#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنُور ، اٰیت 62 تا 64
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
انما
المؤمنون
الذین اٰمنوا
باللہ ورسولهٖ و
اذا کانوا معه علٰی
امر جامع لم یذھبوا
حتٰی یستاذنوه ان الذین
یستاذنونک اولٰئک الذین یؤمنون
باللہ ورسولهٖ فاذا استاذنوک لبعض
شانھم فاذن لمن شئت منھم واستغفرلھم
اللہ ان اللہ غفوررحیم 62 لاتجعلوا دعاءالرسول
بینکم کدعاء بعضکم بعضا قد یعلم اللہ الذین یتسللون
منکم لواذا فلیحذر الذین یخالفون عن امرهٖ ان تصیبھم فتنة
او یصیبھم عذاب الیم 63 الا ان للہ مافی السمٰوٰت والارض قد
یعلم ماانتم علیهِ ویوم یرجعون الیه فینبئھم بما عملوا واللہ بکل
شئی علیم 64
اے ھمارے رسُول ! زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے
کہ انسانی معاشرے اور انسانی معاشرت کی حقیقی تفہیم تو آپ کی اُس مجلسِ
مشاورت میں شامل ہونے والے اُن لوگوں کو ہی حاصل ہوتی ھے جو لوگ آپ کے
بُلاوے پر آپ کی اُس مجلسِ مشاورت میں شریک ہوتے ہیں اور اُس مجلسِ مشاورت
سے حسبِ اطاعت و حسبِ استطاعت علمی و رُوحانی فیض پاتے ہیں اور وہ لوگ اگر
اُس مجلسِ مشاورت میں آنے کے بعد کسی کام کے لیۓ مجلسِ مشاورت سے واپس جانا
چاہتے ہیں تو آپ سے اجازت لے کر جاتے ہیں اِس لیۓ آپ کے اِن اَصحاب و
اَحباب میں سے آپ کے جو اَصحب و اَحباب آپ سے اجازت لے کر کبھی کہیں جانا
چاہیں تو اِن کو جانے کی اجازت دے دیا کریں اور اِن کی خطا بخشی کے لیۓ
اللہ تعالٰی سے دُعا بھی کیا کریں تاکہ آپ کی مجلسِ میں آنے والوں کا آنا
بھی کار آمد ہو اور آپ کی مجلس سے جانے والوں کا جانا بھی غیر کار آمد نہ
ہو لیکن اہلِ ایمان میں سے ہر ایک صاحبِ ایمان انسان کو تاکید کی جاتی ھے
کہ تُم میں سے جس کو بھی اللہ کے رسُول کی طرف سے بُلاوا آۓ تو وہ آپ کے
بُلاوے پر آپ کے پاس جاۓ کیونکہ اللہ کے رسُول کا بُلاوا تُمہارے اُس
بُلاوے کی طرح نہیں ھے جو بُلاوا تُم ایک دُوسرے کو دیتے ہو اور تُم اُس
بُلاوے پر کبھی چلے جاتے ہو اور کبھی نہیں بھی جاتے ہو لیکن رسُول کے
بُلاوے پر تو تُم نے بہر صُورت جانا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی تُمہارے ظاہری
حال اور تُمہارے دلوں میں چُھپے ہوۓ سارے اَحوال کو جانتا ھے اِس لیۓ
تُمہارے وہ سارے لوگ بھی اللہ تعالٰی کے علم میں ہیں جو کبھی کبھی اپنے
کُچھ کاموں کے لیۓ آپ سے نظر بچا کر آپ کی نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور یہ
لوگ اپنے نظر نہ آنے والے اِس عمل کے بعد اللہ تعالٰی کی کسی نظر نہ آنے
