مجھے کوئی جگہ بھی
اپنے پاکستان سے اچھی نہیں لگی اور پھر جو لوگ محض پیسے کی خاطر اپنا دیس
چھوڑ کر کہیں اور چلے جاتے ہیں ان کی نفسیات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ مجھے
تو بڑی سے بڑی پیش کش ہو تو میں اپنے پیاروں کو اپنی دھرتی کی مٹی کو چھوڑ
کر نہ جاؤں۔‘‘ سالک بولے جا رہا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ کل اس وقت
سے بہت پہلے وہ اپنے پیاروں کو چھوڑ چھاڑ کر وہاں جا چکا ہو گا۔ جہاں سے
کوئی کبھی لوٹ کے نہیں آتا اور اس کا لہو بستی لال کمال کی مٹی میں جذب ہو
چکا ہو گا۔
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جناب عبدالستار اور مسز ستار رخصت ہو گئے۔ رات کو
معروف سیاست دان جناب الٰہی بخش سومرو نے بریگیڈیئر سالک کو کھانے پر بلا
رکھا تھا۔ نو بجے کے لگ بھگ وہ سومرو صاحب کی طرف چلے گئے۔ رات بارہ بجے کے
قریب واپس آئے۔ آئینہ ابھی تک ابو کے انتظار میں جاگ رہی تھی۔ اس نے اٹھ کر
دروازہ کھولا۔ باقی لوگ بھی جاگ گئے۔ صدیق اپنے کمرے میں آ گئے۔ صائمہ سے
کہا کہ دودھ کا ایک گلاس گرم کر لاؤ۔ پھر بچے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اپنے
ابو سے یہ ان کی آخری ملاقات تھی۔ سالک حسب عادت بریف کیس سے ایک کتاب لے
کر پڑھنے لگے۔ انہوں نے سونے سے پہلے بیگم کو بتایا کہ صبح صدر صاحب کے
ساتھ بہاولپور جانا ہے۔ صبح ساڑھے سات بجے تک ناشتہ مل جانا چاہئے۔ بیگم
زرینہ نے گفتگو کے سیاق وسباق سے بالکل لاتعلق ایک سوال پوچھا ’’آج محرم کی
کون سی تاریخ ہے۔‘‘ سالک نے جواب دیا ’’آج محرم کی تین ہے۔‘‘ بیگم زرینہ آج
تک یہ نہیں سمجھ پائیں کہ انہوں نے یہ سوال کیوں کیا تھا۔ اس رات صدیق سالک
نے خلاف معمول بچوں سے کہا تھا ’’خدا حافظ۔‘‘ عام طور پر وہ گڈ نائٹ یا شب
بخیر کہا کرتے تھے۔
٭٭٭٭٭
پھر 17 اگست کا قیامت خیز سورج طلوع ہوا۔
صدیق سالک صبح ہی صبح تیار ہوگئے۔ باورچی نے ناشتہ تیار کرنے میں تھوڑی دیر
کر دی۔ وہ بیلٹ باندھتے باندھتے خود ہی باورچی خانے میں چلے گئے۔ وہیں جلدی
جلدی ناشتہ کیا۔ علم دین نے ان کا بریف کیس گاڑی میں رکھ دیا۔ بیگم زرینہ
سالک کی طبیعت میں آج عجیب قسم کی بے کلی تھی۔ وہ ابھی تک بستر میں تھیں۔
عام طور پر وہ شوہر کے ساتھ ہی اٹھ جاتیں اور جب تک وہ رخصت نہ ہو جاتے ان
کے ساتھ رہتیں۔ آج انہوں نے خاوند سے طبیعت کی خرابی کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر کے
پاس جانے کی بات کی اور وہیں سے انہیں خدا حافظ کہہ دیا۔ سالک سیڑھیاں اتر
کے نیچے آ رہے تھے کہ بیگم زرینہ کو خلش سی ہوئی۔ انہوں نے سوچا کہ مجھے
نیچے جا کر خدا حافظ کہنا چاہئے۔ وہ اٹھیں۔ دیکھا تو سالک سیڑھیوں میں کھڑے
اپنے آج کے پروگرام والا کارڈ نکالے پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے لمبی مسافتوں پر
