#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالنُور ، اٰیت 55 تا 57
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
عد اللہ
الذین اٰمنوا
منکم وعملوا
الصٰحٰت لیستخلفنھم
فی الارض کما استخلف
الذین من قبلھم ولیمکنن لھم
دینھم الذی ارتضٰی لہم ولیبدلنہم
من بعد خوفھم امنا یعبدوننی لا یشرکون
بی شیئا ومن کفر بعد ذٰلک فاولٰئک ھم الفٰسقون
55 واقیمواالصلٰوة واٰتواالزکٰوة واطیعواالرسول لعلکم
تفلحون 56 لاتحسبن الذین کفروامعجزین فی الارض وماوٰہم
النار ولبئس المصیر 57
تُم میں سے جو لوگ اللہ کی زمین پر اللہ کے اَزلی و اَبدی قوانین کے مطابق
ایمان و اطمینان کے ساتھ رہنا چاہیں گے اور اپنی علمی و عملی صلاحیت کے
مطابق صلاحیت بخش کام کرتے رہیں گے تو اُن سارے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالٰی
کا یہ اَزلی و اَبدی وعدہ ھے کہ اللہ تعالٰی اُن کو اپنی زمین پر اُسی طرح
اقتدارِ زمین و اختیارِ زمین کا مالک بناتا رھے گا جس طرح اُن سے پہلے
لوگوں کو اپنی زمین پر اقتدارِ زمین و اختیارِ زمین کا مالک بناتا رہا ھے
اور زمین کے جو مکین قُرآن کے اِس دین کو اپنا آئین بنائیں گے تو اللہ
تعالٰی اپنی اِس زمین کو اُن کے لیۓ ایک بہشتِ بریں بناکر اُن کے رَنجِ
حیات کو راحتِ حیات بنا دے گا اور قُرآن کے اِس پسندیدہ دین کو اُن کا
مُحافظ و اَمین بنا دے گا اِس لیۓ تُم لوگ میری ذات و صفات میں اور میرے
اَحکامِ حیات میں کبھی بھی کسی اور کو شریک نہ کرنا اور میری بندگی کے ساتھ
کبھی بھی کسی اور کی بندگی اختیار نہ کرنا اور تُم میں سے جو شخص بھی ایسا
کرے گا وہ اپنی اِس سر کشی سے اپنا ہی نقصان کرے گا ، اگر تُم زمین میں
میرے نظامِ جہان کا استحکام ، اپنے تزکیہِ رُوح و جان کا اہتمام اور میرے
رسُول پر نازل ہونے والی میری اِس کتابِ جہان کے اَحکامِ جہان کا احترام
کرتے رہو گے تو تُم اپنے دُشمنوں پر ہمیشہ غالب آتے رہو گے اور تُمہارے
دُشمن تُم سے ہمیشہ مغلوب ہو تے رہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں انسان کو دی جانے والی جس زمینی و زمانی خلافت کا مشروط
بالعلم اور مشروط بالعمل وعدہ کیا گیا ھے اُس کا ایک مفہوم اللہ تعالٰی کی
کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر زمان و مکان میں زمان و مکان کی کسی عالِم
بالعلم اور عامل بالعمل قوم کی جگہ پر کسی دُوسری عالِم بالعلم اور عامل
بالعمل قوم کا جانشین بن کر آنا ھے اِس بات سے قطع نظر کہ اُس پہلی اور
دُوسری قوم کے پاس اُس کے عصری علم و عصری عمل کے علاوہ اُس کا دینی نظریہِ
حیات کیا ھے اور کیا نہیں ھے ، زمینی خلافت کے اِس وسیع مفہوم کے مطابق
زمین کے ہر ایک رَنگ اور زمین کی ہر ایک نسل کا ہر ایک عالِم و عامل انسان
اِس خلافت میں شامل ھے ، انسان کی اِس زمینی و زمانی خلافت کا دُوسرا مفہوم
یہ ھے کہ زمان و مکان سے جو عالِم بالعلم اور جو عامل بالعمل قوم جاتی ھے
اور اُس کی جگہ پر جو دُوسری عالِم بالعلم اور عامل بالعمل قوم آتی ھے اُس
قوم کا ایک دینی نظریہ حیات بھی ہوتا ھے جس کے مطابق وہ خود بھی زندگی بسر
کرتی ھے اور دُوسرے اہلِ زمین کو بھی اُس دینی نظریۓ کے مطابق زندگی بسر
کرنے کی ترغیب دیتی رہتی ھے اور انسان کی اِس زمینی خلافت کا تیسرا مفہوم
یہ ھے کہ زمان و مکان سے جو پہلی قوم جاتی ھے اور اُس کی جگہ پر جو دُوسری
قوم آتی ھے وہ عالِم بالعلم و عامل بالعمل ہو یا نہ ہو لیکن وہ زمینی و
زمانی خلافت کا خود کو اِس بنا پر حق دار سمجھتی ھے کہ وہ اللہ تعالٰی کی
زمین پر اللہ تعالٰی کی وہ پسندیدہ قوم ھے جس قوم کے پاس اللہ تعالٰی کا
پسندیدہ دین ھے اور وہ اللہ تعالٰی کی زمین پر اپنی اِس دینی خُوبی کی بنا
پر ایک ایسی مُنفرد قوم ھے جو بِلا شرکتِ غیرِخلافتِ زمین کی ایک جائز دعوے
دار اور ایک جائز حق دار قوم ھے ، زمین پر اپنے اپنے دین کی تمام دعوے دار
قومیں اپنے اسی نظریۓ کی حامل اور اپنے اسی نظریۓ کی حامی ہیں اور شب و روز
اپنے اسی دینی نظریۓ کے لیۓ کام کرتی ہیں ، خود غرضی و خود خیالی کا یہ
خیالی نظریہ دُنیا میں سب سے پہلے یہُود نے پیش کیا جس سے نصارٰی نے اَخذ
کیا ھے اور بعد ازاں آتے آتے یہی خیال اہلِ اسلام میں بھی آتا چلا گیا ھے
اور دُنیا میں اپنی جگہ بناتا چلا گیا لیکن اِس خیال میں پہلی بُنیادی خامی
یہ ھے کہ اِس خیال نے اپنے سوا زمین کے تمام انسانوں کو حقِ حیات ، حق
آزادیِ حیات اور حقِ خلافتِ حیات سے یکطرفہ طور محروم کر دیا ھے اور اِس
خود غرضی و خود خیالی کے خود ساختہ نظریۓ میں دُوسری بُنیادی خرابی یہ ھے
کہ اِس نظریہ نے دین کے اِس مقصدی نظریۓ کو یکسر فراموش کر دیا ھے کہ دین
کا پہلا اور آخری مقصد دین کا وہ مُجرد وصف نہیں ھے جو دین کی ظاہری علامات
پر مُشتمل ھے بلکہ دین کا پہلا اور آخری مقصد زمین پر وہ عدل و انصاف قائم
کرنا ھے جو عدل و انصاف کالے اور گورے کے اور دینی و غیر دینی کے جُملہ
جاہلانہ امتیازات کو ختم کر کے ہر ایک دین و مذہب اور ہر ایک رَنگ و نسل کے
ہر ایک انسان کو انسانیت کی بُنیاد پر برابری کی بُنیاد پر اُس کے وہ تمام
انسانی و معاشرتی حقوق فراہم کرے جو اللہ تعالٰی نے اُس کو دیۓ ہیں ، اگر
اللہ تعالٰی کو زمین پر صرف یہودیت کا وجُود مطلوب ہوتا تو وہ زمین پر یہُو
دیت کے بعد مسیحیت کو پیدا ہی نہ ہونے دیتا ھے اور اگر اللہ تعالٰی کو زمین
پر صرف یہُودیت و مسیحیت ہی مطلوب ہوتی تو اِن دونوں کے بعد وہ زمین پر
اسلام و اہلِ اسلام کو پیدا نہ کرتا اور اِن سب اَدیان کے علاوہ بھی زمین
پر دُوسری قوموں اور ملّتوں کو پیدا نہ ہونے دیتا لیکن ھم دیکھتے ہیں کہ
زمین پر مُختلف قومیں بھی زندہ و موجُود ہیں اور اُن کے علمی نظریات بھی
زندہ و موجُود ہیں جو اِس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالٰی کو تاحال زمین پر
یہُودیت و عسائیت بھی مطلوب ھے اور اہلِ اسلام بھی مطلوب ہیں ، زمین اِن سب
کا مُشترکہ گھر اور زمین کے وسائل اِن سب کے مُشترکہ وسائل ہیں اور اللہ
تعالٰی کو زمین پر زمین کے اِن سب وسائل کے ساتھ جو چیز اِن سب سے مطلوب ھے
وہ زمین پر عدل و انصاف کا قیام ھے اور قُرآن چونکہ ایک عالمی کتاب ھے اِس
لیۓ قُرآن کی اٰیاتِ بالا کا جو مفہوم ھے وہ مفہوم بھی ایک عالمی مفہوم ھے
، اِس عالمی مفہوم کی مُرادالمُراد یہ ھے کہ جو قوم زمین پر اہلِ زمین کو
جس درجے میں اور جتنے عرصے تک عدل و انصاف مُہیا کرتی رہتی ھے وہ اُس درجے
میں اُس عرصے تک زمین پر زندہ رہتی ھے اور جب وہ یہ عمل ترک کردیتی ھے تو
وہ اپنی موت آپ ہی مرجاتی ھے ، قُرآن اور آسمانی کتابوں کی تاریخ اسی اَمر
کی شہادت دیتی ھے اور اِس شہادت کا مطلب صرف یہ ھے کہ انسان کو جلد یا بدیر
اُس عدلِ اجتماعی کی طرف آنا ہو گا جو عدلِ اجتماعی انسان اور انسانیت کی
بقا کی آخری ضمانت ھے !!
|