والی آزمائش سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں اِس لیۓ ہر شخص کو آگاہ کیا جاتا ھے
کہ زمین و آسمان میں صرف اللہ کی حُکمرانی ھے اور زمین و آسمان کی ہر مخلوق
نے اپنے کیۓ ہوۓ ہر عمل کی جواب دہی کے لیۓ لوٹ پلٹ کر صرف اللہ کے پاس ہی
جانا ھے اور جس روز اُس کی جس مخلوق کا جو فرد اُس کی عدالتِ انصاف میں جاۓ
گا تو اُس کو اُس روز ضرور بتا دیا جاۓ گا کہ اُس نے نہ کرنے کا کون کون سا
کام کیا ھے اور کرنے کا کون کون سا کام نہیں کیا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان کی عام انسانی معاشرت تو خود رَو جھاڑ جھنکاڑ کی طرح خود بخود ہی
پیدا ہو کر پَھلتی اور پھیلتی رہتی ھے لیکن قُرآنِ کریم کی اِن اٰیاتِ
بینات کے مطابق انسان کی قُرآنی معاشرت کو قُدرت نے فطرت کی اُس عظیم فطری
ترتیب سے بنایا اور پروان چڑھایاھے جس فطری ترتیب و تربیت کا مرکزِ ھدایت
سیدنا محمد علیہ السلام کی ذاتِ گرامی اور آپ کی وہ مجلسِ مُشاورت ھے جس
میں انسان کی دینی و رُوحانی اور سیاسی و معاشرتی اصلاح و تربیت ہوتی ھے ،
اِس مجلسِ مشاورت میں اِس اُمت کی مقامی و بین الاقوامی معاشرت کی اصلاح و
تربیت بھی ہوتی ھے اور اِس اُمت کی مقامی و بین الاقوامی تعلیم و تربیت بھی
ہوتی ھے اور سیدنا محمد علیہ السلام اسی مقصد کے لیۓ اپنے اَصحاب و اَحباب
کو بُلا کر اُن سے اُن کے علاقائی مسائل دریافت فرمایا کرتے اور اُن کی
مُہیا کی ہوئی معلومات کی روشنی میں اُن کو اپنے فیصلے سنایا کرتے ہیں ،
اٰیاتِ بالا کے اندازِ بیان سے اندازہ ہوتا ھے کہ اُس قُرآنی ریاست و
اَمصارِ ریاست اور ریاست و قصباتِ ریاست کے تمام چھوٹے اور بڑے مسائل و
معاملات کی اسی مجلسِ مشاورت میں مشاورت ہوتی تھی اِس لیۓ سیدنا محمد علیہ
السلام اپنے جُملہ اَصحاب و اَحباب کو اِس مجلسِ مشاورت میں مشاورت کے لیۓ
بُلاتے تھے اور مدینے میں چونکہ قُرآنی حکومت کے قیام کے بعد مدینے کی یہ
قُرآنی ریاست ابتدا میں ایک طرح کی حالتِ جنگ میں رہتی تھی اِس لیۓ آپ کے
بہت سے اَصحاب و اَحباب اِس ہنگامی صورتِ حال کے پیشِ نظر اپنا اسلحہِ جنگ
بھی اُس اجتماع میں اپنے ساتھ لے کر آتے تھے تاکہ اگر اُن کو کوئی دفاعی
مُہم سر کرنے کے لیۓ جانے کا حُکم ملے تو وہ حُکم ملتے ہی وہیں سے اُس مُہم
کے لیۓ روانہ ہو جائیں لیکن یہ دفاعی مُہمات چونکہ جان و مال دونوں کی
قُربانی مانگتی تھیں اِس لیۓ جو لوگ مالی آسُودہ حالی سے بالکل خالی ہوتے
تھے وہ شاید اپنی ذات کی عدمِ ضروت کے احساس کے تحت اُس مجلسِ مشاورت سے