روانہ ہوتے رفیق سفر کو خدا حافظ کہا اور نڈھال قدموں سے اپنے کمرے میں
واپس چلی گئیں۔
٭٭٭٭٭
17 اگست کا بیمار سورج مارگلہ کی پہاڑیوں سے ذرا اوپر صلیب پر لٹکا ہوا
تھا۔ بیگم زربینہ کے رگ وپے میں عجیب سی سنسنی تھی۔ بے نام سی وحشت۔ صحیفہ
اپنے ماموں کے ہاں لاہور گئی ہوئی تھی۔ سرمد اگست کی حبس زدہ شام اپنے کمرے
میں سویا ہوا تھا۔ آئینہ اور صائمہ آنے والی قیامت سے بے خبر اپنے کمرے میں
بیٹھی تھیں۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ ایک مقامی صحافی نے پوچھا ’’سالک صاحب
ہیں؟‘‘ بیگم نے جواب دیا ’’وہ بہاولپور گئے ہیں۔‘‘ پھر مسلسل اسی نوعیت کے
فون آنے لگے۔ بیگم کو پہلا خیال یہ آیا کہ شاید ملک میں کوئی خاص بات ہو
گئی ہے۔ صحافی کسی اہم خبر کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں یا اس کی تفصیلات جاننا
چاہتے ہیں۔ انہوں نے صائمہ سے کہا کہ اب تم فون سن لینا۔
جب پراسرار ٹیلی فون کا سلسلہ نہ رکا تو صائمہ نے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کو
فون کر کے صورت حال جاننا چاہی۔ آئی ایس پی آر رابطہ کیا تو اطلاع ملی کہ
گاڑی سالک صاحب کو لینے ایئرپورٹ گئی ہوئی ہے۔ خدشے سر اٹھانے لگے تھے اور
انہونی کا آسیب جاگ اٹھا تھا۔ بیگم زرینہ سالک دھڑدھڑ سرمد کے کمرے کا
دروازہ پیٹنے لگیں ’’سرمد اٹھو! لوگ بار بار تمہارے ابو کا پوچھ رہے ہیں۔‘‘
سرمد نے بھی یہی جانا کہ کسی اہم خبر کا معاملہ ہو گا۔ لیکن ماں نے اسے
اٹھا دیا۔ سرمد بھی فون پر آ بیٹھا۔ آرمی ہاؤس لائن ملائی۔ پریذیڈنسی رابطہ
کیا کچھ پتہ نہ چلا۔ بیگم زرینہ سالک نے اسلام آباد ہی میں مقیم اپنے بھائی
رفیق کو فون کیا اور پھر خود بھی ان کے ہاں چلی گئیں۔ بے خبری کی اذیت ڈسنے
لگی تھی اور روح فرسا خبر سماعتوں سے دور ہونے کے باوجود رگوں میں زہر
گھولنے لگی تھی۔ صلیب پر لٹکا سورج مارگلہ کے اس پار گہری قبر میں دفن ہو
چکا تھا۔ رات کے آٹھ بجے ٹیلی ویژن پر خصوصی بلیٹن میں نامطلوب المیے کی
خبر سالک کے گھر کے مکینوں نے بھی سنی اور زمانے بھر کے اندھیرے اسلام آباد
کے سیکٹر ایف 1/8 کے اس مکان میں اتر آئے۔
٭٭٭٭٭
صدیق سالک ایک وفا شعار ساتھی کی طرح اپنے چیف کے ساتھ لمبے سفر پر روانہ
ہو گیا تھا۔ وہ ہر تقریب میں ضیاء کے ساتھ رہتا تھا۔ ہر سفر پر اس کے ساتھ
ہوتا تھا۔ کچھ عرصہ قبل سالک نے کہا تھا ’’سر میں فوج سے رخصت لینا چاہتا
ہوں۔‘‘ اور ضیاء نے جواب دیا تھا ’’ٹھہر جائیں سالک صاحب اتنا عرصہ میرے
ساتھ گزارا ہے اکٹھے ہی چلیں گے۔‘‘ اور آج وہ اکٹھے عرش کی رفعتوں کو پرواز
کر گئے تھے۔
سالک کے گھر لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ چودھری شجاعت‘ آغا ناصر‘ جنرل کے ایم
عارف‘ جاوید جبار پہلے آنے لگے۔ اس کا حلقہ تعارف بہت وسیع تھا لیکن رفاقت
