جونک ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جو انسانی جسم پر چمٹ جاتا ہے
اور کسی صورت بھی جسم کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔اسے جسم سے جدا کرنے کے
لئے اس پر کوئی گرم چیز لگانی پڑتی ہے۔ سگریٹ یا کوئی گرم چیزاسے لگانے سے
یہ جسم کو چھوڑ دیتا ہے۔قدیم زمانے میں مشہور تھا کہ حکما اسے انسانی خون
صاف کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔مگر ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ خون صاف نہیں
کرتا بلکہ یہ انسانی جسم سے چمٹ کر بہت معمولی خون چوستا ہے البتہ اس کے
جسم میں ایسے کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو انسانی خون سے کلاٹ ختم کرنے میں
انتہائی مدد گار ہوتے ہیں یوں خون بہتر ہو جاتا ہے۔آج بھی سڑک پر بیٹھے
حکیم لوگوں کا خون صاف کرنے کے لئے جونکوں کا استعمال کرتے ہیں۔ قدیم مصر
میں اس وقت کے طبیب لوگوں کے علاج کے لئے جونکوں کا بہت استعمال کرتے تھے ۔
اس وقت انسان کی ذہنی بیماریوں، دانتوں کی بیماریوں ، جلدی بیماریوں اور
بہت سے دوسرے امراض کے لئے جونک کا استعمال بہترین ادویات میں ہوتا تھا۔ آج
کے جدید دور میں بھی چھوٹی چھوٹی سرجریوں خصوصاً پلاسٹک سرجری میں جونکوں
کا استعمال کیا جاتا ہے ۔اس لئے کہ جونک انسانی جسم میں اپنے تینوں جبڑے
گاڑ دیتا ہے جس کے نتیجے میں بہت پروٹین پیدا ہوتی ہے اور خون میں کلاٹ
بننے کا خطرہ نہیں رہتا۔شوگر کے مریضوں پر دیگر ادویات کی نسبت جونکوں کا
استعمال نئی تحقیق میں بہتر جانا جاتا ہے۔سائنسدان آج حاملہ عورتوں اور
بچوں کے علاوہ عام لوگوں کو شوگر، بلڈ پریشر، دل کے امراض اور جوڑوں کے درد
کے لئے جونک تھراپی کا استعمال کر کے بہترین نتائج حاصل کر رہے ہیں۔
لغت کے مطابق جونک کا لفظ دو چیزوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ایک اس کیڑے کے
لئے جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔دوسرا اس شخص کے لئے جو اپنا کچھ بھی خرچ یا
استعمال کئے بغیر دوسروں کی مدد سے فائدہ حاصل کرے اور دیگر کے چاہنے کے
باوجود اپنی پوزیشن سے پیچھے یا پرے ہٹنے کو تیار نہ ہو۔ ایسی انسانی جونک
کی ذاتی حیثیت کچھ نہیں ہوتی مگر وہ کسی بڑے آدمی یا کسی با اثرشخص کو
استعمال کرنا اور اپنا کام نکالنا جانتا ہے۔ میرے محترم وزیر اعظم جب
تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو میں سارے سرکاری دفتروں پر نظر دوڑاتا ہوں۔ ہر
سیکرٹری اور ہر وزیر کے ساتھ چند جونکیں چمٹی نظر آتی ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے
مقدس اداروں میں بھی جونکوں کا عمل دخل اتنا زیادہ ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ
تبدیلی کیسے آئے گی۔ بہت سی جونکیں اسی محکمے کے ریٹائرڈ لوگوں پر مشتمل
ہیں جو ریٹائر ہونے کے باوجود افسروں کو یقین دلا دیتے ہیں کہ ان کا متبادل
کوئی نہیں۔ یہ کسی بھی محکمے کا کرپٹ ترین مافیہ ہوتا ہے۔یہ مافیا افسروں
کی مجبوری بن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سارے محکموں میں کوئی ایک آدھ
آدمی ہی کام کا ہوتا ہے جو کام جانتا اور سمجھتا ہے،افسروں کو تسلی اور
تشقی دینا بھی جانتا ہے، وہ کسی دوسرے کی چلنے ہی نہیں دیتا۔ باقی زیادہ تر
سفارشی ہوتے ہیں جو وقت کاٹتے ہیں یا دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ جو کام کا آدمی
ہوتا ہے وہ ریٹائر ہونے کے بعد جونک کی طرح محکمے کو چمٹارہتا ہے ۔ وہ جوڑ
توڑ کا فن بھی جانتا اور نئے آنے والوں کے لئے انتہائی مدد گار ہوتا اور
موجودہ دور میں ان کی کمزوری بن جاتا ہے۔ہر محکمے کی جونکیں کرپشن کے محفوظ
راستے بھی جانتی ہیں اور نئے آنے والوں کی اتنی صفائی سے مدد کرتی ہیں کہ
