اک تحقیق کے مطابق دنیا میں بولی جانے والی بڑی زبانوں
میں پنجابی زبان کا 9 واں نمبر ہے، پنجابی زبان کے سب سے بڑے مراکز پاکستان
اور ہندوستان ہیں، کسی زبان کو پروموٹ کرنے میں فلموں کا کردار بہت اہمیت
کا حامل ہوتا ہے۔ پنجابی زبان کتنی معروف اور ہردلعزیز ہے اسکا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری یعنی بھارت کی
بالی وڈ کی تقریبا ہر مشہور فلم کا سپرہٹ ہونے والا گیت یا تو مکمل طور پر
پنجابی زبان میں ہوتا ہے یا پھر پنجابی، ہندی اور اردو کا مکسچر۔ ماضی میں
پاک بھارت دونوں جانب پنجابی فلمیں بنتی رہی ہیں مگر پنجابی فلموں کاجو
عروج پاکستان کی فلم انڈسٹری کے حصہ میں آیا وہ بھارتی پنجابی فلموں کے
نصیب میں نہ آسکا۔ ایک دور تھا کہ پاکستانی پنجابی فلم انڈسٹری میں گڈی
گڈا، پھیرے، جبرو، ملنگی، ہیر رانجھا، چاچا جی، چاچا خاں مخاں، دلاں دے
سودے، پگڑی سنبھال جٹا، وریام، چڑھدا سورج، میدان، یاراں نال بہاراں، پنجاب
دا شیر، بہروپیا، ڈولی، بھڑیا میلہ، ہتھ جوڑی، امام دین گوویا، ملنگی، جی
دار، دلا بھٹی، مولا جٹ، شیرخاں، یکے ولی، مخت بار، جبرو، بہروپیا، چوریاں
(اکمل)، بشیراں، موج میلہ، یار مار، لنگوٹیا، ماں پتر، سالا صاحب، بودھی
شاہ، زمیندار، جگری یار، بانکی ماڑ، پانی، پلپی صاحب، میرا ویر، جیڑا بلیٹ،
نوکر وہٹی دا، پنج دریا، دو رنگیلے جیسی فلمیں بنا کرتی تھیں اور ان فلموں
کی کامیابی کے رازوں میں بہترین کہانی، بہترین گائیکی، بہترین ہدایات کاری
اوربہترین اداکاری شامل حال تھی۔ کیا ہی سنہری دور تھا جب سورن لتا،
نورجہاں، مسرت نذیر، نیلو، نغمہ، فردوس، بہار بیگم، یاسمین، عالیہ، شریں،
میناں، صبیحہ خانم، سلونی، اکمل، سدیر، اعجاز، عنایت حسین بھٹی، یوسف خان،
علاؤالدین، ظریف، اسلم پرویز، منور ظریف، رنگیلا، ننھا موٹا، علی اعجاز
جیسے عظیم اداکار اور اداکارائیں اپنی بہترین اداکاری سے فلم بینوں کے دل
موہ لیا کرتے تھے۔ پنجابی فلموں کی کامیابی میں گلوکاروں کی گائیکی کا بہت
بڑا عمل دخل بھی تھا، کیسا ہی حسین اور سنہری دور تھا جب منور سلطانہ،
زبیدہ خانم، عنایت حسین بھٹی، مسعود رانا، منیر حسین، نسیم بیگم، نذیر
بیگم، رونا لیلیٰ، مالا، نورجہاں، پروین، افشاں، ناہید اختر جیسے گلوکار
اور گلوکارائیں اپنی مدھم اور سریلی آواز سے فلم بینوں کے کانوں میں سرور
پیدا کردیا کرتے تھے۔ ان سدا بہار گانوں کو بنانے میں تاریخ کے بہترین
موسیقاروں جئے چشتی، سلیم اقبال، رشید عطرے، عبداللہ، بخشی وزیر جیسوں کی
محنت کارفرما تھی۔ اسی طرح پنجابی فلموں کی کامیابی میں اس وقت کے عظیم
ہدایت کاروں حیدر چوہدری، افتخار خان، رشید اختر، اسلم ڈار کا بہت ہاتھ
تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب پوری پوری فیملی ایک ساتھ بیٹھ کر فلمیں دیکھا
کرتی تھی۔موجودہ دور میں پاکستانی پنجابی فلم انڈسٹری تقریباً وفات پاچکی
ہے، سینما ہال بند ہوگئے، نگار خانے، فلم اسٹوڈیوز بند ہوچکے ہیں۔ ہزاروں
لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، اسکی وجوہات کو پرکھنے کی ضرورت ہے,
پاکستانی پنجابی فلم انڈسٹری کی تباہی میں سب سے زیادہ حصہ بے تکی فلم
کہانی، مجرے، فحش گانے، بے تکی ہدایت کاری، تشدد، غنڈا گردی، بدمعاشی سے
بھرپور فلمی ڈائیلاگز اور فلمی سین۔ کہانی ایسی کہ جس کا پنجابی معاشرے سے
تعلق نہ ہونے کے برابر۔ گانوں میں بیہودہ الفاظ۔ (منجی وچ ڈانگ پھیردا،
جیتھوں جیتھوں کینی آں تو کیوں نہ چھیڑدا، کرتی وی گیلی گیلی لاچا وی ٹیلا
ٹیلا)، اسی طرح کے کچھ اور گانے ہیں جنکو یہاں قلمبند کرتے ہوئے ہاتھ شرم