کا حلقہ بے حد محدود۔ آخری دنوں میں ان کے حلقہ احباب میں صرف چند افراد
شامل تھے۔ سید ضمیر جعفری‘ غلام ربانی اگرو‘ جنرل کے ایم عارف‘ فتح محمد
ملک‘ بریگیڈیئر بشیر احمد ملک‘ بریگیڈیئر افتخار اور الٰہی بخش سومرو۔ ہفتے
میں کم ازکم ایک بار دوستوں کی منڈلی ضرور جمتی تھی۔ آج یہ سب دوست سالک
صاحب سے ملنے آئے تھے لیکن کوئی انہیں خوش آمدید کہنے والا نہ تھا۔ دوست
سوچ رہے تھے کہ سالک کو کیا ہو گیا ہے؟ جس کی باتوں میں گلوں کی خوشبو تھی
وہ خاموش ہو چکا تھا۔ اس کا تابوت صرف دس منٹ گھر رکھا گیا اور پھر اسے
زیرو پوائنٹ کے قریب اسلام آباد کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
٭٭٭٭٭
بیگم زرینہ سالک‘ ماضی کی کتنی ہی یادوں کی پوٹلی اٹھائے اسلام آباد کے
وسیع وعریض گھر میں بے مقصد ادھر ادھر گھومتی رہتی ہیں۔ اکثر وہ سالک کی
سٹڈی میں جا بیٹھتی اور کھلی کھڑکی سے مارگلہ کی ان پہاڑیوں کو دیکھتی رہتی
ہیں جو سالک کو بے حد عزیز تھیں۔ کبھی کبھار وہ اوپر کی منزل سے اترتے زینے
کی چوتھی سیڑھی پر آ کھڑی ہوتی ہیں۔ 17 اگست کو اسی سیڑھی پر کھڑے ہو کر
سالک نے اپنے پروگرام کا جائزہ لیا تھا۔ بیگم زرینہ سے مرحوم شوہر کی بات
کی جائے تو ان کے زخموں سے لہو رسنے لگتا ہے۔
’’میں ان کی کس کس بات کا ذکر کروں۔ ان کی تو ایک ایک بات یاد رکھنے والی
ہے۔ پتہ نہیں وہ کس مٹی کے بنے ہوئے تھے۔ گھر آتے لیکن ہمیشہ ہنستے مسکراتے
رہتے۔ بچوں سے ان کی دوستی تھی۔ ہر موضوع پر ہر طرح کی باتیں ان سے کرتے
تھے۔ کبھی کبھار میں ٹوکتی تو ہنس دیتے۔ اپنے اس گھر میں آنے کی بہت خواہش
تھی۔ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ہی ہم یہاں آئے ہیں۔ شاید انہیں کسی خطرے کا
احساس ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی کہتے کہ ’’دیکھو انسان کی زندگی کا کچھ بھروسہ
نہیں۔ کسی بھی وقت سڑک پر کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہر طرح کے حالات
کے لئے تیار رہنا چاہئے۔‘‘ میں کبھی کہتی کہ ’’اﷲ کرے آ پکی زندگی میں مجھے
موت آئے۔‘‘ تو ہنس کر کہتے ’’سیدھی طرح کیوں نہیں کہتیں کہ اﷲ کرے تو زندہ
ہو جائے۔‘‘ انہوں نے زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لئے محنت اور مشقت کی۔
خود غربت کے دکھ جھیل چکے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے بچے خوشحال زندگی
گزاریں۔ وہ خود تو چلا گیا لیکن ہمیں اپنے گھر کی چھت کے نیچے بٹھا گیا۔ آج
ہم اپنے گھر میں عزت کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ سالک صاحب کے قریبی دوست ہمارا بہت
خیال رکھتے ہیں۔ بیگ صاحب کی بیگم جہاں ملتی ہیں بڑی عزت سے ملتی ہیں۔ آئی
ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر ریاض اﷲ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر ان سب کی شکرگزار ہوں۔‘‘
