قُرآنی معاشرت کے تین پہلُو اور تین اَحکام !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالنُور ، اٰیت 58 تا 61اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الذین اٰمنوا
لیستاذنکم الذین
ملکت ایمانکم والذین لم
یبلغواالحلم منکم ثلٰث مرٰت
من قبل صلٰوة الفجروحین تضعون
ثیابکم من الظھیرة ومن بعد صلٰوة
العشاء ثلٰث عورٰت لکم لیس علیکم ولا
علیھم جناح بعدھن طوٰفون علیکم بعضکم
علٰی بعض کذٰلک یبین اللہ لکم الاٰیٰت واللہ علیم
حکیم 58 واذا بلغ الاطفال منکم الحلم فلیستاذنوا
کمااستاذن الذین من قبلھم کذٰلک یبین اللہ لکم اٰیٰتهٖ و
اللہ علیم حکیم 59 والقواعد من النساء الٰتی لایرجون
نکاحا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن غیر متبرجٰت
بزینة وان یستعففن خیرلھن واللہ سمیع علیم 60 لیس علی
الاعمٰی حرج ولاعلی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج ولا علٰی
انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم او اٰبائکم او بیوت امھٰتکم او بیوت
اخوانکم او بیوت اخوٰتکم او بیوت اعمامکم او بیوت عمٰتکم او بیوت
اخوالکم او بیوت خٰلٰتکم او ماملکتم مفاتحه او صدیقکم ولیس علیکم ان
تاکلوا جمیعا او اشتاتا فاذا دخلتم بیوتا فسلموا علٰی انفسکم تحیة من عند اللہ
مبٰرکة طیبة کذٰلک یبین اللہ لکم الاٰیٰت لعلکم تعقلون 61
اے ایمان دار لوگو ! سُورج نکلنے سے پہلے ، دوپہر ڈھلنے کے بعد اور شام کا اندھیرا گہرا ہونے کے بعد جب تُم اپنے تَخلیۓ میں اپنے پہناوے سے بے غرض ہوتے ہو تو تُمہارے اِن تین اَوقات کے دوران تُمہارے گھر کے جوان ملازم اور تُمہارے نوجوان بچے تُمہاری اجازت کے بغیر تُمہارے تَخلیۓ میں نہ آئیں ، کیونکہ یہ تین اَوقات تُمہارے تَخلیۓ کے اَوقات ہیں ، اِن تین اَوقات کے علاوہ تُمہارا ایک دُوسرے کے پاس آنا اور جانا جائز ھے کیونکہ تُمہارے اَوقاتِ کار کے دوران تُمہارا ایک دُوسرے کے پاس آنا جانا تُمہارے معمول کا آنا جانا ھے ، اللہ تعالٰی نے اپنے وسیع علم سے اور اپنی وسیع حکمت سے تُم کو یہ حُکم دیا ھے جس پر تُم نے بہر حال عمل کرنا ھے ، جب تُمہارے نوجوان بچے جوان ہو جائیں تو وہ بھی اسی طرح تُمہارے گھر میں دَستک دے کر آئیں جس طرح تُمہارے دُوسرے جوان اَفرادِ خانہ تُمہارے گھر میں دَستک دے کر آتے ہیں ، اللہ تعالٰی نے اپنے پہلے اَحکام کے بعد یہ دُوسرے اَحکام بھی اپنے اُسی علم کے مطابق دیۓ ہیں اور اُسی حکمت کے تحت دیۓ ہیں اور تُم نے اِن دُوسرے اَحکام پر بھی پہلے اَحکام کی طرح بہر حال عمل کرنا ھے ، تُمہاری جن عورتوں کی نکاح کی عُمر گزر چکی ھے اور جن کا پہناوا بھی بھڑکیلا نہیں ھے تو اُن پر اُن اوڑھنیوں کا اوڑھنا لازم نہیں ھے جن اوڑھنیوں کا اوڑھنا نکاح کی عُمر والی عورتوں کے لیۓ لازم ھے لیکن اگر ڈھلتی عُمر میں ڈھلی ہوئی وہ عورتیں اِس کا اہتمام کرتی رہیں تو یہ اُن کے عزمِ خیر کا ایک عملِ خیر ھے ، اللہ تعالٰی نے تُم کو یہ تیسرا حُکم بھی اپنے وسیع علم کی وسیع حکمت کی بنا پر دیا ھے جس پر تُم