غالب اور ہم

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیاغم,جب اٹھیں گے
لے آٸیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
غالب

اردو, غزل اور پھر غالب _ زمانہٍ اسکول میں بہت گراں گزرتا تھا ہم پر اسے پڑھنا, سمجھنا اور پھر بھری جما عت کے سامنے تشریح بیان کرنا۔ یقین جانیے ہم نے تو اردو کا نام عشق رکھ دیا تھا کیوکہ بقول جگر مرادبادی
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

تو جیسے ہی استانی محترمہ نے یہ شعر پڑھا تو جھٹ سے ہم نے کچھوے کی طرح اپنی گردن نیچے کی گویا اوجھل ہو جاٸیں گے۔ مگر کانوں میں آواز آٸی کہ اب اس شعر کی تشریح صاٸمہ قریشی بتاٸیں گی۔ ”مس میں“ کے دو الفاظ جھٹ سے اضطراری طور پر زبان سے یوں ادا ہوۓ گویا خود کو بھی یقین نہ ہو کہ ہم ہی صاٸمہ قریشی ہیں۔ ”جی جناب اگر نام تبدیل نہ کر لیا ہو تو“۔ استانی صاحبہ نے اتنے ہی جھٹ سے جواب دیا۔
مرتے کیا نہ کرتے بس جناب ذہن کے گھوڑے دوڑاۓ اور جیسے ہی کچھ سمجھ آنا شروع ہوا تو نہایت پراعتعمادی سے بتانا شروع کیا
”اس شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب دل کے عارضہ میں مبتلا ہیں اور ان کے دوست شہر میں رہتے ہیں۔ اس لیے غالب کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے علاج کے لیے مطمعین ہیں۔ چونکہ شہر میں بڑے اور اچھے ہسپتال موجود ہیں اور وہاں یقیناً دل کا علاج بہت بہتر ہوتا ہے۔ حتہٰ کہ باٸی پاس اور ہارٹ ٹرانسپلاٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ اسلیے جب تک غالب کے دوست شہر میں موجود ہیں انہیں کسی بات کا ڈر نہیں ۔ ایمرجنسی کی صورت میں وہ فوراً اپنے دوست کے پاس شہر جا کر علاج کروا لیں گے“۔
یہ سنتےہی ہماری استانی محترمہ بولیں۔
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

Saima Qureshi
About the Author: Saima Qureshi Read More Articles by Saima Qureshi: 17 Articles with 15485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.