خالص عمل

دن بھر مزدوری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا علی حیدر شام کو تھکا ماندہ گھر لوٹا تھا۔ چلچلاتی دھوپ نے اُس کے رنگ کے ساتھ مزاج کو بھی متاثر کیا تھا۔ گھر کے دروازے پر پہنچتے ہی اُسکا دل ڈوبنے لگا، کیونکہ وہ آج بھی خالی ہاتھ گھر پہنچا تھا۔ صحن میں بیٹھے اُسکے تین معصوم بچے اور بیوی اُسکے منتظر تھے۔ فاقوں اور مسائل کا شکار یہ گھرانہ اگر وبا سے نہ مرتا تو بھوک سے ضرور مر جاتا۔
دروازے سے اندر آتے علی حیدر کو دیکھ کر فاطمہ پانی کا گلاس لینے کچن کی طرف بڑھ گئی۔ وہ اپنے شوہر کی مایوس شکل دیکھ کر سب جان گئی تھی۔ آج کی رات بچوں کو بہلانے کے لیے پھر پانی کی دیگچی کو چولہے پر چڑھائے رکھنا تھا۔
لاک ڈاون میں نرمی ہوئے تین دن گزرے تھے اور وہ مزدوری کی تلاش میں صبح صادق کا نکلتا تو پھر شام ڈھلے ہی گھر آتا۔ کرونا وائرس اور لاک ڈاون نے زندگی کا پہیہ جام کر دیا تھا۔ رمضان المبارک شروع ہونے میں کچھ ہفتے باقی تھے اور ہر کوئی مالی طور پر پریشان تھا مگر وہیں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو خوفِ مرگ سے دور زندگی کی آسائشوں اور شہرت کی حوس میں مبتلا تھے۔ ہمارے معاشرے کی آئنیہ دار یہ کہانی جہاں خالص عمل کی سوچ کو پروان چڑھائے گئ وہیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ہمت بھی دے گی۔
**********************************
ہال کمرے سے ہلکی طرز کی موسیقی کی آوازیں آرہی تھیں۔ ساری حویلی گلاب اور موتیے کی خوشبو سے مہک رہی تھی۔ باورچی خانے سے آتی کھانے کی اشتہا انگیز خوشبویں آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ جگمگ کرتا یہ علاقہ اپنی مخصوص شہرت کی بنا پر رش زدہ اور پُر رونق رہتا تھا۔
ہنسی مذاق کرتے قدرے بڑی عمر کے مردوں کی ٹولی اس حویلی میں داخل ہوتی ہے اور لوگوں کے درمیان سے جگہ بنا کر بڑے ہال میں چلی جاتی ہے۔
"چودھری صاحب آپ بھی ماشاءاللہ سے بڑے رنگین مزاج ہیں" ملک جبران عرف جیرا ،چودھری امتیاز کو کُہنی مارتے ہوئے بولا۔
"مگر اس بار دیھان سے چودھری صاحب کہیں پھر سے ویڈیو نہ بن جائے" ٹولی میں سے ایک اور آواز آئی۔
"ارے نہیں نہیں۔اس بار پکا انتظام ہے۔ وہ سیکٹر بی میں مسجد بنوا رہا ہوں نااا، بس کل اُدھر دورے پر چلیں گے، ساری ویڈیوز تصویریں اب اُدھر ہی بنیں گی"۔ چہرے پر چالاکی و عیاری لیے چودھری امتیاز گویا ہوئے۔
"کیا کہنے آپ کے چودھری صاحب، کمال ہے بھئ"۔ ملک جبران ساتھ رکھی موتیے کی لڑی کو سُنگھتے ہوئے بولا۔
قہقہے لگاتے موسیقی اور ناچ سے لطف اندوز ہوتے یہ وہ لوگ تھے جو دوہرا روپ رکھتے تھے۔ ایک دُنیا انہیں نیکوکار جانتی تھی مگر وہ محض دکھاوئے اور نمود و نمائش کی غرض سے کئے جانے والے نیک عمل کے انجام سے بالکل ناواقف تھے۔