٭٭٭٭٭
صحیفہ‘ سالک کی سب سے بڑی بیٹی ہوبہو اپنے ابو کی تصویر ہے۔ وہی شباہت‘ وہی
ادب سے وابستگی اور وہی انداز گفتگو۔
’’ابو سے میری آخری ملاقات 12 اگست کو لنگڑیال میں ہوئی جہاں خالہ نسیم کی
شادی پر گئی ہوئی تھی۔ اس دن انہوں نے گرے سوٹ پہن رکھا تھا جو انہیں بہت
اچھا لگ رہا تھا۔ ان کے سرکے بال بھی گرے ہو رہے تھے۔ امی کہتی تھیں کہ کچھ
لگایا کریں لیکن میں مخالفت کرتی تھی۔ گرے بال انہیں بہت سجتے تھے۔ وہ اکثر
کوئی بھی کپڑا پہنتے تو ہم سے پوچھتے کیسا لگ رہا ہے؟ کبھی پوچھتے اس سوٹ
کے ساتھ یہ ٹائی کیسی ہے۔ اس جیکٹ میں یہ رومال کیسا ہے؟ ہم لوگ اعتراض
کرتے تو کہتے ’’سادھا ں نوں کی لگے سواداں نال‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی رومال
یا ٹائی تبدیل کر لیتے۔ 12 تاریخ کو انہوں نے گرے رنگ کے شلوار قمیص اور
واسکٹ پہن رکھے تھے جو ان پر بہت جچ رہے تھے۔ میں ملی تو کہنے لگے ’’دولہا
سے کتنے پیسے ملے ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’مانگے تو دس ہزار تھے لیکن دو ہزار
ملے ہیں۔‘‘ ابو ہنسنے لگے اور بولے ’’اوہو! تمہارے ساتھ تو چالاکی ہو
گئی۔‘‘ پھر انہوں نے بریف کیس کھولا۔ مجھے پانچ سو روپے اور لاہور سے پنڈی‘
کے لئے پی آئی اے کا ٹکٹ دیتے ہوئے کہا۔ ’’ماموں کے ہاں بے شک جاؤ لیکن جب
دیکھو کہ اب وہ لوگ تنگ آنے لگے ہیں تو واپس آ جانا۔ بکنگ وغیرہ سلسلے میں
کوئی پریشانی ہو تو فلاں افسر سے بات کرنا وہ سارا کام کرا دے گا۔‘‘
17 اگست کی صبح میرا جی خوامخواہ اسلام آبادجانے کو چاہنے لگا۔ میں نے صبح
ہی صبح ابو کے دفتر فون کیا۔ پی اے نے بتایا کہ وہ ملتان گئے ہیں۔ شام کو
آئیں گے۔ پھر گھر فون کیا۔ گھر سے بھی یہی خبر ملی۔ اس کے بعد میں پی آئی
اے بکنگ آفس گئی اور دو دن بعد یعنی 19 اگست جمعہ کے لئے بکنگ کروائی۔ شام
کو چھ بجے کے لگ بھگ میں نے ایک بار پھر اسلام آباد فون ملایا۔ ابو ابھی تک
واپس نہیں آئے تھے بلکہ گھر پر کوئی بھی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ میں نے
رفیق ماموں کے ہاں فون کیا۔ امی وہاں بیٹھی تھیں۔ انہوں نے اتنا بتایا کہ
ابو ابھی واپس نہیں آئے۔ تھوڑی دیر تک آ جائیں گے۔ آٹھ بجے کے لگ بھگ میں
بے دھیانی میں ٹی وی روم میں گئی۔ ممانی بڑے غور سے ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔
اس وقت سورۂ رحمن کی تلاوت ہو رہی تھی۔ پھر صدر ضیاء الحق کا پورٹریٹ آیا۔
میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ شاید ان کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے۔ پھر
جہازکے کریش ہونے کی خبر نشر ہوئی تو صبر کے سب بند ٹوٹ گئے۔ ممانی مجھے
تسلی دینے لگیں۔ شاید وہ بہاولپور سے اس طیارے میں نہ بیٹھے ہوں۔ پھر مجھے
