قصص القرآن ( احسن القصص)

حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی اور ان كا اللہ تعالٰی پر استقلال ۔۔۔

قرآن حکیم کو اللّه تعلی نے قیامت تک انسانیت کیلئے ہدایت کا سر چشمہ بنایا ہے ، انسان کو پچھلی اقوام کی غلطیوں ، انکے اوپر کی گئی آزمائش اور اس کے بدلے میں انکے ساتھ کیا گزری سب تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ اگر قرآن کو تاریخی قصّوں کی نہایت تصدیق شدہ کتاب کہا جاۓ تو غلط نہ ہوگا ۔ قصّہ انبیاء کرام سے لے کر ہر قوم کے عروج اور زوال کی داستان کو اس قدر خوبصورت اور مفصّل انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر کوئی بول اٹھے کے بیشک یہ کلام الٰہی ہے۔ ان قصوں کو قصص القرآن کہتے ہیں بہت سے مصنفین نے اس موضوع پر طبع آزمای کی ہے, بحثیت عام مسلمان میں نے آسان الفاظ میں اس کو بیان کرنے کی جسارت کی ہے واللّه علم میں اس میں کتنی کامیاب ہوئی ۔

" یہ روشن کتاب کی آیاتیں ہیں ، ہم نے اس کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تا کہ تم سمجھ سکو ، اے پیغمبر ! ہم اس قرآن کے ذریعہ سےجو ہم نے تمھاری طرف بھیجا ہے ایک نہایت اچھا ( واقعہ ) سناتے ہیں اور تم اس سے پہلے بے خبر تھے " ( یوسف : ۳-۱)

ایک ایسا قصہ جِس کو قرآن خود احسن القصص کہتا ہے تو سوچئے اس کے اثرات کیسے اور کہاں تک اثر انداز ہونگے ۔ یہ قصّہ خاندانی چپقلش سے شروع ہوا اس کے اثرات انفرادی، اجتماعی، سچ، جھوٹ ، توکل ، محبت ، حسد سے لے کر غلامی ، ، قید ، آزادی اور حکمرانی تک آپہنچے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے محبوب بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی مشکلات اور آزمائش اور اس پر انکے صبر کو ایسے بیان کیا گیا ہے کہ عقل اس استقلال پر دنگ رہ گئی ہے ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کو اللّه ﷻ نے بے مثال حسن عطا فرمایا ، نبوت دی ، بیحد محبت کرنے والے باپ کا سایہ دیا مگر یہیں حسد کرنے والے بھائی دیئے اور وہی حسد حضرت یوسف کو والی مصر بنا گیا اللّه اکبر !!! باپ بیٹے کی محبت دیکھتے ہوئے شیطان نے برادران یوسف کے دل میں گھر کیا اور ان کے دل میں ایک منصوبہ ڈالا جس کے تحت حضرت یوسف کو وه سب مل کر کنویں میں ڈال آے اور بول دیا کے بھیڑیا انکو کھا گیا ۔۔۔ اللّه رب العزت نے وہاں سے انکو نکالا اور آزادی دی مگر قفس کی صورت میں، یوسف باپ کے لاڈلے کو غلامی ملی اور بازار مصر میں نیلام ہوئے ان کو عزیز مصر نے خریدا یہاں ایک تو حضرت یوسف کا صبر لائق دید ہے کے باپ بھائی سے دور، کم عمر ،غیر علاقے میں غلامی نہ جانے آگے کیا ہو مگر حضرت یوسف نے کوئی شکوہ نہ کیا بس اللّه پر استقلال ہے کہ وہ ساتھ ہے تو دنیا میرے آگے ہیچ ہے نہ دل میں ملال نہ زبان پر شکوہ۔۔۔ یہ ہے صبر و شکر کی صحیح تفسیر ۔

اب یہاں شیطان نے حسن کا فساد برپا کیا اور ازل سے جاری ہوس کا جال پھینکا ، اگر کوئی عام آدمی ہوتا تو سوچئے اتنی مشکلات کے بعد ایسی پیشکش ٹھکراتا ؟ وه بھی جو غلام کی حثیت رکھتا ہو ؟ ہرگز نہیں ۔۔۔ مگر یہاں اللّه کے نبی ہیں حضرت یوسف جن کا کردار مظبوط ہے یہاں پر اپنے اللّه سے ایسے الفاظ میں مدد طلب کی " یوسف نے کہا اے میرے پروردگار ! جس بات کی طرف یہ مجھ کو بلاتی ہیں مجھے اس کے مقابلے میں قیدخانہ زیادہ پسند ہے اور اگر تو نے ان کے مکر کو مجھ سے نہ ہٹا دیا اور میری مدد نہ کی تو میں کہیں ان کی جانب نہ جھک جاؤں اور نادانوں میں سے نہ ہوجاؤں، پس اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اس سے انکا مکر ہٹا دیا بیشک وه سننے والا جاننے والا ہے " (یوسف ۳۳-۳۴)

