خیرو، ایک بالکل عام ساکردار ہے کہ جو اب آہستہ آہستہ
اپنی یاداشت کھو رہا ہے اور یوں بھی خیرو کو بھلا، یاداشت سے کیا لینا دینا۔
اُس کے پاس یاد رکھنے کو ایسا دھرا ہی کیا ہے۔
عُمر کے پینتیس سال تنہا گلیوں میں گھومتا رہا، محنت مزدوری کی اور شام کو
دریا میں جاکر ایک گھنٹہ تیر کر دو گھنٹے سندھ دریا کے پانیوں کو آتا جاتا
دیکھتا رہا اور جب کبھی کسی کونجوں کے جوڑے کو دریا پراُترتے دیکھتا تو
اداس ہو جاتا۔
پھر اُس کی شادی ہو گئی، وہ بہت خوش تھا کہ اب کونج کا ایک اور جوڑا دریا
پر اُترے گا مگر پہلی رات ہی اُس کی بیوی نے کہا ’’ دور رہو مجھ سے، میں
کسی اور کی محبت ہوں‘‘ چند دن بعد وہ خیرو کو چھوڑ کرچلی گئی۔
خیرو آج بھی محنت مزدوری کرتا ہے شام کو ایک گھنٹہ تیرتا ہے اور دو گھنٹے
سندھ دریا کے پانیوں کو دیکھتا ہے جہاں اب بھی کونج کے جوڑے اُترتے ہیں۔
|