*********************************
گرمیوں کا آغاز تھا اور کرونا وائرس جیسی جان لیوا وبا نے پاکستان سمیت دُنیا بھر میں پنجے گاڑ دیے تھے۔ حالتِ زندگی ایک گمنام ڈگر پر رُک سے گئے تھے۔ موت کا خوف اور جینے کے لیے سہولتوں کے کمی، غرض مشکلات کا وقت کہیں یا آفتوں کا زمانہ۔
علی حیدر اور فاطمہ چپ چاپ صحن میں چارپائی پر بیٹھے تھے تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ علی حیدر نے اُٹھ کر دیکھا تو محلے کا ایک بچہ کھانے کی ٹرے ہاتھ میں لیے کھڑا تھا اُس میں دال کا پیالہ اور چند روٹیاں تھیں۔ اُس نے اپنے رب کا بے حد شکر ادا کیا جو اپنے بندوں کو کبھی بھوکا نہیں سُلاتا اور بے شک وہ رازق ہے۔
وہ بچہ اُس وقت اُن کے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا۔ دونوں میاں بیوی اور بچوں نے پیٹ بھر کر کھایا۔ ایک روٹی کا ٹکڑا بچ گیا جو فاطمہ نے یہ سوچ کر باورچی خانے میں رکھ دیا کہ علی وہ صبح کام پر جانے سے پہلے کھا لے گا۔
فجر کی آزان کی آواز سے علی کی آنکھ کھلی۔ اُس نے اُٹھ کر وضو کیا اور نماز ادا کی، روٹی کو کپڑے میں لپیٹ کر تھیلے میں رکھا اور کام کی نیت سے نکلنے لگا تو دروازے کے عین باہر ایک کُتے نے اپنے دانتوں سے اُس کی شلوار کو پکڑ لیا اور زور زور سے کھینچنے لگا۔
*******************************
چودھری امتیاز کا شمار ملک کے نامور لوگوں میں ہوتا تھا جو لوگوں کے لیے سوسائٹیاں، اسپتال، سکول اور مساجد تعمیر کرایا کرتے تھے مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ ان سب تک رسائی غریب طبقے کے لیے ممکن نہیں تھی۔ پیسے کی کثرت اور نمود و نمائش میں اُن کا کوئی ثانی نہ تھا۔
پچھلے سال فراڈ اور کرپشن کے سلسلے میں ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں مختلف امرا کے ساتھ چودھری امتیاز کا نام بھی شامل تھا۔ معتدد بار شراب اور ناچ گانے کی محفلوں کی ویڈیوز بھی وائرل ہو چکی تھی لیکن وہ اثر و رسوخ والا ہی کیا جو اس سب کو دبا نہ سکے۔ ایک بُرے اشتہار کے بعد اپنے آپ کو دینی کاموں میں مصروف کر کے اپنی نیک نامی پھیلانا وہ بخوبی جانتے تھے۔ شہر کے ایک خوبصورت مقام پر جامع عمر کے نام سے تعمیر کروائی جانے والی یہ عالی شان مسجد بھی اسی کھوکھلی شہرت کی بقا کی کڑی تھی۔
ایرانی قالین، ترُک فانوس، زمین پر نیلی ٹائلز اور دیواروں پر گہرے اور ہلکے نیلے رنگ سے خطاطی۔ یہ مسجد جو اب اختتامی مراحل سے گزر رہی تھی اپنی خوبصورتی اور اعلیٰ درجے کی سجاوٹ کے باعث دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ جامع عمر کی بناوٹ ایران کی مشہور شاہ مسجد جو اسفہان میں واقع ہے اُس کی طرز پر بنائی گئ تھی۔
*****************************
علی حیدر نے اپنی شلوار کُتے سے لاکھ چھڑوانا چاہی مگر ناکام رہا اور اسی تگ و دو میں اُس کی نظر اپنے تھیلے سے جھانکتی روٹی پر پڑی۔ یقیناً وہ کُتا بھوکا تھا اور اُسی روٹی کی خاطر علی حیدر کی ٹانگ چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔
ایک لمحے کو اُس نے سوچا کہ وہ روٹی اُس نے اگر کُتے کے آگے ڈال دی تو وہ خود کیا کھائے گا جبکہ وہ خالی پیٹ اور خالی جیب تھا۔ مگر دوسرے ہی لمحے اُس نے اپنی سوچ پر اللہ سے معافی مانگی اور تھیلے سے روٹی نکال کر اُسے کھلانے لگا، پھر واپس گھر کے اندر گیا اور پیالے میں پانی لایا۔ چند لمحوں کے اس واقعے نے اُس کے دل کو عجیب سا سکون بخشا تھا۔
اُس نے اپنا تھیلا اور پھاوڑا اُٹھایا اور روڑ کی جناب چل پڑا لیکن ایک سوچ تھی جو مسلسل اُس کے دماغ میں گردش کر رہی تھی۔

*************************
چودھری امتیاز اپنے اکلوتے بیٹے، کچھ قریبی دوست اور اہلکاروں کے ساتھ مسجد کے دورے پر آئے تھے۔ جامع عمر کا مکمل حصہ صاف ستھرا کر دیا گیا تھا جبکہ پچھلا کچھ حصہ جو نامکمل تھا وہاں تعمیراتی سامان رکھا گیا تھا۔۔چودھری افتخار نویں جماعت کا طالب علم تھا، بے بہا دولت اور باپ کی ناجائز حمایت نے اُسے ایک ضدی اور ہٹ دھرم لڑکا بنا دیا تھا۔
دھڑا دھڑ تصویریں اور ویڈیوز بن رہیں تھیں۔ لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔ چودھری امتیاز اور اُن کا بیٹا مسجد کے صحن سے گزرتے ہوئے اب نیلی محرابوں کے پاس آ کھڑے ہوئے تھے کہ یک دم افتخار کے دل میں خواہش آئی کہ وہ مسجد کا پچھلا حصہ بھی دیکھے۔
"نہیں چھوٹے چودھری صاحب آپ اُدھر نہیں جاسکتے" بوڑھے مزدور نے آرام نے افتخار کو سمجھایا۔

"کیوں نہیں جاسکتا میں؟ یہ علاقہ یہ مسجد سب میرے باپ کی ہے۔۔" چودھری افتخار قدرے غصے سے بولا۔
"نہیں کاکااا۔۔میرا مطلب تھا کہ۔۔۔
"کاکا کس کو بولا ہاں۔۔ بتا تو زرا" افتخار نے تیش میں آ کر بوڑھے مزدور کو گریبان سے پکڑ لیا۔ مزدور اپنا گریبان چھڑوانے کی اپنی سی کوشش کرنے لگا۔ مسجد میں دونوں طرف شور مچنے لگا۔ لوگوں کے موبائل اور ہاتھ حرکت کرنے لگے۔عزت کی خاطر چودھری امتیاز نے بیچ بچاو کروایا اور بیٹے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے جب کے وہ بھی اس بات سے واقف تھے کہ پچھلے حصے کی چھت ابھی نامکمل ہے اور وہاں سامان بھی رکھا ہوا ہے۔
چودھری افتخار دو ملازموں کے ساتھ مسجد کے پچھلے حصے کی طرف چل پڑا جبکہ باقی تمام لوگ وہیں کھڑے رہے۔
*************************
پچھلے دنوں کی نسبت آج بازار اور سڑکوں پر کافی تعداد میں لوگ تھے۔ بیشتر لوگ ماسک پہنے ہوئے تھے اور فاصلہ رکھ کر چل رہے تھے۔
علی حیدر بھی اپنے پھاوڑے کے ساتھ فُٹ پاتھ کے کنارے کام ملنے کی آس میں بیٹھ گیا۔ دھوپ پیلی پڑ رہی تھی اور امید کے دیے بجھ رہے تھے۔ اُسی وقت ایک لڑکا آیا جو حلیہ کے اعتبار سے اچھے گھرانے کا لگتا تھا۔
