میں وکیل بھی ہوں اور ... ایک ایسے باہمت شخص کی داستان جو 70 سال سے ایک مشین میں قید ہے

image
 
پال الیگزینڈر کو لوہے کے پھیپھڑوں والے انسان کے نام سے جانا جاتا ہے جو 1952 سے خود سے سانس لے سکتا- پال 6 سال کی عمر میں پولیو وائرس کا شکار بنے اور 5 دنوں کے اندر ان کا گردن سے نیچے کا تمام دھڑ مفلوج ہوگیا-
 
اس وقت جب پال نہ سانس لے پا رہے تھے اور نہ ہی کوئی حرکت کر سکتے تھے تو ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا- لیکن ایک ڈاکٹر نے جلدی سے tracheostomy کا عمل شروع کردیا - یہ ایک ایسا طبی عمل ہے جس میں گردن کے اندر خلا پیدا ہوتا ہے جس سے انسان کے ونڈ پائپ میں ٹیوب لگائی جاسکتی ہے-
 
پال کو سانس دینے کے لیے iron lung مشین میں رکھا گیا اور وہ اسپتال میں 18 ماہ تک رہے-
 
image
 
پال نے مچ سمرز کی بنائی گئی ایک مختصر دستاویزی فلم میں کہا، "اس وقت لوگ مجھے پسند نہیں کرتے تھے، مجھے لگا کہ وہ میرے ارد گرد بے چین ہیں۔"
 
جب پال سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ان تمام دن کیا کیا، تو پال نے جواب دیا،“وہی کام جو باقی سب کرتے ہیں۔ میں اٹھا، دانت صاف کیا، چہرہ دھویا ، شیو کرتا تھا، ناشتہ کرتا تھا ۔ مجھے تھوڑی سی مدد کی ضرورت ہوتی تھی۔ میں پڑھتا یا مطالعہ کرتا، تصویر پینٹ کرتا یا کچھ ڈرائنگ کرتا۔ مجھے صرف ٹی وی دیکھنے سے نفرت تھی“۔
 
اسکول سے فارغ ہونے کے بعد پال کو کالج میں داخلہ نہیں دیا گیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ وہ بہت معذور" ہیں اور پولیو ویکسینیشن نہیں ہے۔
 
دو سال قائل کرنے کے بعد، کالج نے اسے دو شرائط پر قبول کیا: یہ کہ پال کو ویکسینیشن دی جائے اور ایک برادری اس کے لیے ذمہ دار ہو۔
 
 
ناقابل یقین حد تک، پال بار کے امتحانات میں کامیاب ہونے کے بعد وکیل بھی بن گئے۔
 
پال نے اپنی سوانح عمر اپنے منہ صرف اس لیے لکھی کہ لوگ ان سے متاثر ہوسکیں-
 
پال کا کہنا ہے کہ “ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہاں سے ہیں یا آپ کا ماضی کیا ہے، یا کن چیلنجوں کا آپ سامنا کر رہے ہیں، آپ واقعی کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ کو صرف اپنا ذہن بنانا ہوگا اور سخت محنت کرنی ہوگی “-
 
انہوں نے مزید کہا ، “میری کہانی اس بات کی ایک مثال ہے کہ آپ کا ماضی یا معذوری آپ کے مستقبل کی وضاحت کیوں نہیں کرتی“۔
YOU MAY ALSO LIKE: