ایتھلیٹ

محبوب الہی مخمور ماہ نامہ انوکھی کہانیاں کے مدیراعلی ہیں جو کہ گذشتہ تیس سالوں سے مسلسل رسالے کی اشاعت کو یقینی بنائے ہوئے ہیں، کئی کتب کے مصنف بھی ہیں اوربطورناشر بھی ہزاروں کتب شائع کروا چکے ہیں۔

جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے مگر جب ہماری شامت نے پکارا تو ہم نے میدان کا رخ کیا ۔ ہوا یوں کہ گزشتہ دنوں کالج میں ’’ہفتۂ طلبا‘‘ کے سلسلے میں زور و شور سے تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ان تیاریوں میں ہم بھی مختلف کام سر انجام دے رہے تھے۔ کیونکہ ہم کالج کی بزم ادب کے جنرل سیکریٹری اور پولیٹیکل سائنس سوسائٹی کے نائب صدر ہیں۔ ہمیں دونوں سوسائٹیوں میں کام کرنا پڑا۔ پورے کالج میں بڑ ے بڑے بینرز اور نوٹس اس طرح آویزاں تھے‘ جیسے الیکشن ہو رہے ہوں۔ دس تاریخ سے سترہ تاریخ تک ہفتہ طلبامنانے کا انتظام کیا گیا‘ جس میں دیگر مقابلوں کے ساتھ ساتھ ریس(دوڑ) کے بھی کئی مقابلے تھے۔

ہم تو ٹھہرے شہ سوارِ میدان ادب کے اس لیے کھیل کا میدان ہمیں کبھی بھی راس نہیں آیا اس لیے ہم کسی اور مقابلے میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ کچھ عرصہ قبل ہاکی کھیلی تھی تو ہمارے دوست افتخار احمد کی ہاکی اس زور دار طریقے سے ہمیں لگی کہ دن میں چاند ستارے اور دیگر اجرامِ فلکی نظر آنے لگے مزید یہ کہ ہاکی کی سیاست نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ اعلیٰ اہلکاروں نے سازش کر کے حسن سردار اور حنیف خان کی طرح ہم کو بھی ٹیم سے باہر کر دیا۔ اس لیے ہم نے بہ حالت مجبوری ہاکی چھوڑ کر فٹ بال کو چنا مگر فٹ بال کا ہمارے ملک میں کوئی مستقبل نہیں ہے اس لیے اپنے مستقبل کی خاطر اس کو چھوڑ دیا بعد میں کرکٹ کھیلی مگر پٹھا چڑھ گیا اس پر ہمیں مرحوم رزاق راجو کی بات یاد آگئی جو انہوں نے سلور جوبلی پروگرام میں کہی تھی کہ کرکٹ میں ملک کا نام چڑھائو جدھر جاتے ہو پٹھا چڑھا لیتے ہو اور کھلاڑیوں نے ہمارے خلاف بغاوت کر دی مگر ان تمام تلخ تجربات کے باوجود ہم اس قول پر عمل کررہے تھے کہ دوسروں کی خوشی میں خوش رہو۔

ہماری کلاس کے کئی لڑکے ان مقابلوں میں حصہ لے رہے تھے ہم جب نو تاریخ کو کالج پہنچے تو نام لکھے جا رہے تھے۔ ہم نے اپنا نام کسی بھی کھیل میں درج نہیں کروایا کیونکہ ہمیں سابقہ تجربات یاد آرہے تھے اور ہمیں معلوم تھا کہ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں ہے اور نہ ہم نے دوڑنے کی مشق کی تھی البتہ پچھلے ماہ دوڑنے کے سلسلے میںایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا تھا جس کے بعد سے ہم نے دوڑ لگانے سے مزید توبہ کر لی تھی۔ ہوا یوں تھا ہ ہمارے رشتے دار سید انوار احمد نے جو کہ اپنے آپ کو ایتھلیٹ کہتے تھے اور کئی ٹرافیاں اور کپ حاصل کر چکے تھے(شاید کسی کباڑیے سے خرید کر جمع کیے تھے) جنہیں دکھا کر وہ ہم پر رعب ڈالتے تھے‘ انہوں نے کہا کہ بھائی عارف تم بھی ورزش کیا کرو اور دوڑ لگایا کرو اس طرح تمہاری صحت بھی صحیح رہے گی اور اگر تم کسی مقابلے میں حصہ لو گے تو ہماری طرح انعام بھی حاصل کر لو گے۔ ہم نے سوچا انوار احمد کو شیخی مارنے کی عادت ہے اس لیے اپنی بڑائی بیان کررہا ہے۔ ہم نے ان کی بات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اڑادیا۔ مگر دوسرے دن فرصت کے وقت سوچا تو انوار احمد کی بات مناسب لگی اور ہم نے ورزش کی ایک کتاب خرید لی اور اس میں درج طریقے سے ورزش شروع کر دی۔ ایک جگہ درج تھا کہ صبح کی دوڑ بہت ہی زیادہ مفید ہے ہمیں فوراً انوار کی ٹرافیاں یاد آگئیں کہ دوڑ دو طرح سے مفید ہے ایک تو صحت کے لیے اور دوسری ٹرافیاں حاصل کرنے کے لیے ۔رات کو ورزش کی پوری کتاب پڑھ ڈالی‘ آخری صفحے کی چارلائنیں باقی تھیں کہ کے ای ایس سی والوں نے بجلی بند کر دی کہ کہیں ہم زیادہ پڑھ کر اپنی بینائی خراب نہ کرلیں۔ اب ہم صبح کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگے کہ صبح ہو اور دوڑ شروع کریں۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی تو ہم نے اپنا ٹریک سوٹ نکالا جو کئی سال پیشتر ہماری کزن تسلیم نے ہمیں سالگرہ کے موقع پر دیا تھا کہ ہم کھلاڑی بن کر ان کا اور اپنا نام روشن کریں گے۔ مگر اس کی حالت اتنی خراب تھی کہ چوہوں نے کاٹ کاٹ کر اس کو چھلنی کر دیا تھا ہم نے شلوار کرتے ہی میں ورزش شروع کی اور گھر سے دوڑ لگانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

ہم نے دوڑ لگاکر ابھی بمشکل ایک فرلانگ کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ٹانگو ں نے جواب دے دیا اور ہم ہانپتے کانپتے پسینے میں شرابور اپنی خالہ کے گھر پہنچے کیونکہ ان ہی کا گھر اس وقت بہت قریب تھا۔ ہماری یہ حالت دیکھ کر خالہ جان پریشان ہوگئیں ہماری کزن تسلیم فوراً پانی لے کر آگئیں۔

’’کیا بات ہے کیا کوئی کتا تمہارے پیچھے پڑ گیا ہے‘‘ تسلیم نے کہا۔’’ہم نے کہا ’’نہیں‘‘ اور اپنی ڈھائی کلو کی گردن ہلادی اور صبح کی دوڑ کا بتایا تو ان کی جان میں جان آئی اور ہمارے خالہ زاد عبدالولی ہمیں سہارا دے کر گھر تک چھوڑ گئے۔

گھر آکر ورزش کی کتاب اٹھائی اس میں لکھا تھا کہ دوڑنے کے بعد مقوی غذا استعمال کی جائے خاص کر بادام۔ بادام کا نام پڑھ کر منہ میں پانی بھر آیا جبکہ گھر کے نلکوں میں ایک ہفتے سے پانی نہیں آیا تھا۔ جیبوں میں ہاتھ ڈالا ‘ صرف 75پیسے کے سوا کچھ نہ نکلا۔ وہ بھی اس لیے نکل آئے کہ ہم ایک کہانی کے آئیڈیے پرغور کرتے ہوئے بازار میں ایک فقیر کے برابر میں کھڑے ہو گئے تھے اس پر کسی بھلے مانس نے یہ عنایت کی کہ پورے 75پیسے ہمارے ہاتھ پر رکھ دیے۔ جب ہم نے سر اٹھایا تو وہ صاحب جا چکے تھے۔ بڑی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ 75پیسے کی خوبانیاں خریدی جائیں۔ خوبانیاں علیحدہ کھانے کو ملیں گی اور اس کے بادام صبح ورزش میں کام آئیں گے۔ اس طرح ایک پنتھ دو کاج والی بات ہوگی۔ ورزش کی کتاب میں بادام لکھا ہے‘ چاہے وہ خوبانی کے ہی کیوں نہ ہوں۔

صبح کو منہ اندھیرے اٹھے اور خوبانی کے بادام پانی سے نکال کر جگالی شروع کی۔ ابھی کچھ دور ہی دوڑے ہوں گے کہ ہمیں ایک ٹھوکر لگی اور زمین ایک دم پتھریلی ہوگئی۔ ہم سمجھ گئے کہ یہ وہ پرانی سڑک ہے جس پر دو ماہ سے سڑک بننے کے لیے پتھر پڑے ہیں۔

ہمارے گھر اور میدان کے درمیان ایک فرلانگ کا فاصلہ ہوگا ہم نے ہمت کر کے پتھریلی زمین کو طے کیا اور میدان میں داخل ہوئے۔ ویسے میدان کہنا اس کی توہین ہوگا کیونکہ آدھا میدان تو ناجائز قابضین نے گھیر رکھا تھا۔

میدان میں دوڑنے کے دوران ہماری نظر ایک عدد کتے پر پڑی جو ہماری حرکات و سکنات کا بڑے غور سے جائزہ لے رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس کو بھی شاید ورزش کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس نے ہمارے پیچھے دوڑ لگانا شروع کر دی۔ ہم ٹھہرے پطرس بخاری کے مضمون’’کتے‘‘ کے قاری۔ ہمیں پطرس صاحب کے مضمون کی ایک ایک بات یاد تھی جو انہوں نے اپنے مضمون میں تحریر کی تھی۔ ہم نئی آفت سے گھبرا کر میدان سے گھر کی جانب دوڑ پڑے‘ ہم آگے آگے اور کتا پیچھے پیچھے۔ ہمیں بے ساختہ اس عالم میں بھی کراچی کی منی بسوں کی دوڑ یاد آگئی جو چلتی ہیں تو ایسے جیسے ان کے پیچھے کتے لگے ہیں اور نہ چلیں تو ایسی کھڑی ہوتی ہیں جیسے ہڈ حرام کتا۔

دور سے گھر کا دروازہ بند نظر آیا۔ ہم سمجھ گئے کہ اگر رکے تو کتا ہمیں ضرور کاٹ لے گا اور بے چارے کتے کو چودہ ٹیکے لگوانا پڑیں گے اوہ غلطی ہوگئی میر امطلب ہے ہم کو اس لیے برابر کی گلی میں داخل ہو گئے مگر اس کم بخت کتے نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا اور ہمیں ورزش کراتا رہا۔ ہماری حالت یہ تھی کہ پسینے سے شرابور تھے اور ٹانگیں درد سے دہری ہورہی تھیں مگر کتے کا خوف ہمیں دوڑنے پر مجبور کررہا تھا۔ ایک بار پھر ہم میدان میں داخل ہو گئے۔ میدان کا پورا چکر لگا کر گھر کا رخ کیا‘ بڑی مشکل سے گھر پہنچے‘ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ابا جان فجر کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد جا رہے تھے۔
’’عارف کیا بات ہے؟‘‘ہمیں اس حالت میں دیکھا تو ابا جان نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’وہ … ابا جان… وہ…‘‘ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کتے کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ کتا اس طرح غائب ہو گیا جیسے بجلی۔

’’بھئی وہ کیا؟‘‘ اب اجان نے پوچھا۔
’’وہ ہم ورزش کررہے ہیں‘‘ ہم نے بات بنائی۔
’’مگر ایسی حالت اور ورزش‘‘ ابا جان نے کہا اور ہمیں گھورتے ہوئے مسجد کی جانب چلے گئے۔
ہم اپنے کمرے میں داخل ہو کر پلنگ پر گر پڑے دو گھنٹے کے بعد جب حواس درست ہوئے تو ہم نے ورزش کرنے اور دوڑنے سے توبہ کر لی۔

دس تاریخ کو جب ہم کالج پہنچے تو دیکھا کہ پندرہ سو میٹر کی دوڑ کا مقابلہ شروع ہو چکا تھا ہمارے کلاس فیلو طاہر اور جاوید بھی دوڑ رہے تھے۔ ہم نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے ان کو مفید مشوروں سے نوازا۔ ہماری عادت ہاکی اور کرکٹ کے ماہر کی مانند تھی کہ کچھ معلوم نہ ہو مگر ماہرانہ رائے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں جب طاہر دوسرے چکر میں ہمارے پاس سے گزرا تو ہم نے کہا۔ آہستہ دوڑو آخری دو چکروں میں تیز دوڑنا تاکہ تم پہلے نمبر پر آسکو۔ آخر یہ دس رائونڈ کی دوڑ ختم ہوئی اور طاہر نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ ہم نے اسے شاباش دی کہ اگر تم مزید ہماری ہدایات پر عمل کرتے رہے تو پہلے نمبر پر آجاتے۔ دوسری دوڑ کا مقابلہ شروع ہونے والا تھا جس میں چھ سو میٹر کا فاصلہ تھا۔ ہمارے متعدد ہم جماعتو ںسہیل‘ ندیم‘ کوثر اور طاہر نے کہا کہ تم بھی مقابلے میں حصہ لو تو جانیں۔ ہم نے جوش میں آکر فوراً نام لکھوا دیا۔ ہمارے ساتھ ایک ہم جماعت فراصت حسین بھی ریس میں شامل ہو گئے۔ ہم نے اپنی عینک اتاری اور اسد مہدی کے ہاتھ میں تھما دی‘ تاکہ دوڑ میں عینک حائل نہ ہو۔ ریس شروع ہوئی تو ہم نے دوڑ لگائی اور فراصت کے ساتھ دوڑتے رہے۔ پہلا مرحلہ ہم نے طے کیا تو کسی منچلے نے آواز لگائی۔
’’بھائی دیکھ بھال کر دوڑنا‘‘ پھر تصحیح کر کے بولا۔