کسی پر حرف بھی نہیں آتا۔انہیں تنخواہ ملے یا نہ ملے بیٹھنے کو دفتر ضرور
مل جاتا ہے۔ باقی کمانا وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔یہ جونکیں کسی بھی
تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکارٹ ہیں۔تبدیلی کے لئے ان جونکوں سے نجات اس
حکومت کا پہلا ٹارگٹ ہونا چائیے۔
چند سال ہوئے مجھے ایک سرٹیفیکیٹ کی ضرورت تھی جو علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر نے
جاری کرنا تھا۔ میری درخواست پر اسسٹنٹ کمشنر نے آرڈر کر دئیے اور ایک کلرک
کو عملدرآمد کا حکم دیا۔ کلرک بڑے تپاک سے پیش آیااور کہنے لگا کہ آپ کا
کام ابھی ہو جانا تھا مگر بابا جی کی طبیعت خراب تھی اس لئے آج نہیں آئے
صبح نو بجے آپ اپنا سرٹیفیکیٹ لے لیں۔اگلی صبح میں کچہری پہنچا تو بابا جی
موجود تھے اور پندرہ بیس لوگ ان کے ارد گرد موجود تھے۔ درخواستوں کا انبار
ان کے پاس تھا۔ اپنی درخواست ڈھونڈو اور بابا جی کو پیش کر دو۔ میں نے
ڈھونڈھ کر اپنی درخواست انہیں دی ۔ انہوں نے تھوڑی بات کی تفصیل پوچھی اور
کمپیوٹر سے بنی بنائی ایک درخواست میں میرا نا م پتہ درج کیا اور کہا کہ اس
کلرک کو کہیں مجھ سے لے جائے۔ کلرک آیا پرنٹ کیا ہوا سرٹیفیکیٹ لیا اس پر
مہر لگائی۔ اسٹنٹ کمشنر کے دستخط کرائے اور اور مجھ سے فیس طلب کی ۔ شاید
سرکاری کوئی فیس نہیں تھی مگر پانچ سو روپے بھتہ دیاتو حکم ہوا کی بابا جی
ہمارے ریٹائرڈبزرگ ہیں ۔ آپ کی خدمت کے لئے موجود ہیں۔ دو سو انہیں بھی دے
آئیں۔ لوگوں کاکھلے پیسے دینا اور ان کاکھلے عام وصول کر نا ریویو والوں کا
عام کلچر تھا اور ہے۔ میں نے رسم دنیا نباہی، پیسے دے کر سرٹیفیکیٹ حاصل
کیا۔ پتہ چلا کہ کسی نئے کلرک کو کام نہیں آتا۔ باباجی ریٹائرڈ ہیڈ کلرک
ہیں اور وہاں کے بے تاج بادشاہ ، صحیح کام کو غلط اور غلط کو صحیح کرنے کے
فن سے آشنا۔ ایک مکمل جونک جس کے بغیر کوئی دفتر چلتا ہی نہیں۔لاہور کی ضلع
کچہری میں اسی طرح ایک سترہ گریڈ کے افسر ریٹائرمنٹ کے بعد اک عرصہ وہاں
تعینات رہے۔ انہیں تمام سرکاری مراعات حاصل تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ ان کے
بغیر کوئی کام نہیں چل سکتا۔ چند سال ہوئے وہ فوت ہو گئے۔ کام اب بھی چل
رہا ہے۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریویو کے ارد گرد چند ریٹائر آفیسر موجود ہیں
جس کام میں وہ جوڑ توڑ نہ کریں وہ کام سینئر ممبر کے چاہنے کے باوجود نہیں
ہوتا۔
لاہور کے مضافاتی علاقے میں میرے ایک جاننے والے کو پولیس سے کام تھا۔ میں
اس کے ساتھ وہاں پہنچا تو ایک شخص کرسی سجائے چار پانچ سائلوں کے ہجوم میں
بیٹھا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا دکاندار تھا۔ میں نے اسے پوچھا کہ تم کہاں ،
دکانداری نہیں کر رہے۔ جواب ملا، دکانداری چھوڑ دی ہے۔ یہاں کے تھانیدار
اپنے بھائی ہیں ۔ بڑی عزت کرتے ہیں۔ میں ان مجبور لوگوں کی مدد کرتا ہوں۔
آپ حکم کریں، اس تھانے میں پتہ بھی میری مرضی کے بغیر نہیں ہلتا۔ میں نے
دیکھا وہ سچ کہتا تھا۔ جس سے جوڑ توڑ ہو جاتا اس کا کام منٹوں میں ہو جاتا۔
ایک تھانے کا اشتہاری اسی تھانے میں تھانے دار کی کرسی پر بیٹھا لوگوں سے
سودے بازیاں کر رہا تھا۔ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں حتیٰ کے عدالتوں تک میں
ہر جگہ ایسی جونکیں عام ہیں۔ کسٹم کے چپراسی جو اہم جگہ تعینات ہیں، انہیں
تبدیل کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے کہ ان کے دم سے وہاں سارا نظام چلتا ہے۔ ان
جونکوں کے خاتمے کے لئے ایک منظم مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ یہی کرپشن کا اصل
منبع ہیں۔ ان کے خاتمے کے بغیر اس ملک میں تبدیلی فقط ایک خواب ہے۔
|