جب عزیز مصر کی بیوی کے قصے کی دھوم مچی تو حضرت یوسف کو طویل مدت کیلئے قید میں ڈال دیا گیا۔ اب یہاں عام انسان کی بات کی جائے تو کوئی بےگناہ اگر قید ہوجاتا ہے تو اسکے دل میں شکوے شکایات بھر جاتے ہیں کے یا اللہ یہ آزمائش میرے ساتھ ہی کیوں ہوئی کیا میں ہی رہ گیا تھا۔۔ مگر یہاں حضرت یوسف علیہ وسلام ہیں جو اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ ان کو بدکاروں سے بچا لیا اور ان کو زندان کی زندگی اُس بدکاری سے لاکھ درجے قبول ہے۔ زندان میں آپ کی زندگی حق کی دعوت دیتے گزری اور اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ جلد مشہور ہوگئے ۔ زندان میں آپ کے ساتھ دو قیدی اور تھے جو بادشاہ کے خدمت گزار تھے اور اپنی سزا پوری کررہے تھے اُن میں سے ایک کے خواب کی تعبیر حضرت یوسف علیہ وسلام نے بیان کی جس میں ایک کی موت اور ایک کی آزادی تھی۔ اللہ کی شان دیکھئے وقت اسیری میں رہتے ہوئے یوسف علیہ وسلام کی رسائی بادشاہ وقت سے ہورہی ہے۔ جب دوسرا قیدی آزاد ہوا اور کافی عرصہ بعد بادشاہ نے ایک عجیب خواب دیکھا جسکی تعبیر کوئی نہیں بتا پایا تو اس قیدی کو جو اب بادشاہ کی خدمت میں تھا حضرت یوسف علیہ وسلام ياد آئے اور بادشاہ کا پیغام لے کر گیا کے اپ کو بلایا ہے حضرت یوسف علیہ وسلام کی فراست اور عقل پر سلام انہوں نے خواب کی تعبیر بتانے کے بعد بولا بادشاہ کو بولو پہلے میرے اوپر لگے الزام کا انصاف کرے اور پھر مجھے آزادی قبول ہے۔۔۔۔ اللہ اکبر

حضرت یوسف علیہ وسلام کی سچائی اور فراست سے متاثر ہوکر بادشاہ نے مصر کا پورا علاقہ آپکے اختیار میں دے دیا ۔ اب ملاحظہ کیجیے وہ بھائی جنہوں نے آپ کو کنویں میں ڈال دیا تھا اب اُن سے اپ کا سامنا ہونے کو ہے ۔۔۔ مصر کے آس پاس قحط سے برا حال ہے اب سب غلا لینے کے لیے مصر آ رہے ہیں جہاں حضرت یوسف علیہ وسلام کی حکمرانی ہے بھائی آتے ہیں آپ اُن کو غلا دیتے ہیں وہ آپ کو نہیں پہچانتے آپ اُن سے اپنے سگے بھائی اور باپ کے بارے میں پوچھتے ہیں اور اگلی بار اپنے بھائی بن یامین کو ساتھ لانے کا بولتے ہیں تا کہ غلہ زیادہ مل سکے حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے کھونے کے بعد اپنے بچوں پر بن یامین کے حوالے سے بھروسا نہیں کرتے تھے مگر یہاں مجبور ہو کر اللہ کے سپرد کر کے آپکو اپنے بھائیوں کے ساتھ مصر بھیج دیا حضرت یوسف علیہ السلام نے بن یامین کے سامان میں اپنا پیالہ رکھا اور ان کو چوری کے الزام میں اپنے پاس روک لیا یہ مقصد اپنے باپ کو اپنے پاس بلانے کا تھا۔۔۔ اب برادران یوسف گھبرا گئے کہ بابا کو کیا جواب دیں گے ۔۔۔ بہر حال حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا آپ اُن پر ظاہر کر دیا اور ان کو اپنا ایک کرتا دیا کہ جا کر بابا کی آنکھوں پر لگائیں اللہ کے حکم سے انکی بینائی آجائے گی جو وہ غم یوسف میں کھو بیٹھے تھے۔ جب یعقوب علیہ السلام کے پاس سب آئے تو وہ بول اٹھے مجھے یوسف کی خوشبو آتی ہے چاہے تم سچ سمجھو یا جھوٹ سب نے بولا ہم کو آپکی محبت پر یقین آگیا ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام کا پیغام دیا اور مصر کی جانب روانہ ہوئے۔

حضرت یوسف علیہ السلام دربار میں موجود تھے اور وہاں مصری آداب کے مطابق سب کو سجدہ کرنا ہوتا ہے حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب سچا ہوا ایسے کہ آپکے والدین اور آپکے بھائی, ایک سورج (باپ)، ایک چاند (ماں) اور گیارہ ستارے (آپکے بھائی) آپکو سجدہ کر رہے ہیں۔

قصہ یوسف علیہ السلام ہم کو صبر بل شکر کی صحیح تفسیر سے آگاہی دیتا ہے۔۔۔ اللہ پر بھروسہ اور نا اُمیدی سے بچنے کا پیغام دیتا ہے۔۔۔ اور کسی بھی حال میں بے راہ روی سے بچنے کا درس دیتا ہے۔ ۔۔ قصہ یوسف نے تاریخی اعتبار سے بھی بہت انمنٹ نقوش کو جنم دیا بنی اسرائیل کا مصر آنا اور پھر اپنی حکومت قائم کرنا اُس میں سر فہرست ہے۔
 

درخشاں حقی
About the Author: درخشاں حقی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.