’’عینک اتار کر تم دیکھ تو سکتے نہیں ہو‘ اس لیے میدان میں ہی دوڑنا کہیں میدان سے باہر نہ نکل جانا۔‘‘
اس جملے پر ہمیں غصہ تو بہت آیا اور دل چاہا کہ ابھی اس کو پکڑ کر دو چار ہاتھ جھاڑ دیں مگر ریس میں حصہ لینے کی وجہ سے خون کے گھونٹ پی کر دوڑتے رہے‘ جبکہ دو لڑکے ہم سے کافی آگے نکل گئے تھے ہم نے جو ہدایات طاہر کو دی تھیں ان پر ہی عمل کیا اور آہستہ آہستہ دوڑتے رہے۔ ہم چوتھے نمبر پر دوڑ رہے تھے جبکہ دو لڑکے ہمارے پیچھے تھے۔ تیسرے رائونڈ پر ہماری سانس پھولنا شروع ہوئی چوتھاس رائونڈ مکمل ہونے پر ہم پسینے سے شرابور تھے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ابھی ابھی منی سب سے اترے ہیں ہمارا سینہ لوہار کی دھونکنی کی طرح پھول اور پچک رہا تھا۔
بڑی مشکل سے پانچواں رائونڈ مکمل کیا تو کسی نے آواز لگائی۔
’’یہ دوڑ کا مقابلہ ہے چلنے کا نہیں‘‘ ہم سمجھ گئے کہ یہ جملہ ہم پر کسا گیا ہے۔ایک آخری معرکہ تھا یعنی چھٹا اور آخری رائونڈ۔ ہم نے اپنی رفتار تیز کرنا چاہی مگر ٹانگوں نے جواب دے دیا۔ ہم آدھا رائونڈ مکمل کر سکے تھے لیکن آگے دوڑنے والے دونوں لڑکے پہلی اوردسری پوزیشن پر پہنچ چکے تھے۔ ہمارے ساتھ فراصت تھا جو ہم سے چار پانچ قدر آگے دوڑ رہا تھا کسی نے پھر آواز لگائی کہ دوڑ نہیں سکتے تھے تو آنے کی ضرورت کیا تھی ایک اور آواز سنائی دی۔

’’چار پائی لے آئو ایتھلیٹ صاحب آرام کریں گے ‘‘ہم نے ڈگمگاتے قدموں سے یہ بات سنی تو جوش میں آگئے۔ معلوم نہیں ہم میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ ہم نے فراصت کو پیچھے چھوڑا اور اختتامی لائن پر پہنچ گئے پھر ہمیں ہوش نہیں رہا۔ زمین پر بیٹھ کر اپنی ناہموار سانسوں کو درست کرنے لگے۔ تماشائیوں میں سے کسی نے کہا ’’بھائی ایتھلیٹ گھاس پر بیٹھ جائو‘‘ جب ہم زمین سے نہ اٹھے تو کسی اور نے کہا’’بھائی ان کو تو اس وقت ہر طرف گھاس ہی گھاس نظر آرہی ہے‘‘ ایک گھنٹے کے بعد اٹھے تو ہمارے دوست طاہر نے آکر کہا‘مبارک ہو تم نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ ہم نے مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور گھر کے لیے واپس ہوئے۔ گھر پر ہماری وہی کزن تسلیم آئی ہوئی تھیں جنہوں نے ہمیں ٹریک سوٹ تحفے میں دیا تھا‘انہوں نے ہماری شکل دیکھی تو بولیں’’کیا یرقان ہوگیا ہے جو آنکھیں اور صورت پیلی ہورہی ہے تمہاری؟‘‘۔ ہمیں غصے میں دیکھ کر تسلیم نے خیریت اسی میں جانی کہ ہم سے کسی اور وقت خوشگوار موڈ میں دیکھ کر بات کریں اس لیے وہ

ہماری بہن یاسمین کے کمرے میں چلی گئیں۔
دو دن تک ہماری ٹانگوں میں شدید درد ہوتا رہا اور ہم نے توبہ کی کہ آئندہ دوڑ کے مقابلے میں حصہ نہیں لیں گے کیونکہ کسی کے کہنے پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرنا سب سے بڑی حماقت ہے۔

محبوب الٰہی مخمور
About the Author: محبوب الٰہی مخمور Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.