قبر میں بھی محفوظ نہیں... پاکستان میں خواتین سے متعلق ایسے 4 واقعات جنہوں نے پاکستانی مردوں پر سوالات اٹھائے

image
 
مرد اور عورت کا تعلق آدم و حوا کے وقت سے چلا آتا رہا ہے۔ ان کے حقوق و فرائض کو واضح طور پر بیان کیا جا چکا تھا مگر جس طرح وقت بدلتا گیا اس تعلق میں بھی لوگوں نے اپنی عقل کے مطابق تبدیلیاں لانا شروع کیں جس کے سبب اس تعلق میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ اس بگاڑ نے کہیں عورتوں کو میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا تو کہیں مرد اپنے طاقت ور ہونے کے زعم میں کچھ ایسے عمل کر گزرے جس نے باقی تمام مردوں کی مردانگی کا سر شرم سے جھکا دیا- حال ہی میں تواتر سے ایسے کئی واقعات کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے دنیا بھر میں پاکستانی مردوں کے امیج کو خراب کر ڈالا-
 
موٹر وے زیادتی کیس
9 ستمبر 2020 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین باب ہے جب کہ موٹر وے پر ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ سفر کر رہی تھی۔ رات کے وقت سفر کے دوران جب اس کی گاڑی فیول ختم ہونے پر موٹر وے پر رک گئی تو اس نے فیول کے لیے موٹر وے پولیس سے رابطہ کیا مگر اس دوران پولیس سےقبل وہاں پر عابد ملہی اور شفقت ڈکیتی کی نیت سے پہنچ گئے- انہوں نے اس تنہا عورت کو نہ صرف لوٹا اس سے پیسے اور زیورات لوٹے بلکہ صرف اسی پر بس نہ کی بلکہ انہوں نے اس عورت کی عزت بھی لوٹ لی۔ ایک تنہا عورت کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے کیا جانے والا یہ واقعہ پاکستانی مردوں کے لیے ایک سوالیہ نشان تھا۔ ہمارے معاشرے میں کسی تنہا عورت کی مدد کرنا مردوں کا شیوہ رہا ہے جو کہ اپنے کام چھوڑ کر عورت کی گاڑی کے ٹائر تبدیل کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اس کو بہن کہہ کر پکارتے تھے ۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے اور اس کی عزت کا تحفظ کرتے ایسے مردوں کے ناموں کو ان دو مردوں سے بٹہ لگا دیا- دنیا بھر میں اس واقعہ کا چرچا ہوا اور دنیا کے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ پاکستان میں تنہا عورت محفوظ نہیں ہے اور یہاں کے مرد ابن الوقت ہو چکے ہیں ۔ ان دونوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور ٹرائل کےبعد مارچ 2021 میں ان دونوں کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی ہے مگر اب تک اس سزا پر عمل درآمد ہونا باقی ہے-
image
 
نور مقدم کا قتل
20 جولائی 2021 پاکستان کا دارالخلافہ اسلام آباد کی تاریخ کا اس حوالے سے ایک سیاہ ترین دن کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اس دن پوش ترین علاقے میں کسی غریب کی بیٹی نہیں بلکہ پاکستان کے سابق سفارتکار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم ایک معروف بزنس مین ذاکر جعفر کے بیٹے ظاہر جعفر کے ہاتھوں اس بری طرح قتل کی گئیں کہ ان کا جسم تشدد کے سبب چور چور اور سر گردن سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا گیا تھا - پولیس کی ابتدائی تفتیش میں ظاہر جعفر نے خود قبول کیا کہ نور مقدم مجھے دھوکہ دے رہی تھی اس وجہ سے میں نے اس کو قتل کر دیا۔ غیرت کے نام قتل کی تاریخ پاکستان میں ںئی نہیں ہے جس میں کبھی ونی کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو کبھی عورت کو کالی کہہ کر قتل کر دیا جاتا ہے-
اس قتل نے دنیا بھر میں پاکستانی مردوں کا تصور ایک ایسے حیوان کی صورت میں پیش کیا جس کے مطابق مرد اپنی غیرت کے لیے عورت کو قتل کر دیتا ہے۔ ظاہر جعفر کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور امریکی شہری ہونے کے باوجود اس کے خلاف تحقیقات جاری ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ نور مقدم کو انصاف مل جائے گا-
image
 