"بھائی دھاڑی دار مزدور ہو"؟؟؟
"جی جی" علی حیدر اُٹھ کھڑا ہو
"کچھ دنوں کا کام ہے گھر کا، چلو گے ساتھ ؟؟ باقی پیسوں کی بات اُدھر ہی چل کر ابو سے کرلینا"
وہ بچے کے ساتھ اُٹھ کر چل پڑا اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگا جو اپنے بندے کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔
**
چودھری افتخار اِدھر اُدھر گھوم کر چیزوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ ٹاٹلز کے ٹکڑوں کو اُٹھا اٹھا کر دیکھ رہا تھا۔ پھر بے دیھانی میں ایک کافی بڑے سائز کی گھوڑی جو چھت پر پینٹ کرنے کے لیے رکھی گئی تھی اُس سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑی پر سے کوئی چیز دھڑ سے آکر اُس کے سر پر لگی۔ دروازے پر کھڑے ملازم بھاگم بھاگ اندر آئے اور بے ہوش ہوتے چودھری کے بیٹے کو سنبھالنے لگے کہ یک دم گھوڑی بھی اپنا توازن متزلزل ہونے کی بنا پر مزدوروں پر آگری وہ تینوں اب بُرے طریقے سے اُس کے نیچے پھنس گئے تھے۔
ساری مسجد میں شور و غل مچ چکا تھا۔ سب رونق اور لوگوں کا مجمع اب مدد مدد اور ایمبولینس کی آواز میں تبدیل ہوچکا تھا۔
چودھری امتیاز کا بیٹا سر پر گہری چوٹ آنے کی وجہ سے بے ہوش ہوچکا تھا باقی دو مزدور معمولی زخمی اور ہوش میں تھے۔ افتخار کو سول ہسپتال پہنچایا گیا وہ اس وقت آی سی یو میں تھا۔
چودھری امتیاز کا پریشانی سے بُرا حال تھا، بُرے خیالات پے درپے اُن کے ذہن پر حملہ آور ہو رہے تھے۔وہ ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہے تھے کہ اُسی لمحے کمرے کا دروازہ کھول کر سینر ڈاکٹر سبحان احمد اُن کی طرف آتے دکھائی دیتے ہیں
************************
علی حیدر کا دن مشقت سے بھر پور تھا اب شام ہونے کو تھی لیکن وہ اس بات سے خوش تھا کہ آج آٹا، دال اور سبزی لے کر گھر جائے گا۔
واپسی پر سامان لیتے ہوئے صبح والا واقع پھر اُسکے دماغ سے گزرا۔ اُس نے سوچا کہ ایسے حالات میں جب انسان بھوک اور پیاس کے ستائے ہوے ہیں تو بے چارے جانور اور پرندے جو ہر گھر کی چھت اور گلیوں سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں ہمیں ضرور اُنکا احساس کرنا چاہیے۔ اسی سوچ کے تحت اُس نے ایک مٹی کا پیالا اور ایک پاو باجرہ خرید لیا۔ ساتھ ہی یہ عزم بھی کیا کے وہ گلی کے کُتے بلیوں کے لیے ساتھ والے پلاٹ میں روٹی کے ٹکڑے بھی ڈالا کرئے گا۔
*************************
"ہم معافی چاہتے ہیں چودھری صاحب۔۔سر پر گہری چوٹ آنے کی وجہ سے ہم آپکے بیٹے کو کومہ میں جانے سے نہیں بچاسکے" ڈاکٹر سبحان افسردہ لہجے میں گویا ہوئے۔
"اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ کومہ دنوں کا ہوتا ہے یا مہینوں کا، ہوسکتا ہے سال بھی لگ جائے، ہم آپکو کوئی جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہتے کہ تندرستی اور بیماری صرف اُس رب کے ہاتھ میں ہے۔" وہ مزید بولے۔