نے عمل کرنا ہی کرنا ھے ، تُم میں سے جو انسان اپنی دونوں آنکھوں سے محروم اور جو انسان اپنی ایک ٹانگ سے معذور اور جو انسان بیمار ھے اُس کو کم تَر جان کر تُم نے اُس کے اپنے گھر میں آنے جانے کو بُرا نہیں جاننا ھے اور اُس کو کھانے پلانے میں بھی کوتاہی نہیں کرنی ھے ، تُم اُس کے ساتھ اپنے گھروں میں ، اپنے باپ داد کے گھروں میں ، اپنی ماں اور نانی کے گھروں میں ، اپنے بھائیوں کے گھروں میں ، اپنی بہنوں کے گھروں میں ، اپنے پاب کے بھائیوں کے گھروں میں ، اپنے باپ کی بہنوں کے گھروں میں ، اپنی ماں کے بھائیوں کے گھروں میں ، اپنی ماں کی بہنوں کے گھروں میں ، اپنے پاس کلیدِ حفاظت رکھے ہوۓ گھروں میں اور اپنے دوستوں کے گھروں میں کھا پی سکتے ہو اور تُم اپنے اِس ارادے میں بھی آزاد ہو کہ تُم چاہو تو مل کر ایک ساتھ کھاؤ اور چاہو تو اَلگ اَلگ بیٹھ کر کھاؤ لیکن اِس بات کا خیال رکھو کہ تُم جن گھروں میں آؤ اور جاؤ اُن گھروں میں رہنے والوں کو سلامتی کی دُعا دیتے ہوۓ آؤ اور جاؤ کیونکہ اپنے اہلِ تعلق کو سلامتی کی دُعا دینا اور اپنے اہلِ تعلق کی سلامتی کا اہتمام کرنا وہ عمل ھے جس عمل کا نتیجہ بھی خیر اور سلامتی ھے ، اللہ تعالٰی نے اپنے اِن اَحکام میں تمہیں ایک ایک بات سکھا اور سمجھادی ھے تاکہ تُم عقل کو کام میں لانے کے ہر موقعے پر عقل کو کام میں لاؤ اور عقل سے کام لو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورَت کے ابتدائی تعارف میں ھم عرض کرچکے ہیں کہ اِس سُورت کا موضوعِ سُخن وہ قدیم انسانی معاشرہ اور وہ قدیم انسانی معاشرت ھے جس کے کُچھ آثار وقت سے وقت میں سفر کرتے ہوۓ قُرآنِ کریم کے عھدِ تَنزیل تک آۓ تھے اور کُچھ آثار وقت کی گرد کی گرد کے ساتھ گرد ہو کر فنا ہو چکے تھے اور اِس کے جو آثار نزولِ قُرآن کے زمانے تک آۓ تھے قُرآنِ کریم نے اُن آثار کی اِس سُورت کی مُختلف اٰیات میں مُختلف طریقوں سے تصحیح و تجدید اور اصلاح و نشو و نما کی ھے اور اَب جب کہ یہ سُورت اپنے کلمہِ اختتمام کی طرف بڑھ رہی ھے تو قُرآنِ کریم نے اِس موضوع کو ایک نتیجہ خیز موضوعِ بنانے کے لیۓ اِس موضوع پر ایک نتیجہ خیز تبصرہ کرکے اِس موضوع کو زندہ انسانی معاشرے کے لیۓ ایک نئی زندگی دے دی ھے تاکہ قُرآن کا تا دیر زندہ رہنے والا معاشرہ انسان کی اُس زندہ انسانی معاشرت کو تادیر زندہ رکھ سکے جو انسان اور انسانیت کا اجتماعی ورثہ ھے اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے اپنی اِس سُورت کی اِن تین اٰیات میں انسانی معاشرت کے وہ تین معاشرتی پہلو اُجا گر کیۓ ہیں جن کو زندہ رکھنے سے انسان کا سارا معاشرہ زندہ اور انسان کی ساری معاشرت زندہ ہو جاتی ھے ، اِن تین اٰیات میں سے پہلی اٰیت میں جو پہلا وضاحت طلب لفظ آیا ھے وہ "ملکت" بروزنِ "فعلت" ھے جو واحد مؤنث غائب فعل ماضی کا صیغہ ھے اور جس کا معنٰی کسی کا کسی زیرِ ملکیت چیز کا مالک ہونا ہوتا ھے اور اِس لفظِ "ملکت" کا لونڈیوں اور غلاموں کو زیرِ ملکیت رکھنے کا جو روایتی مفہوم عُلماۓ روایت پیش