جنرل سردار ایف ایس لودھی کا خیال آیا۔ ان کا طیارہ گر گیا تھا لیکن وہ بچ
گئے تھے۔ میں اندھیرے میں جگنو تلاش کرتی رہی۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل کہہ
رہا تھا ابو بچ جائیں گے۔ لیکن 9 بجے کے لگ بھگ امید کی ہر کرن گہری
تاریکیوں میں غرق ہو چکی تھی۔
پی آئی اے کی کوئی فلائٹ دستیاب نہ تھی۔ میں باقی عزیزوں کے ساتھ کار کے
ذریعے رات کو اسلام آباد پہنچ گئی لیکن میرا ابو‘ میرا دوست‘ میرا غمگسار
مجھ سے ہمیشہ کے لئے روٹھ چکا تھا۔
ابو بے حد محبت کرنے والے تھے۔ ہمارے دلوں کو ہماری آنکھوں سے پڑھ لیتے۔
کبھی ہم پر اپنی رائے نہ ٹھونستے۔ کبھی میں ان سے مشورہ لیتی تو اس کے تمام
پہلوؤں پر بڑی متوازن گفتگو کرتے اور اس وقت تک اپنی حتمی رائے نہ دیتے جب
تک میں خود اپنی رائے کا اظہار نہ کر دیتی۔ ہمارے گھر میں گھٹن نام کی کوئی
چیز نہ تھی۔ کسی طرح کی جھجک نہ تھی۔ وہ اپنی کتابوں پر بھی مجھ سے بات کیا
کرتے تھے۔ اپنی کتاب ’’ایمرجنسی‘‘ کا نام ’’جنت کے شیطان‘‘ رکھنا چاہتے تھے
لیکن میں نے کہا یہ اچھا نہیں لگتا۔ ’’پریشر ککر‘‘ کا ٹائٹل دکھا کر مجھ سے
رائے لی۔ اپنی آخری کتاب ’’سیلوٹ‘‘ لکھتے وقت بھی ایک سے زیادہ نام ان کے
زیرغور تھے۔ ایک دن انہوں نے ہم تینوں بہنوں کو بٹھایا اور پرچیاں ڈالیں۔
پرچیوں سے اکثریتی رائے ’’سیلوٹ‘‘ کے حق میں نکلی۔ اس پر وہ ہنسنے لگے۔
بولے ’’میرے بعد لوگ تمہارے انٹرویو لیں گے اور تمہارے ابو کس طرح کتابیں
لکھا کرتے تھے۔‘‘ تو تم کہنا کہ پرچیاں ڈالا کرتے تھے۔
میں نے ’’سیلوٹ‘‘ کا مسودہ پڑھا تو وہ کچھ بے وقعت سی لگی۔ اس میں ان کی
فوجی زندگی کی کہانی تھی لیکن فوجی زندگی ابھی جاری تھی۔ تو بعد میں پتہ
چلا کہ ان کی چھٹی حس نے انہیں بہت کچھ بتا دیا تھا۔ ان کا فوجی کیریئر اس
کتاب کا آخری باب رقم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔
ابو کو ادیب ہونے پر فخر تھا۔ وہ اپنا تعارف بھی اپنی کتابوں کے حوالے سے
کراتے تھے اور اپنے آپ کو صدر کا پریس سیکرٹری نہیں بتاتے تھے۔ انہیں صدر
ضیاء الحق کے بعض سیاسی اقدامات سے تو اختلاف تھا لیکن وہ صدر کی شخصیت ان
کی حب الوطنی‘ ان کے کردار کی مضبوطی اور ان کی امانت ودیانت کے معترف
تھے۔‘‘
صحیفہ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی بہت دور چلی گئی تھی اور اس کی بھیگی
آنکھوں میں اسلام آباد کی ڈھلتی رات کی پرچھائیاں ہلکورے لے رہی تھیں۔ وہ
انگریزی ادب میں ایم اے کا امتحان دے کر نتیجے کا انتظار کر رہی ہے۔ اسے
یقین ہے کہ وہ بہت اچھے نمبروں میں پاس ہو جائے گی لیکن اس کی کامیابی پر
اسے شاباش دینے والا‘ اسے تحفے دینے والا‘ اسے گلے سے لگا کر سر پر ہاتھ
رکھنے والا شفیق باب بہت دور جا چکا ہے۔
٭٭٭٭٭
سرمد سالک‘ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے جس طرح اس کا باپ صدیق سالک تین
بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ اسے باپ کی بے پایاں محبت اور توجہ ملی۔ اسے
منگلیہ کے محمد صدیق جیسی صعوبتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن وہ یہ جانتا
ہے کہ زندگی کی راہیں خود تراشنا پڑتی ہیں۔
ابو کو دھمکی آمیز خطوط ملتے رہتے تھے۔ ایک بار میں نے کہا تو کہنے لگے:
’’کیا میں صدر سے یہ کہوں کہ مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں اس لئے نوکری نہیں کر
سکتا۔‘‘
ابو بہت شفیق تھے۔ ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھتے۔ کبھی غصہ نہیں کرتے۔
ہمارے گھر کا ماحول انتہائی آزادانہ تھا۔ آخری دنوں میں انہوں نے امی کو
پنشن کے بارے میں تفصیلی معلومات دیں پھر مجھے اپنی کتابوں کی طباعت‘ نکاسی
اور رائلٹی کے بارے میں بتاتے رہے۔
٭٭٭٭٭
صائمہ 17 اگست کو فرسٹ ایئر کی کلاس کے لئے گھر سے نکلی۔ آج کالج میں اس کا
پہلا دن تھا اور ابو کی رفاقت کا آخری دن۔ اس نے وکیل بننے کی خواہش ظاہر
کی تھی اور ابو نے اس کی بات مان لی تھی۔ آئینہ سالک‘ ابو کی لاڈلی تھی۔ وہ
اسے پیار سے بلی کہا کرتے تھے۔ جب تک ابو واپس نہ آ جاتے وہ جاگتی رہتی۔ 16
اور 17 اگست کی درمیانی رات 12 بجے اسی نے ابو کے لئے دروازہ کھولا تھا۔ وہ
اب بھی راتوں کو دیر تک جاگتی رہتی ہے۔ شاید ابو واپس آ جائیں۔ سب سو گئے
تو دروازہ کون کھولے گا؟
٭٭٭٭٭
منگلیہ کا محمد صدیق‘ صدیق سالک بن کے رخصت ہو چکا ہے۔ اس نے چھ کتابیں
تصنیف کیں:
1- ہمہ یاراں دوزخ
2- میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا
ترجمہ (Witness to Surrender)
3- پریشر ککر (ناول)
4- ایمرجنسی (ناول)
5- تادم تحریر (مضامین)
6- سیلوٹ (سالک کی شہادت کے بعد شائع ہوئی۔
’’خوئے فرہاد لے کے پیدا ہونے والے سالک نے زندگی کی سنگلاخ چٹانوں کو اپنے
دست ہمت سے تراشا اور ان بلندیوں تک پہنچا جو نہ رحمت خان کے وہم و گمان
میں تھیں نہ عالم بی بی کے حاشیہ خیال میں۔ اس کی زندگی بھی قابل رشک تھی……
اس کی موت بھی قابل رشک ٹھہری۔ اپنی آخری کتاب کا مسودہ اس نے فیض کے ایک
شعر پر ختم کیا تھا:
فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے
اپنا کیا کنعا ں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے
لیکن وہ کنعاں میں تھا تو بھی عزیز جاں تھا۔ ’مصر‘ میں چلا گیا تو بھی
لاتعداد دلوں کی دھڑکنوں میں زندہ ہے۔ اسے ’اہل سیف‘ کے طو رپر نہ سہی‘
صاحب قلم کی حیثیت سے برسوں یاد کیا جاتا رہے گا۔
( یہ مضمون جناب عرفان صدیقی کا لکھاہوا ہے جو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کی
اشاعت اپریل 1990 میں شائع ہوا تھا یہ مضمون چونکہ تاریخ کا ایک بہت بڑا
حوالہ ہے اس لیے اسے جناب عرفان صدیقی سے شکریے کے ساتھ من و عن شائع کیا
جارہا ہے ۔)
|