چودھری امتیاز اپنی جگہ پر جامد و ساکت کھڑے تھے، اُن کے لبوں نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اکلوتے بیٹے کے حادثے نے اُن کی ٹانگوں سے جان نکال دی تھی۔ وہ ساتھ رکھی کُرسی پر بے جان سے ڈھ گئے۔
*************************
رمضان المبارک سے پہلے ہی علی حیدر کو ایک ٹھیکے دار کے ساتھ کام مل گیا تھا۔ وہ بے حد پُر سکون اور مطمعن تھا۔ اُس کے نزدیک رزق کے دروازے تب سے کھلنا شروع ہوتے تھے جب سے وہ بھوکے جانوروں اور پرندوں کا خیال کرنے لگا تھا۔ اب یہ اُسکا روز کا معمول تھا، پرندے اُسکی چھت پر پُو پھوٹتے ہی آجاتے اور گلی کے کُتے اُسکے گھر کے ساتھ پلاٹ میں روٹی اور پانی کے منتظر رہتے۔
علی یہ جان گیا تھا کہ قدرت بے اُن چھوٹے چھوٹے کاموں میں دل کا سکون اور خیر و برکت رکھی ہے جو بظاہر تو معمولی ہوتے ہیں لیکن اُن کی قدر و قیمت صرف وہ رب تعین کرتا ہے اور وہ انسان کی سوچ سے اوپر ہوتی ہے۔
*************
آج افتخار کو کومہ کی حالت میں ہفتہ ہوگیا تھا۔ چودھری امتیاز اور اُن کی اہلیہ کا رو رو کر بے حال تھے۔ ڈاکٹرز اپنی ہر ممکن کوشش کر چکے تھے۔ ساری دولت اور عیش و عشرت بے سکونی اور بے چینی میں بدل گئ تھی۔
صبح و شام چودھری صاحب کے دماغ میں سارا منظر کسی ریل کی طرح چلتا رہتا۔ اُن کا دکھاوئے اور بد نیتی سے مسجد بنوانا، عیاشی سے بھر پور بُرے کاموں میں ملوث ہونا، بیٹے کی بے جا حمایت اور اُس کی خود سری غرض ایک ایک کر کے ہر عمل آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔
وہ اپنے ضمیر سے تنگ آگے تھے جو اُنہیں یہ احساس دلاتا کہ جھوٹی نمود و نمائش، دولت کا دکھاوا اور شہرت کا لالچ اس سب کی سزا وہ اور اُن کا خاندان بھگت رہے تھے۔ لوگوں کے نزدیک مسجد بنوانا بظاہر ایک بہت ہی نیک کام تھا مگر اُس کی پیچھے کی نیت صرف وہ اور اللہ پاک جانتے تھے ۔
ہم میں سے اکثر لوگ بڑے بڑے دینی کام کرتے ہیں، لنگر خانے کھلواتے ہیں، مسجدیں بنواتے ہیں، غریبوں کے دسترخوان کا اہتمام کرتے ہیں لیکن پھر بھی بے سکون اور پریشان رہتے ہیں۔ کیونکہ ہم اس حقیقت سے لا علم رہتے ہیں کہ ہمارے ہر عمل میں نیت کا کتنا بڑا حصہ ہے۔ نیت اچھی ہے تو عمل خالص ہوگا اور اگر نیت میں کھوٹ ہوگا تو وہ ایک کھوکھلی چیز سے زیادہ کچھ نہیں۔
اللہ کے نزدیک خلوصِ نیت سے کیا گیا چھوٹا عمل بھی بہت بڑی نیکی شمار ہوگا جبکہ محض دکھاوئے اور نمود و نمائش کی خاطر کیا گیا بہت بڑا کام کچھ معنی نہ رکھے گا۔

 

Ayesha  Pasha
About the Author: Ayesha Pasha Read More Articles by Ayesha Pasha: 2 Articles with 1725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.