قبل اَز وقت ہی نکل آتے تھے اور مجلس سے اَچانک نکلنے پر شرمندگی سے بچنے
کے لیۓ یہ کوشش بھی کرتے تھے کہ اِس مجلس سے نکلتے وقت وہ رسُول اللہ کی
نظر میں نہ آئیں اور چونکہ اِس معاملے میں اُن کی کسی بدنیتی کے بجاۓ اُن
کی خوش نیتی ہی شامل ہوتی تھی اِس لیۓ اُن کو خاتمہِ مجلس سے پہلے مجلس سے
اُٹھ جانے کی خفت سے بچانے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے یہ اجازت دے دی کہ اگر
اُن کو اِس وقت اپنے گھر کا کوئی کام یاد آجاۓ اور وہ گھر کے اُس کام کے
لیۓ جانا چاہیں تو وہ اِس مجلسِ مشاورت سے خاموشی کے ساتھ نظر بچا کر نکلنے
کے بجاۓ نظمِ جماعت و نظامِ معاشرت کے مطابق رسول اللہ سے اجازت لے کر مجلس
سے نکلا کریں تاکہ نظم جماعت و نظامِ معاشرت کا تقاضا بھی پُورا ہو جاۓ اور
اُن کی آدھی حاضری کو بھی اُن کی پُوری حاضری سمجھا جاۓ اور اِس کے ساتھ ہی
یہ ھدایت بھی کردی ھے کہ نبی علیہ السلام کی طرف سے تُم لوگوں کو جو بُلاوا
آتا ھے وہ وہ ایسا عام بُلاوا نہیں ھے جیسا تُم لوگوں کا ایک دُوسرے کے لیۓ
وہ عام بُلاوا ہوتا ھے جس بُلاوے پر تُم جانے کو تو بہت اَچھا جانتے ہو مگر
نہ جانے کو بھی کُچھ زیادہ بُرا نہیں جانتے لیکن رسول اللہ کا بُلاوا
تُمہارے اُس باہمی بُلاوے سے باکُل مُختلف بُلاوا ھے اور اِس بُلاوے پر تُم
نے ہر حال میں جانا ھے اور اُس بُلاوے کو اللہ تعالٰی نے اِس لیۓ بھی اِس
اَہمیت کے ساتھ بیان کیا ھے تاکہ جو لوگ آپ کا یہ پیغامِ عام سُن کر گھر سے
نہیں نکلتے وہ بھی گھر سے نکلا کریں اور جو لوگ اُس مجلس میں جاکر اُس مجلس
سے قبل از وقت نکلنا چاہتے ہیں وہ بھی وہ مجلس برخواست ہونے تک وہیں پر رہا
کریں تاکہ وہ اُس مُبارک مجلس سے زیادہ سے زیادہ وہ دینی و رُو حانی فیض
حاصل کریں جس سے اُن کا تزکیہِ نفس ہو اور جس سے اُن کو وہ سیاسی و معاشرتی
معلومات سے بھی حاصل ہوں جو اِن خاص معاملاتِ حیات کے علاوہ عام معاملاتِ
حیات میں بھی اُن کے کام آئیں اور اِس کے ساتھ ہی اللہ تعالٰی نے اُن کو یہ
فیصلہ کُن ھدایت بھی سُنا دی ھے کہ وہ جو کام بھی کریں دل کی کامل آمادگی
کے ساتھ کریں ، اگر وہ دل کی آمادگی کے ساتھ یہ کام نہیں کریں گے تو دُنیا
میں اُن کا یہ حال کسی کو معلوم ہو یا نہ ہو اعمالِ خیر و شر کے بدلے کے
روز یہ سب کُچھ سب کے سامنے آجاۓ گا کیونکہ تُمہارے سارے ظاہری حال و اعمال
اور تُمہارے سارے قلبی خیال و اَحوال اُس اللہ کے علم میں ہیں جس اللہ کو
تُم نے اپنے ہر کیۓ کا حساب دینا ھے اور جس اللہ نے تُم سے تُمہارے ہر ایک
کیۓ کا حساب لینا ھے !!
|