سے کانپ جاتے ہیں۔ انتہائی فحش اور عریاں لباس اور بے ہودہ گانے اور ان
گانوں پر انتہائی لچر پن سے بھرپور ڈانس جن کا پاکستانی پنجابی معاشرے سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں سلطان راہی اور شان کاشمار پنجابی
فلم انڈسٹری کے بڑے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ اور انکی فلمیں کئی کئی سالوں تو
سنیما ہالوں میں چل کر ریکارڈ بناتی رہی ہیں لیکن میری ناقص رائے میں انکے
فلمی دور کو ہی پنجابی فلم انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ دار سمجھنا چاہئے،
کیونکہ کلاشنکوف، گنڈاسا، غنڈہ گردی، بدمعاشی اور مجروں سے بھرپور فلمیں ہی
پاکستانی پنجابی فلم انڈسٹری کے زوال کا باعث بنی، ایک عرصہ تک انکی فلمیں
سنیما ہالوں پر چھائی رہیں بظاہر تو کامیاب فلمیں مگر اسکے نتائج ہم سب کے
سامنے ہیں۔ اب آتے ہیں بھارتی پنجابی فلم انڈسٹری کی جانب جو ماضی میں
پاکستانی فلم انڈسٹری سے بہت پیچھے تھی۔ مگر آج بھارتی فلم انڈسٹری آئے روز
بہترین سے بہترین فلم مارکیٹ میں لا رہی ہے۔ اور یہ پنجابی فلمیں بکس آفس
پر کروڑوں روپے کا کاروبار کررہی ہیں۔ انڈین پنجابی فلموں کی کامیابی کا
راز بہترین فلمی سٹوری جوکہ صحیح معنوں میں پنجاب کے کلچر کی نمائندگی کرتی
دیکھائی دیتی ہیں، بہترین گانے، انکے کئی فلمی گانوں کی یوٹیوب پر ویور شپ
ایک ارب سے زیادہ ہوچکی ہے۔بہترین ہدایت کاری اور سب سے بڑھ کر کوئی
بھیڑچال نہیں ہے، ہر فلم میں اک نیا سماجی معاشی موضوع۔ یہاں ریفرنس کے طور
پر موجودہ دور کی کچھ انڈین پنجابی فلموں کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں
تاکہ ہم ان فلموں کا پاکستانی پنجابی فلموں سے موازنہ کرسکیں، انگریج، منجے
بسترے، لاہوریے، پجو ویروں، نکہ ذیلدار، وادیاں جی وادیاں، رب دا ریڈیو،
گڈیاں پٹولے، لو پنجاب وغیرہ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ انڈین پنجابی فلم
انڈسٹری میں بھی بہت سی بی گریڈ فلمیں بھی بن رہی ہیں مگر ان کی زیادہ تر
فلموں کی خاص بات پنجابی زبان، پنجاب کے کلچر کی قریب ترین عکاسی شامل ہے۔
اس تحریر میں انڈین پنجابی فلموں کو پروموٹ کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہاں
انڈین پنجابی فلموں کا تذکرہ کرنے کا مقصد پاکستانی پنجابی فلم انڈسٹری کی
تباہی و بربادی کی وجوہات کو جانچنا ہے کہ کیسے مشرقی پنجابی (انڈین) فلم
انڈسٹری پوری دنیا پر چھائی ہوئی ہے اور مغربی پنجابی (پاکستانی) فلم
انڈسٹری موت کی وادیوں میں سفر کررہی ہے۔اس وقت انڈین پنجابی اداکاروں کے
پرستاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے، مگر پاکستانی پنجابی اداکاروں کے
پرستاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج بھی موقع ہے کہ پاکستان میں
پنجاب کے صحیح کلچر کی عکاسی کرتی ہوئی فلمیں بنائی جائیں تو کوئی وجہ نہیں
ہے کہ پاکستانی پنجابی فلم انڈسٹری ایک مرتبہ پھر عروج کی بلندیوں کو نہ
چھو سکے۔ ماضی قریب ہی میں جھانک کر دیکھا جاسکتا ہے کہ معمر رانا اور
صائمہ کی فلم چوڑیاں کیسی سپر ڈوپر بلاک بسٹر فلم ثابت ہوئی کیونکہ یہ فلم
پنجاب کے کلچر کے قریب ترین تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی پنجابی
فلم انڈسٹری کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے ادیبوں، ہدایات
کاروں، فلم سازوں اور اداکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر ڈائیلاگ
کرنا ہوگا اور اپنی کوتاہیوں کو ختم کرکے پنجاب کے کلچر کے مطابق فلموں کو
بنانا ہوگا
|