کرتے ہیں وہ مفہوم ماضی کی ملکیتو میں مل کر ماضی کی ایک ملکیت بن چکا ھے اور جو لوگ طاغوت کے پیروکار ہیں وہ ابھی تک اسی مُردار کو کھا رھے ہیں لیکن اُسلوبِ کلام میں اِس اصطلاح و متعلقاتِ اصطلاح کا آجر اور اجیر کے باہمی تعلق پر بھی اطلاق ہوتا ھے اِس لیۓ اِس مقام پر اِس کا یہی عام مالک و عام مملوک والا معنٰی مُراد ھے جس کے اطلاقات و متعلقات موجُود ہیں اور اِس کا وہ مُردہ معنٰی مُراد نہیں ھے جس کا کوئی اطلاق بھی موجُود نہیں ھے اور جس کا کوئی متعلق بھی موجُود نہیں ھے اور چونکہ اِس کلامِ موصُول کا صلہ "اَیمان" ھے جس کی اَصل فرد کا سیدھا ہاتھ نہیں ھے بلکہ فرد کی ذاتی سعادت ھے اِس لیۓ اِس سے مُراد گھروں میں کام کرنے والے وہ سعادت مند اَفراد ہیں جن کی سعادت مندی کو دیکھ کر ہی اُن کو گھروں میں رکھا جاتا تھا اور آج بھی رکھاجاتا ھے ، اِس اٰیت میں گھروں میں آنے جانے اور گھروں میں کام کاج کرنے والے اِن سعادت مند اَفراد کے بعد گھر کے اُن نوجوان بچوں کا ذکر بھی ہوا ھے جو ابھی اتنے جوان نہیں ہوۓ ہوتے کہ وہ مرد و زن کے جسمانی تعلق کا مفہوم سمجھ سکیں اِس لیۓ اِس مقام پر بھی"نوجوان" سے اُس زمانے کا وہ معروف نوجوان مُراد نہیں لیا جاۓ گا جس کا دائرہِ علم بہت محدُود تھا بلکہ اِس سے اِس زمانے کا وہ نوجوان مُراد لیا جاۓ گا جو اپنے علمی و عملی وسائل کے اعتبار سے بڑوں کے اِن بڑے مسائل کو بڑوں سے کہیں زیادہ جانتا ھے اور بڑوں سے کہیں زیادہ سمجھتا ھے اور اسی لیۓ سلسلہِ کلام کی دُوسری اٰیت میں بھی اِن ہی اَفراد کی اسی بڑھتی ہوئی اور بڑھی ہوئی عُمر کی مزید وضاحت کی گئی ھے تاکہ انسان لکیر کا فقیر بن کر اِن معاشرتی مسائل کا تجزیہ نہ کرے بلکہ ایک علمی و عملی انسان بن کر اِن معاشرتی مسائل کا تجزیہ و تصفیہ کیا کرے ، جہاں تک تیسری اٰیت کا تعلق ھے تو اِس میں قُرآنِ کریم نے انسان کے اُن تمام معاشرتی رشتوں کا اور اُن معاشرتی رشتوں سے جُڑے ہوۓ تمام رشتوں کا بھی ذکر کر دیا ھے جن معاشرتی رشتوں کے ساتھ ہر انسان ملتا جُلتا رہتا ھے اور جو معاشرتی رشتے ہر انسان کے ساتھ ملتے جُلتے رہتے ہیں لیکن اِس سلسلہِ کلام کی سب سے اھم بات یہ ھے کہ اِن تمام رشتوں اور تمام رشتوں کے رشتو کے درمیان رابطے کا رشتہ اُن محروم و معذور اور بیمار لوگوں کو بنایا گیا ھے جن کو اُن کی محرومی و معذوری اور ناداری و بیماری کی بنا پر اپنے بھی قریب نہیں آنے دیتے لیکن اللہ تعالٰی نے معاشرے کے اِن نادار و بیمار اور معذور و محروم انسانوں کو انسانی معاشرے کے دو طرفہ رشتوں کا ایک مُشترکہ رشتہ دار بنا دیا ھے اور اِس لحاظ سے یہ تین اٰیات تین اٰیات نہیں ہیں بلکہ علم و عمل کے وہ تین گہرے سمندر ہیں جن سے انسان نے عُمر بھر علم و عمل کے نقشوں کو تلاش کرتے رہنا ھے اور جن نقشوں کو عُمر بھر ہر ایک انسان نے خود بھی سمجھتے رہنا ھے اور دُوسروں کو بھی سمجھاتے رہنا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 460484 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More