ٹھٹھہ میں قبر سے نکال کر زیادتی کرنا
13 اگست 2021 میں ٹھٹھہ کے نواحی علاقے غلام اللہ کے رہائشی اشرف چانڈیو کی 14 سالہ بیٹی بیماری کے باعث ہلاک ہو گئی جس کو انہوں نے دفن کر دیا- اگلے دن جب اس کی قبر پر گئے تو اس کی قبر کھلی ہوئی تھی اور اس میں لاش موجود نہ تھی -جب اس حوالے سے گھر والوں نے تلاش بسیار کی تو ان کو لاش قریبی گنے کے کھیتوں سے بھی مل گئی جس کے اوپر سے کفن ہٹا ہوا تھا اور اس لاش کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ جب پولیس نے اس بارے میں مزید تحقیق کی تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ یہ بدترین واقعہ علاقے کے ایک شخص رفیق چانڈیو نے کیا ہے جس کو دو دن بعد پولیس نے ایک مقابلے میں ہلاک کر دیا- اس واقعہ نے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ پاکستان میں کہیں زینب جیسی معصوم بچی مردوں کی حیوانیات کا شکار ہوتی ہے تو کہیں عورت کو مردوں کی جنسی خواہشات قبر میں بھی چین نہیں لینے دیتی ہے-
image
 
سانحہ مینار پاکستان
اس وقت پورا ملک سانحہ مینار پاکستان کے حوالے سے گونج رہا ہے جس کے مطابق عائشہ نامی ایک ٹک ٹاکر اپنی ٹیم کے ساتھ مینار پاکستان پر یوم آزادی کے حوالے سے ایک ویڈیو شوٹ کر رہی تھی ۔ اس دوران عائشہ کے مطابق کچھ افراد نے اس کے ساتھ سیلفی بنانے کی کوشش کی اس کے انکار پر وہ افراد مشتعل ہو گۓ اور انہوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی شروع کر دی۔ جس کو دیکھ کر ان کے ساتھ دوسرے مرد بھی شامل ہو گئے۔ اور تقریبا چار سو افراد نے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ یہ افراد اس حد تک جا پہنچے کہ انہوں نے عائشہ کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ اس کو ہاتھوں میں لے لے کر اچھالنا شروع کر دیا۔ اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ عائشہ کو لگا کہ وہ ہلاک ہو جائے گی۔ اس دوران اس نے کئی بار مدد کے لیے 15 پر کال بھی کی مگر اس کی مدد کو کوئی نہیں آیا- عائشہ کے مطابق ان تمام مردوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو کہ اس کو بچانے کی کوشش کرتا تمام مرد اس وقت صرف اور صرف تماش بین تھے- عائشہ کی درخواست پر لاہور پولیس نے 400 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور اس حوالے سے ابھی تحقیقات جاری ہیں- اس حوالے سے بعض افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس عورت کو کیا ضرورت تھی کہ وہ مینار پاکستان ٹک ٹاک بنانے گئی مگر تمام انسانی حقوق کی تنظیموں اور سرکردہ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ کچھ بھی کر رہی تھی مگر اس حوالے سے کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ اس کے ساتھ اتنا بہیمانہ سلوک کیا جائے ۔
image
 
یہ تمام واقعات جن کو صرف گزشتہ دو سالوں میں وقوع پزير ہوئے پاکستانی مردوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں۔ اسلامی معاشرے میں مرد کا اس طرح کا رویہ پورے ملک کی عورتوں بچیوں کو خواتین کے اندر عدم تحفظ کی فضا قائم کر رہے ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: